گِلّیؔ کا شہر نلگنڈہ :- ڈاکٹر عظمت اللہ

Share
ڈاکٹر عظمت اللہ

گِلّیؔ کا شہر نلگنڈہ

ڈاکٹر عظمت اللہ
اسسٹنٹ پروفیسر اردو – نلگنڈہ

انہیں پتھروں پہ جل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
شہر نلگنڈہ ریاست تلنگانہ کا وہ مقام ہے جہاں کئی دکنی اور اردو شاعروں نے جنم لیا جن میں غلام احمد فیضؔ ، گِلّیؔ نلگنڈوی اور نذیر دہتانی مشہو و معروف ہیں۔ نذیر دہتانی اور گلی نے دور جدید میں دکنی زبان کو اپنے اظہارخیال کے لئے منتخب کیا۔ یہ شہر دراصل نیلاگری پہاڑیوں کے دامن میں بسا ہوا ہے اس کا قدیم نام بھی ’’نیلاگری‘‘ ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ گرم آب و ہوائی خطہ ہے۔

ضلع میں پانی کی قلت ہے اور شہر کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں پانی کی قلت کے علاوہ فلورائیڈ کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ یہ ایشیاء کا سب سے زیادہ فلورائیڈ متاثرہ علاقہ ہے۔ اس سنگلاخ زمینی خطے اور گرم آب و ہوا نے یہاں کی عوام کو سخت محنتی اور جفاکش بنادیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے قطب شاہی اور آصف جاہی سلطنتوں کا حصہ رہا لیکن حکمرانوں کی غفلت کی وجہ سے یہ علاقہ ترقی نہیں پاسکا۔ شہر کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ جملہ آبادی میں بیس فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور تلنگانہ کی ریاست بھر میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ بالخصوص محکمہ پولیس میں ضلع نلگنڈہ کے افراد کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
شہر اور ضلع کے لوگوں کی زبان تلگو ہے اور مسلمان دکنی اردو بولتے ہیں۔ تلگو زبان نے یہاں کی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں شہر نلگنڈہ اردو علم و ادب کا گہوارہ رہا لیکن عصرحاضر کے تناظر میں معاشی ترقیات نے یہاں کے لوگوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ دھیرے دھیرے جدید سائنسی علوم نے اردو کی جگہ لے لی۔ اس ضلع کے لوگوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہیکہ یہ لوگ نئے رجحانات کو بہت جلد اپناتے ہیں۔ ماہرین تعلیم کے مطابق ایک صحتمند جسم میں ایک صحتمند دماغ بھی ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوت ہے کہ یاہں کی عوام نے اس قول کو اپنے دل و دماغ پر نقش کرلیا ہے۔ شہر کے اکثر اسکولوں اور کالجوں میں کھیل کے میدان موجود ہیں۔ پابندی کے ساتھ ضلعی، ریاستی اور قومی سطح کے کھیل کود کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ صبح اور شام کے اوقات میں شہر کے مختلف میدانوں میں لوگ کثیر تعداد میں چہل قدمی اور کھیل کود کے لئے آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میدان میں میلہ لگا ہو۔ والی بال یہاں کی عوام کا پسندیدہ کھیل ہے۔ کبڈی اور کرکٹ کے بھی لوگ شوقین ہیں۔
قدیم اور جدید شہر کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت مسجد ہے۔ فصاحت جنگ جلیل نے 1345 ھ میں اس مسجد کا ’’قطعہ تاریخ‘‘ تحریر کیا ہے۔ اس قطعہ کا ایک شہر ملاحظہ ہو۔
مدینہ مسجد یہ کہہ رہی ہے جمال حیرت فزا دکھا کر
نظر میں پھر جائے اس کے کعبہ جو دیکھے مجھکو آنکھ اٹھاکر
دارالعلوم نلگنڈہ یہاں کی ایک اہم دینی درسگاہ ہے جو تقریباً چالیس سال سے دینی علوم کی اشاعت اور فراہمی میں اہم کردار نبھا رہی ہے۔ یہاں سے فارغ ہوکر حفاظ و علماء کرام کی بڑی تعداد دینی خدمات انجام دے رہی ہے۔ سید شاہ لطیف اللہ قادری ؒ کا مزار نیلگری پہاڑ کے بلند ترین حصہ پر ہے۔ ان بزرگ کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ مشہور ہے۔ کمہا جاتا ہے کہ حضرت شیخ عبدلقادر جیلانی ؒ کے دور میں وہ یہاں آئے تھے اور اپنی ساری عمر دین کی اشاعت و تبلیغ کی تھی۔ حضرت کا معمول تھا کہ وہ روزانہ اس پہاڑ سے نیچے پانگل تالاب کے قرب و جوار میں آتے جہاں گھنی آبادی تھی اور شام تک دعوتِ حق دے کر دوبارہ اسی پہاڑ پر چلے جاتے۔ حضرت کے اخلاق سے متاثر ہوکر کئی غیرمسلم لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ چند حاسدین نے دیورکننڈہ کے مہاراجہ کو حضرت کے خلاف اکسایا۔ راجہ اپنی فوج کا ایک دستہ لے کر آیا۔ حضرت کے بارے میں تفتیش کرنے لگا مگر کسی کو ان کے مستقر کا پتہ نہیں تھا۔ آخر مجبور ہوکر راجہ خود اپنے فوجی دستے کے ساتھ گھنے جنگل سے گذر کر نیلگری کے مقام تک پہنچا جہاں حضرت آرام فرما رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حضرت ایک املی کے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور ان کے اطراف چار شیر اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں گویا ان کی حفاظت کررہے ہوں۔ وہ فوراً تائب ہوا۔ حضرت کی قدم بوسی کی۔ جنگل چھوڑ کر شہر میں رہنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے راجہ کی التجا مسترد کردی۔ وہ روزانہ پانگل شہر آتے اور اپنے معمول کے مطابق دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہاڑ ہی پر حضرت کی وفات ہوئی اور وہیں مدفون کئے گئے۔ ہر سال شاندار عرس آج بھی پابندی سے منایا جاتا ہے۔ کئی مسلم اور غیرمسلم عقیدتمند اس میں شریک ہوتے ہیں۔
1956ء میں قئم شدہ ناگارجنا گورنمنٹ کالج یہاں کا ایک قدیم خودمختار ڈگری کالج ہے جو شہر اور ضلع کے لوگوں کے لئے یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کالج سے فارغ ہوکر ہزاروں کی تعداد میں طلباء ریاست بھر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی کالج میں راقم برسر روزگار ہے۔چند سال قبل شہر نلگنڈہ میں مہاتما گاندھی یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں آیا جو یہاں کی عوام کی علم کی تشنگی دور کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

Share
Share
Share