بچوں کے ادب میں خواتین کا حصّہ
ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہء اردو
وجودِزن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں
خواتین نے ادب کی قوس و قزح میں اپنے حصّّے سے کئی رنگ بڑی خوب صورتی اور سلیقہ سے بھرے ہیں،اور اپنے ساز اور سوزِدروں سے زندگی کے ہر موڑ پر رہ نمائی اور ادب کے ہر شعبہ کی آبیاری کی ہے،جس میں بچوں کا ادب بھی شامل ہے۔ا طفال اور خواتین کا رشتہ بہت گہرا اور اٹوٹ ہے،خواتین کے بغیر بچہ کا وجود ،اس کی نشو ونما اور پرورش و پرداخت کا تصوّر نا ممکن ہے،ماں کی گود کو بچوں کا پہلا مدرسہ قرار دیا گیا ہے،بچوں کے زبان سیکھنے کی عمر ماں کی گود اور ماں کی زیرِپرورش گزرتی ہے،ماں اپنے چاند کے ٹکڑے کو سلانے کے لئے موزوں اور مترنّم آواز میں لوریاں سناتی ہے،دراصل ان ہی لوریوں سے بچوں کے ادب کی ابتداء ہوتی ہے۔
بچوں کے ادب کی تاریخ میں جہاں ہمیں بے شمار مرد نظر آتے ہیں،وہیں خواتین کی موجودگی بھی کیفیت و کمّیت ہر دو اعتبار سے اہم اور لائقِ توجّہ رہی ہے،البتّہ بچوں کے ادب کے پہلے دور میں جو امیر خسرو(۱۲۵۳تا۱۳۲۵ء) سے۱۸۵۷ء کے عرصہ پر محیط ہے،خواتین کی نمائندگی نظر نہیں آتی ہے۔بچوں کے ادب کا دوسرا دور جو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد ماقبل آزادی تک جاری رہا ہے،اس دور میں شعوری طور پر بچوں کی نفسیات،لفظیات،ان کی ذہنی وعلمی سطح اور ان کی پسند وذوق کی رعایت کرتے ہوئے با قاعدہ طور پر بچوں کا ادب تحریر کرنے کا آغاز ہوا،اس دور میں لیلےٰ خواجہ بانو،حجاب امتیاز علی،صالحہ عابد حسین اور بیگم قدسیہ زیدی کی خدمات بہت نمایاں اور منفرد ہیں۔خواجہ حسن نظامی کی اہلیہ خواجہ لیلےٰ بانو بچوں کے ادب میں ٌ خاتونِ اوّل ٌ کا درجہ رکھتی ہیں،انہوں نے اپنے عہد میں رائج معصوم بچوں کی عوامی،روایتی کہانیوں کو قلم بند کیا ہے،گرچہ یہ کہانیاں ان کی طبع زاد نہیں ہیں،لیکن اپنے تہذیبی سرمایہ کی صیانت کے پیشِ نظر بہت اہم ہیں،انہوں نے ۱۹۱۹ء میںیہ کہانیاں تحریر کیں،جن کو خواجہ حسن نظامی نےٌ بچوں کی کہانیاںٌ کے نام سے شائع کیا ہے،ہر کہانی میں دو یا تین تصویریں ہیں،یہ تصاویر مہا راجہ سر کشن پرشاد نے بنائی ہیں،ہر کہانی کے آخر میں خواجہ صاحب نے اپنی رائے شامل کی ہے،اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مہاراجہ سر کشن پرشاد اور خواجہ حسن نظامی جیسے شائقینِ ادب بچوں کے ادب سے کتنی دل چسپی رکھتے رہے ہیں۔جہان اردوڈاٹ کوم
امتیاز علی تاج کی بیگم حجاب امتیاز علی نے اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہ کر بچوں کے ماہ نامہ پھول لاہور کی ادارت بھی کی اوربچوں کے لئے کثیر مقدار میں کہانیاں اورمعلوماتی مضامین لکھے،ان کی کہانیوں میں خواب ناک ماحول،طلسماتی فضاء،تخیّلی دنیااور بچوں کی رومانی دنیا کا حسین امتزاج ہے،ان کی کہانیاں بچوں کے ادب میں ممتاز مقام رکھتی ہیں،حجاب امتیاز علی خاتون مصنّفین میں نمایاں شخصیت کی حامل ہیں،بچوں سے متعلّق ان کی تصنیفات بچوں کے ادب میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہیں۔(۱)
صالحہ عابد حسین کو بچوں اوربچیوں کے ادب سے بے انتہاء عشق تھا،ڈاکٹر ذاکر حسینٌ جامعہ اسکول ٌ سے بچوں کے لئے جو تعمیری کام کیا،اس میں ڈاکٹر عابد حسین کے دوش بدوش صالحہ عابد حسین کا نمایاں رول رہا ہے،ماہ نامہ ٌ پیامِِِ تعلیمٌ کا اجراء ۱۹۲۶ء میں ڈاکٹر عابد حسین کی زیرِ ادارت ہوا،پیامِ تعلیم میں وہپابندی سے لکھا کرتی تھیں،وہ آخری دم تک بچوں کے لئے لکھتی رہیں،صالحہ عابد حسین نے بچوں کے لئے افسانوی اور غیر افسانوی دونوں قسم کا ادب تحریر کیا،اور دوسری زبانوں کی کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا،پیامِ تعلیم میں شائع شدہ بے شمار کہانیوں اور مضامین کے علاوہ ان کی تقریباً ایک درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں،جن میں سندر چنار،ایک دیس ایک خون،زعفرانپریوں کے دیس میں،شملے کی سیر،بچوں کے حالی اور ہم کماری بہت مقبول و مشہور ہیں،ان کی کہانیاں اور مضامین بچوں میں حب الوطنی،قومی یک جہتی،قومی یگانگت،بزرگوں کا ادب و احترام اور ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔
قدسیہ زیدی نے ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت جواہر لال نہرو کی زیرِقیادت اور سرپرستی میں بچوں کے لئے خالص تفریحی ادب تحریر کیا،انہوں نے بچوں کے ادب مین با تصویر کہانیوں کو ترجیح دی،اردو ادب اطفال کی تاریخ میں با تصویر کہانیوں کو فروغ دینے میں قدسیہ زیدی کا نام سرِ فہرست ہے،قدسیہ زیدی نے اپنے قلم کو صرف بچوں کے لئے وقف رکھّا،انہوں نے بچوں کے ادب کو خوب سے خوب تر بنا کر پیش کرنے کی لائقِ تحسین کوشش کی ہے،انہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے اور معلوماتی مضامین بھی ،ساتھ ھی مغربی زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ،لیکن ان کاسب سے اہم کام ان کی باتصویر کہانیاں ہیں ،آج سے ۸۰۔۸۵برس پہلے انہوں نے اردوداں بچوں کے لئے ایسی خوب صورت،رنگین اور دیدہ زیب کتابیں پیش کیں،جن کا مقابلہ مغربی ادب سے کیا جا سکتا ہے۔( ۲ )
ادبِاطفال کے تیسرے دور(۱۹۴۷۔۲۰۰۰ء)میں ایسی ممتاز خواتین نظر آتی ہیں،جن میں سے چند نے نہ صرف بچوں کے اد ب میں بلکہ بڑوں کے ادب میں بھی عالمی سطح پرمقبولیت حاصل کی ہے،جیسے:رضیہ سجّاد ظہیر،عصمت چغتائی،قرّۃالعین حیدر،عفّت موہانی،شفیقہ فرحت،اشرف صبوحی،ثریّافرّخ،عابدہ محبوب،مسعودہ حیات،اے۔آر۔خاتون،عطیہ پروین،واجدہ تبسّم،رفیعہ منظورالامین،جیلانی بانو،سیّدہ اعجاز،مشیر فاطمہ،زیب النساء بیگم اورکرن شبنم وغیرہ۔
بیسویں صدی کی مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی نے بچوں کے لیے خاصی تعداد میں کہانیاں لکھی ہیں،انہوں نے بچوں کی کہانیاں اس انداز سے لکھی ہیں،جیسے بچوں سے گھل مل کرباتین کر رہی ہوں،وہ بمبئی کے اسکول میں معلّمہ تھیں،اس لئے انہیں بچوں سے اور ان کی نفسیات کو سمجھنے کا موقع ملا،ان کی کہانیوں میں بچپن،سفید جھوٹ،بلّی کا کرشمہ،بشیرے کی ماں اور قدرت کا مذاق قابلِ ذکر ہیں،بچوں کے لئے ان کا ناول :تین انا ڑی(۱۹۸۰ء)اپنی مثال آپ ہے،یہ دل چسپ ناول تین شوخ وشنگ لڑکوں(کلّو،ببلو اور ٹیٹو) کی شرارتوں پر مبنی ہے،جس میں بچوں کے مسائل کو ان کی نفسیاتی پیچیدگی کے پیشِ نظر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اس ناول میں ایسی دل کشی اور مقناطیسی ہے کہ بچّے اسے ختم کئے بغیر نہیں رکھ سکتے،زبان وبیان کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب ناول ہے،اور اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔( ۳ )
ترقّی پسند تحریک کے بانی سجّاد ظہیر کی بیگم اور مشہور افسانہ نویس رضیہ سجّاد ظہیرنے بچوں کے لئے کئی کہانیاں لکھی ہیں،اور دوسری زبانوں کی کہانیوں کو اردو کا جامہ پہنایا ہے،ان کی طبع زاد کہانیوں میں ننھا مہاوت،صبر شہزادہ اور سنگیت رنگ قابلِ ذکر ہیں، ٌ ولی عہد ٌ ان کی ایک طویل کہانی ہے،جو ماہ نیمہ کھلونا نئی دہلی میں فروری ۱۹۵۷ء سے مئی ۱۹۵۷ء تک قسط وارہوئی۔ہماری ندیوں کی کہانی،بہت دن ہوئیاور جنّت کی سیر وہ کہانیاں ہیں،جو دوسری زبان سے ترجمہ کردہ ہیں،سلطان زین العابدین بڈ شاہ ان کی طبع زاد تاریخی کہانی ہے،یہ تمام کتابیں نہرو بال پستکالیہ نئی دہلی سے شائع ہوئی ہیں۔ ( ۴ )
اردو کے افسانوی ادب میں قرّۃالعین حیدر کا نام نہایت عزّت و احترام سے لیا جاتا ہے،وہ ہندوستان کی ایسی عظیم ناول نگار ہیں،جن کو مشرقی اور مغربی افسانوی ادب پر یکساں عبور حاصل تھا،بڑوں کے باوصف انہوں نے بچوں کے ادب کی طرف ایک مخصوص انداز میں توجّہ کی ہے،غیر ملکی زبانوں کی کہانیوں،معلوماتی مضامین اور ناول کو اردو کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ان کی اجنبیت جاتی رہی ہے،این لاگن کا ان کا ترجمہ کردہ ناول:جن حسن عبد الرحمٰن کو اردو ادب کے سائنس فکشن میں اوّلیت حاصل ہے،ناول کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے جو کتابیں دوسری زبانوں سے اردو ادب میں منتقل کی ہیں،ان میں:بھیڑیئے کے بچّے ،شیر خان،میاں ڈھینچوں کے بچے،ہرن کے بچے،بہادر اور لومڑی کے بچّے بڑی دل چسپ ہیں،یہ کتابیں روس سے ترجمہ کے لئے آئی تھیں،اس کام کا بیڑا مکتبہ پیامِ تعلیم نے اٹھایا تھا،قرّۃالعین حیدر کو ترجمہ نگاری سے بے انتہا ء شغف تھا،ترجمے کے اس شوق نے ان کے فن کو جلا دی،روسی مصنّف اوپیرو فسکایا کی متذکّرہ کتب تراجم میں قرّۃالعین حیدر نے ایسی رواں دواں زبان بے ساختہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ کہیں بھی ترجمہ کا احساس نہیں ہوتا ،بلکہ طبع زاد ہونے کا گمان ہوتا ہے،غرض اردو ادبِ اطفال میں قرّۃالعین حیدر ایک اچھے مترجم کی حیثیت سے مدّتوں یاد رکھی جائیں گی۔ ( ۵ )
خاتون ناول نگاروں میں اے۔آر۔خاتون کا نام محتاجِ تعارف نہیں،ان کے رشحاتِ قلم سے بچوں کے لئے کئی دل چسپ طویل کہانیاں بھی نکلی ہیں،جو مختلف رسائل میں طبع ہونے کے بعد مکتبہ کلیاں لکھنؤ کے وسیلے سے منظرِ عام پر آئی ہیں،ایسی کتابوں میں:سات خیلائیں،سات کھلاڑی،ثمین،بھائی بہن،ساڑھے تین بار،زمانہ،آبشار اور شہزادی ماہ رخ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں،ان کی ایک کتاب :شہزادی بیگم معہ بربادی بیگم مکتبہ علم وادب لکھنؤ نے شائع کی ہے،اے ۔آر ۔خاتون نے اخلاقی اور اصلاحی کہانیاں لکھ کر بچوں کے ادب میں اضافہ کیا ہے،انہوں نے ایسے دل چسپ پیرائے میں کہانیاں بیان کی ہیں کہ پڑھنے اور سننے والے از خود اپنی اصلاح پر مائل ہوں۔ ( ۶ )
اردو ناول نگاری میں عفّت موہانی کا نام مقبولیت کا حامل رہا ہے،بڑوں کے علاوہ انہوں نے معصوم ذہنوں کی آبیاری کے لئے متعدد کہانیاں اورناولٹ قلم بند کئے ہیں،وہ ناول نگاری کے ساتھ ادب اطفال کے میدان میں ایک انوکھے انداز میں داخل ہوئیں،انہوں امتیاز علی تاج کے نا قابلِ فراموش مزاحیہ کردار چچا چھکّن کی طرز پر بچوں کے لئے دل چسپ کردار ٌ نانی امّاں ٌ وضع کیا،اور اپنی کہانیوں میں ان ہی کے معصوم اور مضحکہ خیز واقعات کو بچوں کی عام فہم زبان میں تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے،ان کی تمام کہانیاں ماہ نامہ کلیاں لکھنؤ میں شائع میں شائع ہوئیں،اور پھر مکتبہ کلیاں نے کتابی شکل میں انہیں شائع کیا،عفّت موہانی اپنے انوکھے کردار اورطنز و ظرافت آمیز اسلوب کی بنا پر بچوں کے ادب میں مدّتوں یاد رکھّی جائیں گی،کہانیوں کے علاوہ لڑکیوں کے لئے عفّت موہانی نے اخلاقی،اصلاحی اور درسی نوعیت کے مضامین اور ڈرامے بھی تحریر کئے ہیں۔جہان اردوڈاٹ کوم
صاحبِ طرز ادیبہ ،بہترین افسانہ نگار ،انشاپرداز،مزاح نگار اوربچوں کی ادیبہ کی حیثیت سے شفیقہ فرحت نے کافی مقبولیت حاصل کی،ان میں بچوں کے ادیب کی جملہ خوبیاں موجود تھیں،وہ زندگی کے ہر موڑ پر بچوں کے قریب رہیں،اور زندگی بھر درس وتدریس سے وابستہ رہیں،انہوں نے بچوں کے لئے کہانیان بھی لکھیں،اور ڈرامے بھی،اور بچوں کے رسائل :چاند اور کرنیں کی ادارت بھی کی،بچوں کی کہانیوں کے ساتھ انہوں نے بچوں کے لئے فیچرز بھی لکھے،انہوں نے بچوں کی درسی کتب کی ترتیب و تدوین میں بھی حصّہ لیا،مندرجہ ذیل مقبولِ عام کتابیں ان کی یادگار ہیں:چوں چوں بیگم،ایک ٹکڑا بادل کا،اور بچوں کے نظیر اکبرآبادی۔
عطیہ پروین،کرن شبنم اور عابدہ محبوب کا قلمی سفر اب بھی جاری ہے۔
خواتین کی نمائندہ ادیبوں اور شاعروں میں مشہور افسانہ نگار اور ناول نویس عطیہ پروین اہمیت کا حامل ہے،آزادی کے بعد اردو ادب، اطفال کو شش جہت فروغ دینے میں عطیہ پروین کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں،انہوں نے بچوں کے لئے متنوّع موضوعات پر سیکڑوں کہانیاں،نظمیں،درامے ،خاکے،مزاحیہ فیچرزاور ناولٹ لکھے ہیں،ان کی تمام نگارشات موضوع،زبان،پیش کش اور اسلوب کے اعتبار سے بچوں کے ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں،عتیہ پروین گزشتہ چھ دہائیوں سے مستقل لکھ رہی ہیں،ان کی تحریر یں ہند و پاک کے ہر رسالے اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں،کتابی شکل میں ان کی طویل کہانیوں میں:شہزادی شب نور،فاختہ شہزادی،ننھے میاں نے کھیر کھائیاور جنّت کی تلاش قابلِ ذکر ہیں،جو مکتبہ کلیاں لکھنؤ سے شائعہوئی ہیں،نرالی دنیا پبلی کیشنزنئی دہلی نے ان کی کہانی :ناگ شہزادہ شائع کی ہے۔ ( ۷ )
حیدرآباد سے تعلّق رکھنے والی عابدہ محبوب ۱۹۵۸ء سے بچوں کے لئے لکھ رہی ہیں،انہوں نے پاکستان کے شگفتہ طنزومزاح نگار شفیق الرحمٰن کے زندہ جاوید کرداروں :حکومت آپا اورشیطان سے متاثّر ہو کر ٌ آپا ٌ اور ٌ میں ٌ کرداروں کو وضع کیا،ان کی مزاحیہ اور سبق آموز کہانیوں کا مجموعہ: ٌ چکنی ہانڈی ٌ نومبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا،ان کی بعض کہانیاں اور ڈرامے آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر ہوئے ہیں، ٌ چکنی ہانڈی ٌ میں دل چسپی ،عبرت اور مزاح کا حسین امتزاج ہے۔ ( ۸ )
بچون کے ادب کے چوتھے دور میں جو نئے عہد سالہ ۲۰۰۰ء سے تا حال جاری ہے،بچوں کی قلم کار خواتین میں غیر معمولی اضافہ ہواہے،ان میں کشور ناہید،عقیلہ بانو،نور جہاں نور،ڈاکٹر بانو سرتاج،مہر رحمٰن،زینب نقوی،شہناز نبی،طیّبہ بیگم،شبانہ،ذکیہ تجلّی،وسیمہ عشرت بیابانی،رحمت انجم،انیس فاطمہ،عطیہ حبیب،نوشین انجم،معراج النساء بیگم،عرشیں فردوس،ڈاکٹر عالیہ خان،شاکرہ بیگم صبا،ڈاکٹر فوزیہ چودھری،ڈاکٹر حلیمہ فردوس،شاہوار بیگم،ڈاکٹر انجمن آرا انجم،انشراح انور اور ڈاکٹر صادقہ نواب سحر وغیرہ ممتاز ہیں۔
شہرہ آفاق فن کار کشور ناہیدکی ادبی زندگی کا آغاز بچوں کے ادب سے ہوا،انہوں نے بچوں کے لئے نظم و نثر میں صحت مند ادب تحریر کیا ہے،انہوں نے ادبِ اطفال میں نئے تجربے کئے،طبع زاد کہانیوں کے ساتھ روایتی اور ماخوذ کہانیاں بھی لکھیں،جادو کی ہنڈیا،شیر اور بکری ،ہیروں کا سیب،چاند کی بیٹی اورگدھے کی بانسری ان کی کہانیوں کے مجموعے ہیں،ان کی کہانیوں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہیہ ماخوذ کہانیاں ہیں یا دوسری زبانوں سے ترجمہ شدہ ہیں،انہوں نے قرّۃالعین حیدر کی طرح ترجمہ نگاری میں فنّی مہارت کا ثبوت دیا ہے،ان کیتمام کہانیاں ماہ نامہ نونہال کراچی میں چھپنے کے بعد ہمدرد فاؤنڈیشن کراچی اور بعد ازاں مکتبہ پیامِ تعلیم نئی دہلی سے کتابی شکل میں منظرِعام پر آئی ہیں،کشور ناہید نے نثر کے ساتھ منظوم ادب میں بھی اپنے فن کے جو ہر دکھائے ہیں،ان کی نظمیں زبان وموضوع ہر اعتبار سے بچوں کی اپنی نظمیں ہیں،خصوصاً مختصر منظوم کہانیوں میں شوخی وظرافت جھلکتی ہے،گدھے نے بانسری بجائی،بطخ اور سانپ کتّے اور خرگوش،آنکھ مچولی،مینڈک اور مرغی چڑیا کویلان کی مکالماتی نظمیں ہیں،منظوم کہانیوں کا یہ نیا تجربہ ہے،کشور نیہید دورِحاضر میں ادبِاطفال کی بہترین نمائندگی کر رہی ہیں،وہ ہند وپاک دونوں کی مقبول ترین ادیبہ و شاعرہ ہیں۔ ( ۹ )
ڈاکٹر بانو سرتاج (پ:۱۹۴۵ء)بچون کے ادب میں ایک نہایت معتبر ومستند نام ہے،وہ ایک عرصہ سے مستقل مزاجی کے ساتھ بچوں کے ادب کی آب یاری کر رہی ہیں،وہ بیک وقت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں بچوں اور بڑوں کے لئے لکھتی ہیں،انہوں نے بچوں کے لئے متعدّد کہانیاں،ناول،ڈرامے اورنظمیں لکھی ہیں،جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
کہانیاں:ممی نا بولیں،گھمنڈی کا سر نیچا
ناول:جنگل میں منگل
ڈرامہ:وطن کے لئے،آئی برسات آئی،ٹکلم ٹولا گھی کا گولا،چناؤ کا چکّر،مزاحیہ ڈرامے،جب جاگے تبھی سویرا،ہندی مراٹھی ڈرامے(ترجمہ)
نظمیں:مرغے میاں کی ککڑوں کوں۔
مذکورہ تمام اصناف کو انہوں نے بہت کامیابی سے برتا ہے،اور بچوں کے ادب کی کامیاب نمائندگی کی ہے،انہوں نے اپنی تمام تحریروں میں بچوں کی دل چسپی ،حیرت و استعجاب،مسرّت اور مزاح کا بھرپور خیال رکھّاہے،زبان سیدھی سادی اور سلجھی ہوئی استعمال کی ہے،جملے چھوٹے چھوٹے اور رواں ہیں،انہوں نے اپنی ہر تحریر میں کوئی نہ کوئی درس اور پیغام ضرور دیا ہے،اخلاق و محبّت،رواداری،قومی یک جہتی،شائستگی،حصولِ تعلیم اور عدل و انصاف کی باز یافت ان کی تحریروں کے اہم مقاصد ہیں۔ ( ۱۰ )
ڈاکٹر بانو سرتاج قاضی کو ڈراما نویسی میں کمال حاصل ہے،ان کے ڈرامے بچوں کے ڈرامون میں خوش گوار اضافہ ہیں،ان کے ڈرامے اتنے مقبول ہوئے کہ مہا راشٹرا،مدھیہ پردیش،تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی سرکاری نصابی کتب میں شامل کئے گئے ہیں،ان ڈراموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بچے انہیں آسانی سے اسٹیج کر لیتے ہیں۔
زینب نقوی ایک ابھرتی ہوئی فنکارہ ہیں،جن کی ممتا بھری تحریریں بچوں کی کہانیوں میں خوش گوار اضافہ ہیں،وہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں بہ یک وقت لکھ رہی ہیں،بچوں کے اردو اور ہندی رسائل میں ان کی کہانیاں برابر شائع ہوتی رہتی ہیں،انہون نے بچوں کے لئے کہانیوں کے ڈرامے،فیچرز اور مضامین بھی لکھے ہیں،وہ ایک ماہرِنفسیات ہیں،اور بچوں کی فطرت،دل چسپیوں اور نیرنگیوں سے اچھی شناسائی رکھتی ہیں،ان کی تحریروں میں اعلیٰکردار کی عکّاسی ہے،ان کی تیئیس کہانیوں کا مجموعہ :خوابوں کی راج کماری زیورِطبع سے آراستہ ہو کر بقائے دوام حاصل کر چکا ہے۔ ( ۱۱ )
مہر رحمٰن نے بچوں کے لئے دل چسپ اور پر مزاح ڈرامے لکھ کر بچوں میں مقبولیت حاصل کر لی ہے،با زیچہء اطفال ان ڈراموں کا پہلا مجموعہ ہے،اس میں
شامل کئی ڈرامے اسٹیج کئے جا چکے ہیں،اور انعامات سے نوازے گئے ہیں،ان کا دوسرا ڈراموں کا مجموعہ : طشت میں ہاتھی ہے،ان کے تمام ڈرامے بچوں کی عمر،قابلیتاور استعداد کو مدّنظر رکھتے ہوئے لکھے گئے ہیں ،ڈراموں کی زبان،واقعات،کرداراور مکالمے بچوں کے ماحول اور ان کی نفسیات سے ہم آہنگ ہیں،بچوں کی تعلیم،آزادی،پوشیدہ خواہشات اور مزاحیہ طبیعت کی بھر پور آسودگی ان ڈراموں میں نظر آتی ہے،اور ان کے مسائل کا حل بھی نظر آتا ہے،بچوں کے ڈرامہ نگاروں میں مہر رحمٰن ہمیشہ یاد رکھی جا ئیں گی۔ عقیلہ بانو بچوں کے ادب میں کامکس کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہیں،ماہ نامہ امنگ دہلی میں ان کے کامکس پابندی سے شائع ہوتے ہیں،انہوں نے کثیر تعداد میں کامکس لکھ کر اردو داں بچوں کے لئے دل چسپ کامکس کی کمی کو پورا کیا ہے،ان کے کامکس کے مجموعے :انوکھا باغ اور کپاس بادل دہلی اردو اکادمی نے کتابی شکل میں شائع کئے ہیں۔
بچوں کے لئے مستقل لکھنے والوں میں نو رجہاں نور کا نام بھی شامل ہے،امنگ، پیامِ تعلیم وغیرہ میں ان کی نگارشات برابر شائع ہوتی رہتی ہیں،انہوں نے بچوں کے ادب پر کامیاب تجربے کئے ہیں،انہوں نے مختلف اصناف اور متنوّع مو ضوعات پر طبع آزمائی کی ہے،وہ بہترین شاعرہ ہیں،اور بچوں میں حب الوطنی اور قومی ہم آہنگی کے گیت سنانے میں ماہر ہیں،اس کی اچھی مثال :ٌ یومِ جمہوریت کا ہے مفہوم کیا ٌ جیسی نظم ہے،اس نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:
آج بھارت کے بچے یہ وعدہ کریں
چاچا نہرو کے رستے پہ ہم سب چلیں
قتل ونفرت وجنگ وجدل چھوڑکر
رشتہ عالم کے پھر پیار کا جوڑ کر
پھر ہمایوں بنے کوئی کرنا وتی
کوئی مریم ہو کوئی سیتاوتی
نور کی یہ نصیحت بھلانا نہیں
ہند کی شان وشوکت مٹانا نہیں
خواتین قلم کاروں میں ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا کام نہایت وقیع ہے،ناول نگار، افسانہ نگار،ڈراما نگار،محقّقہ اور بچوں کی شاعرہ وادیبہ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی شناخت بنائی ہے، اردو،ہندی کے علاوہ تیلگو اور انگریزی میں بھی ان کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں،مغربی بنگال بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن کی اردو کی دسویں کتاب میں ان کا ایک ڈراما :سلطان محمود غزنوی شامل ہے،جب کہ بال بھارتی کی اردو کی پانچویں کتاب میں ان کی نظم:آؤ دعا مانگیں شامل ہے،بچوں کے لئے ان کی نظموں کا مجموعہ:پھول سے پیارے جگنو ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا ہے۔جہان اردوڈاٹ کوم
بنگلور کی ڈاکٹر حلیمہ فردوس نے بچوں کے لئے لسانی کھیلوں پر مشتمل کتاب :الفاظ کی دنیا ترتیب دی ہے،جس میں دقیق نظری کے ساتھ لسانی رموز کو کھیلوں میں پیش کیا ہے،ان کی کہانیوں،ڈراموں اور مضامین کا مجموعہ:بچوں کی دھنک رنگ دنیا ۲۰۱۶ء میں چھپ کر منظرِعام پر آیا،اس کتاب میں انہوں نے اکیسویں صدی کے عصری تقاضے کو مدّنظر رکھتے ہوئے دل چسپ ودل نشیں اسلوب میں تجسّس وتحیّر کے ساتھ افادی و تعمیری عناصر کو زیریں لہروں کو رواں دواں کر دیا ہے۔
ان کے علاوہ بچوں کے ادب کی آبیاری کر نے والی خواتین قلم کاروں میں مندرجہ ذیل خواتین بھی شامل ہیں :
صفیہ سلطانہ صدّیقی (چاندی کا جو تا)،غزالہ نورانی (گاجر بی بی)،صائمہ انیس(جنگلی جلوٹ)،امینہ فاطمہ(چچا گدھ)،شیریں مقصود(کیکڑ اور مچھلی)،ثریّا فرّخ(جھیل کا راز)سیّدہ سیّدین حمید (بچوں کے الطاف حسین حالی)سیما پرویز(آرٹ کی کہانی)اور رفیعہ شبنم عابدی (انوارسہیلی کی کہانیاں)۔
جب کہ مندرجہ ذیل خواتین نے ترجمہ کے ذریعہ بچوں کے ادب کی توسیع میں اپنا حصّہ ادا کیا ہے،قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نئی دہلی کے زیرِاہتمام ان کی ترجمہ کردہ کتابیں منظرِعام پر آئی ہیں:
شہناز فاطمہ، صغریٰ مہدی،ثریّا جبین،نجمہ نقوی،تسنیمہ زیدی،سیّدہ فرحت،عائشہ خاتون،ریحانہ رضوی،عائشہ صدّیقی،شمیمہ بیگم،جہاںآرا،زینت شہریار،شمیم جہاں،کشور سلطان،شہناز اقبال،زاہدہ خاتون،شہناز پروین ،نازنین علی،سلمیٰ اجمیری اور طلعت گل وغیرہ۔
اس مختصر جائزہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سو سال کے عرصہ میں خواتین نے بچوں کے ادب کے فروغ ، توسیع اور اشاعت میں پورے خلوص،توجّہ اور دردمندی کے ساتھ حصّہ لیا ہے،اور اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
(۱)اردو ادبِ اطفال میں خواتین کا حصّہ؛۳۷ از:ڈاکٹر خوشحال زیدی
(۲)حوالہء سابق؛۶۷
(۳)بچوں کے ادب کی تاریخ:۲۰۷۔۲۰۸ از:ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
(۴)اردو میں بچوں کا ادب:۲۴۰ از:ڈاکٹر خوشحال زیدی
(۵)اردو ادبِ اطفال کے معمار:۱۲۳۔۱۲۴ از:ڈاکٹر خوشحال زیدی
(۶) اردو میں بچوں کا ادب:۲۴۴
(۷)اردو ادبِ اطفال میں خواتین کاحصّہ؛۷۹۔۸۷
(۸)بچوں کا ادب اور اخلاق۔ایک تجزیہ:۱۲۶ از:ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی
(۹)اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ:۸۸۔۹۲
(۱۰)بچوں کے ادب کی تاریخ:۳۲۸۔۳۲۹
(۱۱)اردوادب اطفال میں خواتین کا حصہ:۱۰۷۔۱۰۸
———-
ڈاکٹر سیّداسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہء اردو
گورنمنٹ ڈگری کالج سدّی پیٹ۔۵۰۲۱۰۳ ،ریاست تلنگانہ
موبائل:۹۳۴۶۶۵۱۷۱۰،واٹس ایپ:۸۱۴۳۳۴۴۷۵۱