بچوّں کی نفسیات اور کھیلوں کے ذریعے تعلیم
محمد قمر سلیم
ایسو سی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
09322645061
روسو ، فروبیل، مانٹسری، ٹیگور وغیرہ نے بچّوں کی نفسیات کے عین مطابق کھیل کے ذریعے تعلیم کو ایک اہم مقام عطا کیا ہے۔ کھیل کے ذریعے تعلیم طفلِ مرکوز تعلیم پر مبنی ہے۔جماعت میں چھوٹے چھوٹے کھیلوں کے ذریعے بچوں کی ذہنی،سماجی، ادبی، جسمانی، جذباتی نشوونما اور ان کی دلچپی، توجہ،تحریک، جوش و خروش، اعتماد اور سیکھنے کے عمل کی نشوونما کی جا سکتی ہے۔
تعلیم و تدریس کے عمل میں بچوں کی شرکت سے ان کو لا محدود خوشیاں عطا کی جا سکتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ محرکات کی نشوونما اور سیکھنے کے عمل کو عملی طور پر یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ ، کھیلوں کے ذریعے تعلیم، پر صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ہمارے اساتذہ مشکل سے ہی اپنے مضامین کی کھیلوں کے ذریعے پڑھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تدریس بے معنی، بد مزہ، فرسودہ، یکسانیت سے لبریز اور روکھی ہوتی ہے جو عام طور سے بچوں کی عدم دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔ بہت کم اساتذہ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کھیلوں کے ذریعے تدریس میں جان پھونکی جا سکتی ہے۔
کھیلوں کے ذریعے تعلیم میں تعلیم کا مرکز بچہ ہوتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ سماج میں اطلاعاتی اور مراسلاتی تکنیک کے استعمال نے دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے اور اس میں رہنے والے تمام لوگ ایک خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسطرح اگر دنیا گلوبل گاؤں ہے تو انسانیت گلوبل خاندان ہے۔ جب ایک سماج اتنا وسیع ہو اور جس کا پھیلاؤ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہو تو ایسی صورت میں اطلاعاتی اور مراسلاتی نظام کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماحولیاتی مسائل اور دوسرے بڑھتے ہوئے خطرات نے انسانیت کو ایک گلوبل خاندان کہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس صورت میں ہمیں اپنے بچوں کو زندگی میں آنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا پڑے گا۔ جس کے لیے اطلاعاتی اور مراسلاتی نظام کو جا ننا ضروری ہے۔اور اس نظام کا بہ خوبی استعمال صرف اور صرف اساتذہ پرمنحصر ہے۔ اس طرح اسکول اور اساتذہ کی ذمے داریاں کافی حد تک بڑھ جاتی ہیں۔کیونکہ تعلیم صرف سیکھنے تک محدود نہیں ہے۔تعلیم کا مقصد بچے کی مکمل نشوونما کرنا ہے اور مکمل نشوونما میں شخصیت کے کسی بھی پہلوکو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ آج زبان کی تدریس میں نئے پہلو اور رجحانات کو شامل کیا جارہا ہے جس میں ذہانت کے تمام پہلوؤں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور اس میں کھیل بھی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن کھیل کا زندگی میں صحیح استعمال کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ایک اہم فعل ہے۔کیونکہ کھیل کوزیادہ تر لوگ تعلیم سے جوڑناپسند نہیں کرتے ہیں۔
تعلیم کا مقصد ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے حالات کا جم کر مقابلہ کیا جائے اور تعلیم کا صحیح استعمال کیا جا سکے ایسے میں ذہن میں چند سوالات ابھرتے ہیں : ۔
۱۔کیا تعلیم سیکھنے کے مترادف ہے؟
۲۔اگر ہاں، تو کیا ہماری درس گاہیں بچوں کو تعلیم یافتہ بنا رہی ہیں؟
۳۔کیا سیکھنے کا عمل فطری ہے؟
۴۔کیا ہماری تدریس ہمارے طلبا کے لیے مفید ہے؟
مندرجہ بالا سوالات کے جواب حل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک مفکرہالٹ (Holt)کے خیالات کا تجزیہ کریں۔ اس کے مطابق ’ اسکول ایک ایسی جگہ (درس گاہ) ہونی چاہیے جہاں بچے وہی سیکھیں جو وہ سب سے زیادہ جانناچاہتے ہیں،برمقابل اس کے ہم سوچتے ہیں کہ انھیں کیا جاننا ہے۔ ایک بچہ جو جاننا چاہتا ہے اس کو وہ یاد رکھتا ہے۔ اور اس کا استعمال کرتا ہے۔ وہ بچہ جب کسی کی خاطر اور کی وجہ سے کچھ سیکھتا ہے جب ضرورت پڑتی ہے تو بھول جاتا ہے۔‘
آج بھی حالات بدلے نہیں ہیں۔ آج بھی بچہ ذہنی طور پر بہت زیادہ دباؤ میں رہتا ہے اور اس کی پریشانی یہ ہے کہ:
۔ اساتذہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے طلبا کی دلچسپیوں کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دلچسپیاں اور بچوں کی دلچسپیاں ایک جیسی ہیں۔اور اس حسین سوچ کے نتیجے میں فرسودہ روایات برقرار ہیں۔
۔ بچے کی پریشانی یہ ہے کہ اسکول کا پیریڈ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔کیوں کہ ہمارے اساتذہ وہی پرانے طریقوں سے تدریسی عمل انجام دیتے ہیں۔
۔بچے کے لیے اسکول کی گھڑی دنیا کی سب سے سست رفتار گھڑی ہے۔بچے کی فطرت ہے کہ وہ ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتا اور پھر ہمارے بے مزہ اسباق، اس پر اساتذہ کی فرسودہ تدریس جس کی وجہ سے بچے کا پڑھائی میں عدم دلچسپی دکھانا ضروری ہے۔
۔ آج کے اسکول دماغی اسپتال اور قید خانے ہیں اور طلبا قیدی۔اگر یہی صورتِ حال رہی تو آنے والے دنوں میں ہماری در س گاہیں بہت جلدی دنیا کے پردے پر نظر نہیں آئیں گی۔ ایسے اساتذہ کی ذمے داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ۔ اس ضمن میں ہمیں عظیم مفکر رابندر ناتھ ٹیگور کے خیالات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارے اسکول اسپتال ہیں اور ان میں دی جانے والی تعلیم ایک تکلیف دہ علاج ہے۔ یہ اس لیے کہ ہمارے اساتذہ بچے کی عین فطرت کے مطابق تعلیم دینے کے بجائے اپنی سوچ اور خواہشات کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بچے کی پریشانی کی دوسری وجہ استاد کے ساتھ اس کے رشتے ہیں۔آ ج کے اساتذہ میں محبت اور ہمدردی کا فقدان ہے۔وہ بچے کو ایک ایسے گاہک کی شکل میں دیکھتے ہیں جو صرف ان کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ ایک استاد کا بچے سے ماں کے جیسا رشتہ ہونا چاہیے۔ آج ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ:
– کیا استاد بچے کو ماں کی طرح پیار دیتا ہے؟
– کیا استاد بچے کی خواہشات کا احترام کرتا ہے؟
– کیا ان کی دی ہوئی تعلیم بچوں کی زندگی سنوارنے میں کار آمد ہے؟
اگر ہم ان سوالات کا تجزیہ کریں توہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چند اساتذہ ہی ان سوالوں پر کھرے اترتے ہیں۔ عام طور سے تواساتذہ میں تدریس کا رجحان ہی نہیں ہے اور جو اساتذہ بچوں کی دلچسپیوں کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں ان کی چند مجبوریاں ہیں جس کی بنا پر وہ چاہنے کے باوجود بھی بچوں کی خواہشات کو پورا نہیں کر پاتے ہیں۔ ان کی چند مجبوریاں اسطرح ہیں: ۔
*وہ آج کے تعلیمی نظام میں آزادانہ طور پر کام کرنے سے قاصر ہیں۔
*انھیں متں کو چننے کا اختیار نہیں ہے۔
*انھیں نصاب مکمل کرنے کی فکر اور جستجو رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ پڑھاتے ہیں بچے کی فترت کے خلاف ہوتا ہے۔ان تمام مجبوریوں کے باوجود اگر استاد سنجیدہ ہے تو وہ بچوں میں ان کی دلچسپیوں کے مطابق تبدلیاں لا سکتا ہے۔ان کی دلچسپیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے درس و تدریس کے عمل کو انجام دے سکتا ہے۔ لیکن اس سے اس کے کام میں ذمّے داریاں شامل ہو جائیں گی۔ایک استاد کا کام صرف اسباق پڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی پوری شخصیت کا نشوونما کرنا ہے اس طرح استاد کا کام:
۱۔بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنا۔ہمارے اساتذہ درسی کتاب سے اسباق پڑھا کر اس کو رٹنے کا کام کرواتے ہیں اور یاد کرواتے ہیں کچھ عرصے کے بعد بچہ اسے بھول جاتا ہے یا اسے اتنا ہی آتا ہے جتنا اسے رٹا دیا گیا ہے اس صورت میں اس کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔
۲۔ بچے کی انفرادیت کو مدّنظر رکھنا۔ اس دنیا میں ہر بچہ اپنی الگ انفرادیت لیکر آیا ہے۔ ہر بچہ اپنی جسمانی قوتوں کے ساتھ ساتھ ذہنی قوتوں اور صلاحیتوں میں ایک دوسرے سے الگ ہیں، اس صورت میں استاد کو ہر بچے کو اس کی انفرادیت کے مطابق ہی تربیہت دینا چاہیے۔
۳۔بچے کے جذبات کی نشوونما کرنا۔بچے بہت جذباتی ہوتے ہیں استاد کو ان کے جذبات کی قدر کرنا چاہیے اور ان کو ان کے جذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت کی نشوونما کرنی چاہیے خاص طور سے وہ بچے جن کے ماں باپ دونوں نوکری پیشہ ہوں، اور وہ ماں باپ جو اپنے کاروبار کی وجہ سے اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے ہیں
۴۔ بچے کو مادی نہ بنانا۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بچے مشینوں کے عادی ہو گئے ہیں وہ ہر چیز مادی نظریے سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے لیے رشتے ، اخلاق، قدریں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ اس صورت میں استاد کی ذمیداریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔
یہ ہمارے تعلیمی نظام کا افسوسناک پہلو کہ ہم طلبا کے جذبات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو بھی طور طریقے طالب علم سیکھتا ہے اخلاقی نقطۂ نظر سے اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔آج کل اسکولوں میں نتائج کو لیکر مقابلوں نے طلبا کو ایک مادی اشیا بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ اسکول میں پرنسپل صاحبان، اساتذۂ کرام اور گھر میں والدین اس تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ ان کے بچے کس طرح زیادہ سے زیادہ نمبرات لائیں اور ان کا نام روشن ہو، اس دوڑ میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے جذبات بھی ہوتے ہیں لیکن والدین کی بے جا خواہشات کی وجہ سے بچوں پر ذہنی دباؤ پڑتا ہے جو ان کی شخصیت کے لیے مضر ہے۔یہی وجہ ہے کہ طلبا میں خودکشی کے رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور دو چھوٹے چھوٹے کان دنیاکی کھڑکیاں اور علم کے دروازے ہیں۔اور ان کے ذریعے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے۔یہی سیکھنا اگر کھیلوں کے ذریعے کیا جائے تو وہ سیکھ تا عمر اور پختہ ہوگی۔ہم کھیلوں کے ذریعے بچوں میں مندرجہ ذیل مختلف صلاحیتوں کو ابھار سکتے ہیں:۔
۔۔۔مشاہدہ
۔۔۔سننا
۔۔۔مراسلہ(ترسیل)
۔۔۔لکھائی
۔۔۔مصوٌری
کیوں کہ ہمارا طریقہء تدریس فرسودہ ہے جس کی وجہ کی وجہ سے استاد کا پڑھایا ہوا۷۰فی صد سے زیادہ بچوں کے سر سے گزر جاتا ہے۔ استاد کچھ کہتا ہے بچے کچھ اور سنتے ہیں۔پھر وقت کی کمی کی وجہ سے ان کی غلطیاں بھی درست نہیں ہو پاتی ہیں۔جب ہم بچوں کو کھیل کے ذریعے سکھاتے ہیں تووہ جلدی سیکھتے ہیں۔کھیلتے وقت بچے ایک گروپ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور یہ گروپ سماجی نظام کی شکل میں کام کرتا ہے۔ اسکول کو سماج کا چھوٹا روپ کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سیکھنے کا عمل حقیقی زندگی سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔کھیل کو حقیقی زندگی سے جوڑنے کے لیے استاد کو فراخ دلی اور کھلے دماغ سے کام لینا چاہیے۔
کچھ فلسفیوں جیسے نیل ،ہالٹ، فلپ وغیرہ نے بچوں کے جذبات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ایسے اسکولوں پر زور دیا جہاں سیکھنے کی آزادی ہو، بچوں کو عزّت بخشی جائے اور احساس کمتری کے جذبے سے دور رکھا جائے۔ایسے اسکولوں میں سیکھنے کی خواہشات کو ابھارا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے سیکھنے میں مدد ملے اور جماعت میں ایک ایسا ماحول قایم کر دیا جائے جہاں بچہ نہ ختم ہونے والی خواہشات کا تصور کر سکے اور اسے سیکھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان کی رہنمائی کی جائے اور ان کے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو دور کیا جائے۔ جماعت میں ایسا ماحول کھیلوں کے ذریعے تعلیم سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کھیلوں سے تحریک پیدا ہوتی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا بچہ ہوگا جو کھیلوں سے بیگانہ ہوگا کیونکہ کھیل ان کی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے سیکھنے کا عمل خود بہ خود شروع ہو جاتا ہے۔
فروبیل ، مانٹیسری، ٹیگور وغیرہ نے کھیلوں کے ذریعے تعلیم کو بہت اہمیت دی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کھیلوں کے ذریعے بچوں کی ذہنی، سماجی، ادبی، جسمانی، جذباتی نشوونما کی جا سکتی ہے۔اور بچوں کی شرکت کی بنا پر لامحدود خوشیاں میسر کی جا سکتی ہیں۔ محرکات کی نشوونما کے ذریعے سیکھنے کے عمل کو عملی طور پر یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
———-
حواشی:
انعام اللّہ خان شروانی – تدریسِ زبانِ اردو
جان جیکس روسو – ایملی(Emile)
رابندر ناتھ ٹیگور – سویلائی زیشن اینڈ پروگریس (Civilization and Progress)
سلامت اللّہ – ہم کیسے پڑھائیں
سلیم عبد اللّہ – اردو کیسے پڑھائیں
فروبیل، ایف – فروبیل پیڈاگوجکس آف دی کنڈر گارٹن (Froebel’s Pedagogics of Kindergarten)
مانٹیسری، ماریو – دی ہیومن ٹینڈینسیزاینڈ مانٹیسری ایجوکیشن (The Human Tendencies and Montessori Education)
معین الدین – ہم اردو کیسے پڑھائیں
معین الدین – تدریس زبان اردو
ویکی پیڈیا – فروبیل گفٹس (Froebel Gifts)
ہولٹ ، جے اور پیٹرک،ایف – ٹیچ یور اون((Teach Your Own