مقصدِ نمازِ جمعہ
دوسری قسط
مفتی کلیم رحمانی
09850331536
مقصد نمازِ جمعہ کی پہلی قسط کے لیے کلک کریں
نماز جمعہ کے اجتماع کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کرنے کا بہتر منصوبہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کی کل بنیادی اور ضروری تعلیمات کو پچاس عنوانات میں تقسیم کرلیا جائے اور ہر جمعہ کو امام صاحب یا کوئی اور صاحب ایک عنوان پر تقریر کرے یا پڑھ کر سنادے اس لحاظ سے ایک سال میں تقریباً جمعہ بھی پچاس آتے ہیں اور اسلام کی کل بنیادی اور ضروری تعلیمات بھی پچاس عنوانات میں آجا سکتی ہیں۔
اب اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسلام کی کل بنیادی اور ضروری تعلیمات کا ایک سا ل میں ایک دور ہو جائیگا، اور اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ جتنے مسلمان نمازجمعہ میں شریک ہیں گویا انہوں نے ایک سال میں اسلام کی پوری تعلیمات کو ایک مرتبہ سن لیا اور سمجھ لیا، ا ب اگر کوئی مسلمان دس سالوں سے نماز جمعہ پڑھ رہا ہے تو گویا اس نے اسلام کی کل بنیادی اور ضروری تعلیمات کو دس مرتبہ سن لیا اور سمجھ لیا ، اب ظاہر ہے جس نے اپنی زندگی میں اسلام کی پوری تعلیمات کو دس مرتبہ سنا اور سمجھا ہو کیا ایسا شخص اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیمات سے ناواقف رہ سکتا ہے ، اور کیا ایسے شخص کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے متعلق گمراہی اور غلط فہمی میں مبتلا کیا جاسکتا ہے یقیناًایسا شخص اسلام کی تعلیمات سے ہرگز ناواقف نہیں رہ سکتا اور نہ ایسے شخص کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے متعلق گمراہی اور غلط فہمی میں مبتلا کیا جاسکتا ہے لیکن مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر افسوس ہے کہ بیشتر مسلمان پابندی سے پچاس سالوں سے نماز جمعہ ادا کرنے کے باوجود انہوں نے ایک مرتبہ بھی اسلام کی پوری تعلیمات کو نماز جمعہ کے موقع سے نہ سنا او رنہ سمجھا، جب کہ نماز جمعہ کا اگر صحیح استعمال کیا جاتا تو پچاس مرتبہ ان کے سامنے اسلام کی پوری تعلیمات کی باتیں آجاتیں ۔
اس سلسلہ میں تینوں فریق کا قصور ہے یعنی مساجد کے ائمہ حضرات ، مساجدکے متولیاں،اور مقتدی حضرات، ائمہ کا قصور یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے تمام موضوعات کو سلسلہ وار نماز جمعہ کے موقع سے مصلیوں کے سامنے پیش کرنے کی جو تیاری اور کوشش ہونی چاہئے وہ نہیں ہے۔
مساجد کے متولیاں کا قصور یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ان کی طرف سے بھی کوئی کوشش نہیں ہے بلکہ بہت سی مساجد میں صحیح ائمہ کے لئے ان کی طرف سے تقریروں کے متعلق پابندیاں اور رکاوٹیں ہیں مقتدی حضرات کا قصور یہ ہے کہ دینی تعلیمات کے تمام موضوعات کو سننے اور سمجھنے کی ان میں طلب و جستجو نہیں ہے اور نہ ہی جمعہ کی اذان کے فوراً بعد مساجد میں پہونچنے کا معمول ہے۔لیکن اس سلسلہ میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت تینوں فریق میں سے کوئی بھی فریق اپنے قصور کا اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ ہر فریق اپنے قصور کا الزام دوسرے فریق پر رکھے ہوئے ہے یعنی ائمہ حضرات اپنے قصور کا الزام مساجد کے متولیاں اور مقتدی حضرات پر رکھے ہوئے ہیں ، متولیاں حضرات اپنے قصور کا الزام ائمہ اور مقتدی حضرات پر رکھے ہوئے ہیں۔ اور مقتدی حضرات اپنی سستی کا الزام متولیان اور ائمہ پر رکھے ہوئے ہیں، لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسی عدالت سے ہمارا سابقہ پیش آنے والا ہے جہان پر کوئی کسی دوسرے پر اپنی کوتاہی کا الزام رکھ کر نہیں چھوٹ سکتا، بلکہ ہر ایک کو اپنی غلطی کی سزا بھگتنی ہوگی۔ آنحضورﷺنے جمعہ کے دن قرآن کی بعض سورتیں پڑھنے کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ اور خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی ایک طرح سے پورا جمعہ کا دن ہی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا دن ہے چنانچہ ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا۔ عَنْ اَبی سعیدِِ اَنَّ النبیَ مَنْ قَراءَ الکَھْفَ فیِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ اَضَاءَ لَہ النُّو رُ مَا بَینَ الْجُمُعتَینِ (بیھقی،مشکوٰۃ) ترجمہ 🙁 حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ،جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھے تو یہ اس کے لئے دو جمعوں کے درمیان روشنی کا باعث ہوگا)۔ مطلب یہ کہ جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف سمجھ کر پڑھے گا اس کے لئے اگلا جمعہ آنے تک اس سورت کے پیغام کی روشنی میں ہدایت کی زندگی گذارنا آسان ہو جائیگا ، کیونکہ سورہ کہف میں دین کی بنیادی باتیں تفصیل کے ساتھ بیان کردی گئی ہیں جو انسانی زندگی کی ہدایت کے لئے ضروری ہے یہ سورت اللہ کی عظمت اور ہدایت کے سلسلہ میں قرآن کی اہمیت سے شروع ہوتی ہے۔ساتھ ہی سورت کے شروع میں آنحضورﷺ کی دعوتی تڑپ کا بھی تذکرہ ہے،اس کے بعد گذشتہ زمانہ کے تین
واقعات بیان کئے گئے ہیں اور ان تینوں ہی واقعات میں مسلمانوں کے لئے زندگی سے متعلق تین مرحلوں کی رہنمائی کی گئی ہے پہلا واقعہ اصحاب کہف کا ہے یہ اللہ پر ایمان لانے والے چند نوجوان تھے جنہوں نے وقت کے ایک کافر بادشاہ کے دباؤ سے بچنے کی خاطر جنگل کے ایک غار میں پناہ لی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں غار میں تین سو سال تک میٹھی نیند سلا کر زندہ رکھا اور جب وہ بیدار ہوئے تو وقت کا اقتدار ان کے عقیدہ کے مطابق ہو چکا تھا۔
اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے یہ رہنمائی ہے کہ اگر وہ کسی جگہ تعداد میں بہت کم بھی ہو تو وقت کے باطل اقتدار کے دباؤ میں کوئی غلط عقیدہ قبول نہ کرے بلکہ صبر کرے اور وقت کے باطل اقتدار کے دباؤ سے نکلنے کی کوئی تدبیر کرے اللہ ضرور کوئی راستہ پیدا کرے گا۔سورہ کہف میں دوسرا واقعہ حضرت موسیٰ ؑ اور ایک خاص بندہ کی ایک ملاقات کا ہے جس کا نام مفسرین نے حضرت خضر لکھا ہے ،واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بتلایا کہ ہم نے اُس بندہ کو اپنی طرف سے ایک خاص علم دیا تو حضرت موسیٰ ؑ اللہ کے نبی ہونے کے باوجود اُس بندہ کی ملاقات کے لئے بیتاب ہو گئے اور اپنے ایک ساتھی کو لے کر ملاقات کے لئے نکل پڑے، بالآخر اُس بندہ سے ان کی ملاقات ہوگئی تو حضرت موسیٰ ؑ نے خدائی علم سیکھنے کی غرض سے اُس بندہ کے ساتھ رہنے کی درخواست کی جسے اُس بندہ نے ایک شرط کے ساتھ قبول کرلیالیکن حضرت موسیٰ ؑ زیادہ مدت تک یہ شرط نباہ نہ سکے اور بہت جلد حضرت موسیٰ ؑ اور اُس بندہ کی یہ صحبت ختم ہو گئی ، لیکن بہر حال جتنی بھی صحبت رہی اس سے حضرت موسیٰ ؑ کو اُس بندہ سے بہت دلچسپ باتیں سیکھنے کو ملی اور چونکہ یہ باتیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں اس لئے قیامت تک امت مسلمہ کے لئے بھی اس میں اللہ کی عظمت و قدرت کا سبق ہے ۔
حضرت موسیٰ ؑ اورحضرت خضرؑ کے اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنے محدود علم کو کامل علم نہ سمجھ لے اور ساتھ ہی اس واقعہ سے یہ نصیحت بھی ملتی ہے کہ اگر کسی شخص کو دین کا بہت گہرا اور تحقیقی علم حاصل ہو تو اس سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے پھر یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ دنیوی لحاظ
سے اس کا نام اور منصب کتنا بڑا اور کتنا چھوٹا ہے لیکن دین کے تحقیقی اورگہرے علم کے سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہے کہ قیامت تک کیلئے دین کے گہرے اور تحقیقی علم کا حامل وہی شخص ہو سکتا ہے جو قرآن و حدیث کے گہرے اور تحقیقی علم کا حامل ہو، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ آج مسلم معاشرے میں ایسے بہت سے دینی علم کے دعویدار پیدا ہو گئے ہیں، جن کو قرآن و حدیث کا سر سری علم بھی حاصل نہیں ہے۔در اصل قرآن و حدیث کے علم سے بے علمی و غفلت مسلمانوں کے دینی زوال کا باعث ہے اور قرآن و حدیث کے علم میں گہرائی اور پختگی دینی و سیاسی عروج کا باعث ہے یہاں کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن و حدیث کے گہرے اور پختہ علم میں عمل شامل نہیں ہے در اصل جس علم کے ساتھ عمل نہ ہو وہ علم پختہ اور گہرا علم کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گہرا اور پختہ علم ضرور علم پیدا کرتا ہے۔
سورہ کہف میں تیسرا واقعہ ذوالقرنین بادشاہ کا ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں زبردست اقتدار عطا کیا تھا اور اس نے اپنے اقتدار کو اللہ کے دین کو غالب کرنے اور مجبوروں و مظلوموں کی مدد کرنے اور ظالموں و جابروں کی سرکوبی کیلئے استعمال کیا اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اُنہیں زمین میں اقتدار دے تو وہ اپنے اس اقتدار کو اللہ کے دین کے غلبہ کے لئے استعمال کرے، ساتھ ہی ظالموں و جابروں کی سرکوبی اور مظلوموں و مجبوروں کی مدد کے لئے استعمال کرے، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج بہت سے مسلم حکمران اپنے اقتدار کو باطل نظام کے غلبہ کے لئے اور مظلوموں و مجبوروں کی سرکوبی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔سورہ کہف کے علاوہ بھی قرآن کی کچھ اور سورتوں کی فضیلت بھی جمعہ کے دن سے متعلق بتلائی گئی ہے مثلاً حضرت کعبؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اِقرَءُ و سورَۃ ھُوْدِ یَومَ الجُمُعَۃِ (دارمی۔مشکوٰۃ) یعنی جمعہ کے دن سورہ ھود پڑھو۔ حضرت مکحول سے روایت ہے ۔ قَالَ مَنْ قَراء سَورَۃَ اٰلْ عِمرانَ یَومَ الْجُمُعَۃِ صَلَّتْ عَلَیہِ الَْمَلٰئکِۃُ اِلٰی اللّیْلِ (دارمی۔مشکوٰۃ) یعنی جو شخص جمعہ کے دن سورہ آل عمران پڑھے تو فرشتے اس کے لئے رات تک دعا کرتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَءَ حٰمٓ اَلدّخان فیِ لَیلَۃ الجُمُعۃِ غُفِرِ لَہ۔
(ترمذی، مشکوٰۃ) ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو جمعہ کی رات میں سورہ حٰم ٓ دُخان پڑھے اس کو بخش دیا جاتا ہے جمعہ کے دن قرآن کی مذکورہ سورتیں پڑھنے کی روایات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بنیادی و عمومی تعلیم و تربیت تو خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ کے ذریعہ سے حاصل ہو جاتی ہے لیکن اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں کچھ ایسے افراد بھی ہونے چاہئے جو جمعہ کے دن کو قرآن کی تفصیلی تعلیم کے لئے بھی استعمال کرے ، جمعہ کے دن جن سورتوں کے پڑھنے کا تذکرہ آیا ہے پاروں کے لحاظ سے وہ تین پارے ہو جاتے ہیں۔ اور جن میں اسلامی احکام و معاشرت کی بہت حد تک تفصیل آجاتی ہے ظاہر ہے جس مسلم معاشرے میں ہر ہفتہ جمعہ کے دن کی مناسبت سے قرآن کے تین پارے سمجھ کر پڑھنے والے بہت سے افراد موجود ہوں ایسے مسلم معاشرے کو قرآنی تعلیمات سے ہرگز دور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی باطل کا گرویدہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے قرآن و حدیث کی تعلیم اس لئے ضروری قرار دی کہ اگر وہ قرآن و حدیث کی تعلیم سے آراستہ نہ ہوں تو وہ لازماً غیر اسلامی تعلیم سے آراستہ ہوں گے اب گویا کہ خطبہ جمعہ کے مقصد میں یہ بات بھی داخل ہوگئی وہ یہ کہ مسلمانوں کو غیر اسلامی تعلیم کے اثر سے محفوظ رکھنا اور ان کے اندر اسلامی تعلیم کا اثر پیدا کرنا ہے ۔
—–
مفتی کلیم رحمانی
مسجد اقصیٰ روڑ،وسنت نگر
پوسد ضلع ایوت محل (مہاراشٹر) الہند