اردو صحافت : سائنس، صحت عامہ، توہم پرستی اور روحانیات :- ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

Share
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

اردو صحافت:
سائنس، صحت عامہ، توہم پرستی اور روحانیات

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
مدیر ہفتہ وار گواہ ۔ حیدرآباد

اردو صحافت نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے صحت عامہ پر بھی توجہ دی اور جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی اس کے لئے بھی اپنے صفحات پر جگہ دی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے زیر ادارت شائع ہونے والے اخبار الہلال میں باقاعدہ سائنسی مضامین اور خبریں شائع کی گئیں۔ اس کے بعد گذشتہ 50برسوں کے دوران سائنس اور صحت عامہ اخبارات میں مستقل جگہ پانے لگی۔ پہلے طب یونانی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ اردو قارئین کی اکثریت کا طب یونانی پر زیادہ ہی اعتقاد ہے۔

اس کے علاوہ اپنے دور کے ممتاز حکماء اور اطباء کرام نے بھی مختلف امراض اور ان کے علاج سے متعلق کتابیں لکھیں اور مضامین بھی لکھے۔ پاکستانی اخبارات میں بہت زیادہ صحت عامہ کو اہمیت دی گئی۔ ہمدرد کے بانی حکیم عبدالحمید کے بھائی حکیم محمد سعید شہید جو ہمدرد پاکستان کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست طبیب اور بے مثال قلمکار بھی تھے انہوں نے صحت اور طب سے متعلق کئی کتابیں تصنیف کیں اور ان کے مضامین پاکستانی اخبارات میں بھی باقاعدہ شائع ہوتے رہے۔ جنگ، جسارت نے باقاعدہ صفحات مختص کئے۔ ہندوستان میں بھی بعض اخبارات نے صحت عامہ سے متعلق مضامین اور کالم کو اہمیت دی۔ ممبئی کے اخبارات بالخصوص انقلاب اور اردو ٹائمز نے ہفتہ وار کالم شروع کئے۔ ڈاکٹر انور بیگ نے اردو ٹائمز میں ’’نفس امارہ‘‘ کے عنوان سے قارئین کے صحت سے متعلق سوالات کے جوابات کا سلسلہ شروع کیا جس میں زیادہ تر سوالات جنسی مسائل سے متعلق ہوا کرتے تھے۔ انقلاب میں محمد خلیل مستقل کالم لکھا کرتے ہیں۔ دہلی کے ’’قومی آواز‘‘ میں بھی سائنس اور صحت عامہ پر کالم لکھے گئے۔ دہلی میں ڈاکٹر اظہار اثر مرحوم نے سائنسی مضامین کے لئے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ شاہد پرویز بھی اچھے قلمکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ علی حسین نے کافی نام کمایا۔ حیدرآباد میں سائنس اور صحت پر مضامین خصوصی ضمیموں کی اشاعت کا سہرا رہنمائے دکن کے سر رہا جس میں حیدرآباد کے اطبائے کرام، ڈاکٹرس کے تعارف، انٹرویوز کے علاوہ ہفتہ وار انٹرویوز شائع ہوتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 1980 اور 1990 کے دوران راقم الحروف (سید فاضل حسین پرویز)، فضل احمد (ڈاکٹر)، محمد سراج الرحمن (جو اب ممتاز و معروف ڈینٹل سرجن اور عثمانیہ ڈینٹل ہاسپٹل کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، ہر دوشنبہ کو مشترکہ طور پر سائنس ڈیکل راؤنڈ اَپ مرتب کیا کرتے تھے جس میں ایک سو سے زائد ڈاکٹرس و اطبائے کرام کے انٹرویوز کے علاوہ مختلف امراض پر معلوماتی مضامین شائع کئے گئے۔ روزنامہ سیاست میں ڈاکٹر مجید خان ماہر نفسیات‘ منصف میں ڈاکٹر ضیاء ندیم ایک طویل عرصہ سے نفسیاتی مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان کی کتاب بھی شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ سیاست میں یوں تو سائنس، ٹکنالوجی اور صحت عامہ پر مستقل مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف کمال مرحوم نے کئی مضامین لکھے۔ حالیہ عرصہ کے دوران جناب وصی احمد نعمانی نے قرآن اور سائنس کے موضوع پر مضامین کی ایک سیریز شائع کی۔ جواں سال صحافی احتشام حسین مجاہد انفارمیشن ٹکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس پر معلوماتی مضامین لکھ رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہر ہفتہ کو ایک مکمل صفحہ ’’اڈورٹوریلس‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسپانسرڈ آرٹیکلس مختلف موضوعات پر شائع کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ کہ اس قسم کے مضامین سے نہ صرف قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مختلف امراض کے ماہرین کی خاطر خواہ تشہیر بھی ہوتی ہے۔ روزنامہ اعتماد میں بھی سائنس اور صحت عامہ کا صفحہ ابتداء ہی سے مختص کیا گیا ہے۔ جبکہ راشٹریہ سہارابھی اس دھارے میں شامل ہے۔ اعتماد میں یوسف مڑکی ایک طویل عرصہ سے سائنسی مضامین لکھ رہے ہیں۔ جناب عزیز احمد عرسی نے منصف میں سائنسی مضامین جن میں زیادہ تر مختلف جانوروں سے متعلق ہے‘ کافی تعداد میں لکھے ان کی کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ ایم اے حفیظ بھینسہ بھی ایک نامور قلمکار ہیں۔ ڈاکٹر عابد معز نے طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی مگر صحت عامہ پر ان کی لکھی گئی کتابیں غیر معمولی طور پر مقبول ہوئیں اور ان میں سے کئی کتابوں کے بار بار ایڈیشنس شائع کئے گئے۔ جن میں ذیابطیس کے ساتھ ساتھ چکنائی اور ہماری صحت قابل ذکر ہے۔
ہندوستان کے تقریباً تمام اردو اخبارات میں اب سائنس، انفارمیشن ٹکنالوجی، صحت عامہ سے متعلق مضامین پابندی سے شائع ہورہے ہیں اور یہ اردو صحافت کو صحت مند اور ترقی یافتہ بنانے میں معاون ہیں۔
پہلے مختلف ڈائجسٹس اور جرائد انگریزی اخبارات و جرائد سے سائنس اور طب سے متعلق مضامین کے تراجم شائع کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خود سائنس سے متعلق خصوصی جرائد کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ انفارمیشن ریسورسس (NISCAIR) کے تحت 38سال سے شائع ہونے والا اردو ماہنامہ ’’سائنس کی دنیا‘‘ قابل ذکر ہے۔ جس کے ایڈیٹر ڈاکٹر رویندر کمار ہیں۔ سائنس کی دنیا کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے قلمکاروں کی فہرست طویل ہے جسے میگزین کی ویب سائٹ پر حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے رکھا گیا ہے۔
ماہنامہ ’’سائنس‘‘ کسی وسائل کے بغیر کامیابی کے ساتھ شائع ہونے والا بہترین اردو سائنس میگزین ہے۔ جس کے ایڈیٹر اسلم پرویز ہیں۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز’ جو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر ہیں۔ اس سے قبل وہ ذاکر حسین دہلی کالج (دہلی یونیورسٹی) کے پرنسپل رہے ہیں۔ آپ نے پڑھانے کا سلسلہ 1977ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے شروع کیا جہاں سے آپ نے 1979ء میں باٹنی (Botany) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ موصوف گزشتہ تیس سالوں سے مسلمانوں میں سائنس اور سائنسی اندازِ فکر کے فروغ کے لئے بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ آپ کی تمام توجہ قرآنِ کریم کو علوم کی مدد سے سمجھنے اور اس کے پیغام کو عام کرنے پر ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ سائنس یعنی علم کی مدد سے قرآنی آیات کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے‘ نیز ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس انداز فکر کو عام کرنے کے لئے آپ فروری 1994ء سے ایک عام فہم سائنسی ماہنامہ ’’سائنس‘‘ نکال رہے ہیں جو کہ اردو عوام اور طلباء میں یکساں مقبول ہے۔ آپ 400 سے زائد سائنسی مضامین اور تقاریر قلم بند کرچکے ہیں۔ سائنسی مضامین پر مشتمل تین مجموعے ’’سائنس کی باتیں، سائنس پارے اور سائنس نامہ‘‘ کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ قرآن اور علم کے رشتے کو اُجاگر کرنے والی آپ کی تازہ ترین تصنیف ’’قرآن، مسلمان اور سائنس‘‘ کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ یہ کتاب ہندی اور بنگلہ زبان میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر پرویز کے سائنسی مضامین مختلف ریاستوں کی نصابی کتابوں میں بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر پرویز ’’اسلامی فاؤنڈیشن برائے سائنس وماحولیات‘‘ کے بانی ڈائرکٹر ہیں اور اسی پلیٹ فارم سے انگریزی داں طبقے تک اللہ کا پیغام علمی اور عقلی انداز میں پہنچا رہے ہیں۔ آپ کے مضامین بیرونی ممالک کی کتابوں میں بھی شائع ہوتے ہیں نیز وہاں کی یونیورسٹیاں اور ادارے اور تنظیمیں جن میں ہارورڈ، ییل (Yale) اور ٹورنٹو یونیورسٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں‘ آپ کو لیکچر کے لئے بلاتی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی (امریکہ) سے چھپی کتاب ’’اسلام اور ایکولوجی‘‘ میں آپ کا ایک مضمون ’’سائنسی جدتیں اور المیزان‘‘ شائع ہوا ہے۔ لندن کے کنٹینووم (Continuum) پبلشر کے ذریعہ شائع ہونے والے ’’انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ نیچر‘‘ میں ڈاکٹر پرویز کے تین مضامین شامل ہیں جو اسلام میں انسان اور قدرتی وسائل کی حیثیت کا مختلف زاویوں سے احاطہ کرتے ہیں۔ آپ نے ابھی ذاکر نگر میں ایک ادارہ ’’قرآن سینٹر‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے جو کہ ایک قرآنی تعلیمی ٹرسٹ کے نام وقف ہے۔ اس ادارے میں قرآن ترجمہ اور قرآن فہمی کا انتظام ہے۔ اسکولی بچوں کو جدید علوم میں کوچنگ کے ساتھ قرآن کا مفہوم بھی سمجھایا جاتا ہے۔ یہ کلاسیس بچوں کے لئے بغیر کسی فیس کے دستیاب ہیں۔ آپ اسپین، امریکہ، انڈونیشیا، برطانیہ، بیلجیم، ترکی، جورڈن (Jordon) سعودی عرب، سنگاپور، فرانس، کناڈا، کویت، متحدہ عرب امارات، مراکش، ملیشیا، نیپال اور ہالینڈ کا سفر کرچکے ہیں۔
پاکستان سے شائع ہونے والا سائنس میگزین ’’گلوبل سائنس‘‘ اپنی نوعیت کا منفرد سائنس میگزین ہے جو انفارمیشن ٹکنالوجی، میڈیسن، ایسٹروفزکس، ڈیفنس انڈسٹریز اور نینو ٹکنالوجی پر سیر حاصل مضامین شائع کررہا ہے۔ اس کا مستقل کالم نسخہ کیمیا ہے جو قرآن کی روشنی میں سائنس کے حقائق کو پیش کرتا ہے۔ علیم احمد چیف ایڈیٹر، وسیم احمد مینیجنگ اڈیٹر ہیں اور اس کے ادارتی بورڈ میں سہیل یوسف، تفسیر احمد، ذیشان الحسن عثمانی، ملک محمد اور شاہد اقبال شامل ہیں۔ سائنس اور صحت عامہ پر ماہنامہ فکر و صحت گذشتہ 18برس سے رامپور سے شائع ہورہا ہے۔ جس کے ایڈیٹر جناب محمد عاصم راجا ہیں۔ مجلس مشاورت میں ڈاکٹر ظفر رحمان، ڈاکٹر سید فضل اللہ قادری (پٹنہ)، ڈاکٹر حکیم سید غوث الدین (حیدرآباد) سمیع الزماں (حیدرآباد)، ڈاکٹر نثار احمد خان (راجستھان) شامل ہیں۔ یہ ایک جامع معیاری رسالہ ہے جس میں عوام کی صحت سے متعلق ضروریات کی تکمیل کی گئی ہے۔ یونانی طب کا ایک منفرد ماہنامہ الشفاء گذشتہ 21برس سے دہلی سے شائع ہورہا ہے جس کے ایڈیٹر اور پبلیشر جناب سید اعجاز حسین ہیں۔ طب نبویؐ اور طب یونانی کا یہ ایک حسین امتزاج ہے اس میں ملک و بیرون ملک کے مضامین نگار کے معلوماتی مضامین بھی ہیں اور قارئین کے سوالات و جوابات کا سلسلہ بھی۔ طب یونانی کا ایک اور مستند جامع اور معلوماتی ماہنامہ ’’نوائے طب و صحت‘‘ جناب عرفان علیمی کی زیر ادارت 22سال سے الہ آباد سے شائع ہورہا ہے جو طب یونانی کے تقدس اور اس کے وقارکا علمببردار سمجھا جاتا ہے۔ حیدرآباد سے جناب انورعلی خان کی ادارت میں دو لسانی (اردو اور انگریزی) احمد ٹائمز گذشتہ 15برس سے کامیابی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ انور علی خان کے والد جناب احمد علی خان ممتاز طبیب تھے ان کی اپنی احمد اینڈ کمپنی گذشتہ 60برس سے زائد عرصہ سے اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے۔انور علی خان ڈی اے وی پی کے ممبر بھی ہیں۔ طب یونانی پر حیدرآباد سے ایک اور جریدہ کی اشاعت کاآغاز حکیم و ڈاکٹر ابوالحسن اشرف کی ادارت میں عنقریب ہونے والا ہے۔ ابوالحسن اشرف ایک مستند حکیم ہیں ان کے والد حکیم احمد اشرف حیدرآباد کے نامور اطباء کرام میں شمار کئے جاتے تھے۔ سائنس اور طب پر ان کی کئی کتابیں موجود ہیں۔ نفسیات اور جنسیات کے وہ ماہر تھے۔ جن کی ایک تصنیف ’’عورت کا دل مٹھی میں‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔ ان کے پاس ہر ایک موضوع پر ایک لاکھ سے زائد کتابوں کا ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ ابوالحسن اشرف کی اہلیہ ڈاکٹر اشرف جبین بھی ماہر امراض نسواں ہیں دونوں میاں بیوی کے مردو خواتین کے جنسی و عام امراض سے متعلق مضامین باقاعدگی کے ساتھ سیاست میں شائع ہوتے ہیں۔ حکیم اور ڈاکٹر سید غوث الدین بھی صحت عامہ مختلف جڑی بوٹیوں پر اَن گنت مضامین روزنامہ سیاست میں لکھ چکے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ دہلی کی مشہور Rex رمیڈیز کا بھی ایک رسالہ شائع ہوتا ہے۔ جہانِ اردو ڈاٹ کوم
پاکستان کا انفارمیشن ٹکنالوجی پر آن لائن میگزین ITduniya.com کافی مشہور ہے۔ جبکہ پاکستان کے تین ہونہار طلبہ محمد عاصم، ریحان شہزاد اور فوزیہ مظہر نے سائنس کی دنیا ویب سائٹsciencekiduniya.wordpress.com شروع کی ہے۔ محمد عاصم مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی جامشرو میں ٹیکسٹائل انجینئر ہیں۔ ریحان شہزاد ایمرسن گورنمنٹ کالج ملتان کے شعبہ کمپیوٹر سے تعلق رکھتے ہیں اور فوزیہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبہ ہیں۔ ان طلبہ نے سائنس کی ترویج و اشاعت اور اردو زبان کے فروغ کے لئے ایک ویب سائٹ شروع کی جو تعلیم یافتہ طلبہ میں کافی مقبول ہے۔ ہند و پاک کے اخبارات جہاں سائنس و ٹکنالوجی اور صحت عامہ کو ترجیح دے رہے ہیں وہیں اَن گنت آن لائن اردو میگزینس ہیں ان میں سے ایک www.urdustreet.com ہے جو رائل کالج آف سائکیاٹرسٹ کی جانب سے ذہنی صحت سے متعلق اردو میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ یونائٹیڈ اسٹیٹ نیشنل لائبریری آف میڈیسن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے حروف تہجی کے اعتبار سے سائنس اور صحت عامہ سے متعلق اردو مضامین اپنی ویب سائٹ پر پی ڈی ایف فارمٹ میں فراہم کیا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں یہ مضامین دستیاب ہیں۔ کراچی پاکستان کے نور کلینک اور اخبار جنگ کراچی کے باہمی اشتراک سے آن لائن قارئین کو صحت عامہ میں رہنمائی کی جاتی ہے۔ عام مسائل سے لے کر نفسیاتی امراض سے متعلق سوالات کے جوابات اور طریقہ علاج تجویز کیا جاتا ہے۔ www.noor.clinic.com سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اردو صحافت اور صحت عامہ اکا ایک رشتہ اطباء کرام، حکماء سے رہا ہے۔ پہلے صحت عام سے مراد جنسی امراض کے علاج سے متعلق حکماء کے اشتہارات ہی ہوا کرتے تھے۔ تمام مشہور و معروف اخبارات اور جرائد میں شاہی دواخانہ دہلی، شمع لیباریٹریز اور دوسرے دواساز اداروں کی جانب سے اشتہارات کی بھرمار ہوا کرتی تھی۔ لبوب کبیر، ماء اللحم مختلف اقسام کے طلاء کے اشتہارات برسوں سے اردو اخبارات کی زینت اور ان کی معیشت کا جز بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ مردانہ کمزوری یا صحت، بانجھ پن‘ اولاد سے محرومی‘ مختلف امراض نسواں میں ہر مرد و خواتین کی دلچسپی کا سامان ہے۔ اس کا فائدہ مستند دواساز کمپنیاں تو اٹھاتی رہی ہیں۔ سب سے زیادہ استحصال نیم حکیم خطرے جان قسم کے فٹ پاتھ چھاپ عطائی حکیموں نے خاندانی نسخوں کا دعویٰ کرنے والے دھوکہ بازوں نے ہر دور میں کیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو صحافت نے اپنے معاشی فائدہ کیلئے اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت کو آنکھ بند کرکے جاری رکھا۔ آج بھی ہر روز نام نہاد، معیاری اردو اخبارات میں اس قسم کے واہیات اشتہارات شائع ہوتے ہیں جس میں چند لمحوں میں مردانگی کی بحالی کے شرطیہ پٹھانی، خاندانی، شاہی نسخوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اب تو کئی بڑے بڑے ڈرگس مینوفیکچررس علی الاعلان اس قسم کے اشتہارات شائع کررہے ہیں۔ جنہیں مرد حضرات بھی آنکھ بچاکر پڑھتے ہیں اور خواتین گھریلو جھگڑوں میں طعنے کے طور پر ان ادویات کا حوالہ دیتی ہیں۔ فلاں بوٹی، فلاں طلاء، فلاں گولی اس قسم کے اشتہارات اردو صحافت کے معیار کی گراوٹ ہے۔ یہی حال بانجھ پن کے علاج کا بھی ہے۔ یوں تو مستند فرٹیلٹی ایکسپرٹس موجود ہیں مگر ان کی آڑ میں کئی دھوکہ باز بھی استحصال کرلیتے ہیں۔ کئی ایسے طریقہ علاج ہیں جن کے بارے میں اردو اخبارات کے ذریعہ عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ بعض ڈاکٹرس یا دواساز کمپنیوں کی جانب سے ایسے بھی دعوے کئے جاتے ہیں کہ ان کے ادویات کے استعمال سے بائی پاس سرجری، ڈائیلاسیس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے تین چار مہینہ کے علاج کا وقفہ بتایا جاتا ہے۔ اور قلب و گردہ کے مریض بائی پاس سرجری، ڈائیلاسیس سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ اس قسم کے اشتہارات کی وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں اور مشتہر کے جال میں پھنس جاتے ہیں جو تین چار مہینہ کی دواؤں کے نام پر اپنی ہی فارمیسی سے 15تا 20ہزار روپئے اینٹھ لیتے ہیں۔ ان کی شرطیہ علاج کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی بیشتر مریض اللہ کے پیارے ہوجاتے ہیں۔
اردو اخبارات کے علاوہ الکٹرانک میڈیا بھی اسپانسرڈ مضامین، انٹرویوز کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تقریباً تمام اردو ٹی وی چیانلس پر مختلف ماہرین امراض کے انٹرویوز ٹیلی کاسٹ کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر معلوماتی اور مفاد عامہ کے حق میں ہوتے ہیں۔
اردو صحافت کی اہمیت کا اندازہ اب کارپوریٹ ہاسپٹلس کو بھی ہوچکا ہے۔ کارپوریٹ ہاسپٹلس نے میڈیکل ٹورزم کے نظریہ کو پیش کیا ہے۔ چونکہ مغربی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں علاج بہت مہنگا ہے اور ڈاکٹرس کے اپوائنٹمنٹ کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لئے اچھے ڈاکٹرس معیاری اور کفایتی علاج کی غرض سے بیشتر این آر آئیز مشرق وسطیٰ مغربی ممالک سے ہندوستان بالخصوص حیدرآباد آکر علاج کرواتے ہیں۔ انہیں راغب کرنے یا ان میں مارکیٹنگ کے لئے اردو صحافت سب سے موثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ بیشتر کارپوریٹ ہاسپٹلس نے اردو اخبارات کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت میڈیا پیاکیج شروع کیا ہے۔ جس کے ذریعہ سال کے 52ہفتے کسی نہ کسی موضوع پر متعلقہ ماہر امراض کے مضامین یا انٹرویوز شائع ہوتے ہیں جو علاج نہ بھی کروارہے ہوں تو انہیں بھی معلومات مل جاتی ہیں۔جہانِ اردو ڈاٹ کوم
یوں تو طریقہ علاج کے لئے ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، آیوروید، یونانی اور نیچروپیتھی عام ہیں۔ ان میں سے ایلوپیتھی کے سوا تمام طریقہ علاج کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ علاج دیر آید درست آید ہوتا ہے۔ اور ان کی ادویات کے سائڈ ایفیکٹ یا مضر اثرات نہیں ہوتے۔ یہ تمام طریقہ علاج سے مرض کو جڑ سے ختم کیا جاتا ہے جبکہ ایلوپیتھی اپنے تمام تر عصری وسائل میڈیکل ٹکنالوجی میں ترقی کے باوجود اپنی ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس پر قابو نہیں پاسکا۔ اردو صحافت سے تعلق رکھنے والے جن میں اکثریت قارئین ہی کی ہوتی ہے‘ ان کا دوا اور دعا دونوں پر اعتقاد ہوتا ہے۔ چنانچہ روحانیات اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اردو قارئین بالخصوص مسلمانوں کی مذہبی اور جذباتی نفسیات کے مطابق اردو اخبارات و جرائد میں روحانیت کے کالم بھی رکھے ہیں۔ مختلف امراض کا دوا کے ذریعہ علاج اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف اذکار، وظائف کے لئے رہنمائی کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ نقش کئے گئے چھلے (انگوٹھی یا انگشتری)، تعویذات، قرآنی آیات کے نقش کئے ہوئے تانبے کے کٹورے بھی ماہر روحانیات کی جانب سے فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آسیب اور جنات کو بھگانے کے لئے روحانی موم بتیاں بھی فروخت کی جارہی ہیں۔ بعض شاطر قسم کے عامل کچھ دم کرکے پانی بھی منرل واٹر بوتلس کی طرح فروخت کررہے ہیں۔ ہم ایک ایسے عامل کو بھی جانتے ہیں جو اپنی شہادت کی انگلیوں سے جوڑوں کے درد کے علاج کا دعویٰ کرتے ہیں جب ان کے پاس مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو انہوں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ٹیلکم پاؤڈر پر انگلی پھیر دیتے ہیں اور یہ پاؤڈر کے ڈبے اپنے مریضوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ بلاشبہ قرآنی آیات، اسمائے الٰہی، اسمائے محمدی صلی اللہ علیہ وسلم، مخصوص موقعوں پر مخصوص دعاؤں کا اثر مسلمہ ہے۔ اس سے انکار کفر ہے۔ دیوبند سے مولانا حسن الحسن ہاشمی اپنی نوعیت کا منفرد جریدہ طلسماتی دنیا شائع کرتے ہیں۔ جس میں روحانی علاج کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے ہیں۔
بعض عاملین عوام کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے ان کا استحصال کرتے ہیں اور اخبارات میں ایسے اشتہارات بھی شائع ہوتے ہیں جس کی نہ صرف اسلام میں بلکہ کسی بھی مہذب و متمدن معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر شوہر کو اپنی مٹھی میں کرنے کا وظیفہ، ساس اور نند کے منہ پر تالا ڈالنے کی تعویذ کے اشتہارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ قرآنی آیات، دعاؤں اور اذکار کا منفی استعمال حرام ہے۔ کاش اردو اخبارات، اردو صحافت چند ٹکوں کی خاطر اس گراوٹ کا شکار نہ ہوں۔ بعض ٹیلی ویژن چیانلس پر تو روحانیات کے نام پر مذہب کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ اب تو عامل حضرات بھی عصری وسائل استعمال کرنے لگے ہیں۔ کسٹمرس کو آن لائن جھانسے میں لانے کا فن انہیں بھی آچکا ہے۔ بعض اخبارات ستاروں کے کھیل کے نام پر اپنے قارئین کو گمراہ کرتے ہیں۔ اور وہ کام چور کمزور ایمان والے جو بیٹھے بٹھائے سب کچھ حاصل کرلینا چاہتے ہیں وہ ستاروں کے کھیل، قسمت کے حال، آج کا دن کیسا گذرے گا، یہ مہینہ کیسا ہوگا جیسے عنوانات سے بیوقوف بنتے ہیں۔ Horoscope سب سے مقبول عام سلسلہ ہے جو اخبارات میں بھی ہے‘ ٹی وی پر بھی اور آن لائن بھی۔ عامل آن لائن،
www.astrohope.com
http://www.urduweb.in/urdu/fun-urdu-horoscope.htm
www.ask.com/question/urdu/-horoscope-fra
جیسے ویب سائٹس پر روحانی علاج کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
اس قسم کی ویب سائٹس اور کالمس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے۔ یہ انسانیت کو گمراہ کرنے کے مماثل ہے۔
بعض اخبارات اور اردو جرائد مختلف قسم کے پتھروں اور نگینوں کے سحری خواص پر بھی کالم شائع کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ عوام میں بے حد مقبول ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مزاج، تاریخ پیدائش اور نام کے لحاظ سے مخصوص پتھر یا نگینے ان کی صحت اور قسمت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ نیلم، پکھراج، عقیق، الماس، زمرد، موتی کے خواص شائع کرتے ہیں اکثر حضرات اور خواتین اس قسم کے نگینے پہنتے ہیں۔ وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر پتھروں میں یہ قدرت ہوتی تو انہیں بیچنے والی کی تقدیر بہتر کیوں نہ ہوتی۔ جب ان پتھروں کو انگوٹھی میں پہننے سے منع کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انگشت مبارک میں عقیق پہنا کرتے تھے۔ عقیق سب سے نرم پتھر ہوتا ہے جس پر کوئی بھی حرف کندہ کیا جاسکتا ہے۔ مہر نبوت صلی اللہ علیہ وسلم آپ ا کے انگشت مبارک میں کندہ تھے۔ آپ ا اس انگشتری کو مہر نبوت کے استعمال کے لئے پہنا کرتے تھے کسی اور مقصد کے لئے نہیں۔ بہرحال اردو صحافت میں سائنس ٹکنالوجی، میڈیکل سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ توہم پرستی کا رواج بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو صحافت میں حیوانات کی صحت اور علاج سے متعلق کالم کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ کہ اردو قارئین یا مسلمانوں کے لئے یہ شعبہ بھی انتہائی اہم ہے۔ پولٹری، شیپ فارمنگ، افزائش مویشیان، اور Birds Sanctuary سے مسلمانوں کو بے حد لگاؤ ہے۔ شیروں کا شکار ہو کہ شہ سواری، رکھوالی کے کتے پالنے کا شوق ہو یا گھروں میں ہمہ اقسام کے پرندوں کو قید کرنے کا جنون، مرغی، بکری اور مچھلی پالن میں بھی اردو قارئین سب سے آگے ہیں۔ تاہم بہت ہی کم موقعوں پر اردو صحافت میں اس قسم کا کوئی کالم نظر آتا ہو۔ کتوں کا جہاں تک تعلق ہے۔ انہیں رکھوالی سے زیادہ اپنے سماجی موقف کے اظہار کے لئے پالنے کا شوق اب پروان چڑھنے لگا ہے۔ گھوڑے سواری کے لئے کبھی استعمال ہوا کرتے تھے۔ متمول حضرات انہیں ریس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ ان کا تعلق اردو صحافت سے ذرا اونچی سطح کا ہوتا ہے اس لئے گھوڑوں سے متعلق مضامین یا اشتہارات اردو اخبارات میں نظر نہیں آتے حالانکہ بعض ماہر حیوانات اور شکاریات نے اردو اخبارات میں سلسلہ وار مضامین ضرور لکھے جن میں حمید آموری اور عزیز احمد عرسی کے نام قابل ذکر ہے۔ پولٹری کنگ کے طور پر حیدرآباد کے ڈاکٹر یونس کو بین الاقوامی شہرت حاصل تھی۔ ان کا نومبر 2013ء میں انتقال ہوا۔ پولٹری سے کئی مسلمان وابستہ ہیں۔ کاسیلا فارمس (شیخ امام)، مظہرالدین جاوید کافی مشہور ہوئے۔ رہنمائے دکن نے اردو صحافتی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1994ء میں پولٹری نمبر شائع کیا گیا تھا۔ جسے راقم الحروف سید فاضل حسین پرویزنے مرتب کیا تھا۔ گذشتہ 20برس میں اردو اخبارات میں اس موضوع پر نہ تو مضامین شائع ہوئے نہ ہی کسی اخبار کا ایڈیشن شائع ہوا البتہ پولٹری کے اشتہارات ضرور شائع ہوتے ہیں۔ یہی حال مچھلی پالن اور بکرے پالن یا شیپ پالن کا ہے جس میں کوئی خاطر خواہ مواد اردو صحافت میں نہیں ملتا۔ اردو قارئین میں کئی ایسے ہیں جن کے پاس دنیا کے مختلف ممالک کے قیمتی پرندے موجود ہیں مگر اس بارے میں بھی کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ شاید یہ لوگ انگریزی صحافت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوں البتہ موسمی تبدیلی کے ساتھ جب ہزاروں میل دور سے پرندے نقل مقام کرکے آجاتے ہیں تو ان کی تصاویر اردو اخبارات میں بھی شائع ہوتی ہیں۔
اردو ماہنامہ ’’عدسہ‘‘ نے کم از کم مختلف جانوروں پر خصوصی نمبر ضرور شائع کئے ہیں جو دستاویزی نوعیت کے حامل ہیں۔ تاملناڈو کے ممتاز شاعر مختار بدری نے اردو شاعری میں جانور کے موضوع پر تحقیقی دستاویزی کتاب مرتب کی ہے جو اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہے۔جہانِ اردو ڈاٹ کوم
پاکستان کے حکیم طارق محمود چغتائی‘ ہمدرد پاکستان کے حکیم محمد سعید شہیدؒ اور ہمدرد ہندوستان کے حکیم عبدالحمید مرحوم اور حیدرآباد دکن کے حکیم قدرت اللہ حسامی نے فن طب کی قلم کے ذریعہ زبردست خدمات انجام دیں۔
طارق چغتائی کی ’’سنت نبویؐ اور جدید سائنس‘‘، قدرت اللہ حسامی کے میڈیکل سائنس اور اسلام پر سات جلدوں پر مشتمل کتابیں جو اخبارات میں اقساط میں بھی شائع ہوئیں‘ اردو صحافت کی صحت مندی کی علامت رہی۔ حکیم غلام احمد قادری المعروف شاہ علی بنڈہ کے جراح نے دست و پا شکستہ کے علاج کا عالمی ریکارڈ قائم کیا 35سال میں وہ اور ان کے ارکان خاندان نے جن میں دو صاحبزادیاں اور 12لڑکوں نے لاکھوں مریضوں کا علاج کیا ہے یہ سلسلہ ان کی نسل نے بھی جاری رکھا ہے۔

Share
Share
Share