شادی بیاہ میں ڈھولک کے گیت :- ثمینہ بیگم

Share
ثمینہ بیگم

شادی بیاہ میں ڈھولک کے گیت

ثمینہ بیگم
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

گیت انسان کے دل میں محفوظ رہنے والا وہ سرمایہ ہے ۔جو انسانی جذبات و احساسات اور خوشیوں و مسرتوں کی ترجمانی کرتا ہے ۔ گیت کی مختلف قسمیں ہیں اور متنوع موضوعات پر گیت لکھے گئے ہیں ۔ ماں کی کوکھ سے لے کر موت کی گود تک ،یعنی زندگی کے ہر اہم موقع کے لئے گیت بنائے گئے ہیں ۔
لوک گیتوں میں وہ گیت جو ڈھولک کی تھاپ پر گائے جاتے ہیں ڈھولک کے گیت کے نام سے مشہور ہیں۔ان گیتوں کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سخت پردے کے رواج کے باعث عورتوں کی تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جبکہ مرد اپنی تفریح کسی نہ کسی طرح کر لیا کرتے تھے۔، لہٰذاعورتوں نے بھی اپنی تفنن طبع اور تفریح وتسکین کا ذریعہ ڈھونڈ لیا۔پھر کیا تھا! ڈھولک کی گرج اور تھالیوں کی گونج کے ساتھ گیتوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔جہان اردوڈاٹ کوم

ڈھولک کے گیت تہذیبی اور سماجی زندگی کا اٹوٹ حصّہ ہیں ۔امیر ہوں کہ غریب خوشیوں کے موقع پر گیت گاکر یا مراثنوں سے گوا کر خوشیاں مناتے ہیں خاص کر عوامی سطح پر ، چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں خواتین رات رات بھر ڈھولک کی تھاپ پر گیت گاکر اپنی خوشیوں کا اظہار کرتی ہیں جن میں کم عمر بچیوں /لڑکیوں سے لے کر بڑی بوڑھیاں سبھی شامل ہوتی ہیں ۔
ڈھولک کی تھاپ پر جن گیتوں کوگایا جاتا ہے اُن کی قسمیں حسبِ ذیل ہیں:
(۱) شادی بیاہ کے گیت
(۲) بچے کی پیدائش کے گیت
(۳) مزاحیہ گیت
(۴) رومانی گیت
(۵) برہ (ہجر)کے گیت
(۶) فلسفیانہ گیت
(۷) فلمی گیت
(I) شادی بیاہ کے گیت
شادی بیاہ کے موقع پر مختلف تقریبات اور رسموں پر جن ڈھولک کے گیتوں کو گایا جا تا ہے اُن کی بھی کئی اقسام ہے جو درجِ ذیل ہیں:
(۱) مذہبی گیت
(۲) رسم(منگنی) کے گیت
(۳) پاؤں میس کی رسم کے گیت
(۴) منجھے(منجے) کے گیت
(۵) سانچق کے گیت
(۶) مہندی کے گیت
(۷) سہرا
(۸) آرسی مصحف (جُلوا) کے گیت
(۹) رخصتی کے گیت
(۱۰) چوتھی کے گیت
(۱۱) ولیمہ کے گیت
(۱۲) جمعگی کے گیت
—-
(۱) مذہبی گیت
شادی سے تعلق رکھنے والی کسی بھی تقریب میں جب ڈھول نکالا جاتا ہے تو اُسے مہندی یا صندل کے پانچ نشان لگائے جا تے ہیں ، پھر اُس کے بعد سب سے پہلے جو گیت گایا جاتا ہے وہ تقریباًمذہبی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ تمام عورتیں حضورﷺکی تعریف میں یا پھر کسی ولی اللہ کی منقبت میں گیت گاکر اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کرتی ہیں: جیسے ؂
میرے پیر کا دیدار ہوا،کیا مزہ ملا
ڈُل ڈُل کے گھوڑے اُترے ،گلشن کے باغ میں
وضو کرتے سوار ہوا ،کیا مزہ ملا
میرے پیر کادیدار ہوا—
(۲)رسم (منگنی)کے گیت
شادی کی بات پکّی ہوتے ہی ایک چھوٹی سی تقریب عمل میں آتی ہے ، جِسے ’’رسم‘‘ کہتے ہے۔اس خوشی کے موقع پر لڑکی والوں کے رشتہ دار مختلف قسم کے گیت گاکر کبھی خوشی کا اظہار کرتے ہے تو کبھی لڑکی (دلہن) کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی پیغام لگانے والے مشاطہ پر طنزکرتے ہوئے اسے چھیڑ ا جاتا ہے۔ جیسے ؂
اماں میری چھوٹی عمریا، کھیلنے کی جان ہے
کون وہ مامی پیغام لگائے سو
اُن کی چوٹی کٹاؤ!
میری کھیلنے کی جان ہے
اماں میری چھوٹی عمریا۔۔۔
(۳)پاؤں میس کے رسم کے گیت:
اس رسم کے موقع پر دلہن والوں کی طرف سے دولہے کو جوڑے گھوڑے کی رقم دی جاتی ہے۔ شادی کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے۔دلہن کے کپڑوں اور چپل کا ناپ لیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دلہے والوں کی طرف سے دلہن کی اور دلہن والوں کی طرف سے دلہے کی گل پوشی کی جاتی ہے جس کے متعلق گیت بھی گائے جاتے ہیں : جیسے ؂
دئیلان میں پہنائے ہار
کیا خوشنما لگاکے
مالی نے لایا دَونا ،مالن نے لائی ہار
اماں نے پہنائے ہار کیا خوشنما لگا کے
دئیلان میں پہنائے ہار
کیا خوشنما لگا کے— جہان اردوڈاٹ کوم
(۴)منجھے(منجے)کے گیت:
منجھے کو ہلدی کی رسم بھی کہتے ہیں۔ اس رسم میں دلہااور دلہن کو ہلدی لگائی جاتی ہے تاکہ ان کا رنگ خوب نکھرے ۔ہلکی پھلکی شرارتوں کے درمیان یہ رسم پوری ہوتی ہے ،اور مختلف گیت گائے جاتے ہیں، جیسے ؂
پُھلوا پہنانے آئی آج رے
میں تو پُھلوا پہنانے آئی آج رے
پُھلوا پہنانے آئی، منجے بٹھانے آئی آج رے
میں تو پُھلوا پہنانے آئی آج رے—
(۵)سانچق کے گیت:
اس رسم میں دولہا اور دلہن کو چِکسا اور خوشبو لگائی جاتی ہے ۔پھولوں کا ہار پہنایاجاتا ہے۔ دولہے والے دلہن کے لئے شادی کے کپڑے اور دیگر سامان لے جاتے ہیں جسے ’’بری‘‘ کہتے ہیں ۔ مختلف گیتوں کے درمیان یہ رسم ادا کی جاتی ہے : جیسے ؂
چھوٹی دلہنیاں کا دلہا بن جاؤں گا
دلہا بن جاؤں گا ، میں نوشہ بن جاؤں گا
چھوٹی دلہنیاں —
چھوٹی دلہنیاں کو بھوکو لگی ہے
لڈّو ، جیلبّی ، میں برفی بن جاؤں گا
چھوٹی دلہنیاں—جہان اردوڈاٹ کوم
(۶)مہندی کے گیت:
مہندی کی رسم میں بھی دولہے اور دلہن کے گھر والے ایک دوسرے کے گھر مہندی لے جاتے ہیں ۔ ہنسی مذاق اور گیتوں کے درمیان یہ رسم ادا ہوتی ہے ۔دلہن کی بہنیں دولہے کے ہاتھ کی ایک انگلی کو مہندی لگاکر کس کے پکڑلیتی ہیں اور نذرانے (شگون)کا مطالبہ کیا جا تا ہے۔دولہے پر اور دولہے والوں پر طنز و مزاح کی بوچھاڑکی جاتی ہے، لیکن اس کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا ہے صرف تفریح اور دلجوئی کے لئے یہ سب کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دلہن اور دلہے کے گھروالوں کے درمیان سے اجنبیت کی دیوار گرانے میں بھی یہ گیت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔سمدی سمدن سے چھیڑ چھاڑ کے گیت بھی گائے جاتے ہیں ۔ جیسے ؂
(۱) دلہا گاؤں کا گنوار ، دلہن بولتی بی نیءں
چپل چھوڑتابی نیں ، بوٹ پینتا بی نیءں
دلہا گاؤں کا گنوار۔۔۔۔۔
(۲)ادرک کا چوبہ چبا دونگی،سمدن جانے نہ دونگی
ادرک کا۔۔۔۔۔
ہماری سمدن کو چڑیوں کا شوق ہے
چڑی والے سے نکاح پڑادونگی
سمدن جانے نہ دونگی
ادرک کا۔۔۔۔۔
(۷) سہرا
سہرا بادشاہوں کی ہی شادی کے موقع پر پڑھا جاتا تھا، پھر آہستہ آہستہ خاص و عام بھی اسے پڑھنے لگے۔ کئی مشہور شاعروں نے بادشاہوں کی خدمت میں سہرے لکھے ہیں۔بادشاہوں کے زمانے میں رنڈیاں اور ڈومنیاں ہی سہرا گانے کا کام کرتی تھیں بعد میں جِسے گھریلو عورتوں اور درباری شعرااور مردوں نے بھی سہرا گایا ہے:
جیسے ؂
کھیلیں نویلیاں ارے بنے
آج کی تیاری کھیلے نویلیاں ارے بنے
سہرا تمہارا خوب گندھا ارے بنے آج کی رتیا
لڑیاں سنبھالیں لو سکھیاں ارے بنے آج کی رتیا
یا اﷲجلدی بتا خوشی سہرے
تیرے سہرے کی خوشی تیرے امی میں رہے کتاب:اُردو لوک ادب میں خواتین کا حصہ مصنف: عبداللہ امتیاز احمد صفحہ نمبر:۱۶۰
بحوالہ: اُردو گیت ، ص:۲۳۹
لیکن اب موجودہ دور میں سہرا پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جارہاہے۔
(۸)آرسی مصحف(جُلوا)
نکاح کے بعد دولہا اور دلہن کو آمنے سامنے بیٹھاکر بیچ میں تکیہ پر قرآنِ شریف رکھی جاتی ہے اور دلہا سورہ اخلاص پڑھکر دلہن پر پھونکتا ہے ۔جس کے بعد دونوں کے درمیان آئینہ کو رکھا جاتا ہے اور دولہا اور دلہن کے اوپر سے ایک کپڑا اُڑھا دیا جا تا ہے۔ اور آئینہ میں پہلی بار دولہا دلہن کو دیکھتا ہے اس رسم کو جُلوا بھی کہتے ہیں۔ دراصل یہ منھ دکھائی کی رسم ہے جِسے آرسی مصحف بھی کہتے ہیں۔اس موقع پر بھی عورتیں گیت گاتی ہیں :جیسے ؂
میری ہریالی گھونگٹ کھول راج دلاری گھونگٹ کھول
گھونگٹ کھول منھ سے بول راج دلاری گھونگٹ کھول
باوا کی پیاری گھونگٹ کھول اماں کی دلاری گھونگٹ کھول
میری ہریالی گھونگٹ کھول — جہان اردوڈاٹ کوم
(۹)رخصتی کے گیت:
رخصتی کے گیت گانے کی یہ پُر مسرت خواتین سانچق ، منجھے اور مہندی کی رسومات میں ہی پوری کر لیتی ہیں۔ یہ گیت نہایت پُر درد ہوتے ہیں ۔ شہروں میں رخصتی کے گیتوں کے فقط ریکارڈ ہی سنائی دیتے ہیں ۔ ان گیتوں میں والدین اور بھائی بہن سے بچھڑ تے وقت دلہن کی دلی کیفیات کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ جیسے ؂
کیسے مسافر کو دی گے میری امّاں
لے کے چلا پردیس گے میری امّاں
کیسے مسافر کو ۔۔۔۔۔
گُڑیاں بی چھوڑی اللہ!
گھڑیاں بی چھوڑی اللہ!
اب چھوڑی امّاں کا گود گے میری امّاں
کیسے مسافر کو۔۔۔۔۔
(۱۰)چوتھی کے گیت:
شادی کے دوسرے دن صبح دولہے کے ساتھ دلہن اپنے میکے آتی ہے ۔ دلہن کی بہنیں دولہے میاں کے جوتے چھپاتی ہیں اوراُنھیں خوب ستاتی ہیں ۔اس موقع پر بھی لڑکیاں گیتوں کے ذریعہ طنز و مزاح کے تیر چلا چلا کر شرارتیں کرتی ہیں ۔ ہنستی ہیں اور ہنساتی بھی ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل گیت میں دلہے کی طرف سے دلہن کے تیءں جذبات کا اظہار کر کے دلہے کو نشانہ بنا یا گیا ہے ؂
لوٹھے میں گھڑا ڈوباؤں کیا بیگم تیرے لئے
لوٹھے میں گھڑا—
تیری امّاں جیسی ، میری امّاں ویسی
امّاں کو چھوڑدوں کیا بیگم تیرے لئے
لوٹھے میں گھڑا— جہان اردوڈاٹ کوم
(۱۱)ولیمہ کے گیت:
شادی کے دوسرے دن کی تقریب کو ’’ ولیمہ ‘‘ کہا جا تا ہے جو دولہے والوں کی طرف سے دعوت ہوتی ہے ۔ اس موقع پر بھی کئی گیت گائے جاتے ہیں۔ دولہا اور دلہن کو پھول پہنائے جاتے ہیں ۔ وارن پھیری ہوتی ہے ۔ اس تقریب میں بھی ہر موقع کی مناسبت سے گیتوں کو گایا جاتا ہے ۔ جیسے وارن پھیری کے وقت کا گیت ہے۔
بنے پُہ سے کیا کیا واروں ماں
دلہے پُہ سے کیا کیا واروں ماں
ہیرے بی واری ، موتی بی واری
بنے پُہ سے مُنگا واروں گے ماں
بنی پُہ سے کیا کیا—
(۱۲)جمعگی کے گیت:
شادی ہوجانے کے بعد ہر جمعہ کو جمعگی ہوتی ہے ۔ پانچ جمعوں تک یہ تقریب عمل میں آتی ہے ، دلہن والوں کے گھر میں تو کبھی دولہے والوں کے گھرمیں گیتوں کے ذریعہ سمدھن ، سمدھن آپس میں ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑکرتی ہیں ۔ سالیوں اور بہنوئی کے درمیان مذاق و دل لگی کی باتوں سے چھیڑ چھاڑہوتی ہے ۔ ہمجولیوں کی تالیوں اور قہقہوں کی گونج سے ماحول خوش گواراورپُر مسرّت ہوجاتاہے۔ دیکھئے تو ! گیتوں میں کس طرح ایک دوسرے کا مذاق اُڑایا جا تا ہے ۔اس کی مثال ملاحظہ ہو۔
زیرو زیرو نلّی ، گنوار کی پھلّی
دو پیسوں کی نلّی ، گنوار کی پھلّی
زیرو زیرو—
ایسے رضیہ بیگم (جیٹھانی) کو دعوت نہ دینا
پلّو میں چھپائے نلّی ، گنوار کی پھلّی
زیرو زیرو—
جمعہ کی جمعگی بہوبنے
آج جمعہ ہے بنے
——

 

Share
Share
Share