قفا نبک
ذرا ٹہرو کہ ہم رولیں
مرثیہ سے ہرسیہ تک
سید وسیم اللہ
نظام آباد
09848991588
مرثیہ:
مرثیہ کے لفظی معنی وصفِ میت کے ہیں اوراصطلاحِ شاعری میں اس صنفِ سخن کوکہتے ہیں جس میں متوفی شخص کے محاسن وفضائل درد وحسرت کے ساتھ بیان کۓ جائیں ۔
فرمان فتحپوری نے ” مرثییہ عربی لغت میں کسی کی موت پر رونے، غم منانے اورمرنے والے کے اوصاف بیان کرنے کو کہتے ہیں ۔ اس لحاظ سے ہراس نظم کو مرثیہ کہہ سکتے ہیں جس میں کسی کی موت پر غم کا اظہارکیا گیا ہو یا اس کے اوصاف و فضائل بیان کۓ گۓ ہوں "۔
مرثیہ ہر ایک مصیبت اورتباہی پرکہا جاسکتا ہے اور صرف اشخاص و افراد کے لۓ ہی نہیں بلکہ قوم و ملک کی خستہ حالی و تباہی پرکہا جاسکتا ہے-
اس طرح مرثیہ کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے-
1- شخصی مرثیہ
2- قوم و ملک کا مرثیہ
3- واقعۂ کربلا کا مرثیہ
صنفِ مرثیہ کو قدیم ترین صنفِ سخن ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے دنیا میں جس کیفیت کو پہلی بار شدت سے محسوس کیا وہ موت ہے ۔
مرثئےکی قدامت کا صحیح اندازہ ہم کو ‘سومیری’ ادب میں مرثیوں کے وجود سے ملتا ہے کیونکہ سومیری ادب کے زمانہ کا تعین ساڑھے پانچ ہزارسال سے ساڑھے چار ہزارسال پہلے تک قیاس کیا گیا ہے۔ سومیری ادب کے ایک مرثیہ کا ترجمہ پیش ہے جو’لوون گرا کی بیوی ناورتم’ کی موت پر لکھا گیا تھا۔
اب می می (دیوی)اور روح کہاں ہے موہ لینے والی میں تجھے پکاروں گا
ہاۓ اب —- کہاں ہے میں تجھے پکاروں گا
اب دلکش چہرہ کہاں ہے پر کشش چہرہ دلفریب چہرہ میں تجھے پکاروں گا
اب میرا خوبصورت ہتھیار کہاں ہے میری ھسین مشیر!
میں تجھے پکاروں گا
اب میری — کہاں ہے میری انمول
اب میرے دل خوش کن میٹھے گیت کہاں ہیں
میں تجھے پکاروں گا
اب میرا دل نشیں ہتھیارکہاں ہے روح کو تابندہ کرنے والا سنہری تیرکش
میںں تجھے پکاروں گا
اب میری رقص کناں ہاتھ بلندکرنے والی اورشوخ کہاںں ہے ! میں تجھے پکاروں گا
شخصی مرثیوں کے علاوہ شہروں کی تباہی پر بھی مرثیہ ملتے ہیںں جن کا ذکر آگے آۓ گا ۔
مغرب میں مرثیہ کو ایلجی کہتے ہیں ۔ ایلجی کے معنی ‘نغمۂ ماتم’ ہیں ۔ جس میں مرنے والے کے کارناموں کا ذکر، اس کی توصیف اوراس کی موت پر رنج کا اظہار کیا گیا ہو ۔
دنیا کے کلاسیکی ادب میں ایک خاص بحرمیں، قبلِ مسیح نوحہ گری کرنے والوں میں رومی شاعر ‘ہوریس’ اور ‘اووڈ’ کے نام ملتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ‘آرگیو’ اور ‘ ایکم بروٹس’ جیسے شاعر کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا ہے جنہوں نے چھ صدی قبلِ مسیح میں خاص بحور میں حزنیہ شاعری کی تھی ۔۔ ان کے بعد پانچویں صدی قببلِ مسیح میں نمایاں نام ‘ یووری پیڈس ‘ اور ‘انڈروماچے ‘ کے ہیں ۔
ابتدائ یونانی مرثیہ جو ساتویں اورچھٹی صدی قبلِ مسیح لکھے گۓ ان میں ذاتی غم و اندوہ اور تاسف کا اظہار ملتا ہے ۔ ان میں ‘اینٹی ماکس آف کلوفون ‘ ، ‘آچی لوکس ‘ ، ممنارس’ کےعلاوہ عہدِ سکندری میں ‘فینوکلس’ ، الگزینڈر اینولس’نمایاں نظر آتے ہیں ۔
نوین صدی قبلِ مسیح سے ساتویں صدی قبلِ مسیح تک کی گئ لاطینی مرثیہ نگاری کو ‘ کیتولس’ نے انتہائ کمال تک پہنچایا ۔
انگریزی شاعری میں ایلیجی کہنے والے شعراء کے سامنے یونانی شاعر ‘تھیوکریٹس’ کی مثال رہی ہے اور ‘ ٹینی سن’ کی میموریم کے علاوہ ‘ ایڈمند پانسر’ (1552ءسے 1599) سے لے کر ‘رابرٹ بریجز'(1844ءسے 1930ء) تک ہر شاعرگڈریے کے روپ میں آہ وبکا کرتا نظر آتا ہے ۔
عرب میں مرثیہ گوئ کاعام رواج تھا اور ایامِ جہالت میں یہ فن کافی ترقی کرچکا تھا۔ قدیم عربی شاعری میں مطالب کی نوعییت اور جذبات و مضامین کے نازک فروق کے اعتبار سے مرثئے کی تین قسمیں قرار دی گئیں
1 نندب :ـ وہ مرثیہ جس میں مرنے والے کو یاد کیا جاۓ اور اس کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا جاۓ اسطرح کے مرثئے میں متوفی کے فضائل کا کوئ ذکر نہیں ہوتا ۔
2 تابین :ـ وہ مرثیہ جس میں رنج و غم کے اظہار کے ساتھ ساتھ متوفی کے فضائل و محامد کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ ہو ۔
3 :ـ عزاء یا تعزیت نامہ ۔ اس میں مندرجہ بالا دونوں خصوصیات کے ساتھ سامعین کے لۓ صبر و سکون کی تلقین بھی ہوتی ہے اور ان کی تسلی کے لۓ بے ثباتی عالم اور موت و حیات کی حقیقت کو فلسفیانہ انداز میں بیان کیا جاتا تھا ۔
اس دورکے مشہور شعراء کے مرثیہ "حماسہ” میں’باب المراثی’ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ان میں رسول اللہؐ کے دادا عبدالمطلب کے لکھے ہوے مرثیے بھی شامل ہیں-
خنساء اور متمم بن نویرہ نے اپنے اپنے بھائیوں کے دردناک مرثئے لکھے ۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے متمم کی زبان سے اس مرثیہ کو سنا تو ان سے اپنے بھائ زید کے مرثیہ کی فرمائش کی ۔۔ انہوں نے اس کی تعمیل کی جسے سن کر حضرت عمر نے فرمایا اس میں تو درد نہیں ہے اس پر متمم بن نویرہ نے کہا امیر المومنین زید آپ کے بھائ تھے میرے نہیں ۔ قدیم عرب کا مرثیہ سراسر شخصی نوعیت رکھتا تھا ۔
طلوعِ اسلام کے بعد بھی اس صنف کو زوال نہ آیا ۔ حسان بن ثابت نے حضورؐ کی وفات پر مرثۓ لکھے اور حضرت فاطمہ زہرا نے بھی ایک دردناک مرثیہ کہا ۔
صنفِ مرثیہ کی تعریف اور دائرہ کار 61ھ کے واقعۂ کربلا کے بعد تبدیل ہوگیا ۔ لیکن سانحۂ کربلا پر عربی میں کوئ ایسا مرثیہہ نہیں لکھا گیا جو زندہ رہتا شاید یہ اس وقت کے سیاسی حالات ہوں کیونکہ جب فرزوقؔ نے حضرت زین العابدین کی شان میں قصیدہ لکھا تو اسے قید کی سزا بھگتنی پڑی ۔ یہ بنی امیہ کا دور تھا لیکن بنو عباس کے عہد میں بھی کوئ ایسا مرثیہ نہیں لکھا گیا جو کہ یادگار ہوتا ۔ لیکن ذاکر حسین فاروقی نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کیونکہ سانحہ کربلا پر پہلا مرثیہ خود امام حسین کا ہے- ‘ناسخ التواریخ ‘ جلد ششم میں حضرت عباس کی شہادت پر امام حسین کے دو شعر ملتے ہیں ۔
سلیمان بن قتبہ العدوی پہلا مرثیہ گو ہے جس نے واقعۂ کربلا کا مرثیہ لکھا وہ اس واقعہ کے تین دن بعد کربلا پہنچا تھا ۔یہ ایک دردناک مرثیہ ہے جو صرف چار اشعار پر مشتمل ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ پیش ہے
میں محمدؐ کی اولاد کے گھروں پرگزرا تو میں نے ان کو ویسا نہ پایا جیسا اس روز تھے جب وہ آباد کۓ گۓ تھے۔اللہ تعالی ان گھروں اوران کے رہنے والوں کو دورنہ کرے اگرچہ وہ (گھر) میری آرزو اور خواہش کے خلاف مکینوں سے خالی ہوگۓ ہیں ۔ خبردار، مقام، طف (کربلا) میں بنو ہاشم کے شہیدوں نے مسلمانوں کی گردنوں کو (شرم و ذلت کی وجہ سے ) جھکادیا ہے، اور وہ (مسلمان) ذلیل اور رسوا ہوگۓ ہیں ۔ پہلے وہ (مجسم) مصیبت بن گۓ،خبردار، یہ مصائب بہت بڑے مصائب ہیں ۔
اس کے بعد بنی امیہ کے دور ہی میں یحیٰی بن الحکما اور عبید اللہ بن اسحر الجعفی جیسے شعراء نے دردناک مرثئے لکھے ۔ ان میں کمیت بن زید نے جو مرثیہ لکھے ہیں وہ عربی ادب میں ‘ہاشمیات’ کے نام سے مشہور ہیں ۔
عباسی دور میں دعبل خزائ کا وہ طویل مرثیہ ظہور میں آیا جس کو سن کر امام موسیٰ کاظم نے فرمایا تھا کہ اس میں میرا ایک شعراضافہ کرلو تاکہ مرثیہ مکمل ہوجاے ۔ تیسری صدی ہجری میں آلِ بویہ کے اقتدار میں عزاداری کی رسم باقاعدہ شروع ہوی اس دور میں ابو الفارس حرث نے مصائب کے بیان میں اختراعات کی جس کی بعد کے مرثیہ نگاروں نے تقلید کی ۔ پانچویں صدی ہجری کے مرثیوں میں سادگی کی جگہ صناعی نے لے لی اور اس میں تمہید، فضائل، مصائب، ساقی نامہ اور رزمیہ شامل ہوگیا ۔اور یہی رنگ مزید ترقی کرکے اردو مراثی میں ظاہر ہوا ۔
فارسی میں شاعری دسویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے اور اس کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر’ رودکیؔ’ مانا جاتا ہے جس کی وفات 940ء میں ہوئ۔۔ رودکیؔ نے کئ مرثئے لکھے۔ فارسی مین بھی مرثیہ کا آغاز شخصی مرثیوں سے ہی ہوا
علامہ شبلی نعمانی نے ‘ مووازنۂ انیس و دبیر’ میں ‘شاہنامہ فردوسی’ کے وہ اشعار درج کۓ ہیں جو سہراب کی ماں نے اس کی موت پر کہے تھےوہ نوحے اور مرثئے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ فرخؔی نے سلطان محمود کا مرثیہ لکھا اسی طرح شیخ سعدی اور امیرخسرو کے پاس بھی شخصی مرثئے ملتے ہیں
طہماسپ صفوی (1564ء -1576ء) کے دور میں بلکہ اسی کی ترغیب سے فارسی میں مصائب کربلا پر مرثیہہ نگاری شروع ہوی اور اس سلسلہ کا پہلا شاعرمحتشمؔ کاشی تھا جس نے چند بندوں پر مشتمل پر درد مرثیہ لکھا ۔ اس کے بعد مقبلؔ نے کربلا کے تمام واقعات ابتداء سفر سے مدینہ واپسی تک نظم کردۓ ۔
ہندستان میں مرثیہ گوئ کا آغاز بھی دکن سے شروع ہوا
دریاۓ لطافت میں انشاءؔ نے لکھا ہے کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو ہوتا ہے ۔ مگر حکومت کا مذہب شیعہ تھاا اس لۓ مرثیہ گویوں کی ہمت افزائ کی گئ اور اس صنف نے ترقی کی ۔
———
جس طرح قصیدہ ‘ تشبیب، گریز،مدح، دعا اور عرضِ حال پرمشتمل ہوتا ہے اسی طرح مرثیہ میں چہرہ، رخصت، سراپا، رجز، جنگ، شہادت اوردعا شامل ہوتی ہے۔
مولانا شبلی اور بعد کے نقادوں کے نزدیک مرثئے کے اجزاۓ ترکیبی یہ ہیں ۔
1 چہرہ :ـ مرثئے کی تمہید جس ممیں مناظرِفطرت، حمد و نعت اور منقبت و مناجات کا بیان ہوتا ہے ۔
2 ماجرا :ـ چہرے کے بعد ایسے اشعار جن سے سننے والوں کومرثئے کے موضوع کی طرف متوجہ کیاجاسکے ۔
3 سراپا :- مرثئے کے ہیروکی شخصیت اورجسمانی خوبیوں کا بیان
4 رخصت :ـ مرثئے کا پہلا المیہ جزو جس میں ہیرو میدانِ جنگ میں جانے کے لۓ اپنے بزرگوں اور اعزہ سے رخصت طلب کرتا ہے ۔
5 آمد :- ہیرو کی میدانِ جنگ میں آمد کا بیان
6 رجز :- ہیرو کا عربوں کی رزمیہ روایات کے مطابق اپنے حسب و نسسب اور اپنے اخلاقی فضائل کا بیان کرنا اور اپنی قوت اور اپنی تلوار اور فنونِ جنگ میں اپنی مہارت کی تعریف کرنا ۔
7 جنگ :ـ مرثئے کا رزمیہ حصہ، جس کی بناء پر مرثئے کو رزمیہ (اپیک) سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے یہ مرثیہ کا ایک اہم حصہ ہے جس میں ہیرو کو جنگ کرتے دکھایا جاتا ہے ۔ اس حصہ میں ہیروکے گھوڑے اوراس کی تلوار کی تعریف کی جاتی ہے ۔
8 شہادت :ـ ہیرو کو شہید ہوتا ہوا دکھایاجاتا ہے ۔ یہ مرثئے کا سب سے اہم المیہ حصہ ہے اور یہی وہ حصہ ہے جس کی بنا پر مرثئے کا موازنہ یونانی المیہ تمثیل (ٹرییجڈی) سے کیا جاتا ہے ۔
9 بین :ـ ہیرو کی شہادت پر اس کے عزیزوں اور خاص طور پر خواتین کی نوحہ گری اور رونا دھونا جسے اصطلاحاً بین کہا جا سکتا ہے ۔ مرثئے کا آخری المیہ حصہ اور مرثئے کا اختتامیہ ۔
یہ ضروری نہیں کہ یہ سارے اجزا ہر مرثئے میں پاۓجائیں لیکن کامیاب مرثیوں مین یہہ کسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود ہوتے ہیں ۔
———
اردو میں ساقی نامہ کی روایت بھی فارسی شاعری سے ہی آئ ہے ۔ اردو کا پہللا ساقی نامہ محمدصاحب فقیہ دردمندؔ (م 1762ء) شاگرد مرزا مظہرجان جاناں نے کہا ۔ اردو ساقی ناموں میں بھی ذیلی سرخیوں مدح، شکایتِ روزگار پائ جاتی ہے جو فارسی ہی کی روایت ہے اوراس کے لۓفارسی کی تقلید میں بحر بھی وہی استعمال کی جاتی ہے یعنی ‘ بحر متقارب مثمن مقصور ‘۔ لیکن جب ساقی نامہ کا استعمال مرثیہ میں ہونے لگا تو ذیلی سرخیوں کا استعمال ختم ہوگیا اور بحر کی قید بھی اٹھ گئ ۔ مرثیہ میں ساقی نامہ کی ابتداء نفیسؔ لکھنوی(م 1901ء) نے کی اور یہ ایک یا دو بند پر مشتمل ہوتا تھا ۔
ہاں ساقیا شرابِ ظفر جلد لا، پلا
صہباۓ خوشگوارومسرت فزا پلا
پرزوروتیز و تند پلا، پر ضیا پلا
عادی زیادہ پینے کا ہوں میں سوا پلا
شیشے پہ شیشہ ہاتھ میں ہاں لے کے دیکھ لے
کانسے پہ کانسہ آج مجھے دے کے دیکھ لے
لیکن اس کو مقبولیت پیارے صاحب رشیدؔ(م1917ء) کے دور میں ملی جنہوں نے کئ کئ بند کے ساقی نامہ لکھے ۔
مجلسوں میں سامعین اس حصہ کو بڑی دلچسپی اور توجہ سے سننے لگے اورنوبت یہاں تک پہنچی کے بعض اوقات ساقی نامہ پرہی مجلسیں ختم کرنی پڑیں
جی میں آتا ہے کہ ساقی سے طلب جام کریں
کہ بسر اس کی دلا میں سحر و شام کریں
جو کیا بوذر و مقداد نے وہ کام کریں
اس کے مست مے الفت ہیں بڑا نام کریں
سنتے ہیں چار طرف ابرِ کرم چھاۓ ہہیں
ہم فقیروں کی طرح آج ادھر آۓ ہیں
ساقیا تیرے کرم کا تو نہیں کوئ حساب
کیا سبب جام میں آنے لگی تھم تھم کے شراب
ہاتھ میں گردنِ مینا ہے کہ خیبر کا ہے باب
میرے ساقی ترے صدقے مجھے سب دیدے شتاب
دامنِ صبر مرے ہاتھ سے اب چھٹتا ہے
دم مرا رکتا ہے شیشے کا گللا گھٹتا ہے
میرے ساقی نے منگائ ہے شرابِ کوثر
میں بڑھاۓ ہوۓ ہوں ہاتھ جھکاۓ ہوۓسر
ادب ایسا ہے کہ میں کانپ رہا ہوں تھر تھر
سببِ جنبشِ ساغر ہے حریفوں کی نظر
آنکھیں مشتاق ہیں دیکھیں یہ کسے ملتی ہے
دل مرا ہلتا ہے جب جام میں ملتی ہے
ایک قطرہ کو سمجھتا ہوں کہ کوثر ہے یہی
مجھ سے پوچھو کہ مری جان سے بہتر ہے یہی
سببِ صبر و سکون جو ہے وہ یاد رہے یہی
کہ جہاز دلِ میخوار کا لنگر ہے یہی
کس کی امداد سے میں تا سرِ منزل جاتا
ڈوب جاتی مری کشتی جو نہ یہ مل جاتا
چونکہ ساقی نامہ مرثیہ کے درمیان آتا ہے اس لۓ قصیدہ کی طرح شاعر گریز سے کام لیتا ہے جیسا کہ اس ساقی نامہ کے آخری بند میں کیا گیا ہے
نشے کے شوق میں اب تک تو رہا میں سرشار
کیا بیہوش جو ساقی نے ہوا ہوں ہشیار
اب بڑے جوش میں کہوں گا میں حالِ پیکار
چل چکا جام یہیں چلنے لگی واں تلوار
کیا عجب حملۂ اول میں جو رن پڑنے لگے
شاہ دیں حیدر صفدر کی طرح لڑنے لگے
یہ بند رزمیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ اندازِ گریز ہر ساقی نامہ میں پایا جاتا ہے چاہے وہ ایک بند کا ہی کیوں نہ ہو ۔
پیارے صاحب رشیدؔ نے کبھی کبھی صرف ایک بند کے بھی ساقی نامہ لکھے ہیں ۔ رشید نے نہ صرف ساقی نامہ پرہی توجہ نہ دی بلکہ انہوں نے مرثییہ میں ‘ بہاریہ ‘ کا بھی اضافہ کیا ۔ عروج اور عارف نے بھی اپنے مرثیوں میں ساقی نامہ لکھے ہیں ۔
—-
سلام، نوحہ اور ہرسیہ کو ہم مرثیہ کی ذیلی صنف بھی سمجھ سکتے ہیں ۔
سلام عربی اور فارسی میں نہیں پایاجاتا ہے یہ خالصتاً اردو کی صنف ہے اور اس میں حضورؐ اور امام حسین اور آپ کےاصحاب و انصار پر درود وسلام بھیجاجاتا ہے ۔
نوحہ۔ لغت میں میت پرگریہ وبکاء کرنے کونوحہ کہتے ہیں نوحہ وہ کلام ہے جس کے ذریعہ ائمہ اہلِ بیت بالخصوص حضرت امام حسین اورآپ کے اصحاب و انصار پر گریہ و بکاء کیا جاتا ہے اوراکثر نوحہ کے ساتھ ماتم بھی ہوتا ہے
نوحہ سلام کی ایک قسم ہے جس میں بین کیا جاتا ہے اور خواتین میں مقبول ہے
ہرسیہ :ـ ہرسیہ ایک بے معنی لفظ ہے مگر ایک واقف کار کا خیال ہے کہ یہ ہرسہ کی بگڑی ہوئ صورت ہے اور غالباً ہرسہ سے مطلب خلفاۓ راشدین کی ظرافت امیز ہجو ہے ۔ مرثیہ کا مضمون پرعظم تھا اگر ظرافت شامل کی جاتی تو مجلسِ ماتم بزمِ طرب بن جاتی ہنسنے ہنسانے کے لۓ لکھنؤ کے زندہ دل حضرات نے یہ صورت نکالی کہ آٹھویں ربیع الاول کوعزاداری سے فراغت کرکے جشنِ عید منعقد کرتے اور قاتلانِ حسین کے انجام پر خوشیاں مناتے ۔ اقاس عید میں میر ضمیر” نے سب سے پہلے ہرسیہ پڑھا۔ مرزا دبیرؔ اور میرانیس نے بھی تقلید کی میاں مشیرؔ نے سارا زور اس پر صرف کردیا اور مختلف قوموں اور اہل پیشہ کی اصطلاحوں کو کثرت سے نظم کرکے اردو شاعری کو ظرافت و شوخی کے انمول خزانہ سے مالامال کردیا ۔ اب یہ صنف مفقود ہے اور کوئ استاد فن اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔
ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ مرزا دبیرؔ نے اپنے ایک شاگرد مشیر لکھنوئ کو مشورہ دیا کہ وہ مخالفین ائمۂ رسولؐ کی ہجو لکھا کریں اور ایسی تخلیق کا نام مرثیہ کے وزن پر ہرسیہ رکھ لیں ۔ بقول معین الدین مضمون ، ساقی نامہ اس ہرسیہ کی زینت بنا ۔ بعد میں مرثیہ گو شعراء نے بھی اسے گوارہ کرلیا۔ مرثیہ میں روۓ سخن ساقئ کوثر کی جانب ہوتا ہے ۔ مشیر لکھنوی کا ایک بند بہت مشہور ہے
تو اپنے ایک جام پہ نازاں ہے ساقیا
چودہ پلانے والے ہیں پروا ہے مجھ کو کیا
بتلاۓ دیتا ہوں تجھے مے خانوں کا پتہ
بطحا و کاظمین و خراساں و سامرا
خورشید مدعا مرا برجِ شرف میں ہے
اک کربللا میں اک مرا ساقی نجف میں ہے
میاں مشیر کے کلام کا ایک اور نمونہ
(ہندستانی عورت ایک مغل کی شکایت لے کر حاکم کے سامنے جاتی ہے)
وہ بولی صدقے جاؤں مصیبت سنو میری
مسّی تلک نہ دی مجھے لوٹا دھڑی دھڑی
گہنا تمام لے گیا ملبوس لے گیا
ہاتھوں کی چوہے دتّیِاں تک موس لے گیا
چوری کا حال صاف بتانا مجھے پڑا
سنتی ہوں شہ چھڑے کی گلی میں کڑا بکا
ہتیاۓ کنگن ایسے یہ مغلے شریر ہیں
جوشن لۓ گواہ صغیر و کبیر ہیں
نتھ ناک سے اتارلی منہہ کیل کر مرا
اور چھپکا دے کے سونے کا تعویذ بھی لیا
لے بھاگا ڈھولنا مرا قرآن کی قسم
انگشتری چرائ سلیمان کی قسم
کیا کیا میں تڑپی بجلیوں کے واسطے میاں
بالا بتا کے لے گیا بچپن کی بالیاں
ہتّے مرے اتار لۓ آگئ خزاں
بیچیں اننت رام کے ہاتھوں وہ انتیاں
سب چیز بست باندھ کے بستے میں لے گیا
موتی کے جھالے پانی برستے میں لے گیا
میاں مشیر کی ایک اور کتاب ‘کنتاب ‘ بھی ہے جو کسی شرعی مسلہ کے جواب میں لکھی گئ ہے اور میرا اندازہ ہے کہ اس کی زبان اور انداز بھی ‘ہرسیہ’ جیسا ہی ہے
——
سید وسیم اللہ
نظام آباد
09848991588