ایک سے زائد شادی پر پابندی
زنا کی دعوت اورفطرت سے بغاوت
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
اسلام کا نظام حیات اور دستورزندگی فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے ، انسانی طبیعت کی اس میں مکمل رعایت کی گئی ہے ۔لیکن آج اسلام کے نظام فطرت کو چیلنج کیا جارہا ہے ،اس پر شکوک و شبہات اور اعتراضات کئے جارہے ہیں اور طاقت کے زور کے پر اس نظام پر زندگی گزارنے کو فرسودہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے-
ہندوستان میں ایک مخصوص گروہ و افراد کی جانب سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کو ڈ نافذ کردیا جائے ،ان حضرات کو حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے ،بلکہ حکومت ان کے اشارے پر کام کررہی ہے، اس وقت مسلم پرسنل لا کو مختلف جہتوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے، حال ہی میں طلاق کا مسئلہ موضوع بحث تھا اور ا بھی یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا کہ تعدد ازداج کا مسئلہ اٹھا دیا گیا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تعدد ازدواج کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے ، میں یہاں چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت طاقت کے نشے میں مسلم پرسنل لا ختم کرسکتی ہے لیکن یہ باور کرانا کہ اسلام کا یہ نظام غلط تھا اس کی وجہ سے عورتوں پر ظلم ہورہا ہے اس کو ثابت کرپانا بہت مشکل ہے ،کوئی بھی انصاف پسند اس کو ثابت نہیں کرسکتا ہے، اگر ملک کی عدالت کے ذریعہ یہ کام انجام پاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں عوام کی اکثریت و اقلیت ہر دو کا اعتماد عدالت سے اٹھ جائے گا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کا نظام تعددازدواج انسانی فطرت پر قائم ہے ،یہی وجہ ہے کہ کثرت ازدواج کا یہ نظام تمام مذاہب میں رہا ہے اور حضرات انبیا ء سے بھی متعدد شادیاں کرنا ثابت ہے، حضرت ابراھیم ، حضر ت موسی علیہما السلام نے دو دوشادیاں کیں اور ایک روایت کے مطابق چار چار شادیاں کیں ،حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے نوے یا نناوے شادیاں کیں ، حضرت داؤد نے متعدد شادیا ں کیں ، ہندوستان میں بھی ہندو راجاؤں اور مذہبی پیشواؤں نے متعدد شادیاں کیں ، شری رام چندر جی کے والد راجہ وسرتھ کی تین بیویاں تھیں (۱) رانی کوشیلیا جو سری رام جی کی والدہ تھیں (۲)رانی سمترا جو سری رام چندرکی والدہ تھیں ،رانی کیکئی جو بھرت جی کی والدہ تھیں (سیرت نبوی کا ازدواجی پہلو ،ماہنامہ السراج ،جلد ۳شمارہ ۳ ص:۲۱)سری کرشن جی کی اٹھارہ بیویاں تھیں، راجہ پانڈو کی دو بیویاں تھیں ۔ اسلام سے پہلے مشرکین مکہ میں کثرت ازدواج کا رواج تھا ، حضرت غیلان ثقفی نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے نکاح میں دس بیویاں تھیں آپ ﷺنے فرمایا چار کو منتخب کرلو باقی کو طلاق کو طلاق دے دو ۔مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت ازدواج تمام مذاہب کی مشترکہ وراثت ہے ۔
اسلام نے کثرت ازدواج کی اگرچہ اجازت دی ہے لیکن اس میں حدود و قیود متعین کی ہیں کہ صرف چار سے نکاح کرسکتے ہو وہ بھی عدل کی شرط کے ساتھ ، غور کیا جائے تو اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں ،سروے سے معلوم ہوتا ہے مرد کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے یا تو اس لیے کہ عورتوں کی شرح پیدائش ہی زیادہ ہے یا یہ کہا جائے کہ دو نوں کی شرح پیدائش برابر ہے ،لیکن مرنے کی تعداد مردوں میں زیادہ ہے ؛اس لیے کہ جنگوں میں صرف مرد حضرات مرتے ہیں جنگ عظیم اول (۱۹۱۴ء)میں اسّی لاکھ لوگ فوجی کام آئے تھے، آج بھی فوج میں عام طور پر مرد حضرات ہوتے ہیں اور وہی مرتے ہیں، اسی طرح حادثاتی اور ٹریفک نظام میں مرنے والوں کی بڑی تعداد مرد وں کی ہوتی ہے، اب اگر ہر مرد ایک شادی کرے گا تویقینی طور پر تمام عورتوں کی شادی نہیں پائے گی توپھر ان کی جنسی خواہشات کی تکمیل کہاں سے ہوگی ، اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت کس طرح ہوگی ، اس طرح لازمی طور پر اباحیت ، زنا ، جسم پروشی اور جنسی بے راہ روی کا بازار گرم ہوگا اور ان چیزوں کو بڑھاوا ملے گا ۔یہی وجہ ہے جس سماج میں ایک سے زائد شادی پر پابندی ہے یاایک شادی ہی مشکل ہے وہاں زنا کی کثرت ہوتی ہے، خود ہندوستان کے اندرلیو اینڈ ریلیشن شپ (Live and Relation Ship)کی اجازت ہے یعنی ایک مرد کئی عورتو ں کے ساتھ اس کی رضامندی سے بغیر شادی کے اس کے ساتھ رہ سکتا ہے اور یہ قانونی طور پر جائز ہے جب کہ اسلام میں یہ صورت حرام ہے اور اسے زنا قرار دیا جائے گا، تعدد ازدواج پر پابندی در حقیقت اسی کلچر فروغ دینے کی کوشش ہے۔ ذرا سوچئے نکاح کے ذریعہ سے ایک عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت ہوتی ہے ،اس کے نان نفقہ کا انتظام ہوتا ہے، اب اگر کسی ملک میں بیس لاکھ عورتوں کو یوں ہی بے نکاح کے چھوڑ دیاجائے گا تو اس کی عفت و عصمت کی حفاظت اور اس کے نان و نفقہ کا ذمہ دار کون ہوگا ۔
بہت ساری عورتیں بانجھ ہوتی ہیں، بچہ پیدا کرنے کی اس کے اند ر صلاحیت نہیں ہوتی ہیں ، اسی طرح بہت ساری عورتیں مہلک اور لا علاج بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں اس کے اندر جنسی خواہش نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ مرد کی ضرورت پوری کرسکتی ہے، ہرمرد کو شادی کے بعد بچے کی خواہش ہوتی ہے، اب دو صورت رہ جاتی ہے یا تو اس عورت کو طلاق دے کردوسری عورت سے شادی کرلے جو اس کی جنسی تسکین کا سامان بھی بہم پہنچائے اور اور اولاد کی خواہش پوری کرے ،دوسری صورت یہ ہے کہ اس کمزور اور ناتواں عورت کو نکاح میں رکھتے ہوئے دوسری شادی کرلے تاکہ مرد کی ضرورت بھی پوری ہوجائے اور عورت بھی بے سہارا نہ ہو۔ آپ ہی بتائیے! اس میں کون سی صورت بہتراور انصاف کے مطابق ہے، طلاق دینا یہ دوسری شادی کرنا ؟
بعض مرتبہ مرد کے اندر شہوانی قوت زیادہ ہوتی ہے عورت کو اعذار پیش آتے رہتے ہیں ہر مہینہ پانچ سے دس دن ماہ واری آتی ہے ، ولادت کے ایام آتے ہیں، زچگی اور نفاس کی مدت ہوتی ہے، جس میں جنسی ضرورت کی تکمیل نہیں ہوسکتی ہے ،اب اس وقت وہ مرد کیا کرے گا اگر اسے دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ زنا کے راستے پر چلا جائے گااورحرام کاری میں مبتلا ہو جائے گا؛ کیوں جب حلال متبادل نہیں ہوتا ہے تو انسان حرام متبادل میں لگ جاتا ہے۔
بعض مرتبہ آدمی کے پاس پیسے بہت ہوتے ہیں اور اس کے خاندان میں بعض عورتیں بیوہ یا مطلقہ بے سہارہ ہوتی ہیں اب اگر یہ دوسری یا تیسری شادی کرکے اپنے خاندان کی بعض عورتوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کرلے اور اس کا سہارا بن کر اس کی معاشی زندگی کو ٹھیک کردے تو بتائیے کہ اس میں عورتوں پر کون سا ظلم ہوگیا ؟
بہت سی عورتوں کو طلاق ہوجاتی ہے یا اس کے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے اور وہ بے سہارا کس مپرسی کی زندگی گزارتی ہیں اگر ایک ہی شادی کرنی ہو تو ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ پہلی شادی کنواری سے کروں اس صورت میں بیوہ اورسماج میں موجود بے سہارا مطلقہ کا انتظام کہاں سے ہوگا ،اس کی عفت کی حفاظت کون کرے گا جب کہ حدیث میں مطلقہ و بیوہ سے شادی کی ترغیب دی گئی ہے خود آپ ﷺ نے بیوہ سے شادی کرکے اس سنت کو جاری فرمایا ہے لیکن ایک شادی کرنے کی صورت میں اس سنت کا احیا ء نہیں ہوسکتا ہے اس لیے کہ ہر شخص پہلی شادی کنواری سے کرنا پسند کرتا ہے ۔
مذکورہ حکمتوں سے معلوم ہوا کہ ایک سے زائد شادی پر پابندی عائد کرنا درحقیقت فطرت سے بغاوت کرنا ہے اور زناکی دعوت دینا ہے ، حرام کاری اور بے حیائی کو بڑھاوا دینا ہے انہی حکمتوں کی وجہ سے اسلام نے ایک سے زائد شادی کی اجازت دی ہے اوران تمام بیویوں کے ساتھ انصاف اور برابری کوشرط قرار دیا ہے اور اگر کوئی ان عورتوں کے ساتھ انصاف اور برابری نہیں کر سکتا ہے تو اس کے لیے ایک سے زائد شادی کرنا حرام ناجائز ہے۔ اس جگہ ہمیں اپنے سماج کی صورت حال کا جائزہ لینا ضروری ہے بعض مرتبہ ایک شخص ایک سے زائد شادی کرتا ہے اورسماج کے لعن و طعن سے بچنے کے لیے شریعت کا حوالہ بھی دیتاہے کہ اسلام میں دو شادی کرنا جائز ہے ، یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ شریعت نے اجازت دی ہے لیکن شریعت نے سا تھ میں عدل کی قید لگائی ہے، آپ ﷺنے پوری زندگی بیویوں کے درمیان انصاف اور برابر ی قائم کرکے امت کو عدل و مساوات کی تعلیم دی ہے ،آپ ﷺ جب سفر میں جاتے تو قرعہ اندازی کرتے اور اور ازواج مطہرات میں جن کانام نکلتا ان کو اپنے ساتھ سفرمیں لے جاتے ،حالاں کہ علماء نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کے لیے ازواجات مطہرات کے درمیان باری اور برابری واجب نہیں تھی لیکن امت کی تربیت کے لیے آپ ﷺ ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے اور برابری نہ کرنے والوں پر آپ نے وعید فر مائی کہ جو شحص بیویوں کے درمیان عدل و انصاف نہیں کرتا ہے وہ کل قیامت میں اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا ،آج ہمیں سماج پر اس اعتبار سے بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور اپنا گریبان بھی جھانکنے کی ضرورت ہے ،اگر چہ ہمارے یہاں دوسری ،تیسری شادی کا رواج نہیں ہے اوراگر تناسب نکالا جائے تو دو سے تین فیصد ایسے لوگ ملیں گے جو ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ بھی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کرپاتے ہیں کبھی تو ایسا ہوتا ہے پہلی بیوی تو اپنے موروثی گھر میں رہتی ہے اور نئی بیوی کرایہ کے مکان میں رہتی ہے اور شوہر پرانی بیوی کے پاس مستقل رہتا ہے اور نئی بیوی کے پاس ہفتے میں ایک دن چلا جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نئی بیوی کو توبہت عزت و احترام سے رکھا جاتا ہے اور پہلی والی کو اس کے میکے چلتا کر دیا جاتا ہے یہ سب ظلم و انصافی کی مثالیں ہیں اسی طرح نفقہ دینے میں بھی دونوں کے درمیان فرق کیا جاتاہے حالاں کہ نفقہ،سکنی اور رات گزارنے میں برابری کرنا واجب ہے البتہ صحبت او رمحبت ان دو چیزوں میں برابری ضروری نہیں ہے اس لیے کہ محبت کا تعلق دل کے میلان سے ہے اور دل انسان کے اپنے قدرت میں نہیں ہے، دل کسی کی طرف زیادہ مائل ہوسکتا ہے جیسا خود نبی کریم ﷺ کو ازواج مطہرات میں حضر ت عائشہ سے زیادہ محبت تھی اسی طرح صحبت کا تعلق طبیعت کی نشاط سے ہوتاہے ہو سکتا ہے کہ ایک دن طبیعت میں نشاط ہو اور دوسرے دن نشاط نہ ہو اس لیے صحبت و جماع میں برابری ضروری نہیں ہے اس کے علاوہ تمام چیزوں میں برابر ی وانصاف ضروری ہے ۔
تعدد ازدواج کے تعلق سے ہمیں دونوں پہلو پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے حکومت اور عدالتوں کو اسلام کے نظام ازدواج کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہئے اور اسلام کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اس لیے کہ ضرورت کے وقت تعدد ازدواج سے روکنا زنا اور بے حیائی کے دروازے کو کھول دے گا اور مسلمان اپنی شریعت سے دور معصیت میں مبتلاہوکر اپنی آخرت کو تباہ کرلیں گے یہ مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور عدالت کا منصفانہ رویہ نہیں کہلائے گا ۔دوسری طرف مسلم سماج کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک سے زائد شادی کرنے کی ضرورت ہو اور انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے کی طاقت ہواور برابری کا رویہ اختیار کرسکتا ہو تو دوسرا نکاح کرنا چاہئے اور کر لینے کے بعد انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ۔