رونق ادب – مصنف : ڈاکٹر عزیز سہیل :- مبصر: سیدمحمودالحسن ہاشمی

Share


رپورتاژ کا مجموعہ
رونق ادب

مصنف : ڈاکٹرمحمد عبدالعزیز سہیل،نظام آباد

مبصر: سیدمحمودالحسن ہاشمی،حیدرآباد

پچھلے چند سالوں سے حیدرآباد اور تلنگانہ کے ادبی افق پر جو ادیب اور شاعروں کے مانند ضوفگن نظرآرہے ہیں ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹرمحمدعبدالعزیزسہیل کا ہے جنہیں زیرتبصرہ کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے ’’ایک ہمہ وقتی قلمکارقراردیا ہے‘‘۔ انہوں نے نہایت کم وقت میں چھ سات کتابیں لکھ ڈالی ہیں ۔ وہ نظام آباد کے متولد ہیں مگر تلنگانہ کے طول وعرض میں متحرک نظرآتے ہیں ۔اب توایسا لگتا ہے کہ ان کی ادبی سرگرمیاں تلنگانہ تک محدود نہیں رہیں بلکہ مہاراشٹرا کے علاقہ کوکن ،ٹاملناڈو کے صدر مقام چنئی (مدراس)تک وسیع ہوگئی ہیں جہاں بین الاقوامی سمینار میں انہو ں نے حال ہی میں شرکت کی ہے۔

ڈاکٹرفضل اللہ مکرم نے اس نوجوان قلمکار کے بارے میں اپنی رائے کا یوں اظہار کیا ہے:
’’ڈاکٹرعزیز سہیل نے ہمیشہ نوجوان نسل کومد نظر رکھ کر ہی قلم اٹھایا ہے ۔ رونق ادب اس کی بہترین مثال ہے ۔ آپ نے کم وبیش چوبیس تقاریب میں شرکت کی او ررپوتارتاژ لکھیں۔ آپ کی تحریر ہمیشہ سے سادہ وسلیس زبان میں ہوتی ہے اوربیان میں کوئی الجھاؤ یا ابہام نہیں ہے۔ بات دل سے نکلتی ہے اور پڑھنے والے کے دل میں اُترتی ہے‘‘۔
اردومیں ادب وصحافت کی یہ مشترکہ صنف‘ رپورتاژ Reportageجس کے گیسوابھی مِنّت پذیر شانہ ہیں ‘میں لکھی گئی یہ کتاب ’’رونق ادب ‘‘اپنے موضوع پر شائع ہونے والی کتابو ں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ بالخصوص اس میں شامل دومضمون(۱) اردو میں رپورتاژ نگاری کا فن :آغاز وارتقاء اور (۲)رپورتاژ نگاری میں خواتین قلمکاروں کی خدمات بے حدمعلوماتی اور دقیع ہیں۔ اردوکے صحافی اورادیب جوابھی رپورتاژ نگاری کے میدان میں اترے ہیں وہ سب اس سے استفادہ کرسکتے ہیں اوراچھے رپورتاژ نگاربن سکتے ہیں۔
رونق ادب کے پیش لفظ میں ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے مصنف کو بجا طورپر ادبی چاشنی سے بھرپوررپورتاژ لکھتے رہنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ ا ن کی تحریریں نئی نسل کو اردو محافل سے جوڑتی رہیں۔
دوسری جانب نظام آباد ہی کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر وادیب واحدنظام آبادیؔ نے ڈاکٹرسہیل کی ستائش کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:
’’ڈاکٹر عزیز سہیل نے اردو کے اس ناسازگار دورمیں رپورتاژ جیسی غیرافسانوی صنف ادب پرتحقیق اوراس کے عمدہ نمونوں کوزیر نظرمجموعہ میں شامل کیا ہے جوقابل قدر بات ہے‘‘اوراس امید کااظہار کیا ہے کہ اہل ادب اس مجموعے کا کھلے دل سے استقبال کریں گے۔
بعدازاں مصنف نے اپنی بات کے زیر عنوان اپنا اوراپنی کتابوں اوربالخصوص زیرتبصرہ کتاب کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ آج کل رپورتاژ کی قرأت سے لوگ بے اعتنائی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی وجہ انہوں نے وقت کی قلت کوقراردیا ہے۔ دوسرے یہ کہ موجودہ رپورتاژوں میں دلچسپ بیاں کی کمی بھی ہوسکتی ہے ۔مصنف کے اس اعتراف کی روشنی میں اردوادیبوں کواس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ دلچسپ سے دلچسپ تر رپورتاژ رقم کریں تاکہ قارئین کی دلچسپی اس صنف ادب میں برقرار رہے۔
اپنے مضمون میں رپورتاژ نگاری میں خواتین قلمکاروں کی خدمات قرۃ العین حیدرکے خصوصی حوالے سے‘میں کئی خواتین کے اثرانگیز اورمقبول عام رپورتاژوں کا جائزۃ لیا ہے اوران کے محاسن کی نشان دہی کی ہے جوایک دلچسپ مضمون ہے جس سے رپورتاژ کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے ادیبو ں نے اسے کسی بلندی تک پہنچایاتھا۔
بعدازاں حصہ رپورتاژ میں کل24رپورتاژ ہیں جو بیشتر اردوادبی موضوعات پرہیں ان میں باقی دیگرموضوعات جیسے سماجی علوم کی اہمیت‘ مسائل اورامکانات سماجیات سے اور شاہان آصفیہ کی رواداری اور ہند ومسلم روایات‘تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔
رونق ادب میں یوں تواکثر رپورتاژ قدر تفصیلی ہیں اور مصنف نے سمیناروں کی کاروائیوں اور مباحث کو تشفی بخش انداز میں قارئین کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے لیکن بعض رپورتاژ بڑے اختصار کے شکار نظرآتے ہیں اوران کے قاری کوتشنگی کااحساس رہتا ہے جیسے ایک روزہ بین الاقوامی سمینار : علامہ اقبالؔ اور فلسیانہ فکر ۔یہاں رپورتاژ نگاروں کویہ مشورہ دینا بے محل نہ ہوگا کہ اگررپورتاژ میں ذرا سی بھی خشکی درآئے اوراس کی رنگینی جاتی رہے تو وہ رپورٹ بن کررہ جاتی ہے اوراس کی ادبی قدر وقیمت جاتی رہتی ہے۔
ان چند باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دیکھیں توآصف سابع میر عثمان علی خان بہادر کی ادبی خدمات یادگارلیکچر ایک کامیاب رپورتاژ لگتا ہے۔ اسی طرح اکیسویں صدی میں اردو ادب‘چیلنجز اوران کا حل ‘بھی ایک اچھے رپورتاژ کے خصائص اپنے اندر رکھتا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ مصنف آئندہ ایسے ہی بہتر سے بہتر رپورتاژ لکھیں گے۔
اس کتاب میں بعض باتیں تاریخی اعتبار سے کھٹکتی ہیں جیسے عبدالعزیز سہیل نے کہیں یہ لکھا ہے کہ ریلوے لائن ریاست حیدرآباد میں1930ء میں بچھائی گئی تھی (ص 37) حالانکہ غالباً سابق ریاست حیدرآباد میں انیسویں صدی ہی میں1880‘ 1885کے لگ بھگ ریلوے لائن آگئی تھی۔ اسی طرح اکثرجگہ مصنف نے کئی الفاظ انگریزی ہی میں لکھے ہیں جیسے اسکالر کی جمع اسکالروں کے بجائے اسکالرس لکھا ہے۔ انگریزی وژن جمع اہل زبان کے کانوں پر ثقیل لگتا ہے۔ اس لیے بہترتویہ ہوتا کہ وہ اسکالروں لکھتے یا اس کا اردومتبادل فاضلین یا فضلاء لکھتے جب تک ناگزیر نہ ہوجائے ہمیں انگریزی الفاظ کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے۔
مصنف نے اپنی کتاب ’’رونق ادب‘‘ کوڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم‘ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی ‘ڈاکٹرمحسن جلگانوی اور مضطرمجاز جیسے اساطین ادب کے نام معنون کیا ہے۔
رونق ادب (رپورتاژکا مجموعہ) کو قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی کے تعاون عملی سے ایجوکیشنل پبلیشکنگ ہاؤس دہلی ۔۶ نے شائع کی ہے۔
—-

محمودالحسن ہاشمی
Share
Share
Share