اولیا اللہ : نگاہِ کیمیا :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

اولیا اللہ :
نگاہِ کیمیا

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

مندروں کے دیس ‘بت پرستی کے گڑھ اجمیر شہرمیں ہنگامہ برپاتھاجس نے بھی خبرسنی وہ دیوانہ وار اناساگرتالاب کی طرف دوڑرہا تھا‘ہندوستان کوجادوگروں کی سرزمین کہاجاتاتھا لیکن آج جو واقعہ ہواتھااِس سے پہلے اہلِ شہرنے کبھی ایساواقع نہ دیکھاتھااناساگرمیں صدیوں پراناپانی کا ذخیرہ ایک پیالے میں منتقل ہو چکاتھا پوراشہر اناساگرپ رآکر پھٹی نظروں سے خشک اناساگرکو دیکھ رہا تھا –

کل تک جس کے کنا رے پانی سے اچھل رہے تھے آج اُس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔پرتھوی راج جیسا طاقت ورراجہ اپنے فوجی لشکر کے باوجود ایک فقیر سے شکست کھارہا تھا‘اناساگرسے آئے ہوئے سپاہیوں کے جسم خوف سے لرز رہے تھے وہ خوفزدہ اندازمیں بتارہے تھے کس طرح پو را اناساگرایک پیالے میں سما گیا فوجی اقرار کررہے تھے کہ انہوں نے اِس سے بڑی سحرانگیزی آج تک نہیں دیکھی ہم پتھرکے بت بنے بے حس و حرکت خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے اورتالاب خشک ہو گیا۔راجہ بھی شدیدخوف کاشکارہوگیاتھا۔اپنے خاص مشیروں کو بلاکر سرجوڑ کربیٹھ گیا کہ کس طرح اِس فقیرکامقابلہ کیاجاسکے جودن بدن اپنی روحانی قوت سے اُسے بے بس کررہاتھااہل شہرہر گزرتے دن کے ساتھ اِس درویش کی غلامی میں جا رہے تھے اور وہ خاموش تماشائی بنایہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔مشیروں نے مشورہ دیاکہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیاجائے فقیرکے مقابلے کے لیے کسی ایسے شخص کو ڈھونڈاجائے جو سحرجادومیں کمال رکھتاہووہ اپنی روحانی قوت سے مسلمان فقیرکوشکست دے سکے اب راجہ نے چند معززشہریوں کوشاہِ اجمیرؒ کی بارگاہ میں بھیجا جنہوں نے آکر سلطان الہندکی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہما ری گستاخی کومعاف کر دیاجائے ورنہ بہت سارے انسان اور جانورپیاس کی شدت سے ہلاک ہو جائیں گے فقیر بے نیاز نے شفیق لہجے میں خادم کو حکم دیاکہ جاکرپانی اناساگرمیں ڈال دو خادم نے جیسے ہی پانی اناساگرمیں ڈالا وہ پہلے کی طرح پانی سے بھر گیا اہل شہرایک بارپھرخواجہ چشتؒ کی کرامت کانظارہ پھٹی نظروں سے کر رہے تھے ۔چند سال پہلے راقم خاکسار کو بھی جب شاہ اجمیرؒ کے دربارپر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تومیں جاکرکتنی دیراناساگرکے تالاب پر بیٹھا رہتا وضوکرتا اور ٹھاٹھیں مارتا پانی شاہ اجمیرؒ کی کرامت کی یاد دلاتا‘پوری دنیا سے جب خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے پروانے سلام کر نے اجمیرشریف جاتے ہیں تو تالاب اناساگرپربھی حاضری لگواتے ہیں ‘صدیاں گزرگئیں لیکن اناساگرآج بھی اُسی طرح پیاسوں کی پیاس بجھارہا ہے اوربجھاتارہے گا‘پرتھوی راج کی بے بسی نقطہ عروج پرتھی وہ بے بسی سے مسلمان فقیرکے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کودیکھ رہا تھا‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ فقیر کی شہرت اوردیوانوں میں اضافہ ہو رہا تھااب ہرزبان پر خواجہ چشتؒ کا ذکر تھا ۔راجہ اب پھرمشیروں کولے کربیٹھ گیابہت غوروغوض کے بعدفیصلہ کیاگیاکہ فقیردرویش کے مقابلے کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیاجائے جوبے پناہ جادوئی قوتیں رکھتاہو جو اپنی روحانی شکتیوں سے فقیرکا مقابلہ کرسکے اِس کام کے لیے اجمیرکے سب سے بڑے مندرکے پجاری شادی دیوکاانتخاب کیاگیادیوہیکل شادی دیو درازقد اور جادوئی کمالات کی وجہ سے بہت مشہور تھا‘ علاقے کے تمام جادوگر اُسے اپنا استاد مانتے تھے اُس کے مقابلے پرکوئی بھی نہیں آتاتھا راجہ نے درازقد شادی دیو کو درباربلا کرمشکل صورتحال کے بارے میں بتایاکہ ہندو دھرم شدیدخطرے میں ہے اگراِس فقیردرویش کاراستہ نہ روکاگیاتویہاں پر ہندودھرم کی جگہ مسلمان ہی ہوں گے ‘شادی دیو اپنی کالی شکتیوں پر بہت مغرور تھا اُس نے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے کہ وہ مسلمان فقیرکو عبرتناک شکست دے گاآئندہ کسی کوجرات نہیں ہوگی یہاں آنے کی ‘اب شادی دیونے اپنے چیلوں کی ایک فوج تیارکی جنہیں بہت سارے منتر جادوسکھائے گئے جب جادوگروں کی فوج تیارہوگئی توشادی دیواِن چیلوں کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین ؒ کی طرف تکبرانہ اندازمیں بڑھا‘ شادی دیواورچیلے جادومنتر جاپتے ہو ئے نفرت وقہرکے تاثرات چہروں پرسجائے خواجہ باکمال ؒ کی طرف بڑھ رہے تھے اُن کے چہروں اورزبان سے نفرت وغرورکی آگ برس رہی تھی وہ آج مسلمان درویش کوعبرت ناک شکست دینے آرہے تھے ‘شادی دیوکے منہ سے شعلے نکل رہے تھے وہ گرج رہا تھا ‘مسلمانوں تمہا ری موت قریب آگئی ہے آج میں اور میرے دیوتاتمہیں خاک میں ملادیں گے ‘آج تمہارامقدرذلت اور موت ہے ۔ شادی دیوکے چیلے راستے میں ہی رک گئے اب شادی دیواکیلا اپنے ساحرانہ کمالات کامظاہرہ کرتامنترتنتر طلسمات پڑھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا‘پھر اہل اجمیرنے عجیب منظردیکھااُن کاسب سے بڑاپجاری شادی دیو رک گیااُس کے منہ سے جو طلسمات اُبل رہے تھے وہ بھی خاموش ہو گئے ‘شادی آگے بڑھناچاہتاتھالیکن جسم نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیااب اُس نے چیخناچاہالیکن قوت گویائی نے ساتھ دینے سے انکار کردیا‘ شادی دیوکاجسم اور زبان حرکت سے محروم ہوچکے تھے ۔شادی دیوکے چیلے حیران نظروں سے اپنے گروکی بے بسی دیکھ رہے تھے اُسے جوش دلانے کے لیے انہوں نے بلند آوازمیں منتر پڑھنے شروع کردئیے وہ بار بار اپنے گرو کو حوصلہ دینے کی کو شش کررہے تھے اِسی دوران خادموں نے نائب رسول ؐ خواجہ معین الدین چشتی ؒ کوشادی دیو کے حملے کی اطلاع دی تو آپ اپنی کٹیا سے باہر تشریف لائے ‘ شادی دیو کو دیکھ کر چہرے پر آتش جلال کا رنگ لہرا یانگاہِ خاص سے شادی دیو کو دیکھا درویش کی نگاہِ کیمیانے اثرکیا‘نورباطن کے پردوں کو چیرتا ہوا اندر تک چلاگیاکفرکی سیاہی اسلام کے اجالے میں بدلی جسم بدلا زبان بدلی جسم پر لرزا طاری ہوا باآواز بلند بولنے لگا رحیم رحیم‘ نگاہِ درویش سے رام رام کہنے والی زبان رحیم رحیم پکاررہی تھی ‘چیلوں نے جب استاد کے منہ سے رام کی بجائے رحیم سنا تو غصے سے پاگل ہوکر گالیاں بکنے لگے ‘برابھلاکہنے لگے شادی دیوگالیاں سن کرغصے سے آگ بگولہ ہوکرواپس مڑااوراپنے ہی چیلوں پر پتھربرسانے لگا‘اہل دنیاحیران کن منظردیکھ رہے تھے ہندودھرم کا گرو جو مسلمان فقیرسے مقابلہ کر نے آیاتھا اپنے ہی چیلوں کوماررہا تھا‘وحشت میں کئی چیلوں کومارڈالاباقی نے بھاگ کرجانی بچائی شادی دیوپر جنون وحشت طاری تھی وہ اپنے کنٹرول میں نہیں تھا‘مسیحاہندنے خادم سے کہا جاکرپانی پلاؤدرویش کاپانی کیاپیادنیاہی بدل گئی کفرکے زنگ اترتے چلے گئے بت پرستوں کاگروآگے بڑھااورمسیحاہندکے قدموں سے لپٹ گیا۔ ایک ہی فقرہ شاہامجھے بھی اپنے غلاموں میں شامل فرمائیں۔یوں بت پرستی کی زبان پرکلمہ حق جاری ہوا۔

Share
Share
Share