نعتیہ مجموعہ : ہجرت – شاعر : تقی احمد تقی :- مبصر:ڈاکٹر عزیز سہیل

Share


نعتیہ مجموعہ
ہجرت

شاعر : تقی احمد تقی
09052840088

مبصر:ڈاکٹر عزیز سہیل

جناب تقی احمد تقی ؔ کا شمار جڑچرلہ کے قدیم شعراء میں ہوتا ہے وہ 1969ء سے شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کررہے ہیں ان کے اساتذہ میں عبدالحبیب عیاںؔ حیدرآبادی،حضرت اوج ؔ یعقوبی اورحضرت خیرات ؔ ندیم شامل تھے ،تقی احمد تقیؔ نے حضرت خواجہ شوقؔ ؒ سے بھی اصلاح لی اور یہ اصلاح کا سلسلہ حضرت خواجہ شوقؒ کے انتقال سے قبل تک جاری رہا۔انہوں نے جلال عارفؔ کی صحبت اختیار کی اور شاعری کے میدان میں سرگرم ہوگئے۔

ان کا کلام عام فہم ہے اوروہ سادہ الفاظ کے استعمال سے اپنی شاعری کو مملو کرتے ہیں اور اپنے مخصوص انداز سے اپنی منفرد پہچان بنائے ہوئے ہیں۔تقی احمد تقیؔ ہندوستان بھر میں مختلف کل ہند مشاعروں میں جڑچرلہ کی نمائندگی کررہے ہیں ان کا پہلانعتیہ مجموعہ کلام’’ہجرت‘‘کے عنوان سے حالیہ دنوں منظر عام پر آیاہے۔جس کے سرورق پر یہ شعر اس بات کا اشارہ کر رہا کہ اس مجموعہ کلام میں نعتوں کی سوغات شامل ہیں؂
اِدھر سوئے شبِ ہجرت علیؓ بستر پہ آقاؐ کے
نبیؐ کے ساتھ اُدھر صدیقِ اکبرؓ غار میں آئے
زیر نظر نعتیہ مجموعہ کا پیش لفظ جناب جلال عارف حیدرآباد نے لکھا ہے ۔انہوں نے اپنے پیش لفظ میں تقی احمد تقی کا تعارف اور شعری سفر کے آغاز اور حضرت خواجہ شوق شرف تلمذکاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’1984 ء میں حضرت خواجہ شوق سے شرف تلمذ حاصل ہوا تو تقی احمد نے بھی شاگردی اختیار کرلی اور میرے درمیانی وسیلہ سے جناب سلطان چشتی کے کلام کی بھی اصلاح ہونے لگی جس کا سلسلہ حضرت شوق کی وفات تک چلتارہا۔ یہیں سے تقی کی شاعری کو جلا ملی اور شاعری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔تقی صاحب کا جلیل رضا کو شاعری کے میدان میں لانے میں اہم کردار ہے جواُن کے ہم زلف زادے ہیں۔ تقی احمد تقی نے ہر صنف شاعری پر طبع آزمائی کی ہے۔غزل،نظم،قطعات،رباعی اُن کی شاعری کاحصہ بنے اور اس وقت اُن کے پاس وافر مقدار میں اس کا سرمایہ بھی جمع ہے۔مگر یہ بات الگ ہے کہ حُبِ نبیؐ کے جذبۂ بے اختیار نے نعتوں کی جانب ہی زیادہ مائل رکھا۔تین سوکے قریب نعتوں اور منقبتوں کا ذخیرہ موجود ہے۔‘‘
اس نعتیہ مجموعہ میں جلا ل عارف صاحب کے پیش لفظ کے بعد راقم الحروف کی بھی تقریظ شامل ہے ،کچھ اپنے بارے میں عنوان کے تحت اس نعتیہ مجموعہ کے شاعر تقی احمد تقی نے اپنی بات بیان کی ہے اوراپنے شاعری کے آغاز کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ ابتداء میں استاد محترم حضرت حلمی آفندی ؔ خسرو پریس چھتہ بازار حیدرآباد سے1972ء میں اصلاح لی انہوں نے شاعری کے بجائے کچھ کام کرنے کا مشورہ دیاکیوں کہ شاعری سب کے بس کی بات نہیں ان کے بعد میں خیرات ندیم ؔ سے رجوع ہوا ان سے کچھ سیکھنے کا موقع ملا،شاعری سیکھنے کیلئے بہت سے پاپڑ بیلے،نوجوانی میں شاعری کا بھوت سوار ہوگیا تھا‘جڑچرلہ میں عبدالحبیب عیاں آئے تو محمد اعظم صاحب (اعظم رائس مل) کے پاس ان سے اکثر ملنے کا اتفاق ہو ا اورشعری ذوق کو جلا ملی۔آخر کار 1976ء میں جلال عارف سے جڑچرلہ میں ملاقات ہوئی پھر ان سے قربتیں بڑھیں انہوں نے استاد سخن حضرت خواجہ شوق صاحب سے1984میں ملایاان کی سرپرستی میں ہمارا شعری سفر عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا اور استاد شاگرد کا یہ رشتہ ان کے انتقال تک جاری رہا‘‘۔
اس نعتیہ مجموعہ میں ایک حمد،73 نعتیں،10سلام اور 20 منقبت شامل ہیں ۔تقی احمد تقی ؔ نے پہلے پہل اپنے شعری مجموعہ کو نعت کی صنف کیلئے مخصوص کردیا ہے جس کی وجہہ ان کی حضرت محمد ﷺ کی بے پنہا عقیدت ہے ہونا بھی چاہئے کہ اللہ کے رسول ؐ سارے جہاں کیلئے نور ہدایت ہے۔ہمار ے لیے اپنے اور اپنے اہل و ایال سے بھی زیادہ افضل پیارے نبیؐ کی ذات گرامی ہے،تقی احمد تقی بھی ایک سچے عاشق رسول ؐ ہے۔انکی شاعری کا محور ہی آپ ؐ کی ذات گرامی ہیں۔تقی احمد تقی نے اپنے نعتیہ شعری مجموعہ کی اشاعت سے یہ بات واضح کردی کہ سیرت رسولؐ کی سچی پیروی ہی راہ نجات کا ذریعہ ہے،تقی احمد تقی اس بات سے بھی خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کہ نعت گوئی میں طبع آزامائی کی ورنہ یہ سعادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ساتھ ہی نعت گوئی کا فن بھی بال سے زیادہ باریک ہے چونکہ اس فن میں بہت زیادہ احتیا ط لازم ہے ورنہ سہواََغلطیاں ہوجائے تو آدمی کی آخرت داؤ پر لگ سکتی ہے ۔ بہر حال تقی احمد تقی نے اپنے نعتیہ کلام میں سیرت محمد ؐ کے مختلف پہلوؤں پر نعتیہ اشعار رقم کئے ہیں۔
زیر نظر اس شعری مجموعہ کا آغاز حمد سے ہوتا ہے تقی احمد تقیؔ نے اپنے منفرد انداز بیان سے حمد یہ اشعار کی بہت خوب صف بندی کی ہے ان کے یہ اشعار ملاحظہ کریں؂
تیری ہر بات کو مالک تو ہی بہترجانے
کیا ہے حکمت تیری اور کیا ہے مشیت تیری
عقلِ محدود بھلا کیسے سمجھ سکتی ہے
شان و الطاف تیرے عزت و عظمت تیری
اس نعتیہ مجموعہ میں شامل اکثر نعتوں میں تقی احمد تقیؔ نے عمدہ،دلفریب اور اچھوتا انداز اختیار کیا ہے اور الفاظ کا کوئی الٹ پھیر نہیں بس سیدھے سادہ انداز سے نعت کے اشعار پیش کردئے ہیں جس سے نعت کے فن پر ان کی دسترس اور پختگی کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔
گلوں کے ساتھ خزاں بھی مہکتی رہتی ہے
چلی ہے جھوم کے بادِ صبا مدینے سے
ہر ایک سمت سے ہجرت کرو مدینے کو
میرے حضورؐ کی آئی صدا مدینے سے
بہر حال تقی احمد تقی نے اپنے پہلے نعتیہ مجموعہ کلام کو اپنی نعتیہ شاعری سے خوب سے خوب تر بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ہجرت (نعتیہ مجموعہ م) میں شامل تمام نعتیں، منقبت کے وابستگی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت ہیں۔تقی احمد تقی کے خیالات پاکیزہ ہیں۔زبان سادہ اورسخن دلنواز ہے۔ میں اس نعتیہ کلام کی اشاعت پرانھیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید بھی کرونگا کہ بہت جلد ان کی غزلوں کا مجموعہ بھی اردو حلقوں میں پور ے آب وتاب کے ساتھ پیش ہوگا۔یہ نعتیہ مجموعہ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوا ہے جس کے ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نئی دہلی ہے۔192صفحات، خوب صورت عمدہ ٹائیٹل پر مشتمل اس نعتیہ مجموعہ کی قیمت 200رپئے رکھی گئی ہے جو ہدی بک ڈپو حیدرآباد اور تقی احمد یقی سے 9052840088 پر ربط پیدا کرتے ہوئے خریدی جاسکتی ہے ۔
——

ڈاکٹرعزیز سہیل
Share
Share
Share