استاد شیخ داؤد کا ساٹھ سالہ سنہرا جشن
سید منجو قمر
نوٹ: استاد حضرت شیخ داود ایک ممتاز طبلہ نواز اور موسیقار تھے۔ آپ نہایت منکسرالمزاج اور سادہ لوح انسان تھے لیکن وہ اپنے فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ آپ کے شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوے ہیں۔ ۲۱ مارچ (پندرہ رمضان) کو استاد حضرت شیخ داود کی ۲۶ ویں برسی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ اس موقع پر آپ کے شاگردوں نے آپ کی یاد میں۲۳ مارچ ۲۰۱۸ کو بھارتی ودیا بھون ‘کنگ کوٹھی حیدرآباد میں ایک پروگرام کا اہتمام کیا ہے۔ ۔ ۔ استاد شیخ داود کی حیات اور فن پر ممتاز ڈرامہ نگار سید منجو قمر کا ایک اہم مضمون پیش خدمت ہے۔
موسیقی وجدانی جذبات کی زبان ہے جو سریلے سازوں کے سا تھ رسیلی آواز میں بولی جاتی ہے۔ اس شیرینی شور کا رام اؤلا وہ ہنگامہ ہے جسے کوئی رامش و نغمہ نواز ہی سمجھ سکتا ہے کہ سازوں کی آ واز کا جادو سامع کے سر چڑھ کر کس طرح بولتا ہے اوراس کے دل و دماغ کو کیسے ماؤف کردیتا ہے۔ اس رامش گری کی بے خودی ہرکس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ اس راول کی رچنا میں بس کر وہ رنگ و رچاؤ پیدا کرجاتی ہے جس کا ماہر فنکار ’’ استاد ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک فنکار سر زمین شولاپور میں شیخ ہاشم صاحب ڈرافٹس مین محکمہ تعمیرات کے گھر میں بتاریخ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۱۶ء بروز شنبہ پیدا ہوا۔ چھٹپن ہی میں گھر کی تھالی پیٹی ‘ خالی ڈبوں سے کھیلنے والا ان پر اپنی باریک باریک انگلیاں تھرکانے لگا تو شیخ ہاشم نے اس کے رجحان کو جان کر شولاپور کے ہی ایک خانگی اسکول میں داخلہ دلوایا ۔ اس اسکول کے ما سٹر کا نام انا مہاراج تھا اوریہی استاد شیخ داؤد کے پہلے استاد تھے۔
جناب محمد قاسم صا حب جو شولاپور ہی کے تھے طبلہ باج میں شہرت رکھتے تھے لیکن کسی کو اپنا شاگرد بنانے میں بہت زیا دہ محتاط تھے۔ حسن اتفاق سے محمد قاسم صاحب کے ہاں گیارہویں کی محفل میں داؤ د صاحب کے جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت داؤد صاحب کی عمر بارہ سال تھی ۔دعوت کے بعد محفل سرود کا اہتمام بھی تھا ۔ اس محفل میں محمد قاسم صاحب کے مدا ح اورداؤ د صاحب کے دو ست پرہلاد بوا جو شی بھی موجود تھے۔انھوں نے قاسم صاحب سے کہا کہ یہ لڑکا بھی گا تا ہے اسے بھی سنیے (داؤد صاحب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے )قاسم صاحب نے داؤد صاحب سے گانا سنانے کی فرمائش کی۔ شیخ داؤد صاحب پہلے تو ان اساتذہ کے سا منے پہلی دفعہ گانے سے ہچکچائے اور معذرت چاہ لی۔ لیکن قاسم صاحب کے اصرار پر ایک نعت شریف سنائی ۔ قاسم صاحب کو یہ نعت بہت پسند آئی اور وہ رونے لگے۔اور انھوں نے کہا ’’ بیٹا ہمارے پاس آیا کرو۔‘‘کچھ عر صہ بعد محمد قاسم صاحب نے داؤد کی فرمائش پر انھیں اپنا شاگرد بنالیا اورسات آ ٹھ برس طبلہ کے فن کی باریکیاں داؤد صاحب کو سکھاتے رہے۔
جب داؤد صاحب کی عمر سولہ سال ہی کی تھی ‘ یہ ننھا سالڑ کا شولاپور کی محفل سرود میں اپنے طبلہ باج کا جادو جگا رہا تھا ا س پر تلجاپور کے مقام پر اچانک ایم ۔ اے رؤف صاحب (بی۔ اے عثمانیہ )حیدرآباد کے مشہور ریڈیو گلوکار و موسیقار کی نظر اٹھی اور انھوں نے اپنے ساتھ حیدرآباد چلنے کی دعوت دی ۔ شائد اس ننھے لڑکے کا آب و نان شولاپور سے اٹھ چکا تھا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ فنکار آئندہ چل کر حیدرآباد کی محفلوں کو رؤ ف کے ساتھ رنگ پر لانے پر مامور ہونے والا تھا۔
جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے’’ مو سیقی و جدانی جذبات ہے جو سر یلے سازوں کے ساتھ رسیلی آوازوں میں بولی جاتی ہے۔ ‘‘ بشرطیکہ ساز کم اور آواز شیریں ہو تاکہ وجدان میں ہیجان نہ پیدا ہوجائے۔ولایتی موسیقی کے سازوں کی بہتات کی طرح ہندوستانی موسیقی کے سازوں میں وائلن ‘ کلارنیٹ اور ہارمونیم کو چھوڑ کر سازوں کی کمی نہیں لیکن ان میں ستار ‘ سارنگی ‘ سرود‘ بین ‘ سنتور ‘ شہنائی ‘ دلربا ‘ طبلہ اور طاؤس (طاؤس سے زیا دہ خوبصورت ساز دنیا بھر کی موسیقی کے سازوں میں نہیں ہے کہ میں پانچ سال کی عمر سے طاؤس اور ستار سنتا آیا ہوں ہمارے گھر میں تایا حضرت خود طاؤس بجاتے تھے )انتہائی دقت و ریاضت طلب ساز ہیں۔جن کو ان سے شغف اور انسیت رکھنے والا ہی بجا سکتا ہے۔سارنگی ‘ سرود ‘ اور طبلہ میں پردے نہیں ہوتے صرف یہ ساز اٹکل پربجائے جاتے ہیں اس لئے اور بھی دقت طلب اور ریاضت طلب ہوتے ہیں۔چنانچہ طبلہ کا باج خاص حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔اس کی خوبی طبلہ نواز کی نشست پر ہوتی ہے۔میں نے داؤد صاحب کو ہم محلّہ ہونے کے اعتبار سے ‘ ان کے گھر میں دو دو بجے رات تک آئینے کے سامنے بیٹھے ریاض کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ان کا یہ سلسلہ آ ج بھی جاری ہے۔کیا مجال کہ ان کے جسم کا کوئی عضو تھرکتا یا پھڑکتا ہو جب وہ باجتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے گردن پر سر نہیں ایک بت بنے بیٹھے ہیں‘ صرف انگلیاں دائیں اور بائیں پر تھرک رہی ہیں ‘ اسی لئے شاید ’’ کرتب کی بدھیا ‘‘ کا محاورہ مروج ہے۔
ابتداءً جناب شیخ داؤد صا حب کو اپنے والے طرز میں طبلہ باجتے ہوئے سن کر حیدرآباد کے استاد اللہ دیا خاں صاحب طبلہ نواز نے اپنی شاگردی میں لیا۔ طبلہ کے سارے بول اور تال سمجھائے جیسے سات ماتروں کی تال ‘ روپک تال ‘ جھپ تال ‘ نوماتر ے کی کھٹ تال ‘ گیارہ ماترے کی رودر تال ‘ چودہ ماترے کی آرہ چو تال ‘ پندرہ ماترے کی پنچم سواری ‘ سولہ ماترے کی تین تال ‘ تیرہ ماترے کی فرودست تال‘ اٹھارہ ماترے کی چھکا ‘ انیس ماترے کی پن منڈل تال ‘ جھمرا تال ‘ اکیس ماترے کی لکشمی تال۔۔۔ان میں ’’فرمایشی چکردار ‘‘انتہائی مشکل گتیں ہوتی ہیں جس پر استاد شیخ داؤد صاحب پوری طرح قابو رکھتے ہیں۔اور باقاعدہ طورپر برجستہ بجالیتے ہیں حالانکہ دیگر طبلہ نواز چکردار کے باج سے کتراتے ہیں۔
داؤد صاحب کا خیال ہیکہ ہندوستان میں صرف تین گھرانے ایسے ہیں جو حقیقت میں طبلہ باج کے ہیں اور یہ تین گھرانے دلی‘ پورب اور اجراڑا ہیں اور داؤد صاحب کو ان تینوں گھرانوں کے باج یاد ہیں ۔بول بھی اور تال بھی ۔ اس کے علاوہ پنجاب گھرانہ بھی ہے لیکن اس کے باج میں فرق ہے مگر یہ ہندوستان ہی سے تعلق رکھتا ہے۔
استاد اللہ دیا خاں صا حب کے انتقال کے بعد استاد محمد خاں اور استاد چھوٹے خاں نے استاد شیخ داؤد کی نگرانی کی تو وہ رنگ پیدا ہوا کہ داؤد صاحب ’’ استاد ‘‘ کہلا ئے اور آل انڈیا ریڈیو میں گذشتہ اڑتیس سال سے اے۔ون ٹاپ آرٹسٹ کی حیثیت سے کار گذار ہیں۔اس منکسرالمزاج استاد کی فطرت میں خاص خوبی یہ ہیکہ کسی نوسکھ گلوکار کے ساتھ جب سنگت کرتے ہیں تو اس کی لاج رکھنی ضروری سمجھتے ہیں۔ہوتا یہ ہیکہ گلوکار کبھی کبھار ‘ تال سے بے تال ہو جاتا ہے یا سرتان سے اکھڑ جانے کا یا بر وقت سم پر نہ آنے کا احتمال پیدا کرلیتا ہے تو پہلی ہی تھاپ پر داؤد صاحب آگاہ کردیتے ہیں اورسم سے پہلے سم کہاں آ رہا ہے اس سے پہلے تین تھاپ کا استعمال اس طرح کرتے ہیں گویا گلو کار سم پر آگیا اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی ماہر استاد اور باکمال فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے توصحیح تال پر ایک ماترا اشارہ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں استاد شیخ داؤد ‘ سنگت کے دوران ہی اس کے اشارہ کے علاوہ تھاپ پر تھاپ مار کر اپنی استادی کا لوہا منوالیتے ہیں ۔اس باریکی کو کچھ وہی سمجھ سکتا ہے جو تال سُر سے آگاہ ہوتا ہے اورکمال یہ کہ استاد کی فخر سے گردن تک ہلنے نہیں پاتی۔
ایک دفعہ نواب بہا دریار جنگ کی حویلی میں استاد شیخ داؤد صا حب کے شاگردوں نے محفل سرود کا بالائی منزل پر انتظام کیا تھا اس میں میں بھی شریک تھا ۔ چنانچہ دو اساتذہ کو ایک دو سرے کے مقابلے بٹھایا گیا ۔سارنگی نوازوں نے سُر چھیڑا ‘ پہلے استاد عظیم خاں صاحب طبلہ نواز نے طبلہ بجانا شروع کیا ۔ان کی بجوٹی کا یہ عالم کہ لگتا تھا جیسے طبلہ نہیں بلکہ نوبت بج رہی ہے کہ یہ اپنے فن اور دھمار کے استاد تھے۔جب استاد داؤد صاحب کی باری آئی تو ظاہر ہے انھیں بھی دھمار سے اٹھنا تھا چنانچہ دھمار کے بعد ترکٹ کا سہارا لیا اور تال کو ایسے جا پکڑا جیسے پنجاب میل کی دوڑ اور پھر سم پکڑ کر اپنے فن کا وہ مظاہرہ کیا کہ محفل میں واہ واہ اور تالیوں کی گونج سے حویلی کی چھت اڑی جارہی تھی ۔اسی وقت ان کے شاگرد رشید جناب محمد سرور خاں گوشہ محل والے نے حالی سو سو کا ہار جس میں دس دس کے نوٹ کے علاقے لگے تھے‘ شیخ داؤد صاحب کے گلوگیر کیا۔پھر کیا تھا محفل رنگ پر آگئی ۔چونکہ گرما کا موسم تھا میں نے پہلی مرتبہ داؤد صاحب کی پیشانی پر پسینہ دیکھا تھا ‘عظیم خاں صاحب نے بھی داد دی ۔ داؤد صاحب اپنی ترکٹ اور تیز تر چوگن روانی پر ناز نہیں کرتے یہ کچھ ان کی منکسرالمزاجی کی علامت ہے۔ شولاپورمیں شیخ داؤد صاحب کی سنگت میں عبدالحلیم جعفر خاں ستار نواز کا ایسا پروگرام ہوا کہ مشہو ر صنعت کار والمیلکر نے اپنے کپڑے پھاڑ لئے۔
استاد شیخ داؤد کے تقریباً پچھتر شاگرد ہیں جو ہندو ستان کے مختلف شہروں میں قیام کرتے ہیں۔ہندوستان سے باہر بھی امریکہ (ٹیکساں )کے باشندے ڈیوڈ کورٹنی نامی خاص طورپرطبلے کا باج سیکھنے حیدرآباد آئے۔داؤد صاحب کے خاص شاگردوں میں مندرجہ ذیل نام قابل ذکر ہیں۔نواب ظہیر یار جنگ ‘ رشید جنگ ‘ عبدالحلیم جعفر خاں ‘ راجہ و ینکاٹا نایک شوراپور‘ لکشمیا ‘ نند کمار‘ کشٹیا ‘ کرن دیشپانڈے ‘ اورراقم الحروف وغیرہ۔کم و بیش دس شاگرد حیدرآباد اورحیدرآباد سے باہر گورنمنٹ میوزک کالج میں بحیثیت لکچررکارگذار ہیں۔یہ اعزاز صرف استاد شیخ داؤد صاحب کو حاصل ہے کہ داؤد صاحب نے فن کے ساتھ شاگردوں کو ان کا راستہ بھی دکھایا ۔
۱۹۷۳ء میں جب میں بمبئی گیا تھا ‘ شنکر صاحب سے ملا تو انھوں نے ’ شنکر جے کشن ہال ‘ میں میرا پرتپاک استقبال کیا ۔ دورانِ گفتگو جب شیخ داؤد صاحب کا ذکر آ یا تومسٹر شنکر جو حیدرآباد کے ہیں اورشنکر جے کشن موسیقار کے نام سے مشہور ہیں‘ فرمایا ’’ شیخ داؤد میر ے دادا استاد ہیں ‘یعنی میں راست شاگرد جناب محمد سرورخاں صاحب گو شہ محل والے کا ہوں جو استاد شیخ داؤد صاحب کے شاگردِ خاص ہیں اسی مناسبت سے میں شیخ داؤد صاحب کو اپنا ’’ دادا استاد ‘‘ کہتا ہوں۔‘‘
جب یکم مئی۱۹۳۹ء میں محکمہ نشریات سرکارِ عالی قائم کیا گیا تو شیخ داؤد صاحب کا پہلا پروگرام سرورنگر ریڈیو سے نشر ہوا۔اس میں ایم ۔اے رؤف کا گانا تھا اوراستاد شیخ داؤد صاحب نے سنگت کی تھی ۔میں نے شیخ داؤد صاحب کو استاد خاں صاحب عبدالکریم خاں ‘ آفتاب موسیقی استاد فیاض خاں صاحب ‘ استاد بہرے وحید خاں صاحب ‘ استاد غلام حسین خاں صاحب ‘ استاد بڑے غلام علی خاں صاحب ‘ ملکہ غزل بیگم اختر‘ استاد نثار حسین خاں‘ بسو راج راج گرو‘ غلام مصطفی خاں ‘ روشن آرا بیگم ‘ ہیرابائی بروڈکر‘ کیسربائی ‘ منگویائی ‘ سوائے گندھروا ‘ ونایک راؤ پٹ ورھن ‘ پنڈت نارائن راؤ ویاس ‘ پنڈت رتن جنکر ‘ پنڈت شنکر ‘ پنڈت کرشن راؤ ‘ استاد امیر خاں‘ استاد علا الد ین خاں (سرود نواز) استاد علی اکبر خاں (سرود نواز)اورامجد علی خاں کے سا تھ سنگت کرتے ہوئے سنا ہے۔ بڑی خوبی ان کے دھمار باج کی ‘ جب آئی جب انھوں نے استاد رحیم الدین ڈاگر اور ان کے برادر کے ساتھ سنگت کی۔ مزید برآں استاد ولایت حسین خاں (ستا رزن )استاد عبد الحلیم جعفر خاں (ستارن )پنڈت روی شنکر (ستارزن ) گجانند راؤ جوشی (وائلن نواز)پروفیسر وی جی جوگ (وائیلن نواز)استاد غلام صابرخاں (سارنگی نواز )اورمقامی بڑے کلاکاروں اورگلوکاروں کے ساتھ انھوں نے سنگت کی ہے۔خاص کر ان کے باج کا لطف حسن محمد سُر منڈل نواز کے باج پرآتا ہے۔جب وہ سم پر آکر ان کے لیے میدان خالی کردیتے ہیں تو داؤد صاحب پورے میدان کا احاطہ کرتے ہوئے ایک ایک موڑ پرایک ایک تکڑے ‘ ایک ایک مکھڑے سے ریڈیو محفل کو چونکا دیتے ہیں۔پاکستان کی مشہورجوڑی استاد نزاکت علی خاں اوراستاد سلامت علی خاں کے گائن میں استاد شیخ داؤد صاحب نے جس انداز میں سنگت کی وہ اپنی آپ مثال ہے۔انھوں نے کئی مرتبہ ریڈیو سنگیت سمیلن ‘
آل انڈیا ریڈیو دہلی میں سنگت کی ہے۔انھیں ۱۹۷۲ء میں پانچ سال کی مدت کے لیے سنگیت ناٹک اکادمی آندھراپردیش کا رکن مقرر کیا گیا۔
—–