گھر سے باہر نکلنے کے
چند اہم قاعدے اور انکے فائدے
سید عارف مصطفیٰ
کراچی
گھر میں اپنی عزت بڑھانے کے لیئے ویسے تو کرنے کے بہت سے کام ہیں — لیکن یہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں ، تاہم اک واحد طریقہ جو آسان ہے اور قابل عمل بھی ہے وہ یہ کہ اکثر اپنے گھر سے باہر رہا جائے،،، کہاں رہیں— یہ ہمارا مسئلہ ہرگز نہیں، انکا ہے کہ جنکے گھر یا دفتر میں آپ اس مشورے کی روشنی میں پہنچ جایا کرینگے— روز روز کسی کے پاس پہنچنے میں ذرا تردد نہ کریں اور اس مقولے پہ ہرگز کان نا دھریں کہ قدر کھودیتا ہے روز کا آنا جانا—
ایسی بات ہو تو جج صاحبان روز روز عدالتوں میں جانا ہی چھوڑ دیں، اورمزدور بھی کارخانوں کا بلا ناغہ رخ نہ کریں ۔۔۔ البتہ سرکاری ملازمین اورارکان اسمبلی اس مثال سے مستثنیٰ ہیں ۔۔۔ ویسے بھی یہ بات عجیب الٹی سی ہے— اپنے گھر سے روز باہر نا نکلو تو وہاں عزت خطرے میں پڑجاتی ہے، اور نکل کے روز کہیں جاؤ تو وہاں بھی یہی عزت کھو دینے کا مسئلہ درپیش ہوجاتا ہے ۔۔۔ غور فرمائیں کہ اگر ان ذرا ذرا سی باتوں پہ عزت کا جانا اس قدر یقینی ہے تو پھرکیا اپنی عزت کھونے کے لیئے اپنے ہی گھر کا انتخاب مناسب ہے ۔۔؟ یقینناؐ ہرگز نیں ، اسکے لیئے باہر بہتیرے مقامات دستیاب ہیں ۔۔۔ ویسے بھی اپنے گھر سے آپکے کئی اہم کام جڑے رہتے ہیں جیسا کہ یہ کہ روز کھانا کھانا ۔۔۔ اس لیئے یہاں عزت کھونا اور بیزاری پھیلانا اپنی روٹی کو خطرے میں ڈالنے جیسا ہے لہٰذا دانشمندی کا عین تقاضہ یہ ہے کہ اپنے گھر سے نکلیں اورباہر والوں کے سکون و شانتی کی خبر لیں۔۔۔ لیکن احتیاط رکھیں کہیں جا پہنچنے کا ایک دم فکس شیڈول نا بنائیں اس سے لوگوں کو بچ نکلنے کا کھلا موقع ہاتھ آجاتا ہے،،، سرپرائز کے باب میں یہی تو اصل پرائز ہے کہ آپ کسی کے بچ نکلنے کے راستے پہ ہی اچانک جا دھمکیں —
گھر سے باہر کا رخ کرتے وقت یہ بات لازمی ذہن نشین کرلیجیئے کہ گھر سے باہر نکلنے کے بھی کچھ طور طریقے ہیں اور چند ضابطے و قاعدے ہیں ، یہ نہیں کہ بس فٹا فٹ منہ اٹھایا اور گولی کی تیزی سے نکل پڑے۔۔ ان قاعدوں کی بڑی اہمیت ہے اور یہ طریقے و قائدے کیا ہیں ہم ابھی ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔۔ بھئی یہ جو آپ باہر کبھی کبھی کسی بہت بے چین اور مضطرب بندے کو دیکھتے ہیں جو ہر کسی کو بات بے بات کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے تواسکی بابت صرف یہ مفروضہ گھڑ لینا درست نہیں کہ اسکے دماغ میں کیڑا ہے،،، یہ کیڑا اسکے پاجامے میں بھی ہوسکتا ہے،،، جو اسے کاٹ کھانے کو بار بار دوڑتا ہوگا ۔۔۔۔ پاجامہ جھاڑے بغیر پہن لینے سے باہر نکلتے ہی بندے کی زندگی یکایک اندھیر ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ منحوس کیڑا بندے کو برداشت کی آخری حدوں تک لیجاتا ہے اور عین اس وقت اسے ماؤنٹ ایورسٹ پہ چڑھ جانا تک زیادہ سہل لگتا ہے با نسبت اس موزی کیڑے سے چھٹکارا پاسکنے کے، کیونکہ گھر سے باہر چلے جانے کے بعد اس بھیانک غلطی کی تلافی کھلم کھلا کی بھی نہیں جاسکتی۔۔۔۔ چنانچہ باہر نکلنے کا پہلا قاعدہ تو یہ ہے کہ شروع ہی میں پتلون یا پاجامہ جھاڑکر پہنیئے اور بصد شوق باہر کی راہ لیجیئے-
باہر جانے اور شاداں فرحان پھرنے کے سلسلے میں دوسرا اہم قائدہ یہ ہے کہ اطمینان سے "فارغ” ہو لیجیئے کیونکہ محض سکون کے اندازوں اور شانتی کے قیاس پہ بھروسہ کرنا بہت خطرناک بھی ہوسکتا ہے خصوصاؐ جبکہ بازار کھانے پینے کی لذت بھری اشیاء سے پٹے رہتے ہیں اور معدہ و نیت اسکی طلب سے اٹے رہتے ہیں ۔۔۔ ایسے میں "اپھارے و پھوارے” کی افزائش کے لیئے کارگر۔۔۔ کئی مقاماتِ آہ و فغاں جا بجا منتظر ملتے ہیں اور رستے میں سکون بخشنے والے مراحل کا خاطر خواہ انتظام ہونا یقینی بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ یاد رکھیئے کہ پہلے قائدے پہ عمل کرنے کی ضمن میں شروع شروع میں تو مصنوعی برآمدگی کی کوششیں مثبت نتائج برآمد نہیں کرتیں لیکن اگر حوصلہ نہ ہارا جائے تو مستقل مزاجی سے کی گئی مسلسل کاوشوں سے تسلی بخش نتائج نکلنے لگتے ہیں ۔۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ معاشرتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں اور نت نئے مسائل پیدا کر رہی ہیں جیسا کہ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ "چھوٹے” کاموں کے لیئےعام طور پہ رستے کی ہر دیوار رضا کارانہ دستیاب رہتی تھی بلکہ رستے میں پڑنے والے گھروں کی بیرونی دیوارکی تعمیر کا اصل مقصد ہی راہ گیروں کو اس قسم کا آفاقی و نکاسی سکون فراہم کرنا ہوتا تھا اورگھر اور مکینوں کے تحفظ جیسے معاملات کا نمبر اس کے مقاصد تعمیروغیرہ میں بہت بعد میں آتا تھا-
لیکن اب چونکہ شرافت کا زمانہ ہی نہیں رہا اسلیئے ہر دیوار کا ایسا استعمال ممنوع کرکے اب گویا صاحب دیوار اب خود ہی وہاں دھرا ہوا ہے یا اپنی چشم نگراں وہیں چھوڑ آیا ہے۔۔ کیونکہ ہر دیوارپہ کوئی نہ کوئی ایسی خطرناک بلکہ دہشتناک بات ضرور لکھی ہوتی ہے کہ لگتا ہے وہ وہیں کہیں سے دیوار گرانے کی یہ "قبیح جسارت” بچشم خود ملاحظہ کررہا ہے،،، ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے،،! آجکل ان دیواروں پہ ایسی ایسی ذلت بھری تنبیہات و تشبیہات لکھی ملتی ہیں کہ ساری جسمانی "برآمدات” محض بندرگاہ تک ہی محدود رہ جاتی ہیں اور پھر پڑے پڑے سارا ہیجان وہیں مچاتی رہتی ہیں ۔۔۔ اس سے زیادہ مجبوریوں کی بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ چند معاملات کے لیئے عقل سلیم کی رہنمائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔۔۔ لیکن جب کبھی ایسے معاملات یکا یک میان سفر ابھر آئیں تو زندگی یکایک سنگین ہوکر دکھوں سے بھری معلوم ہوتی ہے— نری کانٹوں بھری رہگزر— ایسے میں کوئی بڑے سے بڑا لطیفہ بھی آپکے چہرے پہ مسکراہٹ کی ادنیٰ سی رمق بھی نہیں لاسکتا، البتہ ایسے لطیفہ گو کو ضرور "ضرر شدید” پہنچا سکتا ہے— اس کیفیت میں سرکس میں تنے ہوئے رسے پہ چلنے والے بازیگر کی مانند ہر قدم بہت پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے اور آپکی دلکی چال کی ڈھب کسی حد تک ، لیبر روم کی طرف جاتی حاملہ خاتون سےمشابہ ہوجاتی ہے— اس وقت جائے نجات تک رینگتے و گھسٹتے فرد کو وائٹ ھاؤس نیاگرا فال برج الخلیفہ یا ایفل ٹاور کا نظارا بھی وہ کیف اور خوشی نہیں دے سکتا کہ جو اسے کسی بیت الخلا کے در راحت تک جاپہنچنے سے مل سکتی ہے— لیکن اگر، اس کشٹ اٹھانے کے بعد آپکویہ در بند ملے اور وہاں پہلے ہی سے کوئی براجمان ملے تو پھر اس وقت بے شک آپ خود کو دنیا کا سب سے بڑا بدنصیب قرار دے سکتے ہیں—!!
یہ لازمی نہیں کہ گھر سے باہر جانے کے بعد لازمی بار دگر کسی کے سر پہ سوار ہوکے اس کا ناطقہ ہی بند کیا جائے— وقت گزاری کیلیئے آپ کسی لائبریری بھی جاسکتے ہیں — لیکن گھبرائیے مت ، وہاں بیٹھ کے پڑھنا ایسا ضروری تھوڑا ہی ہے— بیشتر لوگ اخبارات و جرائد تھام کر انکے اوپر سےارد گرد جھانک ہی تو رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ پھر وہاں تصویروں والی بھی تو کئی کتابیں اور رسالے ہوتے ہیں، نا ملیں تو میڈیکل کے طلبعلم بن جائیئے اور تصویری علم کےکئی بہتے چشموں سے فیض پائیئے۔۔ آخر ڈھونڈھنے سے کیا نہیں مل جاتا بس اک ہماری عینک قلم اور موبائل کے سوا، جو ہمیشہ دوسروں کو ڈھونڈے بغیر ہی مل جاتی ہیں،،، بارے لائبریری سے اکتاہٹ ہو جائے تو کسی پارک کا رخ کریں — شام یا دوپہر کچھ نا کچھ بینچیں خالی مل ہی جائینگی۔۔۔ ان تک پہنچنے کیلیئے بیتابی سے شارٹ کٹ میں کسی جھاڑی کو نا پھلانگیں ورنہ خدشہ ہے کہ آپ وہاں پناہ گزیں کسی پیوست جوڑے پہ جا اترینگے— اور اس مداخت بیجا سے ہڑبڑا کر انکے کئی اہم کام ادھورے رہ جائینگے— لیکن ان سے تعرض نا کریں ۔۔۔ وہ اپنی خوشی سے جو بینچ چھوڑے بیٹھے بلکہ لیٹے ہیں بس جلدی سے انکی خالی کردہ بینچ پہ قابض ہوجائیں اور لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں- آنکھیں بند کرنا سلیئے ضروری ہے کیونکہ بصورت دیگر آپکی نظر سامنے جھاڑیوں پہ پڑتی رہیگی اور وہ جوڑا ناحق آپکا خون کرنے کا سوچے گا-
گھر سے نکلتے ہوئے یہ احتیاط کرنی بھی بہت ضروری ہے کہ آپ متوازن کپڑے پہنیں یعنی نا تو اتنی ڈھیلی پتلون پہنیں کہ نانا جان مرحوم کی نشانی معلوم ہو اور اپنے ہی پینچوں سے الجھ الجھ کے گرتے رہیں اور نا ہی اتنی چست ہو کہ دوڑ کر سڑک پار کرنا چاہیں تو پتلون کی سلامتی اور آپکا وقارخطرے میں پڑ جائے ۔۔۔ اس مقصد کے لیئےزیادہ دیر سڑک کنارے کھڑے رہنا بھی ہرگز مناسب نہیں ورنہ کوئی ناسمجھ آپکا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرانے کی کوشش کرسکتا ہے—لپک کر بس میں سوار ہونے کا تو سوچیں بھی مت،، ورنہ وہی سڑک پار کرنے والے خدشات درپیش ہونگے کیونکہ غالب امکان ہے کہ دفعتاؐ اک بڑی "چرچراہٹ” سی ہوگی اور آپکا سفر شروع ہوتے ہی ختم ہوجائے گا— لیجیئے۔۔۔ پہلے تو مطلوبہ جگہ پہنچنے کا مسئلہ تھا ، اب مسئہ واپسی کا درپیش ہوگیا۔۔۔ لیکن اوسان نہ کھوئیں ، کیونکہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا ۔۔اب آپ متاثرہ مقام کو زمانے کی نگاہوں سے محفوظ کرنے کیلیئے فی الفور اپنی قمیض کے پچھلے و نچلے حصے کو پتلون سے باہر نکال کر اسکی سرپرستانہ اوٹ فراہم کریں ۔۔ تاہم جھٹ پٹ قمیض کے فرنٹ کو بھی باہر کرنا نا بھولیں ورنہ بہت سی خاموش نگاہیں بولتی ملیں گی۔۔۔ رستے میں اگر کسی کو ہنستا پائیں تو خود کو بڑی متانت سے یہ یقین دلائیں کہ وہ آپ پہ قطعی نہیں ہنس رہا، حالانکہ آپ خود اس بات کی سچائی پہ متذبذب ہی رہینگے،،
یہ بات بھی اہم ہے کہ آپ تھوڑا سا کچھ کھا کر گھر سے نکلیں،،، اثنائے راہ کسی نے کھانے کی ترغیب دی تو کیا کہنے،،، معدے میں جگہ موجود ہوگی اور آپ دعوت کی محرومی کے نقصان سے بھی بچ جائینگے۔۔۔ تاہم کوئی ایسا شناسا نفقتا ٹکرا گیا کہ جوکمال بے شرمی سے آپ سے رستے میں کھانا کھلانے کی فرمائش کر بیٹھے تو آپ فوراً قسم کھاسکتے ہیں کہ میں تو ابھی کھا کر ہی گھر سے نکلا ہوں۔۔۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ آپ گھر سے نکل کر کہاں جائیں یہ ہمارا مسئلہ نہیں، لیکن اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ہمارے ہی گھر آدھمکیں،،، ویسے بھی ہم اب اکثر گھر سے باہر ہی رہنا پسند کرتے ہیں،،،
—–
S. Arif Mustafa