تیسری قسط
مقصدِ نمازِ جمعہ
مفتی کلیم رحمانی
09850331536
مقصد نمازِ جمعہ کی دوسری قسط کے لیے کلک کریں
نماز جمعہ کا دوسرا اہم مقصد دنیا کے تمام مسلمانوں کو اسلامی اجتماعیت سے وابستہ کرنا ہے اور یہ مقصد خود لفظ یوم جمعہ اور نماز جمعہ سے واضح ہوتا ہے کیونکہ جمعہ کے معنی ہی جمع ہونے اور اجتماعیت کے ہے مطلب یہ کہ ایسا دن اور ایسی نماز جس میں مسلمان جمع ہوتے ہں اور اسی مناسبت سے مسلم معاشرہ میں جامع مسجد کا تصور اور اس کی اہمیت ہے یعنی وہ مسجد جو مسلمانوں کو جمع کرنے والی ہے یہی وجہ ہے کہ جب تک دنیا میں اسلامی خلافت و حکومت تھی۔
حکومتی سطح سے اس بات کی کوشش کی جاتی تھی کہ جامع مسجد کی تعمیر ایسی وسیع ہو جس میں پورے شہر کے مسلمان ایک ساتھ جمع ہو سکے لیکن اسلامی خلافت کے خاتمہ کے بعد اور شہروں کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے بڑے شہروں میں یہ بات ایک طرح سے ناممکن ہوگئی ہے پھر بھی
قصبات اوردیہاتوں میں جہاں مسلمان آسانی کے ساتھ ایک مسجد میں جمع ہو سکتے ہوں اس بات کی ضرور کوشش کرنی چاہئے کہ مسلمان جمعہ کی نماز ایک ساتھ ادا کرسکے تاکہ اسلامی اجتماعیت کے تقاضے پورے ہو سکیں۔
جن فقہاء کرام نے چھوٹے دیہاتوں میں جہاں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں نہ ملتی ہوں جمعہ کے صحیح نہ ہونے کی جو بات کہی ہیں ان کے پیش نظر بھی یہی مصلحت تھی کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کمزور نہ ہو، اس لئے کہ یہ فطری بات ہے کہ کسی بھی اجتماعیت کو اگر زیادہ چھوٹی چھوٹی تکڑیوں میں بانٹا جائے تو اس سے بڑی اجتماعیت کمزور ہوگی، اور چونکہ جمعہ کا مقصد ہی مسلمانوں کی اجتماعیت کو مضبوط کرنا ہے، ساتھ ہی ان فقہاء کرام کے پیش نظر یہ بات بھی رہی ہوگی کہ ایسی چھوٹی آبادی جہاں پر ضروریات زندگی کی تمام چیزیں نہ ملتی ہوں ،ایسے مقام پر کسی اچھے با صلاحیت امام وہ خطیب کا مقر کرنا جو خطبہ جمعہ کے ذریعہ قرآن و حدیث کی مکمل تعلیم دے بہت مشکل ہے، اور چونکہ نمازِ جمعہ کا ایک اہم مقصد خطبہ جمعہ کے ذریعے مسلمانو ں کی مکمل تعلیم و تربیت ہے ،اور جہاں پر یہ نظم نہیں ہو سکتا وہاں جمعہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔مسلمانوں کو اسلامی اجتماعیت سے وابستہ کرنے میں یہ مقصد بھی شامل ہے کہ مسلمانوں کو غیر اسلامی اجتماعیت سے الگ رکھا جائے ،لیکن المیہ ہی ہے کہ برسوں سے نمازِ جمعہ ادا کرنے والے بہت سے مسلمان اسلامی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی مسلمان غیر اسلامی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کو اسلام کا تقاضہ قرار دیتے ہے۔
نمازِ جمعہ کے متعلق آدھی امّتِ مسلمہ یعنی عورتو ں کی حاضری و شرکت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے بلکہ ان کے لیے بھی مساجد میں خطبہ جمعہ اور نمازِ جمعہ میں شرکت کے مواقع فراہم کرنا چا ہیے تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے ہفتہ واری تعلیمی ،عبادتی اور تنظیمی اجتماع میں شریک ہو کر استفادہ کریں ،کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی امّت کے مردوں کو فرمایا ۔ لاَ تَمْنَعُوْانِسآء کُمُ الْمَسَاجِدْ۔(ابوداود،مشکوۃ) (یعنی تم اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو)۔لہذٰا قیامت تک دینی لحاظ سے عورتوں کے لئے مساجد کے دروازے
کھلے ہوئے ہیں ، البتہ مساجد میں عورتوں اور مردوں کے اختلاط سے بچنے کی کوئی تدبیر ضرور کرنی چاہیے وہ یہ کہ مساجد میں عورتوں کے آنے جانے کا دروازہ مردوں کے دروازہ سے الگ رکھا جائے )۔اسی طرح عو رتوں اور مردوں کی صفوں کے درمیان کسی چیز کا پردہ کرلیا جائے ۔بے جا اندیشوں اور انتظام کو دلیل بنا کر عورتوں کو مساجد سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو کھانے پینے سے اسلیے روک دیا جائے کہ اس سے پیشاب اور پاخانہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس کا انتظام کرنا پڑتا ہے،ظاہر ہے کوئی بھی شخص پیشاب اور پاخانہ کے انتظام سے ڈر کر کسی کو کھانے اور پینے سے نہیں روکتا ، کیونکہ کھانا اور پینا انسانی زندگی کے لوازمات میں سے ہے،اسی طرح مساجد میں عورتوں کے آنے کا انتظام اسلامی زندگی کے لوازمات میں سے ہے، اب مساجد میں آنا اور نہیں آنا عورتوں کے اختیار میں ہے،چاہیں تو آئے اور چاہیں تو نہ آئے،لیکن یہ حقیقت ہیں کہ اگر مساجد میں عورتوں کے آنے کا انتظام ہو تو سب نہیں تو بہت سی عورتیں ضرورآئینگی اور دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونگی۔
نمازِ جمعہ کا تیسرا مقصد مسلمانوں کو اسلامی خلافت و سیاست کے قیام و استحکام کی فکر و عمل سے وابستہ کرنا ہے اور غیر اسلامی سیاست و حکومت کی فکر و عمل سے الگ کرنا ہے ،نمازِ جمعہ میں اسلامی سیاست و خلافت کا پیغام اس کی بنیاد اور روح میں شامل ہے، اور یہ بات تو اس عنوان کے شروع میں ہی آچکی کہ اس کے قیام کے شرائط میں مسلمانوں کے خلیفہ کی طرف سے اس کی اجازت کا ہونا ہے۔یہی وجہ ہیکہ نمازِ جمعہ کی پوری ہیئت و کیفیت میں اسلامی خلافت کی ضرورت و تقاضہ داخل ہے،چنانچہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو حکم ہے کہ فوراً مسجد کی طرف چل پڑو ،اور ہر قسم کی مصروفیت چھوڑ دو ایک طرح سے اس میں شاہانہ خطاب اور انداز ہے ،اس کے بعد حکم ہے کہ خطبہ دینے والا منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دے،منبر ایک طرح سے اسلامی خلافت کے سر براہ یا اس کے نائب کاسادہ اسٹیج ہے،اور اسلام خلافت کے تمام معاملات میں سادگی ہی کو پسند کرتا ہے،ساتھ ہی خطیب کے لیئے بہتر ہے کہ وہ خطبہ کے دوران اپنے ہاتھ میں عصاَ رکھے ،یہ کوئی تبرّک کے لیئے یا ٹیک کے لیئے نہیں ہے،بلکہ اسلامی خلافت کی طرف سے دورانِ خطبہ خطیب کے لیئے
اپنے بچاؤ کیلئے ایک دفائی ہتھیار ہے کیونکہ جمعہ کا خطیب ایک طرح سے پورے شہر کا دینی و سیاسی سربراہ بھی ہوتا ہے،اور جو دینی و سیاسی لحاظ سے جِتنے بڑے عہدہ پر ہوگا،اس کو اپنی حفاظت کا اتنا ہی زیادہ انتظام کرنا ہوگا ،اس لیے کے معاشرے میں جہاں کچھ لوگ چاہنے والے ہوتے ہے وہیں کچھ دشمن بھی ہوتے ہے ،اسلیئے کوئی دشمن یا شر پسند خطبہ کے دوران موقع کو غنیمت جان کر خطیب پر آسانی کے ساتھ ہاتھ نہ اٹھا سکے ،ا س لیئے اسلام نے خطیب کے ہاتھ میں پہلے ہی پانچ چھ فٹ کی لاٹھی دیدی ۔یہی وجہ ہے کہ آنحضور ﷺ کا اپنے ہاتھ میں تلوار لیکر خطبہ دینا بھی ثابت ہے۔(سنن ابو داؤد)،ساتھ ہی عصا کے ذریعہ اسلام کی سیاسی قوّت کا اظہار بھی ہے،اس لیے کے کوئی بھی نظام بغیر قوّت کے قائم نہیں ہو سکتا چاہے وہ نظام حق ہو یا باطل ۔لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ دنیا کہ، تمام انسان غیر اسلامی نظام چلانے کے لیے تو سیاسی طاقت و قوّت اور پولیس و فوج کی طاقت ضروری سمجھتے ہیں ،لیکن اسلامی نظام چلانے کے لیئے سیاسی قوّت اور پولیس و فوج کو سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہیں ،حد یہ کہ بہت سے مسلم حکمراں بھی اسلامی نظام کے قیام کیلئے سیاسی طاقت و قوّت کو جرم سمجھتے ہیں ،چنانچہ اس وقت بہت سے مسلم ممالک میں اسلامی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی ہوئی ہے،اور ان مما لک میں اسلامی نظام کے قیام کیلئے جدّوجہد کرنے والے افراد ملک و قوم کے باغٰی شمار ہوتے ہیں ،دراصل باطل پرست اسلام کو سیاسی لحاظ سے بے دست وپا دیکھنا چاہتے ہیں ،تاکہ سیاست کے میدان میں ان کی داداگری اور مکّاری و عیّاشی کو روکنے والی کوئی سیاسی قوّت موجود نہ رہے۔لیکن ان تمام مسائل کے باوجود نمازِ جمعہ پڑھانے والے اور پڑھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہّ داری ہیکہ وہ نمازِ جمعہ کو اسلام کی سیاسی طاقت و قوّت پیدا کرنے کیلئے استعمال کرے جو اس کا ایک اہم مقصد ہے۔علاّمہ اقبال ؒ نے بھی اپنے کلام میں لفظ عصا کو طاقت و قوّت کے معنی میں استعمال کیا ہے چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں ۔
رُشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طِلَسْمْ
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
اسی طرح ایک دوسرے شعر میں علاّمہ اقبالؒ نے کامِل مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی۔
قہاّری و غفاّری قُدّوسی و جَبَرُوتْ
یہ چار عناصر ہوں، تو بنتا ہے مسلماں
اسی طرح انسانی زندگی میں خدائی فیصلہ کی ترجمانی کرتے ہوئے علاّمہ اقبال ؒ نے ایک شعر میں فرمایا ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی ہے اَزَل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجاتْ