ہماری درس گاہیں اور ہم
محمد قمر سلیم
موبائل: 09322645061
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیّہ اسلامیہ، انجمنِ اسلام مسلمانوں کی چند ایسی قومی درسگاہیں ہیں جن کے بانیوں نے انھیں قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے قایم کیا تھا۔ قوم و ملت کے درد ، غربت، جہالت کے خاتمے اور ان کی ترقی کے جذبے سے سرشار ان قوم پرستوں نے اپنا تن ، من،دھن ، وقت سب کچھ نچھاور کر دیا۔
اِن کے بانی ہی ان کے انتظامیہ تھے اور وہی اساتذہ۔ بنا پیسہ کوڑی لیے قوم کی فلاح میں لگ گئے بلکہ اپنے پاس بھی جو کچھ تھا وہ بھی ان اداروں پر خرچ کر دیا اور قوم کو ایسے ادارے دے گئے جو رہتی دنیا تک قوم کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ ہندوستان آزاد ہوا اور کچھ سالوں میں ہی قوم کے نام پر اداروں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور ہر گلی کوچے میں ایک ادارہ کھل گیا اور ان نام نہاد قوم و ملت کے رکھوالوں نے ملت کے نام پر کاروبار شروع کر دیا جب ہی تو اتنے ادارے ہونے کے باوجود مسلمان آج بھی پستی کی زندگی جی رہا ہے ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ ہمارے سامنے ہے ۔ مسلمانو ں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے۔ کتنے طلبا ہیں جو ان اداروں میں مفت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، اور کتنے ادارے ایسے ہیں جہاں ان طلبا کے لیے اسکالر شپ کے انتظامات ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تو حال ہی برا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قوم کے ان اداروں کے منتظمیں کے لیے یہ ادارے status symbols بن گئے ہیں۔آپ جس سے بھی بات کریں وہ اپنے دل میں قوم و ملت کا درد لیے پھرتا ہے ۔
ہم جب ملت کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف طلبا ہی نہیں آتے ہیں بلکہ ان کے غریب اور لاچار والدین اور وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو ان اداروں میں درس و تدریس کا کام کر رہے ہیں۔ہم بہت آسانی سے تعلیم کے معیا ر کی پستی کا سارا الزام اساتذہ کے سر تھوپ دیتے ہیں جو سراسر غلط ہے ۔ اس پستی کے لیے ہم اساتذہ کو پوری طرح ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتے ۔ اساتذہ کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔نہ جانے کتنے ایسے قابل اساتذہ ہیں جو کتنی مجبوریوں کے ساتھ چند پیسوں کی خاطر نوکریاں کر رہے ہیں ۔آج کے نام نہاد قوم پرست منتظمین صرف اپنی تعظیم کے لیے بھوکے رہتے ہیں یعنی ایک طرف اساتذہ کے پیٹ پر لات مارتے ہیں دوسرے ہر دم ان کو اپنی تعظیم بجانے کے لیے بھی مجبور کرتے ہیں۔
کیا عظیم ہستی تھی ہمارے ملک کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی، جو صدر رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ’ہز ایکسیلینسی ‘ کہنے پر اعتراض کرتے تھے۔ ہمارے اداروں میں اساتذہ کو کم پیسوں پر رکھا جاتا ہے اتنے پیسوں پر کہ منتظمین کے ایک دن کا خرچ ہوگا اور ان بیچاروں کو اتنے پیسوں میں پورا مہینہ گذارنا ہوتا ہے ۔ ستم تو یہ کہ یہ تنخواہ بھی انتظامیہ کو زیادہ لگتی ہے ، ستم بالائے ستم اس معمولی تنخواہ کی ادائیگی بھی انتظامیہ کی مرضی پر ہوتی ہے یعنی وہ بھی وقت پر نہیں ملتی۔ بات یہیں تک نہیں رہتی تقرر بھی صرف آٹھ سے دس مہینے کے لئے دیا جاتا ہے اب ان ملت کا دم بھرنے والے لوگوں سے یہ کون پوچھے کہ باقی کے مہینوں میں یہ اساتذہ کیا کریں؟مجھے یاد ہے جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اس وقت کے جامعہ کے وائس چانسلر انور جمال قدوائی صاحب ،جو کہ کمیونسٹ تھے، دورہ کرتے ہوئے جامعہ کی جامع مسجد پہنچ گئے اور وہاں بیٹھ کر امام سلیمان صاحب کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھتے رہے جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو قدوائی صاحب نے انھیں اپنے پاس بلایا اور پوچھا کتنا پیسا ملتا ہے؟ غالباً اس وقت امام صاحب کو ۵۰۰۔۶۰۰ روپے ملتے تھے اور ان کیچار یا پانچ بچے تھے ۔ قدوائی صاحب نے ایک اہم سوال ان سے پوچھا، اور یہ سوال آج کے ہمارے منتظمین کے لیے اپنا ا حتساب کرنے کے لیے کافی ہوگا ، کہ اتنے کم پیسوں میں آپ کا گذارا کیسے ہوتا ہے؟ ایک اللّہ والے کا جواب اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ اللّہ کراتا ہے لیکن اس انسان کی انسانیت نے زور مارا اور انھوں نے امام صاحب کومسجد کے امام کے علاوہ جامعہ کے مڈل اسکول میں اسلامیات کا استاد مقرر کر دیا۔اس کو کہا جاتا ہے قوم و ملت کا درد۔جب استاد کی تدریس کی بات آتی ہے تو یہی منتظمین اسلام کی دہائی بھی دیتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اساتذہ ضمیر فروش ہیں لیکن تنخواہ طے کرتے وقت اور تنخواہ دیتے وقت یہ اسلام کے اس پہلو پر غور نہیں کرتے جس میں کہا گیا ہے کہ پسینا سوکھنے سے پہلے مزدور کی مزدوری ادا کر دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم کی اس پستی کا ذمے دار کون ہے؟ کیا صرف اساتذہ یا نام نہاد منتظمین یا پورا مسلم سماج۔ اس وقت ہم نے تعلیم کو کاروبار بنالیا ہے۔یہی نہیں بلکہ اساتذہ کی بھی بولی لگتی ہے اور یہ بولی بھی عجیب ہے یعنی اساتذہ ہی اپنی بولی اپنے آپ لگاتے ہیں۔ چند پیسے والے لوگ یا سسٹم کے طور طریقوں سے مجبورلوگ پیسے دے کر عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔یہ ایک تلخ اور چھپی ہوئی کھلی حقیقت ہے جس کے ثبوت ملنا مشکل ہیں۔ اب جب اداروں کی اسامیایوں پر نا اہل لوگ بیٹھ جائیں گے تو تعلیم گاہوں کا معیار پستی کی طرف ہی جائے گا۔اہل لوگ مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر مجبوری میں چند پیسوں کی نوکری کرتے ہیں اور وہ بھی اسی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں کہ کب ان کو موقع ملے اور وہ دوسرا راستہ اختیار کریں۔اور طلبا کو بیچ مجدھار میں چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ کچھ ایسے اساتذہ جو ان اداروں میں صرف اس لیے کام کر رہیں کہ یہاں سے وہ بھی اپنا کاروبار چلاتے اور چمکاتے رہیں تو انھیں اپنے ضمیر کی آواز کو سننا چاہیے تاکہ بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہ ہو۔ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ لوگوں نے بنا پیسے کے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں لگا دی ۔ اسی طرح سے وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے انتظامیہ کے طور پر اپنے آپ کو قوم و ملت کے لیے وقف کر دیا تھا اور بے لوث خدمت کی۔ ہم آج کے دور میں یہ تو نہیں کہتے کہ بنا پیسے کے خدمت انجام دیں لیکن اگر پیسہ مل رہا ہے تو اس کا حق تو ادا کریں اور کم سے کم طلبا کی زندگی سے کھلواڑ نہ کریں۔
یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ ہر ادارہ ، تمام منتظمین، سارے ہی اساتذہ قوم و ملت کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں یا سب ہی مفاد پرست اور سب ہی نا اہل ہیں ۔ آج بھی ایسے منتظمین اور اساتذہ ہیں جو قوم اور اس کے بچوں کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں پھر بھی اپنے اپنے مقام پر ہم سب جواب دہ ہیں ۔کسی ایک کو پستی کے لیے ذمے دار ٹھہرانا غلط ہوگا۔ہمیں سب کو مل کر اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم استاد کے پیشے کے وقارکو باقی رکھ سکیں اور دوسری طرف ہم قوم کے حقیقی علم بردار بن سکیں ۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب ہم بے لوث ہوکر سچے دل سے قوم و ملت اور اس کے بچوں کی خدمت کریں ،ایسی خدمت جو کسی بھی طرح کی مفاد پرستی سے آزاد ہو۔
—–
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل: 09322645061