جونک Leech – خون چوسنے والا کیڑا :- ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

Share
جونک

جونک Leech
خون چوسنے والا کیڑا

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
ورنگل –

خلق الانسان من علق۔(96-2)
اس نے انسان کو (رحم مادر) میں جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔(سورہ علق)
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ انسانی تخلیق کے ایک درجے میں انسانی جنین جونک جیسا دکھائی دیتا ہے

جونک (Leech) ایک کیڑا ہے جو حیوانی دنیا کے ایک اہم فائلم Annelida سے تعلق رکھتا ہے یہ جاندار یعنی جونک پرندوں یادوسرے جانداروں کا خون چوستا ہے اور اپنی زندگی گزارتا ہے۔میں اس سے قبل کے جونک کی حیوانی خصوصیات بیان کروں چاہوں گا کہ قرآن میں بیان کردہ انسانی تخلیق کے ان مدارج کوآپ کے سامنے پیش کروں گا جس میں لفظ ’’ علق‘‘ استعمال ہوا۔
قرآن میں’’ علق ‘‘ کا لفظ انسانی تخلیق کے تناظر میں پانچ دفعہ استعمال ہوا ہے ۔علق انسانی تخلیقی مدارج کا ایک مرحلہ ہے، قرآن نے سورہ مومنون میں انسانی پیدائش کے کئی مدارج کا تذکرہ کیا ہے جیسے النطفہ، علقہ،مضغۃ،العظام ، لحم، انشا ناہ ۔چونکہ میرا مضمون جونک سے متعلق ہے اسی لئے میں لفظ ’’ علق‘‘ پر زور دوں گا جس کے ایک معنی ’’ جونک ‘‘Leech ہیں ۔ ویسے’’ علق ‘‘ کے معنوں میں معلق شئے اورمنجمد خون شامل ہے اور سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ علق کے یہ تینوں معنی صحیح ہیں۔
مندرجہ بالا آیت یعنی خلق الانسان من علق ، قرآن میں سب سے پہلے نازل ہونے والی پانچ آیات میں دوسری آیت ہے جس کا ترجمہ اور تفسیر مختلف مفسرین قرآن نے مختلف انداز سے کی ہے ، جیسے ’’بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے‘‘(محمود الحسن) جمے ہوئے خون کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ جمے ہوئے خون میں شعور ، حس، ادراک، عقل نہیں ہوتی بلکہ یہ جماد لا یعقل ہے جس کو خدا ،انسان عاقل بناتا ہے۔ سورہ علق کی پہلی آیت کے جواب میں جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ماانا بقاری‘‘ میں پڑھا ہوا نہیں‘‘ تو یہ دوسری آیت نازل ہوئی جس کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا کہ جو خدا جماد لا یعقل کو انسان عاقل بناتا ہے۔ وہ کیا ایک عاقل کو کامل اور ایک امی کو قاری و عالم نہیں بناسکتا۔علاوہ اس کے اس آیت کا ترجمہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کامپلکس کی جانب سے شائع شدہ قرآن میں اس طرح لکھا ہے کہ ۔’’جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘اور بالکل یہی ترجمہ ابن کثیر میں بھی موجود ہے۔ دوسرے کئی مفسرین نے اس آیت میں ’’علق‘‘ کا ترجمہ مختلف الفاظ میں کیا ہے ،ان میں کچھ پیش خدمت ہیں جیسے ’’جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ ‘‘ (مولانا مودودی)’’ بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے‘‘ ( المعارف مفتی محمد شفیع) ’’جمے ہوئے خون (علامہ جوادی) خون کے لوتھڑے‘‘ (محمد جونا گڑھی) ’’ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا‘‘ (مولانا رضا خان) ’’ پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے‘‘ (ضیا القرآن ) ۔’’ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ‘‘ ( تفسیر فاروق) ۔ اس آیت کی تشریح میں امین احسن اصلاحی نے لکھا کہ اس آیت کا مقصد انسان کو تخلیق کے ابتدا کی یاد دہانی دلانا ہے اور اس جانب توجہہ دلانا ہے کہ خدا کی قدرت و حکمت یہ ہے کہ وہ خون کی حقیر پھٹکی کو عاقل و مدرک انسان بنادیتا ہے ،وغیرہ لیکن اس آیت کا ترجمہ طاہر القادر ی اس طرح کیا ہے انہوں نے علق کے معنی جونک لئے ہیں ترجمہ اس طرح ہے ’’اس نے انسان کو (رحم مادر) میں جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا‘‘جہان اردوڈاٹ کوم
سورہ علق کے علاوہ قرآن میں لفظ’’ علق‘‘ حسب ذیل آیتوں میں وارد ہوا ہے۔ جیسے ثم من علقۃ (سورہ حج، آیت نمبر۔ 5 یعنی 22-5) رحم مادر میں جونک کی صورت میں (طاہر القادری) ثم من علقۃ(سورہ غافر آیت 67 یعنی 40-67 )’’جونک کی طرح (Leech like) جمے ہوئے ‘‘(عبداللہ یوسف علی) ’’ثم کان علقۃ‘‘(سورہ القیامہ آیت 38 یعنی 75-38 )’’جونک کی طرح جمے ہوئے ‘‘۔ (عبداللہ یوسف علی) ’’فخلقناالعلقۃ‘‘(سورہ المومنون ۔ 23-14) رحم مادر کے اندر جونک کی صورت میں ۔ (طاہر القادری) ان آیات میں قوسین میں دئے گئے مفسرین نے علق کا ترجمہ ’’ جونک جیسی‘‘ (Leech Like)کیا ہے۔عربی لغت میں ’’علقہ‘‘ کے کئی معنی ہیں ،جن میں ’’جڑا ہوا معلق ‘‘ اورپانی میں پایا جانے والا اور خون چوسنے والا کیڑا شامل ہیں،اس کے دوسرے معنوں میں منجمد خون اورگیلا غیر منجمد خون بھی ہے، علقہ کے ایک معنی ’’منجمد خون‘‘ بھی ہے۔ لسان العرب لغت میں علقہ کے معنی ’’پانی میں رہنے والا متحرک کیڑا جو خون چوستا ہے۔دوسری لغت ’’قاموس المحیط‘‘میں اس کے معنی اس طرح لکھے ہیں’’پانی کا چھوٹا جاندار جو خون چوستا ہے‘‘۔لفظ علقہ عربی کے علاوہ عبرانی، ارمانی اور شامی زبانوں میں بھی موجود ہے جس کا مفہوم عربی کے مماثل ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی تخلیق کے مراحل کا اجمالی بیان اور جونک جیسی شکل کا تذکرہ موجود ہے۔

لفظ علق کی سائنسی تشریح:

اگر ہم علقہ کو ایک اصطلاح تصور کریں تو اس کے تین مدارج مقرر کئے جاسکتے ہیں –
ابتدائی ، درمیانی اور آخری۔ اب ہم آگے بڑھتے ہوئے دیکھیں کہ انسانی جنین جب نطفہ کے مرحلے سے گذر کر علقہ کے ابتدائی منزل میں داخل ہوتا ہے تو انسانی جنینیات میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جہاں جنین اپنی تخلیق و تشکیل کے چھٹے دن( جس کو Blastocyct کہا جاتا ہے) رحم مادر کی دیواروں سے چمٹ جاتا ہے ، اس کے بعد یہ جنین (Embryo) ابتدائی آنول (Placenta) سے جڑ کر ارتباطی ڈنڈی کی مدد سے معلق ہوجاتا ہے اور یہی ڈنڈی بعد میں’’بند ناف‘‘ Umbilical Cord بنتی ہے ، اس طرح جن شارحین نے علقہ کا مطلب ’’معلق وجود‘‘ Clinging substance لیا ہے وہ بالکل صحیح نظر آتا ہے کیونکہ جنین چھ(6) دن کے بعد اسی حالت سے گذرتا ہے اور معلق نظر آتا ہے،اب علقہ کا دوسرا یا درمیانی درجہ شروع ہوتا ہے جس میں جنین جمے ہوئے خون کے مانند نظر آتا ہے اس طرح جن مفسرین نے علقہ کا ترجمہ ’’ خون کا لوتھڑا یا منجمد خون یا خون کی پھٹک ‘‘ وہ بھی بالکل صحیح ہے کیونکہ تقریباً 21دنوں کے بعد جنین کا دل اندرونی شریانوں سے جڑ جاتا ہے اور خون کی روانی کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور دل حرکت کرنے لگتا ہے اور اس کی شکل منجمد خون کے لوتھڑے جیسی ہوجاتی ہے حالانکہ اس کے اندر خون گردش کرتا رہتا ہے۔اب ہم علقہ کے تیسرے اور آخری درجے میں داخل ہوتے ہیں جب جنین کی عمر تین ہفتے سے زائد ہوجاتی ہے تو دیکھنے میں ’’جونک‘‘ جیسا نظر آتا ہے۔نطفے کی گول شکل پہلے ہفتے کے بعد لمبوتری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور 25تا 30 دنوں میں جنین بہت حد تک جونک جیسا نظر آتا ہے ،Garwood and Campbell (2007). کے مطابق جنین میں جونک کے جسم جیسے حلقے پیدا ہوتے ہیں اور امریکی سائنسداں Nathanielsz (1994) کے مطابق جنین میں جونک (Leech) جیسے قطعے بھی پیدا ہوتے ہو جاتے ہیں۔انسانی جنین میں قطعے جیسی دکھائی دینے والی ساختیں دراصل Somites ہیں جو 21دنوں کے بعد سے پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں ان Somites کی تعداد 35دنوں میں 44جوڑ تک ہوجاتی ہے۔یہاں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جدید سائنسی آلات کی مدد سے جن ہم’’ جونک‘‘ کا اندرونی تشریحی(Anatomy) جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 24 دنوں بعد جنین کی ساخت Leechکی اندرونی ساخت کے بہت حد تک مماثل نظر آتی ہے۔Robert Winston (1998) نے اپنے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ رحم مادر میں جنین اپنے آنول کے ذریعہ اسی طرح ماں سے غذائیت حاصل کرتا ہے جیسے ’’جونک‘‘ اپنے شکار سے خون چوستی ہے۔ یعنی ابتدائی دنوں کا جنین جونک سے صرف ظاہری ساخت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اندرونی ساخت اور کچھ عادات و اطوار کے لحاظ سے بھی مماثلت رکھتا ہے اسی لئے خالق کائنات نے اس درجے کے مکمل عمل کو سمجھانے کے لئے ایک لفظ علق کا استعمال کیا جس کی جامعیت کا بیان نجانے کتنے برسوں تک بیان کیا جاتا رہے گا۔ اسی جامعیت کو دیکھ کر دنیا یہ سونچنے پر مجبور ہے کہ تقریباً 1450 برس قبل جنینی نمو سے متعلق اس قدر صحیح انداز میں قرآن نے کیسے وضاحت کی جبکہ اس دور میں کسی ایسے خوردبین یا آلے کا ذکر نہیں ملتا جو اس حقیقت کو وا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا۔اسی لئے IVF کو رائج کرنے والا نوبل انعام یافتہ سائنسداں Edwards (1989) کہتا ہے کہ 1940 تک دنیا میں رحم مادر کے اندر وقوع پذیر ہونے والے واقعات ایک سر بستہ راز تھے، لیکن قرآن کا 1450برس قبل انسانی جنین کو جونک جیسا کہنا ایک حیرت انگیز بات ہے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو ٹہر کر قدرت کی نشانیوں میں غور کرنے اور تدبر کرنے کی دعوت ملتی ہے ۔ کیا اس قدر صحیح انداز بیاں خدا کی قدرت کو ماننے کی طرف مائل نہیں کرتا ، باوجود اس کے نجانے کیوں انسان حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن حقیقت کو مانتا نہیں۔جہان اردوڈاٹ کوم
کچھ برس قبل دنیا کے مشہور ماہر جنینیاتKeith Moore کو سعودی عرب مدعو کیا گیا تھا تاکہ نئی سائنسی تحقیق اور قرآن میں بیان کردہ حقائق کو جمع کیا جاکر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اس سائنسدان نے کئی برسوں کی محنت کے بعد سعودی میڈیکل یونیورسیٹیوں کے لئے حسب ذیل کتاب تیار کی۔ یہ کتاب ان کی اصل کتاب میں قرآن اور حدیث کے کچھ حوالوں کے اضافے کے بعد تیار کی گئی ہے اس کتاب کا نام ہے "The Developing Human: Clinically Oriented Embryology with Islamic Additions.” اس کتاب میں جنینی مراحل میں ’’جونک جیسی‘‘ شکل کو بیان موجود ہے۔ اس کتاب کی تیاری کے دوران قرآن میں اس خصوص میں بیان کردہ تقریباً 80 مقامات کا تذکرہ کیا اور ان کو نئی تحقیق کی روشنی میں سمجھایا اور بتایا کہ اگر صرف 50 برس قبل مجھ سے ان مقامات کا ذکر کیا جاتا تو شاید میں پورے نکات کا جواب نہ دے پاتا کیونکہ 50 برس قبل میڈیکل سائنس نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی کہ 1450 برس قبل بیان کردہ قرآن کے ان نکات کی وضاحت کرسکے۔Moore نے یہ تجویز پیش کی کہ انسانی جنینیات Embryology ایک پیچیدہ سائنس ہے اور اس موڑ پر یہ مناسب نظر آتا ہے کہ جنین کی ترقی کے مدارج کو قرآن اور سنت کے مطابق پیش کیا جائے۔پروفیسر Moore کا احساس ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں جہاں کسی کو سائنس کا ادراک نہیں تھا لیکن جب قرآن آج کی سائنسی ترقی کے مطابق تفصیلات پیش کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قرآن میں بیان کردہ سائنسی نکات کا علم رسول اللہ ؐ کو خدا کی جانب سے عطا کیا گیا۔ انہوں نے شیخ عبدالمجید الزندانی کے ساتھ مل کر ان کی کتاب جنینیات کا اسلامی ایڈیشن The Developing Human with Islamic Additions لکھا۔
ہندو دھرم کے مطابق جب دودھ کے سمندر کی تخلیق کاعمل انجام پارہا تھا تواس وقت سمندر کے درمیان میں ایک معالج دیوتا ’’دھنونوتری‘‘ اپنے ہاتھ میں زندگی بخشنے والا ’’اکسیر‘‘ Amrit (امرت) لے کر نمودار ہوا ہے اور آیوروید (Ayurved) کا اعلان کرتا ہے۔اس وقت اس کے ہاتھ میں ’’جلوکا‘‘ یعنی جونک ’’ سری چکرا‘‘ اور ’’ شنکھ‘‘ موجود تھے۔سنسکرت زبان میں آیوروید (Ayured) کے معنی ’’زندگی سے متعلق علم‘‘ ہے۔جونک کو آیورویدمیں کافی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس طریقہ علاج میں جونک کے ذریعہ فاسد خون کو جسم سے باہر نکا لا جاتا ہے۔سنسکرت میں ایک اصطلاح ہے Raktmokshana جس کے معنی یہی ہیں۔اس طرح جونک ہندو مذہب میں صحت کی بقا کی علامت ہے۔کہا جاتا ہے کہ جونک کو سب سے پہلے ہندوستان میں دریافت کیا گیا اور تقریبا ایک ہزار قبل مسیح میں بغرض علاج استعمال کیا گیا۔ انجیل (Bible)میں جونک کا ذکر Proverbs 30:15 میں موجود ہے ، تالمود میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے۔ یورپ میں200قبل مسیح میں یونانی معالج Nicander نے جونک کو بغرض انسانی علاج استعمال کیا ۔ 1000 عیسوی کے آس پاس بوعلی سینا ؔ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ القانون فی الطب‘‘ میں جونک کے ذریعہ علاج پر روشنی ڈالی علاوہ اس کے مشہور سائنسداں عبداللطیفؔ بغدادی نے بھی جونک کے ذریعہ علاج پر اپنی کتاب’’ مختارات فی الطب‘‘یں تبصرہ کیا۔بات مشہور ہے کہ قدیم زمانے میں حجام (Barber) جونک کے ذریعہ چھوٹی جراحی (Microsurgery) کا عمل انجام دیتے تھے۔1980کے بعد سے مائیکرو سرجری پلاسٹک سرجری وغیرہ میں جونک کا استعمال کیا جارہا ہے۔osteoarthritisکا علاج بھی اسی جاندار کی مدد سے کیاجارہا ہے۔ جونک کوفارسی میں ’’زالو‘‘،تلگو میں ’’جیلگا‘‘ہندی ،اردومیں جونک اور سائنسی زبان میں Hirudinea medicinalis کہا جاتا ہے۔
جونک (Leech) کیچوے کے عائلہ Annelida سے تعلق رکھنے والا کیڑا نما جاندار ہے یہ ذیلی جماعت Hirudinea سے تعلق رکھتا ہے یہ جاندار پرندوں یادوسرے جانداروں کا خون چوستا ہے، لیکن تمام Leechs خون نہیں چوستے بلکہ ان کی غذا کیچوے یا ان جیسے دوسرے جاندار ہوتی ہے۔اب تک ان کی 650 سے زائد انواع دریافت کی جاچکی ہیں۔یہ عام طور پر کالے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں،ان کا سائز 7 ملی میٹر سے 80 ملی میٹر تک ہوسکتا ہے لیکن دنیا میں بعض انواع 18 انچ لمبی بھی دیکھی گئی ہیں۔ یہ میٹھے پانی میں، دریاؤں میں پائی جاتی ہیں لیکن بعض انواع سمندر میں بھی موجود ہوتی ہیں جن کی تعداد تقریباً 1/5 تک ہوتی ہے۔ جہاں وہ اپنا گذارا مچھلیوں پر کرتی ہیں، نر اور مادہ تولیدی اعضا ایک ہی جاندار میں پائے جاتے ہیں ۔ان کے جسم میں 33قطعے پائے جاتے ہیں اگلے حصے میں تین قطعے مل کر منہ اور آخر میں سات قطعے مل کر Sucker بناتے ہیں۔منہ میں تین جبڑے ہوتے ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے دانت موجود ہوتے ہیں، جن کی مدد سے جونک خون چوستی ہے ویسے بعض انواع Probosis کے ذریعہ بھی خون چوستی ہیں۔اگر شکار کی کھال یا جلد دریائی گھوڑے کی کھال (Hippo hide) جیسی ہو تب بھی جونک بآسانی اس جاندار کا خون چوس لیتی ہے۔جونک کی حرکت عجیب و غریب ہوتی ہیں یہ جسم کو حلقہ بنا کر لڑھکتے ہیں حرکت کرتے ہیں،یہ گرم علاقوں میں رہنے کو پسند کرتے ہیں، اکثر جونک اپنے بچوں کو Cocoonمیں رکھتے ہیں لیکن بعض انواع اپنے معدے میں بھی رکھتی ہیں جن کی تعداد 300 تک ہوسکتی ہے۔ جونک میں ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے اسی لئے یہ کم آکسیجن تناسب پر بھی بآسانی زندگی گذار سکتے ہیں،اگر ایک مرتبہ جسم سے چمٹ جائے تو یہ بآسانی پیچھا نہیں چھوڑتی اس کو دور کرنے کے لئے نمک یا صابن کا پانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔جونک کا اعصابی نطام انسان کے اعصابی نظام سے بعض معاملات میں ایک جیسا ہوتا ہے۔ جونک میں 32 دماغ پائے جاتے ہیں، جو جسم کے ہر قطعے (Segment) میں موجود ہوتے ہیں۔جہان اردوڈاٹ کوم
جونک (Leech) کی سب سے اہم خصوصیت اس کا خون چوسنا ہے جب جونک خون چوستی ہے تو جاندار کو یعنی شکار کو تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا کیونکہ جونک میں شکار کے ان عضلات کو بے حس کرنے کے لئے مخصوص طریقہ کارپایا جاتا ہے جہاں سے انہیں خون چوسنا ہوتاہے ۔شکار کے جسم کے جس مقام سے انہیں خون چوسنا ہوتا ہے، جونک ابتداً اس مقام پرخون کو منجمد ہونے سے روکنے والا لعاب یا کیمیائی مادہ Hirudin داخل کرتی ہے تاکہ خو ن چوسنے کے دوران خون کا انجماد رکاوٹ بننے نہ پائے۔علاوہ اس کے اسی کیمیائی مادے میں جسم کے کچھ حصے کو بے حس کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے جس کی وجہہ سے درد کا احساس کم ہوجاتا ہے۔یہ اللہ کی عجیب حکمت ہے۔سائنسدان اس مادے پر تحقیق کررہے ہیں کیوں کہ ا س میں نہ صرف خون کو منجمد کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے بلکہ یہ بعض عضلات کو بے حس بھی کردیتے ہیں تاکہ شکار کو خون چوسنے کے دوران تکلیف نہ ہو۔ علاوہ ازیں مانع خون منجمد اور دافع بیکٹیریا اس مادے پر سائنسدانوں کی جانب سے کی جانے نئی تحقیق اس کو دل کے امراض کا مداوا ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ جونک جب خون چوسنا شروع کرتی ہے تو اپنے جسم سے پانچ گنا زائد مقدار میں خون چوس سکتی ہے۔ لیکن جب یہ خون چوس چکنے کے بعد جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو زخم سے کچھ دیر تک خون رستا رہتا ہے۔اگر ایک مرتبہ کوئی جونک بھر پیٹ خون چوس لے تو یہ خون بطور غذا اس کو ایک سال تک کام آتا ہے، کیونکہ ان کی ہضمی نالی میں جانبی تھیلیاں (Crops) یا شاخیں پائی جاتی ہیں جو خون محفوظ رکھنے کی مقدار کو بڑھاتی ہیں۔ عام طور پر علاج کی غرض سے استعمال کی جانے والی جونک کا نام Hirudo medicinalis ہے۔Hirudin ایک Peptideہے جو جونک کے لعاب میں پایا جاتا ہے۔جیسے کہ بیان کیا جاچکا ہے اس میں خون کے انجماد کو روکنے کی صلاحیت ہوتی ہے، موجودہ دور میں جونک کے ذریعے علاج کا طریقہ چل پڑا ہے اس طریقہ علاج میں جونک کوجسم کے مخصوص عضو سے لگایا جاتا ہے جونک اپنی دانت جسم میں گاڑھتی ہے اور اس حصے کا خون چوسنے لگتی ہے ،جونک کے کاٹنے پر صرف دو یا تین مچھروں کے کاٹنے جتنا درد ہوتا ہے۔تقریباً 20تا 40منٹ تک جونک کو خون چوسنے دیا جاتا ہے اس عمل کے دوران جونک کے ذریعہ نہ صرف فاسد خون جسم سے باہر کیا جاتا ہے بلکہ جونک کے لعاب میں شامل کیمیائی مادے جسم میں داخل ہوتے ہیں یہ مادے اس حصہ جسم میں خون کی روانی کو بہتر بناتے ہیں اس طرح جونک کے ذریعہ علاج کیا جاتا ہے،فاسد خون کو باہر نکالنے کے لئے ’’حجامہ‘‘ (hijamah) یعنی Cupping Therapy ان دنوں ذیابطیس کے مریضوں کا علاج بھی جونک کے ذریعہ کیا جارہا ہے ، ان مریضوں کا خون دوسرے افراد کے مقابلے گاڑھا ہوتا ہے اور جونک کے لعاب میں موجود کیمیائی عناصر جب جسم کے اندر پہنچائے جاتے ہیں تو خون کی روانی میں اضافے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور اس مرض سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں کم ہوجاتی ہیں۔ پلاسٹک سرجری کے دوران دماغ اور چہرے میں خون کی روانی اور رفتار کو بڑھانے کے لئے جونک کی مدد لی جارہی ہے۔ Microsurgeryکے دوران بھی اس مادے کا استعمال کیا جارہا ہے،یہ مادہ vasodilator , ہے جو شریانوں کی اندرونی گولائی کو بڑھاتا ہے۔یہ Prostaglandins کے علاج میں بھی معاون ہے ،آیوروید میں جونک کے ذریعہ Psoriasis، جلدی امراض Paralysis اور Osteo-arthritis کا علاج کیا جاتا ہے،معالج جونک سے علاج کے دوران معالج اس بات کا خیال بھی رکھتے ہیں کہ کہیں یہ عمل نقصان دہ تو نہیں کیونکہ بعض امراض میں خون کا انجماد آسانی کے ساتھ انجام نہیں پاتاوہ امراض سے متاثر افراد یہ طریقہ علاج قطعی مناسب نہیں۔
——

ڈاکٹرعزیز احمد عرسی
Share
Share
Share