اسلوب اور اس کے اقسام :- ڈاکٹر محمد ناظم علی

Share
اسلوب
ڈاکٹر محمد ناظم علی

اسلوب اور اس کے اقسام

ڈاکٹر محمد ناظم علی
سابق پرنسپل ‘گورنمنٹ ڈگری کالج
موڑتاڑ۔نظام آباد۔تلنگانہ

اسلوب کی تعریف :
اسلوب کو انگریزی میں (STYLE) اردو میں اسلوب ‘ عربی و فارسی میں ’’سبنک‘‘ کہتے ہیں۔ انگریزی لفظ STYLE ایک یونانی لفظ STITUS سے نکلا ہے جو ہاتھی دانت‘ لکڑی یا کسی دھات سے بنا ہوا ایک نوکیلا اوزار ہوتا ہے۔ جس سے موم کی تختیوں پر حروف‘ الفاظ اور طرح طرح کے نقوش کندہ کئے جاتے تھے۔ اسلوب میں بھی چونکہ لفظوں کا انتخاب‘ کانٹ چھانٹ اور تحریر ہوتی ہے اسلئے شائد اسے اسٹائل کہا گیا ہو۔ عربی میں لفظ ‘‘سبنک‘‘ کے لغوی معنی دھات کو پگھلانے اور سانچے میں ڈھالنے کے ہیں۔

ادبی تحریر میں چونکہ لفظ ڈھالے جاتے ہیں اسلئے اسے سبنک کہا گیا۔ آکسفورڈ کی انگریزی ڈکشنری میں اسلوب کے بطور اسم ۲۸؂ معنیٰ اور بطور فعل ۶؂ معنی دئیے گئے ہیں۔
مرزا خلیل بیگ نے اپنی تصنیف ’’زبان اسلوب اور اسلوبیات‘‘ میں مغربی نقاد ان فن کی پیش کردہ اسلوب کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں جس میں لکھا ہے :
’’مشہور فرانسیسی مصنف اور نیچری(Naturalist) بفون (۱۷۰۷ ؁ء۔ ۱۷۸۸ء ؁) کا کہنا ہے کہ ’’اسلوب ہی خود انسان ہے‘‘ بفون کی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انگریزی نثر نگار اور مورخ گبن (۱۷۳۷ء ؁۔۱۷۹۴ء ؁) نے کہا ہے کہ ’’اسلوب کردار یاِ شخصیت کا عکس ہے‘‘ انگریزی کے معروف ادیب اور ہجو نگار سوئفت (۱۶۶۷ء ؁ ۔ ۱۷۴۵ء ؁) کے نزدیک ’’مناسب الفاظ کا مناسب جگہوں پر استعمال ہی اسلوب کی سچی تعریف ہے۔ امریکی انشا پر داز اور شاعر ایمر سن (۱۸۰۳ء ؁ ۔ ۱۸۸۶ء ؁) کے مطابق ’’انسان کا اسلوب اُس کی ذہنی آواز ہے‘‘ مشہور جرمن فلسفی شوپنہار (۱۷۸۸ء ؁۔۱۸۶۰ء ؁) کا قول ہے کہ ’’اسٹائل خیال کا سایہ ہے‘‘۔اطالوی فلسفی اور مدبرکروچے (۱۸۶۶ء ؁۔۱۹۵۲ء ؁) کا کہنا ہے کہ ’’جب اظہار وجدان کی برابری کرے تو اسٹائل وجود میں آتا ہے۔‘‘ ۱؂
کلاسیکی لاطینی ادب میں اسلوب ابتدا میں طرز تحریر کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔ بعد میں تحریر و تقریر میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا نام اسلوب قرار دیا گیا۔فرانسیسی ادب میں اسلوب شخصیت کے موزوں اظہار کے مفہوم میں رائج ہے۔ افلاطون کے خیال میں اسلوب میں ذہن اور روح کی کارفرمائی ضروری ہے۔ ارسطو نے طریقہ ادائیگی کو اسلوب قرار دیا۔ ٹینی سن نے اس بات پر زور دیا کہ قابل توجہہ بات یہ نہیں ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کس طرح کہہ رہے ہیں۔ ہر برٹ ایڈ کا کہنا ہے کہ ’’ایک اچھا مصنف الفاظ کا انتخاب محض اسلئے نہیں کرتا کہ وہ کسی مخصوص آہنگ سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ الفاظ کو اُس کی وضاحت و بلاغت کے پیش نظر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ ایک مخصوص نقطہ سے وہ اپنے مافی الضمیر کوکما حقہ ادا کرسکے۔‘‘ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور اپنی تصنیف ’’ اردو کے اسالیب بیان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلوب مصنف کی تمام زندگی کا عکس ہوتا ہے‘‘۔

اسلوب کی اقسام :
کسی شاعر یا ادیب کا اسلوب یا تو نثر کے ذریعہ واضح ہوگا یا نظم کے ذریعہ ۔ اسلئے اسلوب کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہوتی ہیں۔ (1 نثری اسلوب (2 شعری اسلوب

نثری اسلوب :
نثری اسلوب نثر سے ظاہر ہوتا ہے اور اس میں خیالات کے اظہار پر زور دیا جاتا ہے۔ ادا ئے خیال سے مراد یہ ہے کہ مصنف کے ذہنی تجربات بلا کم و کاست راست طور پر قاری کے ذہن تک منتقل ہوجائیں۔ اور ترسیل کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہوجائے۔ اس کو ابلاغ خیال بھی کہتے ہیں اس کے لحاظ سے ادیب کو وہی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے جو واضح اور قطعی ہو۔ اس میں کسی قسم کی شعریت ‘ْ جذباتیت اور مبالغہ آرائی یا استعاروں اور اشاروں کا استعمال نہ ہو۔ نثر کی مختلف اصناف نثری اسلوب کی مثالیں ہیں۔ نظم کے مقابلے میں نثر میں اپنے اسلوب کی شناخت بنانا ذرا مشکل کام ہے۔ تاہم رشید احمد صدیقی‘ ذاکر حسین‘ آل احمد سر ورغیرہ نے اظہار بیان کے مختلف انفرادی طریقے اختیار کرتے ہوئے نثری اسلوب میں اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔

شعری اسلوب :
شعری اسلوب شاعری میں اظہار جذبات کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس میں بلیغ ابہام ہوتا ہے۔ لطیف نغمگی ہوتی ہے۔ اور ایک ایسی ماورائی کیفیت ہوتی ہے جو قاری کیلئے وجدان کا تاثر پیدا کرتی ہے۔ اگر شاعری میں لطیف اورمترنم اسلوب اختیار نہ کیا گیا تو شاعرکو کامیابی حاصل ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

اسلوب کی تشکیل کے عناصر:
اسلوب نثری ہو یا شعری اس کی تشکیل کے عام طور سے تین عناصر ہوتے ہیں۔ ایک مصنف کی انفرادی خصوصیت‘ دوسرے عام انسانی رویہ تیسرے خیال اور زبان کی خصوصیات ۔
اسلوب کی پہلی خصوصیت مصنف کی انفرادیت ہے۔ یعنی ہر مصنف کا زبان و بیان کے استعمال کے سلسلے میں مخصوص انداز اور رویہ ہوتا ہے۔ جو اُسے دوسرے مصنفین سے ممتاز رکھتا ہے۔یہی وجہہ ہے کہ مخصوص طرز کے اسلوب کی نقالی مشکل ہے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں جو اسلوب اختیا رکیا ہے وہ مشکل سے ہی کوئی دوسرا فسانہ نگار نقل کرسکتا ہے۔ مزاح نگاری میں مشتاق احمد یوسفی‘ کرنل محمد خان‘ پطرس بخاری‘ یوسف ناظم‘ رشید احمد صدیقی وغیرہ سب اپنے اپنے اسلوب کے مالک ہیں۔ ان مزاح نگاروں نے اظہار خیال اور زبان و بیان کے استعمال کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اُس کی نقل کرنا دوسروں کے لئے ممکن نہیں۔
اسلوب کی دوسری قسم میں مصنف کا رویہ کارفرما ہوتا ہے۔ مصنف جس ماحول میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ ماحول اس کی بول چال ‘ رہن سہن‘ وضع قطع‘ عادات و اطوار کو ایک شکل دیتا ہے۔ اور یہ عوامل کسی نہ کسی طرح اسلوب پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اردو میں شمالی ہند کے مصنفین اور جنوبی ہند کے مصنفین کے اسلوب میں ماحول کے اثرات پائے جاتے ہیں۔
اسلوب کی تیسری قسم میں خیال اور زبان کی خصوصیات شامل ہوتی ہیں۔ کوئی مصنف یا شاعر زبان و بیان کے مخصوص الفاظ‘ تشبیہات‘ استعارے اور تراکیب کو مخصوص انداز میں یا اکثر استعمال کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب کی صورت گری کرتا ہے۔
کسی تخلیق کی تنقید کی طرح اسلوب کی پر کھ کی بھی کچھ اصطلاحیں مروج ہیں۔ اور جدا جدا اسلوب کیلئے سادہ بے تکلف‘ موزوں‘ خوش آہنگ‘ شگفتہ‘ خوبصورت اور مرصع اسلوب کے نام دئیے جاتے ہیں۔
کسی مصنف کے اسلوب کی تشکیل میں اُس کی شخصیت کی خارجیت اور داخلیت کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ بعض ناقدین نے اسلوب کو مصنف کی شخصیت کا مظہر کہا ہے۔ شخصیت کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک خارجی دوسرا داخلی۔ خارجی پہلو میں خدوخال ‘ رنگ و روپ‘ وضع قطع‘ چال ڈھال وغیرہ ہوتے ہیں۔ جبکہ داخلی پہلو میں اس کے احساسات ‘ خیالات‘ نظریات‘ مشاہدات پر رد عمل وغیرہ ہوتے ہیں۔ خارجی پہلو بہ ظاہر آسانی سے نظر آجاتا ہے۔ جبکہ داخلی پہلو جاننے کیلئے مصنف سے تبادلہ خیال کرنا اور اس کی تحریروں کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر شخص کے سوچنے اور محسوس کرنے کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی تعلیم و تربیت کی بنا اپنے خیالات کو منفرد انداز میں اظہار کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یہی منفرد انداز اظہار کسی مصنف یا انشا ء پر داز کا اسلوب ہوتا ہے۔ اسطرح اسلوب کی مدد سے صاحب اسلوب سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر انشا پر داز کے خیالات میں الجھن ہو تو اس کا اسلوب بھی واضح نہیں ہوگا۔ اس پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے عابد النساء لکھتی ہیں :
’’اسلوب کی ماہیت کو سمجھنے کیلئے مصنف کی شخصیت کے علاوہ اسلوب اور خیال کے باہمی تعلق کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اسلوب احساسات اور اظہار خیالات کا بنیادی وسیلہ ہے۔ اگر مصنف اپنے خیالات و احساسات قاری تک پہونچانے میں نا کام رہا ہے تو یہ اس کے اسلوب کا نقص سمجھا جائے گا۔ اسلوب خیالات کا عکس ہوتا ہے۔ اگر خیالات میں الجھن ہوتو اسلوب میں خود بہ خود الجھاؤ پیدا ہوجائے گا۔ مصنف کے ذہن کا یہ الجھاؤ کبھی مشکل اور نا مانوس الفاظ کا سہارا لیتا ہے تو کبھی دور ازکار تشبیہات اور استعارات کی راہیں تلاش کرتا ہے۔ ۲؂
——
حوالے :

۱؂ بحوالہ ’’زبان اسلوب اور اسلوبیات‘‘ از مرزا خلیل بیگ۔ علی گڑھ ۱۹۸۳ ؁ء ص ۱۵۸
۲؂ عابدالنساء۔پروفیسر آل احمد سرور حیات اور ادبی خدمات۔ ص۱۲۹

Share
Share
Share