چوتھی اور قسط
مقصدِ نمازِ جمعہ
مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر) الہند
09850331536
مقصد نمازِ جمعہ کی تیسری قسط کے لیے کلک کریں
اسی طرح جمعہ کے خطبہ کے مواد پر غور کیا جائے تو اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خطبہء جمعہ کا جہاں ایک مقصد مسلمانوں کی تعلیم و تربیت ہے وہیں خطبہ میں خلفاء راشدین اور موجودہ خلیفہ کا تزکرہ رکھ کر ایک طرح سے قیامت تک کیلئے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اسلامی سیاست و خلافت جس طرح دورِ نبوی و دورِ صحابہ میں مسلمانوں کا دینی فریضہ تھی اسی طرح قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا یہ دینی فریضہ ہے۔
چنانچہ جمعہ کے دوسرے خطبہ میں خطیب کو یہ حکم ہے کہ وہ خاص طور سے آنحضور ﷺ اور خلفاءِ راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدّیقؓ ،حضرت عمر فاروقؓ ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پر درود و سلام بھیجے ، اور مسلمانوں کے موجودہ خلیفہ کے لیے دعاءِ خیر کرے اور اس کی بیعت سے جڑنے کی تلقین کرے،چنانچہ دنیا میں جب تک اسلامی حکومت قا ئم تھی تب تک دنیا کے تمام خطیب حضرات آنحضرت ﷺ اور خلفاءِ راشدین کے تزکرہ کے ساتھ موجودہ خلیفہ کا بھی تذکرہ کرتے تھے اور اگر کسی خطیب نے جمعہ کے خطبہ میں جان بوجھ کر موجودہ خلیفہ کا تذکرہ نہیں کیا تو وہ خلافت کا باغی شمار ہوتا تھا اور اس کی سزا قتل تھی ، لیکن جب سے دنیا سے اسلامی خلافت کا خاتمہ ہوا ،تب سے جمعہ کے خطبے مو جودہ خلیفہ کے تذکرہ سے محروم ہو چکے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہیکہ جب تک جمعہ کے خطبے موجودہ خلیفہ کے ذِکر سے محروم رہیں گے، تب تک مسلمان بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے،اسلیئے کہ اسلامی خلیفہ کا تقرر اور اس کی موجودگی دینی لحا ظ سے اتنی ضروری چیز ہے کہ صحا بہؓ نے اسے آنحضورﷺ کی تجہیز و تکفین پر مقدّم رکھا تھا،اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ مقررکرکے آنحضرتؐ کی تجہیز و تکفین کی تھیسیاسی لحاظ سے بھی رہنما ہو،اور اس کے پاس اسلام کو ہر لحاظ سے غالب کرنے کی طاقت و قوت بھی ہو ،اور طاغوت کو پست کرنے کی طاقت و قوت بھی ہو، اور اگر اس کے پاس اسلام کو غالب کرنے کی طاقت و قوت نہ ہو ، تو کم از کم وہ اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد کرے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آج بعض دینی حلقوں میں صرف تعلیم و تربیت اور ذکر واوراد کی حد تک کسی کو خلیفہ مان کر اس سے بیعت کرنے کو جو اسلامی خلیفہ کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے یہ خیال صحیح نہیں ہے،جب تک کہ سیاسی لحاظ سے بھی اس کو خلیفہ تسلیم نہ کیا جائے،لیکن ظا ہر ہیکہ ان حلقوں کے خلفاء میں تک اسلامی سیاست کی بات کرنا جرم ہے،اس لیے یہ خلفاء کیا دعوٰی کریں گے کہ ہمیں اسلامی سیاست کے لحاظ سے بھی خلیفہ تسلیم کرو۔یہ خلفاء تو علی الا علان عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرح کہتے ہیں کہ دین الگ ہے اور سیاست الگ ہے،علاّمہ اقبال ؒ نے ایسے ہی لوگوں کی سوچ کی تردید کرتے ہوئے ایک شعر میں فرمایا ۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کو یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
جلالِ پا د شاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دین اور سیاست کو الگ الگ کہنے والے مسلمان مطلق کسی سیاست کے قائل نہیں ہے،بلکہ یہ افراد صرف دینِ اسلام کے ساتھ اسلامی سیاست جوڑنا نہیں چا ہتے ،کیو نکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو مکمل نظا مِ زندگی کا پیغام رکھتا ہے ،اور انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلامی سیاست کے قیام کے لیئے جان جوکھم میں ڈالنی پڑتی ہے اور قائم ہونے کہ بعد بھی اُ سے قائم رکھنے کے لیئے جان و مال کی قربانی دینی پڑتی ہے ،اس لیے ایسے افراد نے اس جدوّ جہد سے بچنے کا آسان چور راستہ یہ نکال لیا کہ اسلامی سیاست کی فکر ہی کو اسلام سے خارج کردیا جائے تاکہ کوئی یہ الزام بھی نہ لگا سکے، کہ تم اسلامی سیاست کے قیام کے لیئے کوئی جدوّ جہد نہیں کر رہے ہو ،ساتھ ہی اس چور ،راستے میں انہیں ایک دوسرا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ پوری دنیا کہ با طل پرستوں کی انہیں خوشنودی و حمایت خود بہ خود حاصل ہو جاتی ہے ،جو اسلامی سیاست کے قیام کو اپنے لئے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی وہ بہت سی دینی جماعتیں اور دینی شخصیتیں جن کے نزدیک اسلامی سیاست کی کوئی فکر نہیں ہے وہ باطل حکمرانوں کی نورِ نظر بنی ہوئی ہے،اور مسلمانوں کی وہ دینی جماعتیں اور شخصیتیں جو اپنے پاس اسلامی سیاست کے قیام کی فکر بھی رکھتی ہیں، وہ باطل حکمرانوں کے نزدیک سب سے بڑی مجرم ہیں ۔
یقیناً آج کے دور میں بھی اگر کوئی شخص اسلام کے مکمل غلبہ کے لئے ،اور نظام کفر کو پست کرنے کے لئے کسی سے بیعت لیتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کا یہ عمل جائز ہے ،بلکہ وہ دین کے ایک اہم تقاضہ کو پورا کرنے والا شمار ہوگا،اسی طرح بیعت کرنا والا شخص بھی دین کے ایک اہم تقا ضہ کو پورا کرنے والا شمار ہوگا ،ا س لیئے کہ دینی لحاظ سے اسلام کے غلبہ کی جدوّجہد سے جڑنے کا سب سے بہتر طریقہ وہ بیعت ہی ہے ،کیونکہ آنحضرت ﷺنے صحابہ اکرام سے بیعت ہی لی تھی اور صحابہ اکرام آنحضور ﷺ کی امارت اور خلافت سے بیعت ہی کے ذریعہ جڑے تھے ۔
آج کے دور میں بھی امیر و مامور کا سب سے مضبوط و محفوظ تعلق بیعت ہی کے ذریعہ قائم ہو سکتا ہے، غرض یہ کہ اسلامی خلافت کے قیام کی فکر و عمل جمعہ کے خطبہ کا ایک اہم موضوع ہے اور جمعہ کے خطبہ میں اس موضوع کا تذکرہ نہ کرنا ایک طرح سے جمعہ کو ناقص بنانا ہے یہی وجہ ہے کہ جب تک دنیا میں اسلامی خلافت قائم تھی تب تک جمعہ کے خطبہ میں موجودہ خلیفہ کا نام لیا جاتا تھا اور جب سے اسلامی خلافت ختم ہوئی ہے تب سے جمعہ کے خطبہ میں اسلامی خلیفہ کے قیام کے لئے دعا کی جارہی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی اس محرومی کو دور کرے، اور مسلمانوں میں اس دعا کے ذریعہ اسلامی خلافت کے قیام کا جذبہ پیدا ہو، چانچہ ہندوستان کے جن علماء کرام نے جمعہ کے خطبات کی کتابیں لکھی ہیں انہوں نے جمعہ کے خطبہ ثانیہ میں خصوصیت کے ساتھ اسلامی خلیفہ کے قیام کی دعا بھی شامل کی ہیں ۔ بطور حوالہ کے یہاں ہندوستان کی ایک مشہور و معروف جمعہ کے خطبات کی کتاب ’’خطبات موعظت‘‘ میں خطبہ ثانیہ میں درج دعا نقل کی جارہی ہے۔ اَلَلَّھُمَّ اَعِزِّ الْاِسلَامَ وَ الْمُسْلِمینَ بِا لْاِ مَامِ الْعَادِلَ ذِی الْقُوّۃَ الْقَاھِرَۃِ وَالسُّلْطَۃِ الْظّاھِرِۃ عَلَی الکَفَرَۃِ الْبَاغِیَۃِ۔ (خطبات موعظت ۶۲۷)۔ترجمہ : اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا کر عادل امام یعنی خلیفہ کے ذریعہ ، جو زبردست قوت والا ہو، جس کا اقتدار عام ہو، اور جو کفر کا باغی ہو۔واضح رہے کہ مذکورہ خطبات موعظت کتاب، مفتی محمد شفیعؒ صاحب فاضل دیوبند کے ایک شاگرد مفتی ابو الناصر مظاہری کی تصنیف کردہ ہے اور اس پر مفتی محمد شفیع ؒ کی تقریظ بھی ہے اور یہ کتاب بہت سی مساجد میں پڑھی بھی جاتی ہے اللہ جزائے خیر عطا فرمائے ،مذکورہ کتاب کے مصنف کو کہ انہوں نے جمعہ کے خطبہ میں اسلامی خلیفہ کے قیام کی دعا کو شامل کرکے ایک طرح سے جمعہ کے خطبہ میں اسلامی سیاست و خلافت کا تذکرہ تو باقی رکھا ورنہ آج تو مساجد کے بیشتر اماموں اور خطیبوں نے جمعہ کے خطبو ں سے اسلامی سیاست و خلافت کا تذکرہ تک بھلادیاہیں۔اور یہی دعا جمعہ کے خطبات کی ایک اہم کتاب خطبات دار العلوم عربیہ اسلامیہ ، کنتھاریہ ضلع بھروچ، گجرات کے خطبۂ ثانیہ میں بھی درج ہے۔
مذکورہ دعا کے تمام جملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ خالص اسلام کے سیا سی غلبہ اور نظامِ کفر کے خاتمہ کی دعا ہے ،اور کسی بھی چیز کی دعا اسی لیے کی جاتی ہے کہ اس کے مطابق ہماری فکر اور کوشش ہو ، ساتھ ہی دعا میں جو چیز طلب کی جا رہی ہے اس سے دلی محبت ہو،اور جس سے پناہ مانگی جا رہی ہو،اس سے دلی نفرت ہو، اب جبکہ مساجد کے ائمہ ہر ہفتہ جمعہ کے خطبہ میں اسلامی سیاست کے غلبہ اور باطل سیاست کے خا تمہ کی دعا کر رہے ہیں، تو ان کی دعا کا خود ان پر یہ تقا ضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اسلامی سیاست کے غلبہ کی کوشش کرے ،اورکفر کے سیاسی غلبہ کو ختم کرنے کی جدوّجہد کرے۔لیکن افسوس ہے کہ بہت سے ائمہ جمعہ کے خطبہ کی اس دعا کے معانی کو ہی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کس چیز کی دعا کر رہیں،اور جو ائمہ اس دعا کے معانی کو سمجھتے ہیں وہ سال میں ایک مرتبہ بھی جمعہ کے مقتدیوں کے سامنے اس دعا کے معانی بیان نہیں کرتے ،جبکہ ائمہ حضرات کی ہی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ جمعہ کے خطبہ میں کی جانے والی دعا کے معانی بیان کرے، تاکہ مقتدیوں کا بھی اس دعا سے فکری و علمی تعلق پیدا ہو،اور وہ بھی اپنے اندر جمعہ کے خطبہ سے اسلامی سیاست کے قیام کا جذبہ ،اور غیر اسلامی سیاست کے خا تمہ کا جذبہ پیدا کریں ۔اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہیکہ برسوں سے نمازِ جمعہ پڑھنے اور پڑھانے والے افراد یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اسلامی سیاست و خلافت کا کوئی تصوّر نہیں ہے،اور نہ اسلام میں ا س کی کوئی ضرورت ہے،اور کچھ ائمہ تو اسی جمعہ کی تقریروں میں اسلامی سیاست کی مخالفت ،اور باطل سیاست کی حمایت کو عین دین کا تقاضہ قرار دیتے ہیں ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ائمہ باطل کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ،اور مساجد کے منبروں سے اسلام کی خدمت کرنے کی بجا ئے کفر کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ،اور اس طرح گویا وہ مساجد کی خدمت کو اپنے لئے جنّت میں پہو نچنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے دوزخ میں لیجانے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ۔
جن فقہاء کرام نے جمعہ کے خطبہ کیلئے عربی زبان کو جو ضروری قرار دیا ہے ان کے پیش نظر بھی اسلامی خلافت کے نظام کی بہتری اور اصلاح ہی رہی ہے،کیونکہ کسی بھی حکومت کے نظام کو صحیح چلانے کے لیئے ایک مخصوص زبان کی ضرورت ہوتی ہے،اور اسلامی حکومت کو چلانے کے لیئے عربی زبان ہی بہتر ہو سکتی ہے،تاکہ اسلامی حکومت کے شہری عربی زبان سے قریب ہوکر ، قرآن و حدیث کی تعلیم سے بھی قریب ہوں ،اور اسلیئے بھی کہ ہر زبان اپنے بولنے والوں پر غیر محسو س طریقہ سے ایک تاریخی ،تہذیبی اور تعلیمی اثرڈالتی ہے، اور عربی زبان اپنے بولنے والوں پر جو تاریخی ، تہذبی اور تعلیمی اثر ڈالتی ہے وہ اثر اسلام کی تاریخ ،تہذیب اور تعلیم سے بہت قریب ہے،اسلیئے کہ آنحضورﷺ کی بعثت سے لیکر آج تک عربوں کی اکثریت اسلام کے ماننے والوں پر مشتمل رہی ہے،اور آنحضورؐ سے پہلے بھی تاریخ کے ہر دور میں عربوں میں اسلام رہا ہے ،کبھی بہتر حالت میں اور کبھی بگڑی ہوئی حالت میں۔ عربی زبان کی اسی اہمیت کے پیش نظر مسلمان جب عرب سے نکل کر فاتح اور حکمراں کی حیثیت سے روم و فارس و ایران گئے تو انھوں نے جمعہ کے خطبوں کے لئے عربی زبان ہی کو منتخب کیا ، چنانچہ بہت جلد ان ممالک میں بھی عربی زبان عام ہوگئی، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جو قوم سیاسی لحاظ سے حکمراں ہوتی ہے تو اس کی زبان بھی بہت جلد دوسری زبانوں پر حکمراں بن جاتی ہے چنانچہ اسوقت انگریز قوم عالمی سطح پر حکمراں بنی ہوئی ہے۔ تو اس کی زبان بھی تمام دنیا کی زبانوں پر حکمرانی کر رہی ہے۔ اور دنیا کی تمام زبانیں ایک طرح سے اس کی غلامی کر رہی ہے۔
چنا نچہ ہندوستان جیسا ملک جہاں کے ایک فیصد شہریوں کی بھی زبان انگریزی نہیں ہے لیکن حکومت کے زیادہ تر کام اسی زبان میں انجام پاتے ہیں اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں کی تعلیم اسی زبان میں ہوتی ہے، اور عوامی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ ایک ہندی،اردو،مراٹھی بولنے والا فرد اپنے بچہ کو ہندی ،اردو،مراٹھی زبان میں مفت تعلیم دلاکر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ میں نے اپنے بچہ کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلائی، لیکن یہی فرد اپنے بچہ کو سا ل میں دس ہزار روپئے خرچ کرکے انگریزی تعلیم دلانے کو فخر سمجھتا ہے، اسی طرح معاشرہ میں تعلیم کے لحاظ سے قابل اور با صلاحیت ،ہندی ، اردو،مراٹھی میں تقریر کرنے والا شمار نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان میں تقریر کرنے والا قابل اور با صلاحیت شمار ہوتا ہے۔اسلامی حکومت جمعہ کے خطبوں اور دفتری کاموں کے ذریعہ عربی زبان کو فروغ دیکر دراصل یہ چاہتی ہے کہ انسانوں کار شتہ براہ راست اپنے خالق کی مرضی سے جڑے اور چونکہ خالق کی مرضی کو جاننے کا مستند ذریعہ قرآن و حدیث کی تعلیم ہے اور قرآن و حدیث عربی زبان میں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام دنیا کی کسی بھی زبان کے متعلق تعصب تنگ نظری اور دشمنی کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی ان پر پابندی لگانے کی بات کرتا ہے ، بلکہ اسلام تو دوسری زبانوں کے بھی سیکھنے کا حکم اور اجازت دیتا ہے تاکہ ان زبانوں میں بھی اسلام کے پیغام کو پہنچایا جا سکے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مسلمان عربی زبان کو چھوڑ کر دنیا کی تمام زبانوں کے سیکھنے کیلئے تو اسلام کا نام استعمال کرے اور صرف عربی زبان ہی کو نظر انداز کردے، یہ رویہ تو ایک طرح سے عربی زبان کے ساتھ تعصب اور تنگ نظری کا ہے۔
چنانچہ آج دنیا کے بہت سے مسلمان اسلام کا حوالہ دے کر دنیا کی تمام زبانوں اور تمام شعبوں کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اس میں مہارت پیدا کررہے ہیں لیکن ان بیچارے مسلمانوں کو پورے اسلام کے ذخیرے میں کہیں بھی قرآن و حدیث کی تعلیم کے حصول کا ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی عربی زبان کے حصول کا جواز ملا، اسلئے یہ بیچارے عصری تعلیم کے کسی شعبہ میں سائنسدانی اور پی ۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود قرآن و حدیث اور عربی زبان کی تعلیم کو اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں اور دیگر مسلمانوں کے لئے بھی حرام قرار دیتے ہیں۔
جہاں تک جمعہ کے خطبہ کی زبان کے متعلق اسلام کے موقف کی بات ہے تو اس سلسلہ میں کسی زبان کے جائز اور ناجائز ہونے کی بحث ہی سرے سے غلط ہے کیونکہ خطبہ کی زبان کا تعلق براہ راست اسلامی اور انسانی نظم سے ہے اور حالات و مواقع کے لحاظ سے نظم میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے، البتہ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیم کے لحاظ سے بہتر بلکہ لازم ہے کہ جن ممالک میں مسلمان سیاسی لحاظ سے حکمراں ہوں تو ان ممالک میں جمعہ کے دونوں خطبے قرآن و حدیث کی روشنی میں عربی زبان ہی میں دیئے جائیں، اور جہاں تک خطبہ کے ایک اہم مقصد مسلمانوں کی تعلیم و تذکیر کی بات ہے تو شروع میں اگر تمام مسلمان عربی زبان نہ سمجھتے ہوں ،تو چونکہ یہ خطاب حکومت کے ایک اہم عہدیدار کا ہے تو وہ بہت جلد عربی زبان سیکھ بھی لیں گے اور سمجھنے بھی لگیں گے۔مثلاً ہندوستان کا سب سے بڑا سیاسی عہدیدار یعنی وزیر اعظم ہر ہفتہ پابندی سے تمام ہندوستانیوں سے صرف عربی زبان میں خطاب کرے جس میں حکومت کی پالیسی کا تذکرہ ہو تو صرف ایک سال کی مدت میں ہزاروں ہندوستانی عربی زبان کو سمجھنے والے ہو جائیں گے اور پھر مسلمان جس ملک میں سیاسی طور پر حکمراں ہوں گے ظاہر ہے وہاں حکومت کے دفتری کاموں اور تعلیمی اداروں کے ذریعہ بھی عربی زبان کو فروغ دیا جائے گا۔ دورِ نبوی کے فوراً بعد مسلمان عرب سے باہر جہاں بھی گئے سیاسی حکمراں اور فاتح کی حیثیت سے گئے لہذا انہوں نے اسلامی اور انسانی نظم کی خاطران غیر عربی ممالک میں بھی جمعہ کے خطبوں کے لئے عربی زبان ہی کو استعمال کیا چنانچہ بہت تھوڑی مدت میں عربی زبان دوسری تمام زبانوں پر غالب آگئی۔ البتہ جن ممالک میں مسلمان سیاسی طور پر حکمراں نہیں ہے اور وہاں کے عام مسلمان عربی زبان کو سمجھتے بھی نہیں ہے جیسے ہندوستان تو یہاں بہتر ہے کہ پہلے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیات اور احادیث پڑھ کر مقتدیوں کی زبان میں تعلیم و تذکیر کردی جائے ، لیکن دوسرا خطبہ لازماً عربی ہی میں دیا جائے۔
—–