از۔ محمد احسن فاروقی
پطرس بخاری بحیثیت مزاح نگار
لکھنوٴ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ایک مہینہ گزرا تھا کہ ایک دن لائبریری میں مشفق وصی رضا نے میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ایک ناول دیکھ کر کہا ”اگر سچ مچ ہنستے ہنستے لوٹ لوٹ جانا چاہتے ہو تو مضامین پطرس پڑھو“میں سن کر چپ ہورہا۔ میں یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی علویت کا اور اردو ادب کی اتنی ہی پستی کا احساس لے کر داخل ہوا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اگر صاحبِ ذوق تھا نہیں تو اس قدر بنتا ضرور تھا کہ اعلیٰ ترین تصانیف کے علاوہ ہر معمولی تصنیف سے نفرت کا اظہار کرنا فرض سمجھتا تھا۔ پھر اس وقت میری ایک اور بھی بڑی خاص رائے تھی جو میرے جاننے والوں میں کچھ مقبول سی ہوچکی تھی وہ یہ کہ جسمانی امراض بھی ادبی تاثرات سے دور کئے جا سکتے ہیں اور کیونکہ پیٹ کی خرابی اس وقت ایک عام مرض تھا جس میں، میں مبتلا تھا اس لئے اپنے نظریہ کی مثال میں یہ کہا کرتا تھا کہ پیٹ خراب ہو تو ڈکنس کی ناولیں پڑھو، پیٹ ٹھیک ہوجائے گا۔ چنانچہ میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ناول دیکھ کر وصی رضا نے یہی تصور کیا تھا کہ جیسے میں دوا کی شیشی لے جا رہا ہوں۔ اور جیسے لوگ انگریزی دوا کی شیشی ہاتھ میں دیکھ کر ڈاکٹر کا نام پوچھ کر اکثر کہتے ہیں بھئی کیا ڈاکٹریدوالئے پھرتے ہو حکیم کا علاج کراؤ جلد فائدہ ہوگا۔ اسی طرح وصی رضا نے بھی ڈکنسکی بجائے پطرس کے علاج کا مشورہ دیا مگر جیسے جدید لوگ حکیم کے علاج کا نام آتے ہی صاف ٹال دیتے ہیں اور مشورہ دینے والے کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ویسے ہی میں نے وصی رضا کو دیکھا اور اپنا رستہ لیا۔
پطرس نام عجیب تھا۔ کوئی عیسائی ہے؟ نہیں عیسائی عبرانی نام سے عربی نام پر اُتر آنے کی ذلت برداشت نہیں کرسکتا۔ کوئی لونڈالپاڑی ہوگا جس نے یہ تخلص رکھ لیا اور پھکڑ بازی کرتا ہوگا۔ وصی رضا اردو کے لکھنے والوں کو اچھالا کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ اردو بہت زیادہ جانتے تھے مگر انگریزی میں تھے کورے، اس لئے پطرس کو ڈکنس کی بجائے پیش کرکے ہم کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے تھے۔
مگر کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ پطرس کوئی لونڈالپاڑی نہیں جس استاد نے ہمیں انگریزی ہیومر کو سمجھنا سکھایا تھا۔ وہ اور پطرس کیمبرج میں ساتھی تھے۔ پطرس اصل میں پروفیسر بخاری تھے جو ہندوستان کے سب سے بہتر تعلیمی ادارے یعنی گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے فوراً ہمیں یقین آگیا کہ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ہیومر کیا چیز ہے مگر ان کا ہیومرسٹ ہونا ابھی تک شبہ میں تھا۔
مگر جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہم مانیں چاہے نہ مانیں وہ سر پر چڑھ ہی بیٹھے گا۔ اور پھر ہم کو اسے ماننا ہی پڑے گا ایک جادو اقبال تھا۔ ”شکوہ“ و ”جواب شکوہ“ پڑھتے ہی ہمارے سر پر ایسا سوار ہوا کہ قیامت کے دن بھی سوار ہی نظر آئے گا۔ دوسرا جادو پطرس، اس کے سر پر سوار ہونے کا قصہ سنیئے۔
کوئی نصاب کی کتاب تھی۔ اس میں ”کتے“ نظر آیا۔ کتے ہمارے لئے بھی عجیب ہی جانور تھے۔ ہمیں ان سے اس قدر ڈر لگا کرتا تھا کہ جس گلی میں داخل ہوتے تو پہلے دیکھ لیتے کہ دور دور تک کوئی کتا تو نظر نہیں آرہا ہے اور اگر نظر آتا تو اس گلی میں کبھی قدم آگے نہ بڑھاتے۔ ہمارے دوست اس بات پر ہمارا مذاق اڑایا کرتے۔ ہمارے بزرگ ڈانٹا کرتے۔ کتے سے ڈر ہمارے اندر فطری تھا۔پھر ہم نے اسٹیونس کی کتاب ”ٹرلولیزوتھ اے ونکی“ پڑھی اس نے ایک جگہ کتوں سے خوف کا پُرلطف ذکر کیا۔ ہمیں بڑی تقویت ہوئی کہ ایک تو ساتھی ملا۔ اس پس منظر کو ساتھ لئے ہوئے جب میری نظر ”کتے“ اور اس کے نیچے پطرس پر پڑی تو کیا بتائیں کیا ہوا۔ فوراً کتاب لے کر بیٹھ گیا او رپڑھنے لگا۔ پہلے ہی جملے نے جادو مارا۔ علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے۔ اچھل کر دل بول اٹھا ”قسم استاد کی ہیومر یہ ہے“ کہیں کوئی غلط نہ سمجھ لے ہیومر جملوں اور فقروں کی چیز نہیں ہے یہ ایک نقطہٴ نظر، مزاج کے حقائق سے تصادم، زندگی میں ایک مخصوص کیفیت کے احساس کا نام ہے۔ اس جملے میں ہیومر نہیں۔ اس سے ہیومر شروع ہورہا ہے۔ جملہ ایک نئی نظر، ایک نئی ہستی، ایک نئی ادا، ایک نئے عالم خیال، ایک نئی بے ڈھنگی دنیا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ کتوں کے ایک نئے عجائب خانے کا راستہ بتا رہا ہے۔
”دیکھئے یہ نئے ”کتے“ آگئے۔ ”یہ کتے کیا کرتے ہیں؟“ وفا دار جانور؟ واہ کیا وفاداری ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔ لیجئے یہ کتوں کا مشاعرہ گرم ہے۔ کم بخت بعض تو دوغزلے اور سہ غزلے لکھ کر لائے ہیں۔ ہنگامہ گرم ہے۔ پطرس آرڈر آرڈر پکار رہا ہے کچھ اثر نہیں مجبور ہو کر کہتا ہے اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے، یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔“
دیکھئے اور ”کتے“ قومیت کے دلدادہ کتے۔ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ کیسے قوم پرست ہیں۔
انگریزوں کے کتے ان کی شائستگی دیکھئے۔ ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں بخ بخ کر رہے ہیں۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی اور ہمارے کتے۔ بے تالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں نہ وقت پہچانتے ہیں گلے بازی کئے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ پطرس سے ان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ مگر مسٹر پطرس۔ بااخلاق انسان ہیں طبعی شرافت ان پر غالب آہی جاتی ہے۔ ہم انہیں بزدل ہرگز نہ سمجھیں گے۔ ہاں ان کے حال سے بےحال ہونے پر ہماری نظر ہے۔ آیة الکرسیی کی جگہ دعائے قنوت پڑھنے لگے ہیں۔ رات کے وقت تھیٹر سے واپس آرہے ہیں… اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔ آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا بہت ہی کتا بہت ہی کتا۔ با۔با۔با۔با۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے، چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہوگئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بےآواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے“۔ بابابابابا۔ اُف۔ اُف۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا مگر اب اس پر ہنستے ہنستے لوٹے جا رہے ہیں پطرس سچ مچ ہیومرسٹ ہے، پیدائشی ہیومرسٹ ہے۔
مگر وہ طبعاً محتاط ہے ورنہ کسی کتے نے اسے کاٹ لیا ہوتا اور آج اس کا مرثیہ چھپ رہا ہوتا مگر… جب تک ”کتے“ موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں…بھونکنا عجیب چیز ہے۔ اس کے اصول نرالے ہیں۔ متعدی مرض ہے۔ ہر سن کے کتے کو لاحق۔ دو دو تین تین تولے کے کتے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ ”اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے“… بھونکنا عجیب چیز ہے۔ پطرس کے تمام قوےٰ کو معطل کردیتا ہے۔ لیجئے بھونکنے کا ایک اور منظر۔ پہلا منظر مشاعرہ ہوچکا۔ اب ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کر رہا ہے۔ پطرس سڑک پر ہے۔ آپ کہیےہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ پطرس کو غصہ آگیا۔ پوری مجلس کا یوں متفقہ ومتحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ یہ الفاظ اس کے منہ سے نکل ہی گئے۔ آخر حد ہوتی ہے مگر کسی کتے کی دل شکنی اسے منظور نہیں۔ یہ مضمون کسی عزیز ومحترم کتے کی موجودگی میں باآواز بلند نہ پڑھا جائے۔
خیر ذلیل کتوں کو چھوڑیئے۔ خدا ترس کتے دیکھئے مسکینی وعجز ملاحظہ ہو۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کے لئے لیٹا ہوا ہے۔ گاڑی کے بگل کوئی اثر نہیں کرتے۔ کسی نے چابک مارا تو ایک گز پرے جا لیٹا۔ بائیسکل ایسی چھچھوری چیزوں کے لئے راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ رات کے وقت اپنی دم کو تا بحدامکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیرہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ اگر ان کی دم پر کسی نے پاؤں رکھ دیا تو راتوں خواب میں بے شمار کتے پاؤں سے لپٹے نظر آئے۔
پطرس کے دل میں ان سے انتقام لینے کی آگ ہے اگر خدا اسے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا کر دے تو سب کتوں کو کسولی پہنچا دے۔ کاٹنا اور بھونکنا۔ یہی دو طاقتیں ہیں۔ انگریزی میں ایک مثل ہے کہ ”بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے“ یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے۔ واہ واہ کیا بات کہی ہے اس کے بعد مضمون کو آگے نہ جانا چاہیئے۔
یہ سب کیا ہوا۔ ایک مخصوص اپنے پر ہنسانے والی ہستی دکھائی دی۔ اس نے اپنے تئیں دکھایا۔ والله کیا آدمی ہے ہمیں جیسا ہے بالکل ہمارا ساتھی ہمزاد۔ اور اس نے کتے دکھائے۔ عجیب حالات کے کتے… دیکھئے وہ دروازے پر گلی میں کتے بھونک رہے ہیں۔ آس۔ آس۔ یہ کیا ہوا۔ یہ سب پطرس کے کتے ہوگئے۔ جو کتا دکھائی دیتا ہے وہ پطرس کا کتا ہے ہم پطرس ہیں وہ ہمارا کتا ہے۔ یہ جادو ہے۔ ہمارا نقطہٴ نظر ہی بدل گیا۔ اسے ہیومر کہتے ہیں اردو کا کوئی لفظ اس لفظ کے معنی نہیں ادا کرسکتا۔
اب سنئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ہمارا کیا حال ہوا… ہمارے اندر سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم پر کتابوں کا جنون سوار ہوا کرتا ہے اس کی شدت کا اندازہ یوں کیجئے کہ اگر کسی رات کو کسی کتاب کا جنون ہم پر سوار ہو تو ہم بازار جاکر کتابوں کی دوکان کے تالے توڑ کر کتاب نکال کر گھر لے آئیں گے اور بغیر اس کو ختم کئے دم نہ لیں گے… تو بس صاحب مضامین پطرس کا جنون ہم پر سوار ہوا فوراً بازار پہنچے اور ایسی جلدی کتاب لے کر واپس آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب چرا کے بھاگے ہیں۔
اب پطرس میری نگاہ میں پکا ہیومرسٹ تھا۔ اردو کا واحد ہیومرسٹ۔ بلکہ وحدہ لاشریک ہیومرسٹ“ او رپھر ایک ہی جلوے میں ہم سودائی ہوچکے تھے۔ کتابوں کا سودا بہت اچھی چیز ہے اور ادھر سودا ہوا اور اُدھر وصل میسر ہوگیا۔ اتنی آسانی کسی اور عشق میں نہیں ہوتی۔ غرض ہم اور پطرس من تو شدم تومن شدی ہوگئے۔
دیباچہ شروع کیا۔ یہ کتاب ہمیں کیسے ملی؟ ایک مضمون تو مفت ملا۔ اتنا پطرس پر احسان ہوا۔۱۱۷/۱ احسان پطرس پر۔ باقی کتاب ہم نے چرائی؟ جس بے تابی کے ساتھ اس کو لے کر ہم گھر آرہے تھے۔ وہ محکمہ پولیس کے لحاظ سے چوری کے زمرے میں آتی ہے۔ چوری اور بھاگنا لازم وملزوم ہیں تو ہم نے اگر پوری چوری نہیں تو آدھی چوری ضرور کی۔ ہمارا آدھا ذوق داد کے قابل ضرور ٹھہرتا ہے۔ مگر یہ کتاب تو ہم خرید کر لائے ہیں اس لئے ہمیں اپنی حماقت کوحق بجانب ثابت کرنا ضروری ہے۔
ہماری حماقت حق بجانب ہے۔ ہم حماقت کو حق بجانب یعنی حقیقت سے ملا جلا دیکھ کر ہی تو اس کتاب پر عاشق ہوئے اسی کو تو ہیومر کہا جاتا ہے ہمارے نزدیک ہیومر کی سب سے بہتر تعریف اتفاقاً ایک بڑے ہیومرسٹ کے قلم سے نکل گئی۔ یہ ہیومرسٹ تھیکرلے ہے۔ اور اس نے اپنی کتاب انگلش ہیومرسٹز میں سو افٹ ”Swift“ پر لکھتے لکھتے یہ فقرہ چھوڑ دیا۔ Truth Torsy – Turvy, At Once True And Absurd. یہ بات وہی ہے حماقت کو حق بجانب ثابت کرنا، حق بجانب کو حماقت ثابت کرنا۔ پطرس پر اتفاق سے وہی کچھ کہہ گیا جو تھیکرلے اتفاق ہی سے کہہ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی سچا مصنف خود نہیں لکھا کرتا۔ قلم تو اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر چلاتی اس کو کوئی روحانی چیز ہے۔ اور یہ روحانی چیز اپنی موج خرام سے ایسے گل کترجاتی ہے جن کا احساس مصنف کے شعور کو بھی بعد میں ہی شاید کبھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ہیومیر کی روح جب پطرس کا قلم چلا رہی تھی تو اس نے حقیقت کو حق بجانب کرنے والا فقرہ کر دیا۔ یہ روح جسے یونانی علم اصنام میں مومس Momus کہتے ہیں یہی کرتی ہے۔ حقیقت اور حماقت کو اس طرح گڈمڈ کرتی چلی جاتی ہے کہ نہ حقیقت کھلے اور نہ حماقت ثابت ہو۔ یہ روح ہمارے پھکڑ نگاروں سے کبھی چھو کر نہیں گزرتی ان کی حماقتوں کو پڑھئے ہنسی کی ایک لہر دوڑے گی۔ مگر ذرا غور کیجئے تو ان کی حماقت حماقت ہی رہ جائے گی۔ بالکل ناممکن۔ غلط بات من گڑھت۔ لونڈوں کو ہنسانے کے لئے ٹھیک ہے۔ اس پر ہنسنا بدمذاقی ہے مگر پطرس تو مومس سے ہم کنار ہے اس کے خامے کی آواز نوائے مومس ہے۔
اب بتائیے کہ پطرس کیا ہے؟ اتہ پتہ مل گیا۔ اس کے کتے دیکھے اس کو کتے بناتے دیکھا۔ اسے خود ہنستے دیکھا اس کا دیباچہ پڑھا اب اس پہیلی کو بوجھنے میں کیا کسر ہے۔ ایک بات سمجھ میں آئی۔ یہ کہ پطرس جو کچھ بھی ہے مگر ہے دیکھنے کی چیز اور برتنے کی چیز۔ شیکسپیئر کاپک Puck اس کے کان میں کہہ رہا ہے اس کی روح کے کان میں کہہ رہا ہے۔ O Lord What Fools These Mortals Be اور اس کا قلم چل رہا ہے وہ مارٹل ہے اس کے چاروں طرف سب مارٹلز ہیں وہ فول ہے اور اس کے چاروں طرف سب فول ہیں۔ یہی دنیا ابھرتی آرہی ہے۔
”ہاسٹل میں پڑھنا“ وہ طالب علم ہے اس کا مقصد حیات یہ ہے کہ ہاسٹل میں پڑھے۔ اس کے گھر والوں کو دیکھئے۔ کھاتے پیتے مسلمان لوگ۔ لڑکے کو تعلیم دلاتے ہیں مگر تعلیم کے مقصد اور تعلیمی اداروں کے حالات سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ صاحبزادے کے لئے تعلیم گاہ تفریح گاہ کے ہم معنے ہے۔ سب سے زیادہ تفریح ہاسٹل میں پڑھ کر ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ کوئی سال ایسا آجائے کہ ہاسٹل میں داخل ہوسکے۔ اس لئے متواتر فیل ہی ہوتے رہنے میں ان کو دلچسپی ہے۔ ادھر ان کے سرپرستوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہاسٹل کوئی بری جگہ ہے والدین کی نگاہ میں ہاسٹل کو علم اور اخلاق کا اعلیٰ ترین مرکز ثابت کرنے کی کوشش برابر مضحکہ خیز ہو ہو کر رہ جاتی ہے وہ جس جس طرح فیل ہوا ہے وہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ایسے بالکل ایسے کتنے لڑکے ہماے ذہن میں ہیں ان سب کا وہ ذواضعاف اقل مشترک ہے وہ ہمارے مشاہدے کی زبردست مضحکہ خیز حقیقت ہے۔
”سویرے جو کل آنکھ میری کھلی“ وہی طالب علم ہے پڑھنے سے اس کی دلچسپی کا حال دیکھئے۔ پڑھنا امتحان کے لئے ہے تیاری کے لئے سویرے اٹھنا ہے۔ لا لہ جی اس کے پڑوسی مضحک حد تک مستعد اور منہمک ہیں۔ اس کو صبح جگانے کے سین اور اس کے جاگ کر سوجانے کے حالات وغیرہ کسی طالب علم نے نہیں دیکھے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر طالب علم میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ پطرس اس میں فرد ہے۔
ہماری مضحک تعلیمی جدوجہد کی تصویر پوری ہوگئی۔ پطرس نے اپنے تئیں الٹ پلٹ کر اور اپنے چاروں طرف کی دنیا کو الٹ پلٹ کر سب کچھ دکھا دیا اور خوب خوب ہنسایا۔
لیجئے خانگی زندگی کے حالات دیکھئے ”اردو کی آخری کتاب ماں کی مصیبت“ یہ ایک عام بےڈھنگا گھر ہے ”میں ایک میاں ہوں“ میاں بیوی کے درمیان تعلقات۔ میاں کے دوستوں پر بیوی کے اعتراضات۔ بیوی بھی عام ہی چیز ہے اس کا جدید تعلیم یافتہ فرماں بردار میاں ہے۔ بیوی کے میکے جانے پر خوش ہے کہ ہر قسم کی آزادی ملی۔ لیکن پھر بھی بیوی کے گھر میں نہ ہونے سے گھبرا کر اسے تار دے دیتا ہے۔ کیا موقعے سے بیوی گھر پہنچتی ہے۔ کمال ہے!
اب سیاسی زندگی کا کھیل دیکھئے ”مرید پور کا پیر“ لیڈر کیسے بنتا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے۔ شروع میں ایک طرح بنایا جاتا ہے۔ اب اسے لیڈر بنتے ہی بن پڑتی ہے۔ آخر میں تقریر کرتے میں اسے کیسا بنایا جاتا ہے اسے بھاگتے ہی بن پڑتی ہے۔ واہ رے لیڈر تم لیڈری کی حقیقت ہو۔
کالجوں کو دیکھئے انکسار کے مجسمے علم کے مرفو پروفیسر پطرس کو دیکھئے اور ان کے شاگردان رشید کے اٹھنی فی کس نذرانہ پیش کرنے پر غور کیجئے اور پھر ملک معظم وغیرہم کے تحائف پر ان کی شہادت دیکھئے۔ لگے ہاتھوں کیمبرج یونیورسٹی میں ”میبل اور میں“ کے فن سے بھی آگاہ ہوجائیے…“رفتہ رفتہ مجھے اس فن میں کمال حاصل ہوگیا جس روانی اور نفاست کے ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کرسکتا تھا اس پر میں خود حیران رہ جاتا تھا اس سے جذبات کو آسودگی نصیب ہوئی۔ والله کیا بات کہی ہے۔ کیمبرج سے لوگ یہی فن سیکھ کر آتے ہیں کیمبرج کی تعلیم کا شاید یہی نچوڑ ہے۔
ادب زندگی پر تنقید ہے؟ میتھور آرنالڈ نے اس بات کوکچھ ضرورت سے زیادہ انسپکٹر مدارس کے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ جس سے کچھ بات ٹھیک نہیں بنتی دکھائی دیتی۔ ورنہ جو کچھ اس نے محسوس کیا تھا وہ ٹھیک ہی تھا زندگی کی وہ چیز جو فنکار ہمیں دیتے آئے ہیں اسے پطرس نے بھی ہمیں دے دیا ہے۔ اب اگر نظریہٴ حیات، نصب العین، پول کھولنا، مفکرانہ سنجیدگی وغیرہ قسم کے حماقت زدہ الفاظ کا ذکر کیجئے تو جواب یہی ملتا ہے کہ اگر زندگی کے مکمل نقش میں کوئی نظریہ ہے، نصب العین ہے، کسی چیز کے پول کھولنے کی ضرورت ہے کوئی اخلاقی سیاسی وغیرہ قدر یا قدریں ہیں تو وہ پطرس کے یہاں بھی ہیں ورنہ ان کے ذکر پر پک کا جملہ یاد کیجئے اور خاموش ہوجائیے۔ یہ شیکسپیئر والا ہیومر ہے۔ صاف خاص ہیومر طنز وغیرہ کی گندگی سے پاک:
بے ادب پامنہ اینجا کہ عجب درگاہست
اب دیکھئے پطرس کیا ہے۔ سب مضامین کو ملا لیجئے اور دیکھئے کیا نکلتا ہے۔ الف لیلے میں ایک قصہ ہے جس میں ایک لڑکا سمندر کے کنارے ایک بوتل پڑی پاتا ہے۔ اس بوتل کو کھولتا ہے تو اس میں سے ایک جن نکلتا ہے جو لڑکے کو کھا جانے کو تیار ہوتا ہے۔ پطرس بھی ویسا ہی ایک جن ہے، مگر یہ جن آدم خور نہیں ہے آدم خوردہ ہے۔ یہ ہمیں نہیں کھاتا اپنے تئیں ہم کو کھلاتا ہے۔ اس کو پھر شیشے میں نہیں اتارا جاسکتا۔ یہ الف لیلیٰ والا احمق جن تو ہے نہیں کہ ایک لڑکے کے کہنے پر پھر بوتل میں واپس ہوجائے۔ اور ہم اسے بوتل میں واپس جانے کو کہیں ہی کیوں۔ وہ تو ہماری خوراک ہے۔ بڑے مزے کی خوراک ہے۔
یہی بہادر جن سردانٹیز کے دماغ سے ڈن کوئزٹ کی صورت میں روزینانت پر بیٹھ کر سانکوپانزا کوساتھ لے کر ڈلسینہ کے عشق میں سرد آہیں بھرتا ہوا دنیا کو فتح کرنے نکلا ہے۔ یہی اب پطرس کی صورت میں نمایاں ہوا ہے۔ جدید دور کے سب ہتھیار اس کے پاس ہیں۔ جدید تعلیم، کیمبرج کی ڈگری، پروفیسر کا عہدہ۔ اس کی ڈلسینہ روشن آراء ہے جس کو وہ آہ سرد کا تار بھیجتا ہے۔ اس کا بھی ایک سانکوپانزا ہے یعنی کبوتر باز مرزا صاحب جو روشن آراء کے فقروں، کبوتر بازی اور تاش بازی کے منظروں سے نمایاں ہوتا ہوا ”سینما کا عشق“ میں کمال کے ساتھ اُبھرتا ہے۔ یاد رکھئے پطرس ایسا جن ہے جو اپنے تئیں ہلکان کرتا ہے چنانچہ اس کا سانکو اس کو پریشان کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ سینما جانا فرض۔ بغیر مرزا صاحب کو ساتھ لئے بن نہیں پڑتی۔ تماشا شروع ہوجانے کے بعد پہنچنا لازمی ٹھہرا۔ اب اندھیرے کی مہم شروع ہوتی ہے۔ ڈن کوئزٹ کی نچکیوں والی مہم! اُف اُف واہ مرزا خوب پھانستے ہو۔
مگر مرزا کا پھانسنا بڑی مفید چیز ہے۔ پھانس پھانس کر ہی سہی مگر مرزا ہی نے تو پطرس کو شہسوار بنایا ہے۔ مرزا ہی نے تو اسے وہ سواری دی ہے جس کو دیکھ کر روز نیانیت بچک کر ڈن کے قابو سے باہر ہواتی ہے۔ اور ایسی بھاگتی ہے کہ پھر نہیں نظر آتی۔ وہی مرحوم جس کی یاد اردو زبان کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہے بلکہ اردو زبان کے ثبات کی ضامن ہے۔
کیا سواری ہے؟ مشین بنانے والے انسان کی قابلیت کا معجزہ! جدید دور کی سب سے زیادہ تعجب انگیز سواری، اگر ڈن کوئزٹ آج کل تشریف لائیں تو انہیں آج کل کی سب سے زیادہ تعجب میں ڈال دینے والی سواری بائیسکل کے سوا اور کوئی نہ دکھائی دے گی۔ یہ ہوا پر اڑنے والی پٹریوں پر چلنے والی پیٹرول کی غلام سواریاں کیا رقم ہیں!
پطرس اس معجز نما سواری کو دنیائے ادب کی مضحک ترین سواری بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ مرزا صاحب کا تحفہ ہے نہیں مومس دیوتا کا عطیہ ہے۔ رات ہی میں آگئی ہے اور اپنے ساتھ ایک پرزے کسنے کا اوزار بھی لائی ہے۔ یہ اوزار ہی اس کا علاج دردِ دل بلکہ اس کی روح ہے۔ کیا شکل پائی ہے۔ دیکھنے سے تو اتنا تو ثابت ہوجاتا ہے کہ بائیسکل ہے لیکن مجمل ہئیت سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پل اور راہٹ اور چرخہ اور اسی طرح کی جدید ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ مل اور راہٹ اور چرخہ اس کے مقابلے میں جدید ایجادات ہیں۔
اور اس کی چال بھی کیا کمال ہے پطرس آخر اس پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔ بائیسکل اپنی آوازوں میں گم ہے۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے، چین چان چون قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیّے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ کھڑ کھڑر کے قبیل کی آوازیں مڈ گارڈوں سے آتی تھیں۔ چرچرخ چرچرخ کی قسم کےسُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔
جوڑو بند کی حرکات ملاحظہ ہوں۔ زنجیر! ”میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑ بولنے لگتی تھی“ اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی“۔
پہیّہ! پچھلا پہیّہ گھومنے کے علاوہ جھومتا ہے یعنی ایک تو آگے کو چلتا ہے اور اس کے علاوہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا ہے۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔
مڈگارڈ! مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیّوں کے عین اوپر نہ تھے ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔
اگلے پہئے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔
اس کی چال میں ارتقا ءبھی ہے۔ جب اُتار پر بائیسکل ذرا زیادہ تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال سا آگیا اور بائیسکل کے کئی اور پرز ے جو اب تک سورہے تھے بیدار ہو کر گویا ہوئے… اُف اُف ایبک نظموں کے گھوڑے کیا اُڑیں گے۔ یہ سائیکل بالکل آسمان سے اُتری ہے…مومس نے پطرس کے لئے یہ براق بھیجا ہے!
کیا قیامت کی بائیسکل ہے اس کے سامنے مستریوں کی پسپائی کے سین اور خریداروں کی ہارمان لینے کی بات چیت! یہ عہد الزبتھ کا انگلینڈ ہے۔ ہمارا ڈن کوئزٹ بائیسکل کے دو حصے ہاتھوں میں لئے ہوئے آفاق پر چلا آرہا ہے۔ پک،سرجان فالسٹاف کیا کہتا ہے: Knight of the broken bicycle master shallow.
ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ پروفیسر بخاری کہاں پیدا ہوئے کہاں کہاں رہے اور کہاں مرے۔ ہم چاہتے تو ان سے ملتے مگر اس کا موقع نہ ملا۔ اچھا ہی ہواہمیں ان سے کیا مطلب تھا ہمیں پطرس سے غرض ہے اور رہے گی یہ شخص رہتی دنیا تک رہنے والا ہے۔ عہد الزبتھ کا ایک فرد ہے اس کا لاہور سرجان فالسٹاف کا لنن ہے۔یہ لاہور لاہور ہی ہے آگے کچھ نہیں اس کے پاس ایک دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔ حملہ آوروں کی آماجگاہ ہے۔ یوپی کے حملہ آور دلی کے راستے سے یہاں آتے ہیں اور اہل زبان کہلاتے ہیں۔ اس کے حدود اربعہ منسوخ ہوچکے۔ آب وہوا کا سوال نہیں اُٹھتا۔ آب کی جگہ پائپوں میں ہائیڈروجن اور آکسیجن اور ہوا کی جگہ گرد اور خاص حالات میں دھواں ملتا ہے، عہد الزبتھ کی سڑکیں ہیں، پھسلا دینے والے ٹانگے ملتے ہیں۔ مکانوں پر اشتہارات کے پلسٹر پر پلسٹر لگائے جاتے ہیں۔ یہاں کی صنعت وحرفت اسی حد تک رسالہ بازی ہے جیسے الزبتھ کے زمانہ میں ڈرامہ بازی تھی۔ ہر برانچ پر یہاں بھی اسی طرح ایک انجمن موجود ہے۔ جیسے شیکسپیئر کے لنڈن میں تھیٹر موجود تھے۔ یہاں کی بہترین پیداوار طلباء ہیں اور قسم قسم کے ہیں اور پروفیسر ہونے کے لئے شرط ہے کہ ”دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں“یہاں کے لوگ بہت خوش طبع ہیں پک کے پرستار ہیں اور پک کا اوتار پطرس ہے۔
پطرس کا کام کھیل دکھانا ہے لفظوں کا کھیل۔ فقروں کا کھیل۔چست جملوں کاکھیل، وٹ (WIT) کا کھیل کھیلتا ہے۔ مگر یہ اس کا خاص کھیل نہیں۔ اس کا کھیل پک کا کھیل ہے موقعوں کا کھیل، ڈرامائی حالات کا کھیل، ہر مضمون یہی کھیل دکھاتا ہے۔
ہاسٹل میں پڑھنے والا والدین کو شخصیت کا مطلب سمجھا رہا ہے!
”سویرے آنکھ کھولنے والا پلنگ پر لیٹا لالہ جی کے دروازے پر کھٹ کھٹ سن رہا ہے۔ جاگنے کی کوشش ہائے۔ ہائے۔
”یعنی بہت ہی کتا!“
”باپ انگوٹھا چوس رہا ہے“۔
فرمانبردار میاں چور بنا ہوا ہے…برقعہ پوش…منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا
مرید پور کا پیر تقریر کر رہا ہے۔ پیارے ہم وطنو…!
پروفیسر پطرس پر عقیدت کی اٹھنیاں چڑھائی جا رہی ہیں۔
سینما کے اندھیرے میں آب حیات کی تلاش ہو رہی ہے۔
ایک کنٹب ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کی مشق کر رہا ہے۔
”مرحوم کی یاد میں“ یہ تماشا لمبا ہے۔ سین نمبر ایک۔ مرزا سے گفتگو، سین نمبر دو۔ سائیکل کا معائنہ۔ سین نمبرتین۔ رفتار کا ایبک منظر۔ نمبر چار۔ مرمت کی دوکان۔ نمبر پانچ۔ فروخت۔ نمبر چھ۔ ٹوٹی بائیسکل والا ہیرو۔ نمبر سات۔ ہوئے کیوں نہ غرق دریا۔
لاہور لاہور ہی ہے۔
کھیل ختم۔
ختم؟
یہ کھیل ختم نہیں ہوتا۔ ”پطرس کا تماشا دیکھ۔ پطرس کا تماشا دیکھ!“ ہم گلوب تھیٹر سے بول رہے ہیں۔ اب آپ پک لافانی کا تماشہ دیکھیں گے جو پطرس نے پیش کیا ہے…یہ پروگرام ہرمیٹر سینڈ پر ہر وقت سنا جا سکتا ہے اور سننے سے زیادہ دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کھیل کے سلسلے میں ایک نیا اعلان سن لیں۔ اردو ادب میں منشیان تنقید یا تنقید بابو برساتی مینڈکوں کی طرح پھیل رہے ہیں پطرس کے کھیل کو یہ ہرگز نہ دیکھیں ورنہ…پک نے ان کے لئے اب تک کوئی سزا تجویز نہیں کی۔
ان میں سے ایک بڑے بابو کو پکڑا گیا ہے۔ وہ عرصہ ہوا اپنے ابا کو فرسٹ کلاس کا اور اقبال کو انٹر کلاس کا ٹکٹ دے گئے تھے۔ اس وقت انہیں معاف کر دیا گیا تھا۔ مگر اب ان کی جرائم پیشی پختہ ہوگئی اور نظر موٹی ہوگئی۔ انہوں نے اردو کی مزاحیہ نگاری پر بھی ایک نظر ڈالی ہے اور پطرس پر جو کچھ کہا اس کی سزا ان کو اچھی طرح دی جائے گی۔
* * *