انشائیہ:
میں کشمیر ہوں
محمد قمر سلیم
میں کشمیر ہوں۔ وہی کشمیر جسے ہر خاص و عام کہتا تھا-
گر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو لیکن مجھے سب کچھ یادہے۔ جب تم میری وادیوں میں داخل ہوتے تھے تو تمہارے منھ سے بے ساختہ نکلتا تھا، ’یقین نہیں ہو رہا ہے، کیا ہم خواب دیکھ رہے ہیں اور میں کہتا تھا نہیں تم حقیقت میں جنّت نما کشمیر میں ہو۔ پھر تم میرے حسن کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور میں بانہیں پھیلائے تم سب کا خیر مقدم کرتا تھا ۔
تم ان حسین وادیوں میں نہ جانے کہاں کھو جاتے تھے مجھے تو جب معلوم ہوتا تھا جب تم مجھے الوداع کہتے تھے۔ میں نے تو ہر کسی کو اپنا لیا تھا۔ کیا بادشاہ کیا فقیر، کیا اونچا کیا نیچا، کیا گورا کیا کالا ، کیا عجمی کیا عربی، کیا ہندو کیا مسلمان ، کیا یہود کیا نصارا۔ کیا تمہیں یاد نہیں یہاں سیلانیوں کا سیلاب امنڈتا تھا۔موسم چاہے کوئی بھی ہو، لمحہ چاہے کوئی بھی ہو ۔ تم نہ دن دیکھتے تھے نہ رات، نہ صبح نہ شام ، نہ ماہ و سال ۔ بس تم تو میرے دیوانے تھے۔ میرا چپّہ چپّہ تمہاری محبت کی کہانیاں بیان کرتا ہے اور پھر کون ہے جو میرے یہاں آکر قدرت سے بغل گیرنہیں ہوا۔ راجا رجواڑے، شہزادے شہزادیاں ، پرنس پرنسز،امیر غریب، اور ایک خاص لوگوں کا تو یہ گہوارہ ہی بن گیا تھا۔ ہاں ہاں میں فلمی ہستیوں کی ہی بات کر رہا ہوں ۔ ان کا تو میں دوسرا گھر تھا۔ کون سی ایسی جھیل ہے جس میں نغمہ سرائی نہ ہوئی ہو، کون سی ایسی وادی ہے جس میں محبت کے نغمے نہ گونجے ہوں۔تم نے میری وادیوں کو اپنی فلموں کے نام دے دیے میں خوشی سے قبول کرتا رہا۔مجھے اپنے اوپر فخر ہوتا تھا جب ہر رنگ، ہر ذات ، ہر مذہب،ہر خطے کے لوگوں کا میرے یہاں تانتا بندھ جاتا تھا ۔ اور میرے یہاں کے مردوں کے سینے فخرسے پھول جاتے تھے جب وہ تہذیبوں کا اتنا حسین سنگم دیکھتے تھے اور کیوں نہ فخر کرتے ، کیوں کہ ایسی محبتوں کے سر چشمے تو دنیا کے کسی بھی نقشے پر نظر نہیں آتے تھے۔ میرے یہاں کی عورتیں خوشی سے پھولی نہیں سماتی تھیں۔ یہ دو شیزائیں جو کشمیر کی کلی کہلاتی ہیں کبھی مرجھاتی نہیں تھیں اور میرے یہ نوجوان تم لوگوں کو خوش آمدید کہہ کر تمہاری خدمت میں لگ جاتے تھے۔
کیا تم بھول گئے چرارِ شریف کو جہاں تم اپنی منّت لیکر جاتے تھے اور کیا تمہیں حضرت بل کا مزار بھی یاد نہیں جہاں تم گھنٹوں بیٹھ کر ڈل جھیل کے نظارے بھی کیا کرتے تھے۔تمہیں گل مرگ تو ضرور یاد ہوگا جہاں تم گونڈولا میں کیبل کار سے اس حسین و جمیل وادی کا نظارہ کرتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ تم دنیا کے سب سے اونچے مقام پر پہنچ گئے ، تمہیں ایسا نہیں لگتا تھا مانو تم نے دنیا فتح کر لی۔کیا تمہیں وہاں کا قہوا بھی یاد نہیں۔اور پھر تم پہلگام کو کیسے بھول سکتے ہوجہاں تم ڈرتے ڈرتے گھوڑوں کی پیٹھ پربیٹھتے تھے اور ٹیرھی میڑھی پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے خوبصورت وادیوں میں پہنچ جاتے تھے، کتنی بار تو تمہیں ایسا بھی لگتا تھا کہ اب تم کھائی میں گر جاؤ گے، کبھی تمہیں لگتا تھا کہ تمہارا گھوڑا برف پر پھسل جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہو اکیوں کہ میرے یہاں کے گھوڑے بھی مہمان نوازی جانتے ہیں ان کو اپنے فن میں مہارت حاصل ہے۔کیا تم اوپر پہنچ کر نہیں کہتے تھے، واہ جنّت کا نطارہ دیکھ لیا۔ پھر تمہار ا وہ سون مرگ پر جانا اور برف سے ڈھکی وادیوں کے حسن کو اپنی موجودگی سے دوبالاکرنا۔آؤ تمہیں میں اور بھی کچھ یاد دلاتا ہوں۔وہ ہاؤس بوٹ اور وہ شکارا۔تم نے یہاں کتنے مزے لوٹے ہیں ۔تمہارا شکارے میں بیٹھ کر چار چناری پر جانا اور اپنی محبت کو یادگار بنانا۔ تم لوگ تو شکارے میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کسی فلمی ہستی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔اور ہاوٗس بوٹ میں کھڑے ہوکر میری حسین وادیوں کے نظارے کرتے تھے اور پھر جب
برف باری ہوتی تھی تو تم اس کا لطف اٹھانے کے لیے سڑکوں پر اتر آتے تھے۔تم میں سے کچھ لوگ ہاؤس بوٹ میں بیٹھے بیٹھے ہی برف باری کے مزے لیتے تھے اور تمہاری پلکیں تک نہیں جھپکتی تھیں۔اور وہ چنار کی قطاریں ، وہ سیب کے باغات، وہ کانگڑی کی گرماہٹ کن کن چیزوں کو تم بھلاؤ گے۔نہیں، تم مجھے یوں بھلا نا پاؤ گے۔جہان اردوڈاٹ کوم
میری آبیاری تو ہر دور میں ہوئی اور ہر راجا مہا راجا، سلطان، بادشاہ حتیٰ کہ انگریزوں نے بھی کی ۔ جب ہندوستان انگریزوں کا غلام بن گیا تھا ۔میں نے سوچا تھا یہ گورے مجھے ختم کر دیں گے لیکن نہیں میرے خدشات غلط ثابت ہوئے ۔ انھوں نے بھی مجھے بہت سجایا سنوارا۔ تم کو معلوم ہے میں اس دن کتنا خوش تھا جب میرے ہندوستان کو آزادی ملی تھی۔ جانتے ہو میں خوش کیوں تھا، کیوں کہ اب میرے اپنے، میرے اوپر اپنی جان نچھاور کریں گے ۔ میرے حسن میں چار چاند لگائیں گے۔پہلے سے زیادہ میرے یہاں سیلانیوں کا اژدہام لگ جائے گا۔ہر گلی کوچے کی رونق بڑھ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔اتنا بے بس تو میں کبھی نہیں تھا جتنا کہ آج ہوں ۔ آج میرا پورا بدن چھلنی ہے۔ بدن کے ریشے ریشے سے خون رس رہا ہے۔ کبھی جن سڑکوں پر سیلانیوں کی گہما گہمی اور بچوں کی کلکاریاں ہوتی تھیں وہاں آج صرف گولیوں کی آوازیں آتی ہیں ، بم پھٹنے کی آوازیں آتی ہیں ، رونے بلکھنے کی آوازیں ، چیخ و پکار ۔ اب یہی میرا نصیب بن گیاہے۔ ارے تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں تفریق کرتا ہوں اگر ایسا ہوتا تو میں اپنے آپ کو ’سری نگر ‘ کیوں کہلاتا ۔ یہ تو تم ہی تھے جو میری ایک آنکھ نکال کر لے گئے اور اب دوسری کو بھی پوری طرح پھوڑنے میں لگے ہوئے ہو۔تم یہ کیا کر رہے ہو اس میں لاشیں کس کی بچھ رہی ہیں میرے اپنوں کی۔ایک طرف میرا ایک لال وردی پہن کر خون میں لت پت وطن پر شہید ہو رہا ہے تو دوسری طرف میرا ہی لال اس سر زمین پر قربان ہو رہا ہے اور جسے تم دہشت گرد کہہ رہے ہو۔ ذرا سوچو تو وہ دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی بیٹا اپنی ماں کی گود سونی کرنا چاہے گا، کیا وہ چاہے گا اس کی ماں کا سینا خون میں رنگ جائے۔ ارے یہ تو وہ نوجوان ہیں جو تمہارے خیر مقدم کے لیے کھڑے رہتے تھے۔ اور اب تو میں ان نوجوانوں سے کھالی ہو چکا ہوں کیوں کہ یا تو یہ مالکِ حقیقی سے مل گئے ہیں یا قید خانوں کی صعوبتیں برداشت کر رہیں ہیں۔ یہ تم نے کیا کیا ان ننھے ننھے ہاتھوں میں پتھر پکڑا دئے۔ ان کو تو اب سیاہی کا مطلب بھی نہیں معلوم ہوگا کیوں کی یہ تو صرف خون کے رنگ سے واقف ہیں۔ میری جھیلیں سونی ہو گئی ہیں جیسے ہر کشمیری عورت کی کوکھ،یہاں کی جھیلیں پانی کو ترس گئی ہیں ایسے ہی جیسے ہرکشمیری عورت کی چھاتی دودھ سے ۔ان کی چھاتی سے اب خون نکلتا ہے صرف خون۔ میری یہاں کی یہ کلیاں تو ایسی مرجھائی ہیں کہ اب کبھی نہیں کھلنے کی قسم کھائی ہے۔ اور میرے یہ مرد ! ان کی تو غم سے پیٹھیں جھک گئی ہیں ، ان کا سینا دھونکنی بنا ہوا ہے اور میرے یہ نوجوان! تمہاری زبان میں دہشت گرد ۔ یہ دہشت گرد نہیں ہیں یہ بھوکے ہیں ۔ پیٹ سے اور محبت کے۔تمہیں کیا معلوم کشمیریوں کے گھروں میں کئی کئی دن تک چولھے نہیں جلتے۔ یہ تو سال کے بارہ مہینے روزے رکھتے ہیں ۔ ان کی اگر سحری ہو جاتی ہے تو افطار کا پتا نہیں ہوتا۔ اور اگر افطار کر لیتے ہیں تو بنا سحری کے روزہ رکھتے ہیں۔جہان اردوڈاٹ کوم
تم نے سب کچھ تو لوٹ لیا سب کچھ تو تباہ کر دیا۔ تم نے میرے سیلانی چھین لیے ، تم نے میری صنعت چھین لی، تم نے کشمیریوں کے روزگار چھین لیے۔ تم نے یہاں کی عورتوں سے ان کے لال چھین لیے، تم نے دوشیزاؤں کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی، ایک باپ سے اس کے خواب چھین لیے، میرے موسم چھین لیے ، میری وادیوں کواندھیرے میں ڈبو دیا ، میری جھیلوں کو سرخ بنا دیا، میری راہوں میں پتھر بچھا دئے۔ تم نے تو میرے بچوں کے منھ سے نوالے چھین لیے اور احتجاج کیا تو گولی داغ دی ۔ تم قتل پے قتل کرتے رہے، چراغ جلانے کے بجائے چراغ بجھاتے رہے، ہر گھر میں اندھیرا کر دیا۔ کوئی آواز اٹھی تو اسے دہشت گرد کہہ کر ٹھنڈا کر دیا۔ اس پر بھی تمہاری پیاس نہیں بجھی۔ تم اور کیا چاہتے ہو ۔سن لو اگر تم مجھے پوری طرح تباہ کرنا چاہتے ہو تو میں تمہارے اس خواب کو شرمندہٌ تعبیر نہیں ہونے دوں گا۔
میں زخمی ضرور ہوں لیکن میری بانہیں تو ابھی بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ کیوں نہیں کرتے میری آبیاری پھر سے ۔ میرے بچے دہشت گرد نہیں بے روزگار ہیں۔ یہ غصّہ ہیں کیوں کہ تم اب ان کے پاس نہیں آرہے ہو۔ محبت کے دو بول، بول کے تو دیکھو ! یہ تو اپنا سب کچھ لٹا دیں گے۔رکو !کیا تم سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔ ہاں ،سنو ! صدائیں آ رہی ہیں:
موسم! بے مثال بے نظیر ہے
یہ کشمیر ہے، یہ کشمیر ہے ۔