علمی قید سے آزادیٔ بیان تک :- عظمت علی

Share
عظمت علی

علمی قید سے آزادیٔ بیان تک

عظمت علی

شریعت محمد ی کے قوانین فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں جو آدمی کو انسانی کردار میں ڈھالنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔تعلیم و تعلم (سیکھنے اور سکھانے )کی آزادی اپنے خیالات کا اظہار ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔اگر یہ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہونے لگے تو دنیا جنت نظیر ہوجائے گی۔

ظہور اسلام سے قبل آزادیٔ بیان کا ماحول کہیں نہیں تھا۔ پلوٹاک کے مطابق اسپارٹا (Spartan)کے لوگ صرف علمی ضرورتوں کے لئے لکھنا اور پڑھنا سیکھتے تھے۔ان کےیہاں دوسرے تمام کتابوں پر پابندی لگی ہوئی تھی۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ قدیم یونان میں جو کچھ علمی ترقی تھی وہ آرٹ اور فلسفہ (Art & Philosophy) میں تھی۔سائنس کے میدان میں ان کی ترقی اتنی کم تھی کہ کسی شمار نہیں آتی تھی ۔اس قاعدہ کلی سے ارشمیدس (Archimedes)جیسے افراد مستثنیٰ ہیں۔جس کو 212 ( ق۔م )میں ایک رومی سپاہی نے عین اسی وقت قتل کردیا تھا جب وہ شہرکے باہر ریت پر علم ہندسہ (Geometry)کےسوالات حل کررہاتھا۔

حضرت عیسیٰ سے پہلے یونان میں جس فلسفہ کا زور و شور تھا اور جس کی صدائے بازگشت آج تک عالم فلسفہ میں سنائی دے رہی ہے ۔اس کےمنادی صرف تین حضرات تھے ۔سقراط (Socrates)، افلاطون (Plato ) اور ارسطو (Aristotle)۔

سقراط کو 399(ق۔م)میں تقریباً 70برس کی عمر میں صرف اس جرم میں زہر کا پیالہ پلادیا گیاتھا کہ وہ بت پرستی سے توحید پرستی اور ایتھینز (Athens)کےنوجوانوں میں آزادانہ غور و فکر کا مزاج بنارہاتھا ۔اس تلخ حقیقت کےجرم میں گیارہ ضمیر فروش علماء اور قاضیوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دیدیا۔ (ذکر وفکر ،علامہ سید ذیشان حیدر جوادی صفحہ 636 ناشر :تنظیم المکاتب ،گولہ گنج، لکھنؤ)

اسی طرح عالمی شہرت یافتہ سائنسداں گلیلیو (Galileo)کا قتل کا حکم اس بناء پر لگایا گیا تھا کہ اس نے "مرکز زمینی”(Geocentric)کی تردید کی تھی ۔اس نے اظہار ندامت کرتے ہوئےعدالت میں اپنا توبہ نامہ پیش کیا۔جس کے باعث اس کے خوشگوار زندگی دوبارہ جینے کو ملی ۔لیکن بعد کی تحقیق و جستجو نے حقیقت سے جھوٹ کا پردہ ہٹا دیا۔

حقیقت کا یہ ہےکہ سائنسی غوروفکر اور ترقی کے لئے آزادی فکر و بیان کا ماحول انتہائی ضروری ہےاور اسلام سے پہلے یہ ماحول نہیں تھا ۔شاید اسی وجہ سے ایتھینز کےبہت سے ماہر فن اور فلسفی جلاوطن کردئے گئے یا پھانسی پرلٹکا دیئے گئے یا وہ خود خوف و ہراس سے فرار کر گئے۔جس میں اسکائی لیس (Aeschylus)، فدیاس اور سقراط وغیرہ شامل ہیں ۔

اللہ کی طر ف سے نازل کردہ کتاب قرآن کریم میں دسیوں مقامات پر "افلاتتفکرون "تم فکر کیوں نہیں کرتے ؟(سورہ انعام 50)،”افلایتدبرون "تم تدبر کیوں نہیں کرتے ؟(سورہ نساء 82)اور "افلاتعقلون "تم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے ؟(سورہ بقرہ 76,44اور سورہ آل عمران 65)۔مذکورہ بالاجیسے الفاظ کا استعمال کرکے پروردگار عالم نے ہمارے فکر کے دریچوں کو وا کرنے کا بہترین موقع فراہم کیاہے اور جگہ جگہ فکر کرنے کی دعوت دے کر منجمد افکار کو جھنجھوڑا ہے ۔

یہ اسلام کی برکت ہے کہ جس کے سبب لوگ آج کی دنیامیں چاند کی زمین کو پیروں تلے روند رہے ہیں، سور ج کی شعاعوں کو قید کررہے ہیں اور تاروں پہ کمندے ٖڈالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اگر اسلام نے آزادی فکر و بیان کو اس قدر آزادانہ طور پر پیش کرنے کی اجازت نہ دی ہوتی تو دورحاضر کی ترقیاں گونگے کا خواب بن کے رہ جاتیں!

Share
Share
Share