باڈی لینگویج : خاموش اظہار کا مستند فن :- فاروق طاہر

Share
فاروق طاہر

باڈی لینگویج
خاموش اظہار کا مستند فن

فاروق طاہر – حیدرآباد۔

09700122826

بچپن کے علم کو پتھر کی لکیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔بچپن میں دینی تعلیم کی غرض سے محلے کی مسجد کو بھیجا جاتا تھا جہا ں نہ صرف ما ثورہ دعاؤں،منتخب قرآنی آیا ت و سورتوں کا حفظ کروایا جا تاتھابلکہ زندگی گزارنے کا قرینہ بھی اساتذہ اکرام سکھایا کر تے تھے۔بچپن میں مسجد میں دینی تعلیم کے دوران مولوی صاحب نے بتایا کہ اللہ کے حضور روز محشر جب بندوں کو پیش کیا جا ئے گا تو اللہ بندے کی زبان پر مہر ثبت کردیں گے اور اس کے اعضاء اور جوارح اس کی گواہی دیں گے کہ اس نے کیا کیا گناہ کیئے ہیں۔

گویا جسم کے ہر روئیں کو زبان عطاکر دی جا ئے گی ۔یہ بات ذہن میں اس طرح پیوست ہو گئی کہ اللہ کا جلال و قہر اور اس کی کبریا ئی بچپن میں جیسے نقش کر دی گئی تھی اس میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ابتداَ یہ با ت سمجھ میں نہیں آ تی تھی کہ اعضاء و جوارح کس طرح سے با ت کر یں گے اللہ رب العزت تو ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شئے اس کے قبضے قدرت میں ہے ۔لیکن عمر کے سا تھ کسی قدر علم سے آگہی پیدا ہوئی اور عمرانیات و نفسیاتی علوم کے مطالعہ کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ صرف زبان ہی گفتگو نہیں کر تی ہے بلکہ انسانی جسم بھی خاموش گفتگو انجام دیتا ہے۔اور جسم کی یہ گفتگو اتنی پر اثر ہو تی ہے کہ اسی گفتگو پر زبانی گفتگو اپنی تا ثیر بر قرار رکھتی ہے یا اپنا وقار گنوا بیٹھتی ہے۔ انسانی زندگی میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہا ں وہ ایک لفظ زبان سے ادا کیئے بغیر اپنے جسم کے رویوں اور برتاؤ سے اپنا پیغام ترسیل کر دیتا ہے ان رویوں اور بر تا ؤ سے لوگ اندازہ قائم کر لیتے ہیں کہ وہ کیا کہنا اور کرنا چاہتا ہے۔زبان انسانوں کے باہمی رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی فکر اور تخیلات کی تر سیل کا کام انجام دیتے ہیں پیغام کی ترسیل میں زبان کے ساتھ لہجہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہجہ دراصل الفاظ کی تشریح اور ترجمانی کا کا م انجام دیتا ہے یہ اہم نہیں ہو تا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ اہم ہو تا ہے کہ آپ کا لہجہ کیا کہہ رہا ہے۔لہجہ بھی زبان کا محتاج ہوتا ہے لیکن صرف ایک ایسی زبان ہے جو الفاظ و لہجہ کی محتاج نہیں ہے اور اسے باڈی لینگویج (غیر لفظی زبان)،خاموش زبان یا جسمانی اظہار کے نام سے معنون کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر بے شمار زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں جن میں سب سے زیادہ بولی جا نے والی مینڈیرن (Mandarin) زبان سرفہرست ہے اس کے بعد ہسپانوی اور پھر انگریزی کا نمبر آتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان میں بھی کئی بولیاں اور زبانیں رائج ہیں۔ان تمام زبانوں کے باوجود دنیا بھر میں صرف باڈی لینگویج ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں اظہار کے لئے الفاظ و جملوں کی قطعی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔باڈی لینگویج یا جسمانی اظہار میں انسان کا پورا جسم زبان بن کر جذبات کی غمازی کرتا ہے۔آدمی کی خاموشی کے با وجود اس کی باڈی لینگویج ( اس کا جسم )اس کے جذبات کی تر جمانی کرتی ہے اب اسے سمجھنے کا کام سامنے والے شخص کے فہم و فراست پر ہوتا ہے کہ وہ اس کی تعبیر و تفہیم میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔ عمرانیات اور علم نفسیات کے ماہرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ انسان اپنی بات چیت کے اظہار کے لئے صرف تین فیصد زبان اور لہجے کو استعمال کرتا ہے جب کہ %97 اظہار کے لئے اپنے جسم جیسے ہاتھ ،پیر ،انگلیاں ،آنکھ ،چہرہ وغیرہ کو استعمال کرتا ہے۔
مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین محمد بابر ایک روز اپنے سرداروں کے ساتھ مصروف طعام تھا ۔اس نے دیکھا کہ ایک قوی الجثہ افغانی سردار شیرشاہ سوری خنجر سے دسترخوان پر رکھے ہو ئے گوشت کو نوچ نوچ کر کھارہا ہے۔ اس بدتمیزی پر بابر جیسے عظیم المرتبت بادشا ہ کی پیشانی پر بل پڑگئے ۔ اس نے خادم کے کان میں شیر شاہ سوری کا سر قلم کر دینے کا حکم صادرکیا ۔شیرشا ہ، بابر کو خادم کے کان میں کانا پھوسی کر تے ہوئے دیکھ کر بھانپ گیا اور اپنا لباس خادم کو پہنا کر راہ فرار اختیار کی اور جان بچانے میں کامیاب ہوگیا۔بادشاہ کے خادموں نے شیر شاہ کے نوکر کو شیر شاہ سمجھ کر قتل کر دیا۔بابر ایک قیافہ شناس تھا اس نے سردار کے جسمانی اظہار سے اس میں پلنے والے باغیانہ طیور کا اندازہ قائم کرلیا تھا کہ وہ مستقبل میں سلطنت کے لئے ایک خطرہ بن جائے گا اسی لئے اس نے اس کے قتل کا فوری حکم دیا ۔لیکن شیر شا ہ بھی قیافہ شناسی کا ماہر تھا وہ بادشاہ کی باڈی لینگویج کو پڑھ چکاتھا کہ بادشاہ اس کے قتل پر آمادہ ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ شیر شاہ سوری نے بابر کی وفات کے بعد ہمایوں کو در بدر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا۔یہ واقعہ علم قیافہ شناسی کی ایک ادنی مثال ہے۔موجودہ زمانے میں قیافہ شناسی کو باڈی لینگویج کے نام سے معنون کیا گیا ہے۔یہ ایک قدیم فن ہے جو صدیوں سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔
دور حاضر میں کئی افراد اس علم کو حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔اور ایک کامیاب زندگی کے لئے یہ لازمی ہے کہ ہم دوسروں کے متعلق معلومات حاصل کر نے کے بجائے خود اپنی ذات میں ڈوب کر اپنے رویوں اور برتاؤ کی اصلاح کرتے ہو ئے کا میابیوں کے زینوں کو طئے کریں۔ہم ہر بار گھر سے باہر نکلنے سے پہلے خود کو آئینے میں دیکھ کر حسب ضرورت اپنے چہرے بال اور لباس کو درست کرلیتے ہیں اور اطمینان کے بعد ہی گھر سے باہر نکلتے ہیں لیکن یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم اپنے وضع قطع لباس اور بال تو درست کر لیتے ہیں لیکن جسمانی اشارات و کنایات اور جسمانی اظہار رویوں کو درست کرنے یا پھر ان کو سیکھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر کسی کو ہر کوئی پسند کرے مقام و علاقوں کے اعتبار سے ان میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔سیاہ فام افراد گورے رنگ والوں میں پذیرائی حاصل کرنے میں نا کام رہتے ہیں اس طرح سفید و سرخ رنگ کو پسند کیئے جانے والے علاقوں میں سیاہ رنگ کو اہمیت نہیں ملے گی۔ان ہی امور کو پیش نظر رکھ کر ماہر علم نفسیات جوڈ جیمس (JUDE JAMES) کہتا ہے کہ جس طرح سے حسن اور خوب صورتی دنیا میں سمجھی اور دیکھی جاتی ہے بالکل اسی طرح انسانوں کی جسمانی زبان کو بھی سمجھا اور پرکھا جاتا ہے۔اپنی کتاب (BODY SPEAKS) میں جوڈ جیمس رقم طراز ہے کہ انسان کس طرح اپنے جسمانی حرکات کے ذریعہ غیر محسوس طریقے سے دوسروں تک پیغام رسانی کا کام انجام دیتا ہے جو ان پیغامات کو سمجھتا ہے وہ افراد کی شخصیت کا بخوبی اندازہ قائم کرلیتا ہے۔اسی وجہ سے ضروری ہے کہ ہم ان اشارات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں مناسب تبدیلیاں لائیں جیسا کہ انٹرویو دینے والا شخص کا اپنے ہاتھوں کو باربار پکڑ لینا، نظریں نیچی رکھنا،اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کرنا ،باربار اپنی ناک کو کھجانا،حلق کو صاف کرنے کے لئے کھنکارنا واضح پیغام دیتا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہے۔جب کوئی اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے پیغام رسائی کا کام انجام دیتا ہے تو اس زبان کو غیر لفظی زبان (باڈی لینگویج ) کہتے ہیں۔آپ کے مقابل جسمانی زبان کا ادراک نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ با آسانی کسی بھی فرد کے برتاؤ یا رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی شخصیت کا پتہ لگالیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کسی شخص کے برتاؤ اور رویوں سے اس کی فطرت کا اندازہ قائم کرلیا جاتا ہے۔جہان اردوڈاٹ کوم
جسمانی پیغام رسائی کو ہم اکثر و بیشتر اسی لئے نہیں سمجھ پا تے ہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف قسم کی جسمانی زبانیں(BODY LANGUAGES) مستعمل ہیں۔کسی تمدن میں کوئی اشارہ اگر ہاں کا اظہار ہوتا ہے توکہیں نہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،رخصتی کے وقت کیا جانے والا اشارہ کسی اور مقام پر خیر مقدم کا کام انجام دیتا ہے۔تجارت پیشہ ،سیاستدان حضرات اور مردم شناس افراد ابتدائے افرینش سے ان پیغامات کو سمجھتے آئے ہیں۔بیرون ممالک خدمات انجام دینے سے پیشتر اس زبان کی تربیت حاصل کرنا کامیابی کے فیصد میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔جس طرح ایک عام آدمی کے لئے جسمانی زبان کی ترسیل و فہم مشکل ہے اسی طرح ماہرین تعلیم کے لئے بھی یہ ایک نیا مضمون ہے اسی لئے یہ امر ایجوکیٹرس کے لئے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا ادراک حاصل کریں کہ جسم کے ذریعے کس طرح پیغام رسانی کا کام انجام دیاجا سکتا ہے بلکہ یہ بھی علم حا صل کر یں کہ بغیر گفتگو کے بھی پیغام رسائی کس طرح انجام دی جا سکتی ہے۔جسمانی حرکات و سکنات سے ہم سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو نہ صرف غلط فہمی کو جگہ دے گی بلکہ زندگی کے لئے ایک سنگین مسئلہ کا بھی سبب بن سکتی ہے۔باڈی لینگو یج خیر مقدم ،نشست و بر خواست ،چہرے کے تا ثرات ،لباس ،وضع قطع،آواز کا ارتعاش و آہنگ،آنکھوں کی حرکات،سماعت ،سانس لینا،دوسروں کے پاس کھڑے ہونا،مس کرنا یا چھونا،جسم کا دباؤ خاص طور پر جذباتی موقعوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔جہا ں جسم زبان سے زیادہ گفتگو کر تا ہے ۔ غیر لفظی گفتگو (NON VERBAL COMMUNICATION) کی اصطلاح بھی با ڈی لینگویج کے لئے استعمال کی جا تی ہے۔معروف ما ہر عمرانیات ایڈورڈ ٹی ۔ہال(EDWARD T, HALL) کے مطابق ایک عام گفتگو میں تقریبا 65% معاشرتی مطالب کی تر سیل غیر لفظی گفتگو باڈی لینگویج کے ذریعہ انجام دی جا تی ہے۔
دنیا بھر میں بالخصوص ایشیائی ممالک کے بہ نسبت شمالی امریکہ میں شعوری طور پر غیر لفظی گفتگو پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔جسمانی اظہار سے عدم واقفیت کی بنا ء پر اس کا غلط استعمال نہ صرف نا خوش گوار بلکہ خطرناک تجربات کا با عث ہو سکتا ہے۔1992 ؁ء میں جارج ڈبلیو بش آسٹریلیا کے سرکاری دورے پر گئے ہوئے تھے سڑک کے دونوں جانب آسٹریلیائی عوام ان کے خیرمقدم کے لئے کھڑی ہوئی تھیں۔صدر نے عوام کے استقبال کے جواب میں اپنی دونوں انگلیوں سے ویV کا نشان اس طرح بنایا کہ ہتھیلی کی پشت عوام کی جانب کر دی۔دوسرے دن اخبار نے شہ سرخی لگائی کہ امریکی صدر نے وی کا نشان درست طریقہ سے نہ بتاکر آسٹریلیائی عوام کی تذلیل و تحقیر کی ہے۔ کسی خاص علاقے کی باڈی لینگویج سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہم اچھے مقاصد رکھتے ہوئے بھی پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح کا ایک اور واقعہ جو کہ با ڈی لینگویج سے واقفیت کی اہمیت سے ہم کو آگاہ کر تاہے۔سال 1998 ؁ میں ایک نو شادی شدہ جوڑا اپنے ہنی مون کے لئے نیوزی لینڈ وارد ہوا۔علاقائی ٹرایفک قوانین کی عدم واقفیت کی وجہ سے قانون شکنی کا مرتکب ہواپولیس عہدیداران نے بعد از وضاحت ان کو معاف کردیا۔شکریہ کے طورپر خاوند نے پولیس عہدیدار کو انگوٹھا دکھایا۔نیوزی لینڈ میں انگوٹھا دکھانا ایک انتہائی معیوب فعل سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس عہدیدار نے فی الفور اس شخص کو ہتکڑی پہنادی اور گرفتار کرلیا۔اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کے جسمانی اظہار کے طریقے مختلف ہوتے ہیں ایک مقام پر جس اظہار کو تہذیب کی علامت سمجھا جاتاہے وہ علامت دیگر مقامات پر معیوب قرار پاتی ہے۔اسی لئے زبانی گفتگو کی طر ح جسمانی اظہار میں بھی احتیاط لازمی ہے۔جہان اردوڈاٹ کوم
مختلف ممالک میں بولی جا نے والی زبانوں کا علم جس طرح کامیاب کے امکانات کو روشن بنا دینے ہیں اسی طرح سے جسمانی اظہار کے طریقوں سے آگاہی بھی کسی فرد کی کامیابی میں اہم کردار نبھاتی ہے۔ ARGYL کے مطابق سات لاکھ سے بھی زیادہ جسمانی اظہار کے طریقے انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔تمام دینا میں سر تا پیر جسمانی اظہار کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔تقریبا معاشرے میں سر کی جنبش کو رضامندی کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ یونان ، یوگوسلاویہ ،بلغاریہ اور ترکی وغیرہ میں سر کی خفیف سی جنبش کو نہیں کی علامت پر محمول کیا جاتا ہے۔ایشائی ممالک میں سر پر چپت لگانے کو نہایت معیوب تصور کیا جاتا ہے اور اس کو تحقیر بھی مانا جاتا ہے۔چہر ے کے تاثرات سے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے مغرب میں جذبات کا آزادانہ اظہا ر ایک حقیقت ہے جبکہ یہ عمل مشرقی روایات کی منافی کرتا ہے۔ تبسم و مسکراہٹ مشرقی ممالک میں خوشی کے اظہار کا وسیلہ ہے جب کہ اس طرح کا کوئی مفروضہ مغرب میں رائج نہیں ہے۔مغرب میں کسی بھی مسئلہ کی عدم اطمینان بخش تفہیم اور طنزیہ اظہار کے لئے بھی خفیف مسکراہٹ و تبسم کا استعمال عام بات ہے۔ نظر کا ملانا مغربی ممالک میں قابل ستائش عمل اور خود اعتمادی کی علامت ہے جبکہ افریقی اور ایشائی ممالک میں یہ ایک غیر مہذب فعل مانا جاتا ہے۔ایشیاء اور افریقہ میں جس قدر آنکھوں جھکا کر رکھا جائے یا جس قدر آنکھوں کو ملانے سے احتراز کیا جائے گا اتنا ہی وہ شخص مہذب اور با حیاء تصور کیا جاتا ہے۔اْنکھوں کا موند لینا بھی کہیں قابل ستائش فعل تو کہیں حقارت کا با عث مانا جاتا ہے۔1975 ؁ء میں امریکہ کے نائب صدر والٹر منڈیل کو جاپانی ڈائیٹ (ایوان)سے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تو انھوں نے دیکھا کے ان کے خطاب کے دوران تقریبا ایوان کے ممبران کی آنکھیں بند تھیں جس پر نا ئب صدر نے اپنے سفیر سے کہا کہ انھیں یہاں کیوں بلایا گیا ہے جس پر سفیر نے دریافت کیا کہ آخر کیا معاملہ ہے نائب صدر نے بتایا کہ ان کے خطاب کے دوران اکثر لوگ اپنے آنکھوں کو بند کیئے ہوئے تھے۔جس پر سفیر نے کہا کہ جاپانی اکثر انہماک کے حصول کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کرلیتے ہیں آپ کی تقریر کی بہتر تفہیم کے لئے انھوں نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا تھا۔بوسہ بازی مغرب میں محبت اور شفقت کے اظہار کے وسیلہ ہے جب کہ مشرقی میں یہ فعل انتہائی معیوب سمجھاجاتا ہے اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔فلپائن ، لاطینی امریکہ PUERTO RICANB اور دیگر لاطینی امریکن ممالک میں لوگ انگلی کے بجائے اشارے کے لئے ہونٹوں کو ہلاتے ہیں۔ہاتھوں کی جنبش اطالوی اور بعض کلچر میں بہ کثرت استعمال کی جاتی ہے جب کہ جاپان اور مشرقی ممالک میں بازوں کی حرکت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ماہرین نفسیات نے چند ایسے اشارے دریافت کیئے ہیں جن کی بناء پر ہم بڑی حد تک کسی کے جھوٹ کو پہچان سکتے ہیں جن میں آنکھیں چرانا ،پہلو بدلنا،صفائی پیش کرنا (خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے ۔۔۔ اب اتنی صفائی نہ دے) ،دفاعی انداز کو اپنانا،درمیان میں چیزوں کو رکھ دینا ،سر کھجانا،بات کے موضوع کو بدلنا وغیر ہ جیسی حرکات سے بخوبی کسی کے جھوٹ کو پکڑا جاسکتا ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی پر وفیسر ایلس فوسٹر نے باڈی لینگویج کو دور حاضر میں کامیاب کا ایک نسخہ قرار دیا ہے ۔انسان لاکھ کوشش کر نے کے با وجود موقع کی مناسبت سے چند سکینڈ میں ایسے جامع مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کر پاتا جس کی ادائیگی سے حسب منشاء نتائج حاصل کیئے جا سکیں جب کہ چند سیکنڈ کا پر جوش مصافحہ توقعات سے بڑھ کر نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔لیکن اس کے بر خلاف گونگے(سپاٹ) چہروں کے مالک جن کے چہروں پر کوئی تاثر نہیں ابھرتا انتہائی گہرے ہوتے ہیں ان کی منصوبہ بندی بے لچک اور سخت ہوتی ہے یہ فیصلے کر نے کے بعد واپس نہیں لیتے خواہ وہ برباد ہی کیوں نہ ہوجائیں۔جو لوگ دوسروں کو بولتے ہوئے غور سے سنتے ہیں یہ اپنی ذات میں خوفناک آمر ہوتے ہیں۔جو لوگ انتہائی کامیابی پر پہنچ کر بھی چھوٹے معاملوں میں ہر قسم کے لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں یہ ہمیشہ چونکادینے والے فیصلے کر تے ہیں۔ہنس مکھ اور سنجیدہ قسم کے لوگ بڑے فیصلے لینے سے قبل اکثر اپنے روٹین تبدیل کر دیتے ہیں۔قیافہ شناسی یا باڈی لینگویج ایک طویل فن ہے جس کا ایک مضمون میں احاطہ کیا جانا ناممکن ہے۔آج کل یورپ اور تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں زبانی اظہار کی بہ نسبت جسمانی اظہار کو زیادہ موثر مانا جا رہا ہے۔کیونکہ ڈھیروں الفاظ میں سے خوب صورت اور مناسب الفاظ کا انتخاب بہت ہی مشکل ہے جب کہ یہ کام محض ایک مسکراہٹ سے پر جوش انداز میں ہا تھ ملاکر یا گلے مل کر انجام دیا جا سکتا ہے۔جہان اردوڈاٹ کوم
جسمانی اظہار دراصل ایک با قاعدہ فن ہے جس سے ابھی کم لوگ روشناس ہیں۔جو لوگ باڈی لینگویج کے فن سے آشنا ہیں وہ مقابل کی ایک خفیف مسکراہٹ سے اس کے دل کا حال پڑھ لیتے ہیں لیکن اس فن میں طاق افراد دوسروں کو بہ آسانی دھوکا بھی دے جاتے ہیں۔باڈی لینگویج ایک بے حد قدیم فن ہے لیکن اس کے بارے میں با قاعدہ تحقیقات بیسویں صدی کے وسط میں تب شروع ہوئی جب ’’حرکات و سکنات کا ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے رے برڈوسٹل کی ایک کتاب بازار میں آئی اس کے بعد اس موضوع پر کئی کتابیں منصہ شہود پر آئیں جس میں نینی آر مسٹرونگ کی ’’انسانی چہروں کے تا ثرات کو کسیے پہچانے اور دوسروں تک پہنچائیں‘‘ کتاب کی کافی پذیرائی ہوئی۔آج باڈی لینگویج دنیا بھر میں اظہار رائے کا ایک مستند طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ طریقہ اظہار مستعمل نہیں تھا جب کہ آج کامیابی کی پہچان بن گیا ہے۔اس فن میں با قاعدہ مہارت کے لئے ماہرین نفسیات کی تحریر کردہ کتابوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔اب اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے زینہ طئے کرنے میں یہ فن مددگار ثابت ہو رہا ہے۔مسکراہٹ اور گرم جوشی اس کے بنیادی ستون ہیں۔اگر ہم کو ان کے صحیح استعمال سے آشنائی ہو جائے تو کامیابی کی منازل خود بخود طئے ہوجائیں گی۔

Share
Share
Share