اولیا اللہ
چراغ چشت
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
کفر اوربت پرستی میں غرق ہزاروں سال پرانی تہذیب کا وجود خطرے میں پڑ چکاتھا ‘ذات پا ت میں منقسم بلند و بالا عما رت زمین بو س ہو نے جا رہی تھی ‘ہر طا قتور اور چمکتی چیز کو خدا کا اوتا ر سمجھنے والوں کو نورِ ایمانی میں رنگنے والا آن پہنچا تھا ‘تارہ گڑھ کی پہا ڑیوں ‘اجمیر شہر میں ایسا چراغ چشت روشن ہو چکا تھا جس کے اجالے نے قیامت تک کروڑوں اندھوں کو معرفت الٰہی کی روشنی دینی تھی –
نسلِ انسانی کے ایسے عظیم بزرگ نے یہاں آکر ڈیرہ جمایا تھا جس نے روز محشر تک انسانوں کے دلوں پرراج کرنا تھا ‘دھرتی کا واحد مزار پر انوارِ جہاں پر مسلمان تو مسلمان غیرمسلم بھی سکون اور روشنی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ‘ایسا مزار جہاں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کی تعداد دن رات دامنِ مراد پھیلا ئے نظر آتی ہے ‘شہنشاہِ چشت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے یہاں آتے ہی آسمان پر ہلچل مچی ہوئی تھی ‘علم نجوم کے ماہرین کسی بڑے انقلاب کی نوید سنا رہے تھے ‘نسلِ انسانی کا ایسا عظیم انسان کہ مخفی قوتیں غلاموں کی طرح اُس کے سامنے نظر جھکائے کھڑی تھیں ‘شاہِ چشت ؒ نے آکر ڈیرہ ڈالا تو نور اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا جو بھی آپ ؒ کے پاس آتا آپ کا پر انوار چہرہ مبا رک دیکھ کر پکار اُٹھتا کہ یہ جو بھی کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے آپ ؒ کے چہر ے پر پھیلا دلنواز تبسم آنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ‘آپ کی شہرت تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی پھر قدرت نے اہل علاقہ کو آپ ؒ کا مقام دکھانے کا فیصلہ کیا ‘خوا جہ معین پاک ؒ نے آکر شہر سے باہر قیام کیا جہاں پر آپ ؒ نے قیام کیا وہ بادشاہ پرتھوی راج کے اونٹوں کی جگہ تھی ‘جہاں پر راجہ کے اونٹ آرام کرتے تھے ‘آپ ؒ کو وہاں دیکھ کر حکومتی اہلکار تیزی سے آپ ؒ کے پاس آئے اور غصیلے لہجے میں بولے آپ ؒ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں ‘آپ ؒ نہیں جانتے یہ راجہ کے اونٹوں کی جگہ ہے اِس جگہ کو کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا ‘شاہِ چشت ؒ شیریں لہجے میں بولے یہ خدا کی جگہ ہے میں آرام کی غرض سے بیٹھ گیاہوں ‘میدان بہت بڑا ہے میری وجہ سے کم نہیں ہو جائے گا آپ ؒ راجہ کے اونٹوں کو بھی بٹھالیں لیکن حکومتی کارندوں کا لہجہ سخت ہوتا جا رہا تھا ‘آخرکار خواجہ چشت ؒ اٹھ کھڑے ہو ئے لیکن جا تے جا تے یہ کہہ گئے کہ میں اُٹھ کر جا رہا ہوں لیکن اب جو بھی یہاں آکر بیٹھے گا وہ پھر نہیں اٹھے گا ‘ساربانوں نے درویش باکمال کی باتوں کا مذاق اڑایا اور قہقہے لگا تے رہے ۔ خواجہ پاک ؒ کے جانے کے بعد راجہ کے اونٹ وہاں آکر بیٹھنا شروع ہوگئے تاکہ رات گزارسکیں ۔ اگلے دن حسبِ معمول ساربان آئے اور اونٹوں کو اٹھانا چاہا لیکن اونٹوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ‘اٹھنا تو درکنار اونٹوں میں جنبش تک نہیں ہو رہی تھی ‘اونٹوں کی بے حسی سے لگ رہا تھا جیسے زمین نے اُنہیں جکڑ لیا ہو اب ساربانوں نے اونٹوں پر کوڑے برسانا شروع کردئیے ‘اونٹوں نے اٹھنے سے انکار کردیا اب حکومتی کارندوں کو درویش کی بات یاد آئی تو گھبرا کر راجہ کے پاس جاکر سارا واقعہ سنا دیا ‘بادشاہ گہری سوچ میں پڑگیا اور کارندوں سے بو لا جاؤ جا کر اُس سادھو سے معافی مانگو‘ اِسی دوران اہل علاقہ بھی اس واقعے سے واقف ہو چکے تھے ‘اب ساربان واپس آئے اور خواجہ پاک ؒ کو ڈھونڈنا شروع کیا تو آپ کو انا ساگر تالاب کے کنارے درخت کے نیچے آرام کر تے دیکھا ‘آکر معافی مانگی رحم دل فقیر نے معاف کیا اورکہا جاؤ اب زمین تمہارے اونٹوں کو چھوڑ دے گی اور پھر اجمیر کے باسیوں نے عجیب منظر دیکھا جو اونٹ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے ‘خواجہ پاک ؒ کی اجازت کے بعد آسانی سے اُٹھ گئے اہل اجمیر حیران تھے کہ جانور بھی درویش کی بات مانتے ہیں ‘علاقے میں یہ کرامت آگ کی طرح پھیل گئی کہ بہت بڑا جادوگر آگیا ہے اب لوگ قافلوں کی صورت میں آکر شاہ اجمیر ؒ کو دیکھنے لگے وہ تو کسی جادوگر کو دیکھنے آتے تھے لیکن یہاں تو دلنواز تبسم اور روشن چہرے کے ساتھ اللہ کا بندہ تھا جس کے لہجے کی
مٹھاس سے لوگ گھائل ہو رہے تھے ‘ایک مقناطیسی کشش تھی جس کی کشش میں لو گ دیوانہ وار شاہ چشت ؒ کے قریب آرہے تھے آپ ؒ کے دیوانوں کی تعداد بڑھنے لگی ‘لوگ نفرت کے ساتھ آتے لیکن نگا ہِ درویش پڑتے ہی اپنے سر زمین پر رکھ کر اقرار غلامی کرتے‘ مندروں میں کہرام مچ گیا پنڈت برہمن آگ بگولا ہو رہے تھے براہمنوں پنڈتوں نے مسلمان ہونے والے راجپوتوں کو اکٹھا کیا اور پوچھا تم نے اُس فقیر میں کیا دیکھا جو صدیوں پرانے دھرم سے مکر گئے ہو ‘نو مسلموں کا ایک ہی جواب تھا وہ روشن چہرے والا جھوٹ نہیں بولتا ‘ہمارے دل گواہی دیتے ہیں کہ وہ سچا ہے وہ حقیقی ہمدرد ہے ‘ برہمنوں نے جب دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہے تو پہلے انہیں دولت کی پیشکش کی پھر برادری سے خارج کرنے کی دھمکی دی لیکن ایمان کے چراغ جہاں جل جائیں وہاں پر کفر کا زنگ کیسے رہ سکتا ہے ‘پھر سزاکے طور پر اِن نو مسلموں کو برادری سے خارج کر دیا گیا ‘اب یہ نو مسلم شاہ اجمیر کے در پرآ گئے‘ دن بدن مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے راجہ پرتھوی نے سخت حکم جاری کیا کہ درویش اور اُس کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو تا کہ پیاس کی وجہ سے علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں اب جب شہنشاہِ چشت ؒ کے مرید وضو کے لیے انا ساگر تالاب پر پانی لینے گئے تو وہاں پر پہلے سے حکومتی اہلکاروں کو پہرہ دیتے دیکھا ‘انہوں نے خواجہ جی کے غلاموں کو حکم دیا کہ اب تم اِس تالاب سے پانی نہیں لے سکتے تم لوگ ناپاک ہو تمہارے چھونے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے اِس لیے اب تم پانی کسی اور جگہ سے لیا کرو‘ مریدین نے کہا پانی تو جانوروں پر بھی بند نہیں کرتے تو کارندے بو لے تم جانوروں سے بھی برے ہو ‘تم کو پانی نہیں
ملے گا مریدوں نے آکر شاہ چشت ؒ کو بتایا کچھ دیر سوچنے کے بعد آپ ؒ نے اپنے خادم کو کہا جاؤ اور اُن سے کہو آج ایک پیالہ پانی دے دو آئندہ ہم اپنا انتظام کرلیں گے پھر خادم کو اپنی اطراف آتا دیکھ کر حکومتی کارندے تحقیر ٓامیز لہجے میں قہقہے لگا نے لگے وہ مسلمانوں کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ بے بسی کا شکار تو وہ خود ہونے والے تھے ‘خادم نے کہا آج ایک پیالہ پانی دے دیں تو کارندے حقارت سے بولے آج ایک پیالہ لے جاؤ لیکن آج کے بعد تمہیں ایک قطرہ پانی کی بھی اجازت نہیں ملے گی ‘اہل علاقہ بھی یہ منتظر دیکھنے کے لیے جمع تھے ‘پھر خادم آگے بڑھا اور جا کر تالاب سے ایک پیالہ پانی بھر لیا لیکن پھر کارندوں اور لوگوں نے جو منظر دیکھا اُسے دیکھ کر سب کی سانسیں رک چکی تھیں آنکھیں پتھرا چکی تھیں حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے ‘خادم نے پیالہ کیا بھرا کہ سارے تالاب کا پانی پیالے میں آگیا تھا ‘تالاب میں اب ایک قطرہ پانی بھی مو جود نہیں تھا فوجیوں پر دہشت طاری ہوگئی خوف کے مارے وہاں سے بھاگ گئے شاہ اجمیرؒ کے روحانی تصرف سے پورا تالاب ایک پیالے میں سما گیا تھا ۔