NLP : بدلو سوچ – – – بدلو زندگی :- فاروق طاہر

Share


NLP : Neuro Linguistic Programming
بدلو سوچ – – – بدلو زندگی

فاروق طاہر
حیدرآباد،دکن۔

09700122826

انسان روئے زمین کی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنے مستقبل کے انتخاب کا موقع عنایت فرمایا ہے۔جدید نفسیات کی رو سے آج انسا ن کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ اس کا مستقبل قسمت یا پھر تقدیر کے تابع نہیں بلکہ اس کی اپنی سوچ ،فکر اور اعمال پر منحصر ہوتا ہے۔

خوش نصیبی کو ایک اتفاقی،حادثاتی اور وقتی شئے سے ہر گزتعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ خو ش قسمتی کادار و مدار انسان کی اپنی پسند،انتخاب اورانداز فکر پر ہوتا ہے۔مستقبل کا تصور یا خاکہ صرف فلم کے ایک ٹریلر کی مانند ہوتا ہے جس میں ان عناصر کو ہی ہم نمایا ں کر تے ہیں جنھیں نمایا ں کرکے دکھاناچاہتے ہیں۔فلم کی نوعیت کا راست تعلق ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ فلم کو مزاحیہ رنگ دینا یا پھر حزن و ملال کی کیفیت سے آراستہ کرنا ہمارے انتخاب پر منحصر ہوتا ہے ۔بالکل اسی طرح ہماری زندگی کی خوشیوں کا،سکون و اطمینان کا ،مصائب اور شدائد کا دارو مدار ہمار ے انتخاب اور انداز فکر پر منحصر ہوتا ہے۔جس طرح ایک کمپیوٹر سافٹ ویر کی تیاری میں ہم جن امور کوپروگرامنگ کے طور پر شامل کرتے ہیں اسی کے عین مطابق ہم اپنے اہداف و مقاصد کوحاصل کر نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم اپنے زندگی کو اپنی طرز فکر کی بنا پر خوشیوں سے آراستہ یا پھر غموں سے پامال کر تے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایک معروف اصطلاح ہے جوکہ حقیقت پر مبنی ہے’’ gigo(گیگو)‘‘۔ اس مخفف کی توسیعی شکل garbage in garbage out (کوڑا ڈالو ،کوڑا نکالو) ہوتی ہے۔کمپیوٹر کی اس معروف اصطلاح کا اگر بامحاورہ اردو ترجمہ کیا جائے تو ہوگا’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ یا پھر ’’جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔‘‘انسان مستقبل میں وہی پاتا ہے جس کے حصول کی وہ اپنے حال میں سعی و کاوش کرتاہے۔اسلام میں جزا اور سزا کا دارو مدار بھی انسانی اعمال پر منحصر ہے۔’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘یہ حدیث انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں وہی پائے گا جس کی وہ فی زمانہ کوشش کررہا ہے۔این ایل پی(NLP)نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ( عصبی لسانیاتی منصوبہ بندی)پر عمل کرنے والے افراد اپنی زندگی مسرت اور اطمینان سے بسر کرتے ہیں۔NLP زندگی کو خوشیوں سے مالامال کرنے کے ساتھ ساتھ سکون ا ور اطمینان فراہم کرتی ہیں۔ انسانی زندگی کو خوشیوں اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کرنے کے لئے اس علم کو سیکھنے اور اس کی ترویج و اشاعت بہت ضروری ہے تاکہ بنوع انسان اس سے بہرورہوسکے۔NLPجدید نفسیات کی ایک بہترین دین ہے۔یہ تین اجزاء اعصاب(Neuro)،لسانیات(liguistic)اور پروگرامنگ(programming)پر مشتمل ہوتی ہے۔باالفاظدیگر اس کو عصبی لسانیاتی اظہاربھی کہہ سکتے ہیں۔

اعصاب(Neuro):
ہماراعصبی نظام ہر لمحہ مختلف افعال، سرگرمیاں اور تغیرات کا منبع و محور ہوتا ہے۔ ذہن میں انجام پانے والے ان افعال سرگرمیوں اور تغیرات کا ہمیں مطلق کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ جسم کو اگر ایک کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے تب دماغ کو ایک ہارڈ ویر اور اس پر مرتسم شدہ(انسٹالڈ) افکار ،رویوں،عقائد و خیالات اورانداز فکر کو سوفٹ ویر کہاجاسکتا ہے۔ کمپیوٹر کے کل پرزوں کو ہارڈ ویر کہا جاتا ہے اور کمپیوٹر کے کل پرزے جس زبان میں گفتگو یاترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں اس کو سوفٹ ویر کہاجاتا ہے ۔ جس طر ح سے کمپیوٹرسوفٹ ویر کوہم اپنی سادہ آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم ،اپنے دماغ پر کندہ افکار،خیالات،عقائد وغیرہ کو بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔یہ تما م افعال دماغ میں ایک پروگرام کی طرح نقش ہوتے ہیں۔دماغ کی پروگرامنگ میں ہمارے پانچوں حواس خمسہ (نظر،لمس،سماعت،ذائقہ،اور شامہ )کلید(key)کا کام کرتے ہیں۔انٹرنیٹ پر جتنی ویب سائٹس پائی جاتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ویب سائٹس ہمارے دماغ میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔عام طور پر ہم اکثر غم ،حزن و ملال ،مایوسی اور یا سیت کی ویب سائٹس کو بروز کرتے ہوئے اپنی غم ،مایوسی اور اضطراب میں اضافہ کرتے ہیں۔

زبان (liguistic):۔
حواس خمسہ کی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے۔ حواس خمسہ اپنے پانچوں عضو سے باہم مربوط ہوکر ایک زبان تشکیل دیتے ہیں اور ا سی زبان کے سہارے وہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ اگرآپ اپنی آنکھیں موند لیں اور ایک چمچ شکر آپ کے منہ میں ڈالی جائی تب ایک لمحہ سوچے بنا آپ آنکھیں بند رکھ کر ہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے منہ میں شکر ڈالی گئی ہے۔شکر کے میٹھے ذائقے کی پہچان آپ کے دماغ کو کس نے سکھائی؟آپ بالکل بجا فرماتے ہیں کہ یہ کام آپ نے انجام نہیں دیا۔شکر کے بجائے اگر منہ میں لیمو کا رس ڈال دیا جائے تب لیمو کے رس سے آپ کے منہ سے لعاب کا اخراج ہوگا۔کیا لیمو کے رس پر منہ کو لعاب کا اخراج آپ نے سکھا یا ہے ؟آپ کہیں گے کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔اسی عمل کو لسان ذہنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جذبات اور احساسات کا اظہار اسی زبان کے تحت ہوتاہے۔ماحول،پرورش، اورحالات جن کا ہم سامنا کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ہمیں تجزیہ اور تعبیر کا علم عطا کرتے ہیں۔بچپن میں اگر ایک بچے کی مسلسل حوصلہ افزائی و ہمت افزائی کی جائے تب اس میں خود اعتمادی پروان چڑھے گی اس کے برخلاف اگر بچپن سے ہی بچے کی حوصلہ شکنی کی جائے تب اس میں عدم اعتمادی اور بے حوصلگی پروان چڑھے گی۔عدم حوصلہ گی اور بے اعتمادی کی وجہ سے ذہن میں، میں بیکار ہوں،میر ی قسمت خراب ہے،میں پڑھ نہیں سکتا ،میں یہ نہیں کرسکتا میں وہ نہیں کرسکتااور میں امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جیسے احساسات سر اٹھا تے ہیں۔اس طرح شعوری اور لاشعوری طور پرہمارے دماغ پر کئی نقش کندہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں ان باتوں کا خا ص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پروگرامنگ(programming):۔
ہمارے حواس خمسہ اپنے تاثرات پیش کرنے یا احتجاج درج کروانے کے لئے ایک مخصوص زبان کا استعمال کرتے ہیں اور یہ زبان ذہن میں پروگرام کی ہوئی ہوتی ہے۔یہ نہ تو ہم کو نظر آتی ہے اور نہ ہم اس کو جانتے ہیں۔پروگرامنگ دماغ پر مرتسم تاثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔پانچوں حسی عضو کے کام کرنے کی وجہ سے جو تاثرات اور نقش ذہن پر کندہ ہوجاتے ہیں اسی کو پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر سگریٹ نوشی میں مبتلا ایک شخص کہتا ہے کہ سگریٹ پینے سے اس کو گوناگوں سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔اسی کو ذہنی پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔اس کے برعکس ایک شخص سگریٹ پینے کی کوشش میں کھانسنے لگتا ہے اور ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیتا ہے۔ یہ بھی ایک پروگرام ہے۔ اپنی زندگی میں ہم آئے دن ایسے واقعات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی افلاس ،افسردگی غم اور حزن و ملال کی ایک اور اہم وجہ توہم پرستی بھی ہے ۔ہمارے معاشرے میں توہم پرستی ایک عام بات ہے۔ ہم توہم پرستی کو نفسیات کی اصطلاح میں اگر وائرس سے تعبیر کر یں تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ مخصوص زائچوں اور نقشوں کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے خوش حالی داخل نہیں ہورہی ہے۔بلی کے راستہ کاٹنے سے کام بگڑ جاتے ہیں،یا پھر مخصوص ایام جیسے اماوس پر کوئی نئے کام کو شروع کرنے سے نقصان ہوتا ہے ۔ ان خیالات یا تواہم کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ توہم پرستی کا شکا ر شخص ان باتوں کا جواز ، معنی ،مفہوم ا ور استدلال پیش کرسکتا ہے پھر بھی ان امور پرایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے کیونکہ یہ شبہات اس کے ذہن میں پروگرام کئے ہوتے ہیں۔ توہم پرستی کا یہ عمل لگاتار جاری رہنے سے ہمارا کمپیوٹر(ذہن)وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔اور یہ صورتحال کمپیوٹر س (ذہنوں) کے لئے تباہ کن اور خطرناک ہوتی ہے۔ خطرات کے پیش نظر بھی ہم اپنے ذہنوں کو اسکان نہیں کر تے ہیں یا پھر ہم ذہن کو اسکان کرنے کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔اگر اسکاننگ کا ہنر جانتے بھی ہوں ہماری لاپروہی اور کاہلی ہم کو اس سے باز رکھتی ہے۔لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ (NLP)کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔NLP کوئی طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی پروگرامنگ کی ایک خاص تکنیک (مہارت)ہے۔
اکثر کامیاب لوگ کہتے نظرآتے ہیں کہ ان کی کامیابی خو د انہی کی رہین منت ہے یعنی وہ سلف میڈ (اپنی محنت سے ترقی کرنے والے) ہیں۔لیکن میری نظر میں جو ناکام ہوتے ہیں وہ سلف میڈ ہوتے ہیں کیونکہ کامیاب افراد کی کامیابی میں کسی نہ کسی کا تعاون اور مدد شامل ہوتی ہے۔ جب کہ ناکام حضرات کی ناکامی میں کسی اور کا کوئی حصہ و کردار نہیں ہوتا ہے۔ناکام افراد کی ناکامی میں خو د ان کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔NLPکا بنیادی مقصدذہن کو مثبت فکر سازی کے لئے تیار کرنے میں رہنمائی و رہبری فراہم کرنا ہے جس کے ذریعہ آدمی اپنی مدد آپ کرتے ہوئے منفی رجحانات اور اذیت ذات کے عمل سے خود کو محفوظ و مامون رکھ سکتا ہے۔اگر آدمی اکثر منفی سوچ میں ملوث ہوتب ذہن اس کو منفی ذہن سازی (پروگرامنگ) پر ابھار تا ہے۔ ماہر نفسیات جگ جگلر (Jig Jiggler) اس ضمن میں رقم طراز ہے کہ ’’خوف ایک ایسا تاریک کمرہ ہے جہاں صرف نیگیٹوز ہی تیار ہوتے ہیں۔‘‘ یہاں نیگیٹوز سے مراد فوٹوگرافی فلم نہیں ہے بلکہ منفی خیالات و افکار ہیں۔اسی لئے انسان کو ہمیشہ مثبت فکر سے جینے کی تلقین کی جاتی ہے۔اسلام گمان کو ایک باطینی بیماری قرار دیتا ہے اور اس سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔’’اے ایمان والو،کثرت گمان سے بچو۔بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘(سورۃ الحجرات:12)شیطان دلوں میں وساوس پیدا کرتے ہوئے انسان کو خوف اور غم میں مبتلا کردیتا ہے۔اسی لئے اسلام انسانوں کو وسوسوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔حسن ظن سے متعلق حدیث مبار ک میں آتا ہے ’’اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے ظن رکھتا ہے۔اب بندے کی مرضی ہے جیسا چاہے مجھ سے ظن رکھے۔‘‘مثبت فکر کے ذریعہ انسان اپنے غموں سے نجات پاسکتا ہے۔اسی لئے آدمی کو ہر پل مثبت سوچنا چاہیئے۔اگر ہرن جیناکا خواہش مند ہوتو لازمی طور پر اس کو تیز تر دوڑنا سیکھنا ہوگا نہیں توکسی شیر وببر کا لقمہ تر بننے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اسی طرح اگر شیر و ببر جینا چاہتے ہیں تو ان کو ہر ن سے تیز دوڑنا ہوگا ورنہ ہرن بھاگ جا ئے گا اور وہ بھوکوں مرجائیں گے۔جو روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور چیالینجس کا سامنا کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ہر دن ہم کو اپنے صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے مزید موقعے پیدا کر نا چاہیئے۔کسی کوبھی کوئی شئے یونہی حاصل نہیں ہوجاتی ہے بلکہ بہادر اور جوانمرد تو وہ ہوتے ہیں جو موقعوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود مواقع پیدا کر تے ہیں۔مواقع کوئی ایسا درواز ہ نہیں ہے جو کوئی دوسرا آپ کے لئے وا کرے گا۔اسے تو خود آپ کو ہی کھولنا ہوتا ہے۔طویل مدت سے ذہنوں میں گھر کیئے ہوئے عقائد، تواہم و منفی سوچ کو بدل کر اور ذہن کی ری پروگرامنگ کے ذریعہ ہم اپنے زندگی کو خوشی و مسرت اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔کئی افراد نے NLPسائنس کے ذریعہ نہ صرف معجزات انجام دیئے ہیں بلکہ ناممکنا ت کو ممکن کر دکھایا ہے۔جو اپنے آپ کو بے مصرف سمجھتے تھے اپنے گمان سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جو مایوسی اور ناکامی کی وجہ سے خو د کشی کے دہانے پر تھے آج خود اعتمادی سے عظیم کامیابیوں کے حصول میں مصروف ہیں۔NLPسائنس کا سب سے حیرت ناک او رتعجب خیز پہلو یہ ہے کہ ہم کو خدشات و فریب میں گرفتار کیئے بغیر خوش و خرم رکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔

NLP:۔
کمپیوٹر انجینئرریچڈبینڈلر اور عمرانیات و لسانیات کے عالم جان گرینڈردونوں نے اپنے نفسیاتی مطالعہ کی روشنی میں اپنا ایک نئے نظریے اعصابی لسانیاتی پروگرامنگ(Neuro linguistic programming)کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے اپنے کرشماتی نظریہ کی تحقیق کے دوران متعدد ماہرین نفسیات سے ملاقاتیں کیں جن میں ڈاکٹر ملٹن ایرکسن(Dr.Milton Ericson)قابل ذکر ہیں۔بینڈلر اور گرینڈر نے بہت عرق ریزی اور محنت کے بعد آسان اور قابل قدرعصبی لسانی پروگرام(مہارت) تکینک سے دنیا کو متعارف کروایا۔جسے نیورلنگوسٹک پروگرام(عصبی لسانی پروگرام)کہاجاتا ہے۔ریچڈ اور گرینڈر کے مطابق خوشی ،مسرت اور غم ہماری اپنی ذات میں ہی پنہاں ہوتے ہیں ہم اپنی فکر صلاحیتوں کو مثبت رنگ دیکر ہمیشہ خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ ہم سکون کی تلاش میں سرگرداں،حیران و پریشان پھرتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔یونانی اساطیر (داستانوں) میں ایک تمثیل کو پیش کیا گیا ہے۔تمام یونانی خداؤں نے ایک اجلاس طلب کیا ۔اجلاس میں انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا۔چند دیوتاؤں نے اعتراض پیش کیا کہ اگر انسان کو ذہنی سکون عطاکر دیا گیا تووہ کبھی کام نہیں کرے گا۔دیوتاؤں نے تجویز پیش کی کہ انسان کو ذہنی سکون ہر گز فراہم نہ کیا جائے جس کی بعض دیوتاؤ ں نے مخالفت کی۔ایک دیوتا نے کہا کہ سکون کو ایک غار میں چھپا کر رکھ دیا جائے اور غار کے منہ کو ایک بڑی چٹان سے بند کر دیا جائے ۔اگر آدمی محنت کر ے گا اور غار سے چٹان ہٹا دے گا تب اس کو ذہنی سکو ن نصیب ہوجائے گا۔دوسرے دیوتا نے کہا کہ ایک طاقتور انسان کے لئے یہ کام بہت ہی آسان ہوگا۔اگر سکون کو کسی برفیلی پہاڑی کی چوٹی پر رکھدیا جائے تو وہ وہاں تک نہیں پہنچ پائے گا۔تیسرا دیوتا نے کہا کہ انسان برف سے کسی نہ کسی طرح بچاؤ کرتے ہوئے چوٹی تک پہنچ کر ذہنی سکون کو حاصل کر لے گا۔بہتر یہی ہوگا کہ اسے سمندر کی تہہ میں چھپا دیا جائے۔چوتھے دیوتا نے کہا کہ آپ تما م کی آرا بیکار ہیں ۔ایسی تجویز دو کہ انسان تھک ہار کر بھی ذہنی سکون کو حاصل نہ کرنے پائے۔تمام دیوتا سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ازسر نو سوچنے لگے۔ایک نوجوان دیوتانے تجویز پیش کی جس کوتمام دیوتاؤں نے شرف قبولیت بخشا۔نوجوان دیوتا کی تجویز تھی کہ ذہنی سکو ن کو یہاں وہا ں چھپانے کے بجائے اس کو خود انسان کی ذات میں چھپا دیا جائے۔انسان ذہنی سکون کو دیوانہ وار تلاش کر ے گا لیکن اس کو پتہ نہیں چلے گا کہ ذہنی سکون تو خود اس کی ذات میں رکھا گیا ہے۔تمام دیوتاؤں اس رائے پر متفق ہوگئے۔تب سے دیوتاؤں نے ذہنی سکون کو انسان کی ذات میں پوشیدہ کر دیا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج بھی معدودے چند افراد کے بیشتر کو یہ بات نہیں معلوم ہے۔آج بھی انسان ذہنی سکون کے لئے متعد د حربے اختیار کر رہاہے کوئی شراب میں سکون ڈھونڈ رہاہے تو کوئی منشیات میں۔کوئی دولت میں توکوئی جو ے میں۔الغرض انسان مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے بعض دنیاوی زندگی کو خیرآباد کہتے ہوئے سنیاس لے رہے ہیں تو چند خود کشی سے بھی احتراز نہیں کر رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو ناکامی ہی حاصل ہورہی ہے۔سکون اطمینان تو انسان کی ذات میں ہی پنہاں ہے اور جو چاہتے ہیں کہ انہیں ذہنی سکون اور اطمینان قلب حاصل ہو یہ ان کو مل ہی جاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی ذات میں غوطہ زن ہوں۔ذہن شعور اور تحت الشعورجیسی دو کیفیات پر مبنی ہوتا ہے۔بیشتر افعال و سرگرمیوں شعور ی طور پر انجام پاتی ہیں لیکن یہ افعال اور سرگرمیوں تحت الشعور کے زیر نگیں اور زیر قابو انجام پاتی ہیں۔انسان کے اچھے یا برے کارنامے،قابل قبول یا قابل اعتراض تبصرے تحت الشعور میں نقش ہوجاتے ہیں۔والدین سے منتقل ہونے والی عادات و اطوار، رسم و رواج،سماجی ومعاشی اور ثقافتی ماحول اور بچپن کے تجربات انسانی ذہن پرنہ صرف گہر ا اثر ڈالتے ہیں بلکہ یہ ذہن میں(تحت الشعور) پیوست ہوجاتے ہیں۔حالانکہ یہ نقش صحیح نہیں ہوتے ہیں پھر بھی ہم غلامی کی حد تک اس فریب کے مطیع رہتے ہیں۔ان تباہ کن پر فریب نظریات کو ہی ہم ابدی سچائی کے طور پر تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ان افراد کو ایسے پر فریب جال سے نجات دلانے میں عصبی لسانی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر بعض افراد کے ذہنوں میں درجہ ذیل باتیں پروگرام ہوتی ہیں۔وہ ان باتوں کو سچ مانتے ہیں لیکن انھیں غور کرنا چاہیئے یہ سچائی نہیں ہے صرف ان کا اندھا عقیدہ ہے۔
(1) اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے میری زبان بند ہوجاتی ہے۔
(2) میں جو بھی پڑھتا ہوں یاد نہیں رہتاہے۔
(3) میں اپنی توہین اور بے عزتی کبھی نہیں بھولتا ہوں۔
(4) باٹنی کی کلاس بہت ہی بور ہے۔
(5) کسی مخصوص طبقہ یا مذہب کے لوگ بہت ہی ظالم ہوتے ہیں۔
(6) الجبرا ء سے میں بہت گھبراتا ہوں۔
(7) میں بہت ہی بدقسمت ہوں اور میرے ستارے خراب ہیں۔
(8) ملازمت پیشہ عورت پر کبھی بھروسہ نہیں کر نا چاہیئے۔
(9) امریکہ جانے والے تما م افراد شراب پیتے ہیں۔
(10) سفر کے آغاز پر کسی کا چھینکنا بدشگونی ہے۔
(11) اگر بلی راستہ کاٹ دے تو جس کام کے لئے جارہے ہیں اس میں کامیابی نہیں ملے گی۔
(12) شراب پینے سے میں خود کو پرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں۔
(13) شراب پینے سے تما م غم فراموش ہوجاتے ہیں یا تمام غم غلط ہوجاتے ہیں۔
(14) مجھے زندگی میں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔
(15) میں زندگی بھر کار نہیں چلا پاؤں گا۔
(16) دنیا میں کوئی بھی میرے سے زیادہ پریشان نہیں ہے۔
(17) مجھے کوئی نہیں سمجھتا سب میرے دشمن ہیں۔
(18) مجھے ضرور کوئی خطرنا ک بیماری ہے یا ہوسکتی ہے۔
اگر اسی طرح لکھتے جاؤں تو یقیناًیہ مضمون ان کا احاطہ نہیں کر پائے گا۔مذکورہ تمام بیانات میں دراصل کوئی سچائی نہیں ہے۔جو یہ بہانے بناتے ہیں ان کو ہی یہ اچھے لگتے ہیں۔اور اسی ڈگر پر ان کا ذہن کام کرتا ہے۔دماغ بھی ان کو اسی طرح کی تجاویز دیتا ہے اور آخرکار یہ تجاویز ذہن میں مختلف شکلوں میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ یہ تمام نقوش باطل اور جھوٹے ہیں۔عصبی لسانی منصوبہ بندی (پروگرامنگ) باطل نظریات سے نجات دلا کر انسان کو عظیم کامیابیوں کی طرف گامزن کرتی ہے۔
ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عام طور پر انسان کامیابی سے زیادہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو یاد کرتا ہے۔انسان اپنی زندگی کے خوش گوار ایام بھول جاتا ہے اور مشکل اور برے حالات جس کو اس نے خود پیدا کیا تھا، یاد رکھتا ہے ۔ نفسیات میں اسی کو اذیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہم خودکو ایک ہیرو کی طرح دیکھے نہ کہ ایک ویلن کے طور پر۔آج کا عام انسان منفی خیالات میں گھرا ہوا ہے جیسے ’’یہ میں نہیں کر سکتا ‘‘۔’’یہ بالکل نا ممکن ہے۔‘‘اور بالاخر یہ منفی خیالات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔دنیا میں ایسے بہت لوگ ہیں جو اپنی عارضی پریشانیوں کو بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور زندگی کے لطف و سرور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ بہت ہی سود مند ہوتی ہے۔یہ آدمی کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرتی ہے۔اس تکنیک کا سب سے اہم گُر یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک کامیابی کو دوسری کامیابی کا زینہ بنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ سے فیضیاب ہونے والوں میں کمپیوٹر دنیا کا بے تاج بادشاہ بل گیٹس، ("awaken the giant within you” and Unlimited Power”) کا عظیم مصنف انتھونی رابنس شامل ہیں جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں کسی خاص تعلیم و تربیت کے بغیر فقید المثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انسانی ذہن عظیم طاقتوں کا سر چشمہ ہے۔یہ کمپیوٹر سے بھی کم وقت میں پیچیدہ سے پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے۔انسانی افکار و خیالات کی پرواز اور رفتار کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ذہن میں منفی افکار کو جگہ دے کر اور مثبت افکار سے دامن کتراتے ہوئے انسان ایک فرسودہ اور اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے۔بہت کم افراد جانتے ہیں کہ اپنے ذہن پر قابو پاتے ہوئے ہم ایک بہتر ،خوشحال اور کامیاب زندگی بسر کر سکتے ہیں۔جو لوگ اس سچائی سے انحراف کر تے ہیں دوسروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح رقص کرتے رہتے ہیں۔اس ضمن میں ایک کہاوت مجھے یاد آرہی ہے ’’ اگر بلی اندھی ہوجائے تو چوہا اس کے پیٹھ پر رقص کرنے لگتا ہے۔ ‘‘بالکل اسی طر ح جب ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے ہیں تب معمولی سے معمولی مسائل اور ادنی سے ادنی لوگ ہمارا استحصال کرنے لگتے ہیں۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ نہ صرف دماغ پر قابو پانے کے گر سکھاتی ہے بلکہ دماغ پر غلبہ حاصل کرنے کا بھی ہمیں علم عطا کرتی ہے۔مروجہ نفسیاتی تکنیک آدمی کی شخصیت کو سنوار کر اس کو اس کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتی ہیں لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ اس سے ایک ہاتھ آگے جاکر آدمی کو ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کا ہنر سیکھاتی ہے اور نہ صرف ان کو ترقیوں کی معراج تک پہنچاتی ہے بلکہ ان کو اس مقام پرقائم رہنے کے گر بھی سکھاتی ہے۔
اپنی زندگی کے خوشگوار دنوں کو یاد کیجیئے ۔ اپنی پیدائش سے لیکر آج تک کے تمام اہم خوشگوار واقعات کو یکے بہ دیگر ترتیب وار ذہن میں اس طرح لائیے جیسے آپ ایک فلم دیکھ رہے ہیں۔اس کام کو دن میں کم از کم ایک بار دہرائیے پھر دیکھیئے کہ ایک ہفتے کے اندر آپ میں کیسی خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔درحقیقت آج بھی ہم یہ تمام کام انجام دے رہے ہیں لیکن ہمارا سفر مقابل سمت میں جاری ہے۔ کامیابی کے لئے منزل اور سمت کا تعین ضروری ہوتاہے۔منزل تک پہنچنے اور سمت کے تعین کے علاوہ راستے کے مصائب و شدائد کا سامنا کرنے کا حوصلہ NLP فراہم کرتی ہے۔ خوش گوار یادوں کو تازہ کرنے کے بجائے دکھ بھرے ایام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ہم خود کو مضطرب ،پریشان اور غمگین کرتے ہیں۔ خوشی اور کامیابی کے حصول کے لئے اپنے ذہن پر قابو حاصل کیجیے اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔ہمیشہ شکر گزاری کی عادت ڈالیئے ۔شکر گزاری کا جذبہ صرف مثبت فکر سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اس تناظر میں حضرت شیخ سعدی ؒ کا ایک واقعہ ہماری ذہن سازی کے لئے کارآمد ہوگا۔ایک مرتبہ سعدیؒ کے پاس جوتے تک میسر نہیں تھے اور ننگے پیر چلنے سے ان کو بہت ہی کوفت اور تکلیف ہورہی تھی ان کے پیروں میں چھالے پڑگئے تھے۔وہ زندگی کو کوس رہے تھے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے پیروں کو جوتے تک میسر نہیں ہیں۔ابھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا تھا کہ آپ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو پیروں سے معذور تھا اور کمر کے بل گھس کر راستہ طئے کر رہا تھا۔ تب آپ نے سوچا کہ میں اس آدمی سے بہت ہی قسمت والا ہوں کہ میری پاس جوتے نہیں تو کیا ہوا میرے پیر تو سلامت ہیں۔مثبت سوچ کی ہی بدولت سعدی کا نام علم و ادب کی دنیا میں آج بھی روشن و منور ہے ۔دنیا کو مسخر کرنے کے لئے ہم کو تسخیر ذات کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ذات کی تسخیر میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے ذہن پر قابو اور غلبہ پانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ جو لوگ منفی پہلو سے بھی مثبت پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں وہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی خوشیوں سے مامور و آباد کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ہمیشہ زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر مرکوز کرنی چاہیئے۔جو لوگ مثبت اور روشن پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں نہ صرف وہ دنیا میں کامیاب و کامران رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں ان کو ایک خاص مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہر محفل میں ان کا استقبال کیا جاتا ہے ۔کیونکہ یہ لوگ نہ صرف خوش رہنے کا ہنر جانتے ہیں بلکہ دوسروں کے غم خوار و مونس ہوتے ہیں اور ہمیشہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔کامیاب اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لئے ذہنی رویوں،مثبت فکر اور مثبت طرز عمل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔جو شخص منفی فکر سے اجتناب کرتے ہوئے ،مثبت سوچ اور مثبت طرز عمل کو اپناتا ہے وہ نہ صرف زندگی بھر خوش و خرم رہتا ہے بلکہ فقیدالمثال کامیابی کے دروازے اس کے لئے وا ہوجاتے ہیں۔

فاروق طاہر
Share
Share
Share