حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور ان کا نظریۂ تعلیم :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ
اور ان کا نظریۂ تعلیم
(۱۲۴۸ھ/۱۲۹۷ھ)

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:

حجۃ الاسلام ،قاسم العلوم و الخیرات،نابغۂ روزگار ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی شخصیت ہندستان میں خاص طور پر دینی مدارس میں محتاج تعارف نہیں ہے،آپ نے انگریز عہد حکومت میں اسلام اور مسلمانوں کی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں،ملک و قوم کے لیے آپ کی جد و جہدآب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے ،آپ تقوی و طہارت میں آفتاب تاباں اور ، سادگی و وضع داری میں ماہ درخشاں تھے، آپ ایک انقلابی ہستی ہیں جنہوں نے ہندوستان میں دینی تعلیم کا ایک نیا ، انوکھا ،پائدار ، مفید اور غیر معمولی مؤثر نظام تعلیم رائج کیا ۔

مولانا نانوتویؒ کی پیدائش رمضان ۱۲۴۸ھ ؁ مطابق ۱۸۳۲ء ؁ میں ہوئی ، آپ کا تاریخی نام خورشید حسن ہے، والد کا نام اسد علی ہے ، آپ کا تعلق حضرت ابوبکر صدیق کے خاندان سے ہے، ۴۴ویں واسطے سے آپ کا شجرہ نسب قاسم بن ابی بکر سے ملتا ہے ، آپ کی والدہ سہارن پور کے وکیل شیخ وجیہ الدین کی صاحب زادی ہیں ، ہندوستان میں آپ کے مورث اعلی مولوی ہاشم ہیں ،جو شا ہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور نانوتہ کو اپنا وطن بنایا ، حضرت نانوتوی ان کے ساتویں پشت میں آتے ہیں ۔
مکتبی تعلیم آپ نے دیوبند اور سہارن پو رمیں حاصل کی، دیوبند میں آپ کے استاذ شیخ مہتاب علی تھے اور سہارن پور میں مولوی نواز تھے ، باقی علوم و فنون کی کتابیں آپ نے اپنے خاص استاذ مولانا مملوک علی سے حاصل کی ،مولانا مملوک علی دہلی کالج میں استاذ تھے ،جو انگریزوں کے غلبے کے بعد انگریزوں کے صرفے سے چل رہا تھا ،مولانا نانوتوی ؒ نے زیادہ تر تعلیم یہیں حاصل کی لیکن حدیث کی تعلیم آپ نے شیخ عبد الغنیؒ مجددی سے حاصل کی ،یہ شیخ ابوسعید مجددی کے بیٹے اور شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے ہیں ،شاہ عبد الغنیؒ نے حدیث کی تعلیم اپنے والد شیخ ابوسعید مجددیؒ اور شاہ عبد العزیزؒ کے شاگرد شاہ اسحاقؒ سے حاصل کی تھی ،اس کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں ایک ممتاز نام شیخ احمد علی سہارن پوریؒ کا ہے ،جن سے آپ نے حدیث کی تعلیم پائی۔۱۷ سال کی عمر میں آپ نے علوم و فنون کی تکمیل کرلی ۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد مولانا نانوتو یؒ گھر تشریف لے آئے ، جس طرح آج عصر ی درس گاہوں میں تعلیم پاکر نوکری حاصل کی جاتی ہے، اسی طرح اُس وقت عربی تعلیم حاصل کرکے نوکری ملتی تھی ، لیکن حضرت نانوتوی ؒ کا رجحان ملازمت کی طرف بالکل نہیں تھا، جس کی وجہ سے ان کے والد شیخ اسد علی کو تھوڑی فکر دامن گیر رہا کرتی تھی کہ ان کا بیٹا اپنی عمر کو پہنج کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور اپنی کمائی سے اپنے پاؤں مضبوط کرے یہ ہر باپ کی فطر ی خواہش ہوا کرتی ہے ، اسی دوران مولانا احمد علی سہارن پوری حجاج سے صحاح ستہ لے کر آئے، ہندوستان میں پریس قائم ہو چکا تھا ،انہوں نے مطبع قائم کرلیا تو مولانا نانوتویؒ نے اس مطبع میں تصحیح کتب کی ملازمت اختیار کرلی اور یہیں سے حاشیہ بخاری کا عظیم الشان کارنامہ آپ کے حصہ میں آیا ۔

پس منظر
مولانانانوتوی ؒ کے نظریہ تعلیم کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کے حالات کو سامنے رکھنا ضروری ہوگا ، ۱۸۴۹ء ؁میں حضرت نانوتوی ؒ کی رسمی تعلیم سے فراغت ہوئی ، یہ وہ زمانہ ہے جس میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹا رہا تھا ، انگریز صوبہ درصوبہ فتح کرتے ہوئے دہلی پہنچ چکے تھے اور دہلی میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت برائے نام رہ گئی تھی ، انگریز ایک چالاک قوم تھی انہوں نے جب ملک پر قبضہ کیا تو ان کے پاس بہت سی پلا ننگ تھیں ، وہ ہر اعتبار سے اپنی حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے تھے اور اس استحکام میں جو بھی رکاوٹیں تھیں وہ ان تمام کو دور کرنا چاہتے تھے ، بہادر شاہ کو ملک بدر کردیا گیا، لال قلعے سے ہندوستانی پرچم اتارکر انگریزی پر چم لہرادیا گیا ، اور ملک مکمل طور پر غلام بن گیا ، اس کا زیادہ احسا س مسلمانوں کو تھا ،اس لیے کہ حکومت مسلمانوں سے چھینی گئی تھی ؛اس لیے مسلمان ہر طرح کی قربانی دے کر ملک کو آزاد کرانا چاہتے تھے ، انگریز بھی اس سے ناواقف نہیں تھے، انہیں بھی اس کا احساس تھا کہ مسلمان کسی قیمت بیٹھنے والے نہیں ہیں؛ اس لیے وہ مسلمانوں سے روح اسلام ختم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ اقبال نے’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ‘‘میں کہا ہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
(کلیات اقبال ص: ۵۱۰)
انگریز ابلیس کے اس فرمان سے بخوبی واقف تھے؛ اس لیے وہ ہندوستانی مسلمانوں سے فکرِ عرب کو نکالنے کی پوری کوشش کرنے لگے ، اس کے لیے انہوں نے مختلف اقدامات کئے ، ہندوستان میں پادریوں کو بلایا گیا اسلام پر شکوک و شبہات کے تیر برسائے گئے ،مسلمانوں اور عیسائی پادریوں کے درمیان مناظرہ کرایا گیا ،ہندو مسلم میں نفرت پیدا کرکے دونوں گروہ کو آپس میں لڑایا گیا ،آریہ سماجوں اور مسلمانوں کے درمیان گرما گرم مباحثے ہوئے ، طاقت کے زور پر بھی مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ، سیاسی و معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو مفلوج کردیا گیا ،مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی سرزمین جہاں مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک حکومت کی تھی ، اور اسے جنت نشاں اور سونے کی چڑیا بنایا تھا آج وہاں ان کے لیے زندگی گزارنا دشوار ہوگیا تھا ان تمام تر کوششوں کے باوجود انگریزوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پارہی تھی ، اس لیے مزید کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اور ہندوستان کی دھرتی پر اسپین کی تاریخ دہرانے اور یہاں سے اسلام کو مکمل نیست و نابود کرنے لیے انہوں نے مسلمانوں کا رشتہ قرآن سے ختم کرنا چاہا، اس کے لیے انہوں نے قرآن کریم کے لاکھوں نسخوں کو جلا دیا اور پادریوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لیے انگلستان سے بلایا گیا ، کمزور عقیدہ لوگوں کو عیسائیت کی خوب ترغیب دی گئی ، جو لوگ عیسائی بن جاتے ان کا نام اخبار میں شائع کرایاجاتا ان کو سہولیات اور ملازمت دی جاتی ، ان کے لیے فری ہاسپیٹل قائم کئے گئے اور وہاں حضرت مریم کی تصویر کے سامنے سجدہ کرایا جاتا تھا اس طرح انہیں امید ہوگئی تھی کہ اب ہندوستان اسپین بن جائے گا اور یہاں کے مسلمان عیسائیت قبول کر لیں گے ۔انڈیا کی سپریم کونسل کے ایک اہم رکن سرچالس نے جو گورنر کے اہم منصب پر فائز تھا اس نے ایک مرتبہ کہاتھا :
میں یہ امید قائم کئے ہوئے تھا کہ جس طرح ہمارے لوگ کل کے کل ایک ساتھ عیسائی ہوگئے تھے اسی طرح یہاں (ہندوستان میں ) بھی ایک ساتھ عیسائی ہوجائیں گے (مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۱۴۳)
برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر مسٹر مینگلس نے ۱۸۵۷ء ؁میں دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا :
ہر شخص کو اپنی تمام تر قوت ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہئے (حکومت خود اختیاری ص:۱۳۶)
مسلمانوں سے روح محمدی کو ختم کرنے لے لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے مراکز کو تاراج کیا جائے اور اس کی ہر ممکن کوشش کی گئی ،دہلی ،آگرہ ، ملتان ،خیرآباد ،بنگال اور بہار کے مدارس جو ہندوستانی سلاطین و امراء کی وقف کردہ جائدادوں سے چل رہے تھے ۱۸۸۳ء ؁میں حکومت نے تمام اوقاف کی جائداد کو اپنے قبضے میں لے لیا (ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۲۰۰)اس زمانے میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا اندازہ گاندھی جی اس تقریر سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ برٹش گورنمٹ سے پہلے ملک میں ۳۰ہزار ادارے تھے جن میں دو لاکھ طلبہ تعلیم پاتے تھے آج حکومت دفتری بہ مشکل چھ ہزار مدرسوں کا حوالہ دے سکتی ہے (اخبار مسافر آگرہ ۳ دسمبر ۱۹۲۰ء ؁ )۔
تعلیم کی طاقت
ان تمام طریقے سے وہ کامیابی حاصل نہیں ہوپارہی تھی جس کی ان کو توقع تھی ،اس لیے انہوں نے میدان بدلتے ہوئے تعلیم کو ہتھیار کے طور پر اختیار کیا اس لیے کہ تعلیم کے راستوں ہی سے آدمی کی سوچ اور فکر کو بدلہ جاسکتا ہے، تعلیم کی طاقت سب سے مؤثر طاقت ہے ،جس کے ذریعہ کلچر اور تہذیب کو بدلا جاسکتا ہے ، اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو فتح کیا جا سکتا ہے، تلوار سے آپ لوگوں کے دلوں کو فتح نہیں کرسکتے ہیں لیکن تعلیم کے ذریعہ آپ دلوں پر حکومت کرسکتے ہیں ، آپ لوگوں کے ذہن کو قابومیں کر سکتے ہیں ۔اس لیے انگریزوں نے لارڈ میکالے کو ہندوستان بلایا تاکہ وہ تعلیمی ہتھیار کو استعمال کرکے عیسائی مشن کو کامیاب بنائے ۔لارڈمیکالے ہندوستان آیا اس نے تعلیمی فارمولہ پیش کیا:
ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے ،جو خون اور رنگ کے اعتبارسے تو ہندوستانی ہوں، مگر رجحان ،رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریزہوں(اخبار مدینہ بجنور ۲۸ فروری ۱۹۲۷ء ؁) ۔
یہی میکالے ۱۲/اکتوبر ۱۸۳۶ء ؁ کو اپنی والدہ کے نام خط لکھتا ہے :
اگر میرے تعلیمی منصوبے پر پوری طرح عمل کیا گیا تو مجھے یقین ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیس سال کے بعد یہاں ایک بھی بت پرست غیر عیسائی نہیں رہے گا (وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ص :۳۵)۔
مولانا نانوتوی کی ہمہ جہت سرگرمیاں
یہ وہ انتہائی مایوس کن حالات تھے کہ مسلمانوں سے ان کا ملک چھین لیا گیا ، ان کی معیشت چھین لی گئی ،اور اب تہذیب اور مذہب سے بے دخل کرنے کی تیاری ہے ،ان حالات میں ایک عظیم انقلاب کی ضرورت تھی ، اورایسے مرد مجاہد اور فرد مدبر کی ضرورت تھی جو چوطرفہ مقابلہ کی طاقت رکھتا ہو اور عزم و استقامت کا مضبوط قلعہ ہو، نگاہیں کسی عظیم انسان کو تلاش رہی تھیں ،جو وسائل سے آراستہ اورطاقت کے نشے میں چور انگریزوں کے ہمہ گیر فتنہ اور پنجۂ استبداد کا مقابلہ کرسکے ،اس سلسلے میں ہمیں جو نمایاں نام ملتا ہے وہ حجۃ الاسلام و المسلمین ،الامام محمد قاسم النانوتوی ؒ کاہے۔مولانا نانوتویؒ نے انگریزوں کے تمام فتنوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ، ان سے برسر عام مناظرہ بھی کیا ، شاملی کے میدان میں سر و جان کی بازی بھی لگائی ، ان کے بچھائے ہوئے جالوں کو پاش پاش کیا اور سب سے بڑھ کرا ن کے تعلیمی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے آپ نے نیا تعلیمی فارمولہ پیش کیا اور دارالعلوم دیوبند کی شکل میں اسے عملی جامہ پہنایا ۔
مولانا نانوتوی ؒ کا نظریہ یہ تھا کہ عصری تعلیم کے لیے حکومت ادارے قائم کررہی ہے، اس کی سرپرستی کررہی ہے اور دینی تعلیم جس کے ذریعہ مسلمانوں کے ایمان وعقیدہ ، تہذیب و تمدن اور اسلامی تشخص کی حفاظت ہوگی ،اس کو ختم کرنے اور انگریزی کلچر کے فرو غ کی مکمل سعی و کوشش ہورہی ہے ایسے حالات میں دینی مدارس کا قائم کرنا بہت ضروری ہے ،اور اسے حکومتی امداد سے آزاد رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ اس پر کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہو ،چنانچہ دارالعلوم دیوبند قائم کیا گیا اور اس کے اصول ہشت گانہ میں اس کی صراحت کی گئی کہ اس کو سرکاری امداد سے محفوظ رکھا جائے ۔
مولانا نانوتوی کا بنیادی نقطۂ نظر یہ تھا کہ دینی تعلیم کے فروغ پر خاص توجہ دی جائے اور اسے عوامی چندہ پر قائم کیا جائے تاکہ عوام اور علماء کے درمیان رابطہ کی شکل پیدا ہو اور کسی کی اس نظام پر اجارہ داری نہ ہو ،حکومت کی دخل اندازی سے نظام تعلیم کو کوئی نقصان نہ پہنچے ،حضرت نے جو نظام پیش کیا اس کا زیادہ ترحصہ دینی علوم پر مرکوز تھا اس لیے کہ عصری تعلیم حکومت دے رہی تھی اگر مسلمان بھی عوامی چندوں سے عصری ادارے قائم کرتے تو تحصیل حاصل لازم آتا ، اور عوام کو کہنے کا موقع ملتا کہ جو تعلیم حکومت دے رہی ہے اسے عوامی چندے سے قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے ، پھراس وقت سب سے اہم مسئلہ دینی تعلیم کے تحفظ کا تھا اس لیے بھی اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ۔
نصاب تعلیم اور مولانا نانوتوی
حضرت نانوتوی ؒ کے نظریۂ تعلیم کو سمجھنے کے لیے اُس وقت کے نصابِ تعلیم پر نظر کرنا بھی ضروری ہے،اُس زمانے میں جو مدرسے تھے وہ زیادہ تر جگہ کے نام سے مشہور تھے ،خیرآباد کا مدرسہ ، ٹونک کا مدرسہ ، لکھنو میں فرنگی محل کا مدرسہ ، رام پور کا مدرسہ عالیہ ؛یہ مدارس زیادہ تر منطق و فلسفہ کی تعلیم و تدریس میں مشغول و مشہور تھے، لکھنو کے فرنگی محل میں کسی حد تک فقہ کی تعلیم بھی جاری تھی ، دوسری طرف شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اور ان کے خانوادے نے دہلی اور اس کے اطراف میں علم حدیث و تفسیر کی خدمات کا سلسلہ شروع کیا تھا، لیکن یہ سلسلہ اب موقوف ہوتا جارہا تھا ،آپ کے خاندان کے باقی ماندہ لوگ حجاج مقدس کا سفر کر چکے تھے ، حضرت نانوتوی ؒ کے ذہن میں وسعت و آفاقیت تھی ، فکر میں اعتدال کے ساتھ تصلب تھا، آپ نے دارالعلوم کے نصاب میں منطق و فلسفہ کا زور کم کیا ، اور شاہ ولی اللہ صاحب کے رائج کردہ حدیث و تفسیر کی کتابوں او راس نہج کو بھی نصاب کا حصہ قرار دیا، ساتھ میں آپ نے فقہ اور دیگرعلوم آلیہ کو مناسب انداز میں شامل کیا ،اس طرح حضرت نانوتوی کا تیار کردہ نصاب بالکل منفر د اور ممتاز نصاب ہو گیا،یہ درس نظامی نہیں ہے جیسا کہ یہ لفظ متعارف اور مشہور ہے بلکہ اس وقت رائج تمام نصابوں کا جامع تھا ، اس سے حضرت نانوتوی کی فکری آفاقیت اور تعلیمی نقطۂ نظر بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔

عصری تعلیم اور مولانانانوتوی :
مولانا نانوتویؒ ایک بہترین ماہرتعلیم تھے، انہوں نے دارالعلوم کے نصاب میں جہاں عربی ، فارسی ، قرآن و حدیث ،فقہ وغیرہ کو اولین ترجیح دی ،وہیں ریاضی ، ہندسہ ،اور علم ہیئت کو بھی نصاب میں شامل کیا ، باضاطہ طب کے شعبے قائم کئے گئے ، اور دیگر سائنسی علوم کے مقدمہ کے طور پر چند کتابیں الجبرا اور اقلیدس وغیرہ داخل نصاب کی گئیں ۔مولانا گیلانی جن کو فکر قاسمی کا شارح و ترجمان کہا جاتا ہے ،وہ حضرت نانوتوی اور عصر ی علوم کے تعلق سے فرماتے ہیں :
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نصاب کو پڑھ کر فارغ ہونے والوں میں علوم جدیدہ حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے گویا علوم جدیدہ کی تعلیم کا مقدمہ بھی دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نصاب بن سکتا ہے اور چاہا جائے تو اس سے یہ کام بھی لیا جا سکتا ہے (سوانح قاسمی ۲/۲۸۰)
حضرت نانوتوی ؒ کے اجمال اور مولانا گیلانی ؒ کی تفصیل سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آپ عصری تعلیم کے مخالف نہیں تھے لیکن ایک سوال جو اس وقت بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ نصاب میں تبدیلی ہونی چاہئے اور عصری مضامین کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہئے ، حضرت نانوتویؒ اس سوال سے بھی غافل نہیں تھے ،ان کی دور رس نگاہیں اس سوال سے واقف تھیں اس لیے حضرت نے اس سوال کابہت ہی واضح جواب دیا تھا، جسے مولانا اسیر ادروی نے نقل کیا ہے :
ہم آدھا تیتر آدھابٹیر نہیں بنا سکتے ، دونوں طرح کے علوم کی مخلوط تعلیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طالب علم کسی بھی علم و فن میں درجہ کمال حاصل نہیں کرسکتا نہ اسے جدید علوم حاصل ہوں گے نہ قدیم علوم(مولانا محمد قاسم نانوتوی۔ حیات اور کارنامے ص:۱۶۲)
مولانا گیلانی نے حضرت نانوتوی کا قول نقل کیا ہے :
زمانہ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب علوم کے حق میں باعث نقصان استعداد رہتی ہے (سوانح قاسمی ۲/۲۸۳)

فلسفۂ قدیم و جدید:
ایک مسلمان کے لیے دینی تعلیم از حد ضروری ہے ،اس لیے کہ اس پر آخرت کا مدار ہے ، کامیابی کی شاہ کلید ہے ، اخروی سرخ روئی کا زینہ ہے ، لیکن عصری تعلیم بھی وقت کی ضرورت ہے، اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ، ہمارے مدارس کی قدیم تاریخ یہ ہے اس میں دینی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور عصری اور سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے ،یہی وجہ ہے تاریخ میں جو مسلم سائنس داں ، اطباء ، جغرافیہ کے ماہر ،اور ایجادات کے ماہرین کا تذکرہ ملتا ہے وہ سب اسی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے ، امام غزالی ہوں یا ابن رشد ، بوعلی سینا ہوں یا فارابی یا ابن ہیثم سب اسی مدرسے کے فارغ تھے ،سب کا لباس اور رہن سہن کا طریقہ ایک تھا اگرچہ ان سب کے میدان الگ الگ تھے ۔ پہلے عصری اور دینی علوم کے نام سے الگ الگ ادارے نہیں ہوا کرتے تھے ، ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمدسے پہلے کی یہی صورت حال تھی اور اسی مدرسے سے فارغ طلبہ سرکاری نوکریوں پر فائز ہوا کرتے تھے، لیکن انگریزوں کے ہندوستان آمد کے بعد صورت حال میں تبدیلی پیدا ہوئی اور انگریزوں نے مسلمانوں کا رشتہ قرآن سے کاٹنے کے لیے دینی تعلیم کی جگہ عصری تعلیم کو رائج کر دیا اور دینی تعلیم سے مسلمانوں کو دور کرنے کی کوشش کی ،اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت نانوتویؒ نے دینی تعلیم کی اشاعت و حفاظت کے لیے دارالعلوم کی بنیاد ڈالی ۔اس وقت دینی تعلیم کی حفاظت کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل تھا ،اس لیے پوری توجہ دینی تعلیم پر دی گئی اور جس درجہ کے ماہرین کی ضرورت تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ یکسو ہو کردینی تعلیم حاصل کی جائے ،اس لیے آپ نے دارالعلوم کے نصاب میں چند عصری کتابوں پر اکتفاء فرمایا، لیکن حضرت نانوتوی عصری تعلیم کے بالکل خلاف نہیں تھے، بلکہ آپ نے سرسید کے قائم کردہ ادارہ کی حتی الامکان تعریف و توصیف کی مولانا اسیر ادروی نے لکھا ہے :
حضرت نانوتوی نے انگریزی تعلیم کے لیے اسکولوں کے قائم کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا ،بلکہ مسلمانوں میں سب سے پہلے سرسید نے کوشش کی تو ان کی جد و جہد اور جفا کشی کی تعریف ہی کی (مولانا محمد قاسم نانوتوی۔ حیات اور کارنامے ص:۲۱۹)
حضرت نانوتوی نے اگرچہ دینی و عصری علو م کو مخلوط نہیں کیا، لیکن اس کی اہمیت سے آپ نے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جن لوگو ں کو عصری علوم پڑھنا ہو مدارس کے نصاب کی تکمیل کے بعد وہ عصری علوم حاصل کریں، آپ نے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ مولانا گیلانی نے مولانا نانوتوی کے نظریہ تعلیم پر بڑی اچھی بحث کی ہے اس میں انہوں نے حضرت نانوتوی کا جملہ نقل کیا ہے:
اس کے بعد (یعنی دارالعلوم دیوبند کے تعلیمی نصاب سے فارغ ہو نے کے بعد )اگر طلبہ مدرسہ ہذا ، مدارس سرکاری میں جا کر علوم جدید ہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں بات زیادہ مؤید ثابت ہوگی (سوانح قاسمی ۲/۲۸۱)
مولانا گیلانی اس کی تشریح و تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سیدنا الامام الکبیر نے اپنے اس تعلیمی نظریہ کو پیش کیا ہے کہ پہلے دینی و اسلامی علوم کا نصاب دانش مندی کے فنون کے ساتھ ختم کر لیا جائے، جن کے بغیر خالص اسلامی علوم ، تفسیر ، شروح احادیث ، و فقہ وغیرہ کتابوں کے نہ مطالعہ ہی کی صحیح قدرت پیدا ہوسکتی ہے اور جیسا کہ چاہئے ان کتابوں سے استفادہ بھی بآسانی ممکن نہیں ، اس کے بعد جیسا کہ آپ دیکھ چکے صاف اور واضح لفظوں میں اپنی تجویز پیش کی ہے کہ علوم جدید ہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرکاری مدارس میں مسلمان بچوں کو داخل کیا جائے (سوانح قاسمی ۲/۲۸۵)

زبان کے تعلق سے مولانا نانوتوی کا نظریہ:
موضوع پر بات ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لسانیات کے تعلق سے بھی حضرت کا نظریہ سامنے آجائے تاکہ تعلیمی تجاویز طے کرنے میں سہولت ہو ، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حضرت نانوتوی کی زندگی کا زیادہ تر حصہ دفاع عن الدین میں صرف ہوا ہے ،آپ کی پوری زندگی دفاع دین اور اشاعت دین سے عبارت ہے ،آپ نے آریہ سماجوں ،پنڈتوں اورعیسائی پادریوں سے مناظرے کئے اور خوب کئے اور مخالفین کے چھکے چھڑادئے ۔کسی بھی قوم اورزبان کے جاننے والوں سے مناظرہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیٹریچر کا مطالعہ کیا جائے اس لیے کہنا پڑے گا کہ حضرت نانوتوی فریق مخالف کے لیٹریچر سے کسی حد تک واقف تھے، اگر چہ ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی ایسی شہادت نہیں ہے جو اس جگہ پیش کی جا سکے البتہ زبان کی اہمیت حضرت کے نزدیک کس درجہ مسلم تھی اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو مولانا گیلانی نے نقل کی ہے :
اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات وہ ہے جسے براہ راست اس فقیر نے مولانا حافظ محمداحمد صاحب مرحوم سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند سے سنی تھی ، اپنے والد مرحوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ بانی دارالعلوم دیوبند کے متعلق یہ قصہ بیان کرتے تھے کہ آخری حج میں جارہے تھے تو کپتان جو غالبا کوئی اٹالین (اٹلی کا باشندہ)تھا ، عام مسلمانوں کے اس رجحان کو جسے مولانا کے ساتھ عموما وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ کون صاحب ہیں ، حجاج میں کوئی انگریزی جاننے والے مسلمان بھی تھے انہوں نے کپتان سے مولانا کے احوال بیان کئے ، اس نے ملنے کی خواہش ظاہر کی، مولانابہ خوشی کپتان سے ملے ، کپتان نے اجازت چاہی کہ کیا مذہبی مسائل پر گفتگو کر سکتا ہوں، مولانا نے اسے بھی منظور فرمالیا ، وہی انگریزی داں صاحب ترجمان بنے ، کپتان پوچھتا تھا اور مولانا جواب دیتے تھے ، تھوڑی دیر کے مولانا کے خیالات سن کر وہ کچھ مبہوت سا ہوگیا اور مولانا کی ساتھ اس کی گرویدگی اتنی بڑھی کہ قریب تھا کہ اسلام کا اعلان کر دے ، اس نے شاید وعدہ بھی کرلیا کہ وہ ہندوستان حضرت سے ملنے کے لیے حاضر بھی ہوگا ۔ اس واقعہ کا مولانا ؒ پر اتنا اثر پڑا کہ آپ نے جہاز ہی پر عزم فرما لیا کہ واپس ہونے کے بعد میں انگریزی زبان خود سیکھوں گا ، کیوں کہ مولانا کو محسوس ہو رہا تھا کہ جتنا اثر کپتان پر براہ راست گفتگوسے پڑ سکتا تھا ترجمان کے ذریعہ وہ بات نہیں حاصل ہو رہی ہے ( الامام محمد قاسم نانوتوی ؒ ۔حیات، افکار ،خدمات ص:۲۸۴)
اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے مولانا گیلانی کا وہ اقتباس بھی نقل کردیا جائے جس میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں مطالعہ ادیان مذاہب کرانے پر زور دیا ہے ، جس کی موجودہ ماحول میں بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے ،اس لیے کہ تمام مذاہب کی بنیادی باتوں کو پڑھنا اور برادران وطن کے ساتھ اس سلسلے میں گفت و شنید کرنا وقت کا بہت اہم تقاضہ ہے۔ مولانا گیلانی لکھتے ہیں :
جاننے والے جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند میں جب کبھی موقع ہمدست ہو ا، ہندو دھرم کی علمی زبان سنسکرت کے سکھانے کا بھی نظم کیا گیا ، یا وظیفہ دے کر طلبہ کو ان زبانوں کے سیکھنے کے لیے بھیجا گیااور آج بھی ضرورت ہے کہ کچھ نہیں تو کم از کم ہندوستان کے مروجہ مذاہب و ادیان کے متعلق صحیح معلوما ت سے دارالعلوم کے طلبہ کو روشناس کرانے کی ممکنہ صورتیں اختیار کی جائیں ۔ بلکہ ہندی زبان ناگری خط کے ساتھ جب اس ملک کی دفتری زبان مانی جاچکی ہے تو قدرتا اس کی وجہ سے اس زبان کی تعلیم کا انتظام زیادہ آسان ہوچکا ہے ۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ اسلامیات کا جو ذخیرہ اردو زبان میں پایا جاتا ہے ، اس سے بھی زیادہ سرمایہ اسلامی تعلیمات کا ہندی میں منتقل کر دیا جائے ، یہ ہمارا ایک تبلیغی فرض ہے ، انشاء اللہ یہ خواب پورا ہوکر رہے گا ( سوانح قاسمی ۲/۴۷۹)
مولانا نانوتوی کی فکر اور ان کی عملی زندگی اور مولانا گیلانی کی تحریر سے انگریزی ،ہندی اور علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ مذاہب ادیان کے مطالعہ کی اہمیت بھی اجاگر ہوجاتی ہے ، یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
حضرت نانوتوی ؒ کے نظریۂ تعلیم کی روشنی میں تعلیمی تجاویز
حضرت نانوتوی کے تعلیمی نظریہ کے مطالعہ کے بعد چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں، جنہیں تعلیمی ہدف میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔
*دینی تعلیم ہر شخص کے لیے لازمی ہونی چاہئے اس لیے کہ دین سے اگر ہمارا رشتہ کٹ جائے گا تو ہمارا وجود ، ہمارا ایمان ، ہماری تہذیب اور ہمارابقا سب کچھ خطرے میں پڑ سکتا ہے اور مسلمان اس علم سے محروم ہونے کے بعد مسلمان نہیں رہ سکتا ہے، اس لیے سب سے پہلے بچوں کو دینی تعلیم ملنی چاہیے ،علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
*سر سید نے عصری علوم کا ادارہ قائم کیا تو مولانا نانوتوی ؒ نے اس کی تعریف فرمائی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عصری ادارے قائم ہونے چاہئے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہئے لیکن مسلمانوں کے اپنے عصری اداروں میں دینیات کی تعلیم کا بھی معقول نظم ہونا چاہئے تاکہ طلبہ دینی تعلیم سے بے بہرہ نہ رہ جائیں ، یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے، اس جانب خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
*ایسا بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پہلے عصری تعلیم دے دی جائے پھر دینی تعلیم دی جائے اس لیے کہ بچپن میں جو تعلیم دی جائے گی اس کا نقش دل میں اس طرح بیٹھ جائے گا کہ بعد میں وہ دینی تعلیم کی طرف مائل ہی نہیں ہوگا ۔ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچوں کو عصری تعلیم دلاکر کسی عالم یا حافظ کو گھر میں رکھ کر قرآن او رضروری بنیادی تعلیم دلادی جاتی ہے لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے اور بچوں میں اس طرح اسلامی رجحان پیدا نہیں ہوسکتا ہے ۔
*دینی تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد طلبہ عصری علوم کی تحصیل کے لیے یونیورسٹی اور کالج جاسکتے ہیں ،جہاں وہ اپنی تعلیم کے اثرو رسوخ کو بھی قائم کریں گے اور ان کی صلاحیت میں مزید پختگی بھی پیدا ہوگی وہ دین و شریعت کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں اور چیلنجوں کوبھی قبول کرسکتے ہیں ۔
*مولانا گیلانی نے حضرت نانوتوی کے حوالے سے لکھاہے کہ انہیں عصری تعلیم کا مقدمہ پڑھا دیا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں چند ایسی کتابیں شامل کی جاسکتی ہیں جس سے عصری تعلیم کی تمہید بچوں کو معلوم ہو سکیں اگر وہ عصری مدارس میں جائیں تو آسانی سے کامیابی کا زینہ طے کر سکیں ، اور اگر وہ عصری اسکول میں نہ بھی جائیں تو زندگی میں یہ تعلیم اس کی بنیادی ضرورت کو پورا کرسکے، لیکن یہ شمولیت اسی حد تک ہونی چاہیے کہ دینی علوم کی پختگی میں کسی قسم کا رخنہ نہ پڑے ،مثلا ابتداء کی چند کلاسوں میں انگریزی کی ابتدائی چند کتابیں پڑھا دی جائیں تاکہ طلبہ اس زبان سے کسی حد تک واقفیت حاصل کرکے اپنی دنیوی ضرورت کو کسی حد تک پوری کرسکیں ۔
*آٹھ دس سال دینی تعلیم دے کر دنیاوی ضرورتوں سے بالکل بے بہر ہ رکھنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، اس صورت حال میں جب فضلاء مدارس کو بعض دنیوی دشواری کا سامنا ہوتا ہے تو یہاں تک کہ جاتے ہیں کہ دارالعلوم نے ہمارے دس سال برباد کردئے ، ہمیں کچھ بھی دنیوی معلومات نہیں ہے اگر چہ ایسے فضلاء کی باتوں سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ابتدائی جماعتوں میں بھی کچھ عصری مضامین پڑھادئے جائیں تو کسی حد تک ان کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکتی ہے ۔
*ہمارے مدارس کے نصاب میں بحیثیت زبان انگریزی کو بھی شامل کرنی چاہئے ، اس لیے کہ یہ اس وقت عالمی زبان ہے جس کی ہر وقت اور ہر سطح پر ضروت پڑتی ہے ، الحمد للہ ،اللہ کا شکر ہے کہ ارباب مدارس نے اس جانب توجہ دی ہے اور مدارس میں انگریزی کو بھی نصاب کا حصہ بنایا ہے ، یہ ہماری ایک ضرور ت ہے ۔
*مطالعۂ مذاہب ادیان بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے ،موجودہ حالات میں اس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے ایک سوامی اور پنڈت ہمارے پروگراموں میں آتا ہے اور اسلام کی بنیادی باتیں بتا کر چلاجاتا ہے لیکن ہم ان کے پروگرام میں جا کر ان کے مذہب کی ابتدائی باتیں نہیں کر سکتے ہیں ، آج اس کی ضرورت ہے اگرہم باضابطہ اس کو نصاب میں شامل نہیں کر سکتے ہیں تو کم از کم خارجی مطالعہ میں ہی اس کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔

Share
Share
Share