علامہ اقبال کی اردو خدمات
عظمت علی
یوں تو اس دار فانی میں انگنت اور بے شمار شعراء کرام نے جنم لیا ہے ۔مگر چند ایک ایسی شخصیات تھی اور ہیں جنہوں نے قافلہ زندگانی سے بچھڑ جانے کے بعد بھی آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں ۔جن میں سب سے زیادہ شہرہ آفاق شخصیت کے مالک شاعر مشرق علامہ اقبال ہیں ۔
ان کی ولادت ۹؍ نومبر ۱۸۷۷ء میں سیالکوٹ میں ہوئی جو اس وقت ہندوستان کا حصہ تھا۔لیکن تقسیم ہند کے بعد وہ اب ہمارا نہیں رہا ۔اسی مبارک تاریخ کو آپ کی یاد میں ’’عالمی یوم اردو ‘‘بھی منا یا جاتاہے ۔کیوںکہ غالب کے بعد اردو ادب کو اگر کسی نےعروج پر پہونچایا تو وہ ذات والا ان ہی کی ہے ۔جس طرح جناب آدم کی نسل طوفان نوح میں ہلاک ہوگئی تھی اور جو جناب نوح کی کشتی میں سوار تھے وہ تا حیات رہے اسی طرح غالب اور علامہ اقبال کا دور تھا کہ غالب کے بعد شاعری میں زوال آنے لگا تھا۔کوئی مایہ ناز شاعر تھا ہی نہیں ۔سوائے علامہ اقبال کے ۔
ان کو شاعر مشرق کہے جانے کی شاید یہی وجہ رہی ہو کہ آپ کے افکار میں مغربی جھلک نہ تھی ۔اگرچہ مغربی مفکروں سے متاثر تھے ۔لیکن ان کے افکار ان پر غالب نہ آسکے ۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے مادر گیتی میں واقع مدرسہ مولانا غلام حسین میں حاصل کی ۔اور ۱۸۹۳ میں میٹرک پاس کیا ۔اس کےبعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے گورنمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ لیا۔بعد از ایں مزید اعلیٰ تعلیم کے واسطہ بیرون ملک کا انتخاب کیا ۔جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے بیرسٹری میں بھی حاصل کی ۔ان کی کامیابی کا سب سے اہم رازیہ رہاتھا کہ ان کو تعلیم کے ہر موڑ پر بہترین اور لائق اساتید میسر تھے ۔جنہوں نے ان کے ذہن کو پڑھ لیا اور انہوں نے ان سے خوب لگن سے حصول علم کیا ۔ان کو اپنے اساتذہ میں نواب مرزا خان داغ دہلوی سے خاص لگاو تھا ۔وہ اپنی غزل کی اصلاح ان کو ہی بھیجا کرتے ۔ابتدائے کلام میں ان کی غزلیات میں وہ نمایاں خوبیاں تو نہ تھیں لیکن جلد ہی انہوں نے وہ مقبولیت حاصل کر لی اوران کے استا د کو کہنا پڑا کہ اب کلام میں اصلاح کی کوئی خاص ضرورت نہیں نظر آتی ۔
ان کی تخلیقات میں غزل کے ماسوا مشہور و مقبول نظمیں بھی ہیں ۔جن میں ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘بہت ہی شہرت یافتہ ہے ۔برصغیر میں جا بجا درس گاہوں میں یہ نظم پڑھی جاتی ہے اور بڑے ہی خوبصورت لب و لہجہ میں اسے پڑھا جا تاہے ۔
اس کے ساتھ ہی ایک قومی ترانہ بھی تخلیق کیا جسے ہندوستان کا بچہ بچہ رہتی دنیا تک یا د رکھے گا۔جب تک ہمارا عزیز ملک اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ روئے ارض پر باقی ہے ان کا ترانہ پڑھا جا تا رہے گا اور ان کی روح کو قرار ملتا رہے گا۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا