اسلام کا نظام سیاست و حکومت
ایک نخل تمنا ،ایک شجر آرزو
مصنف : پروفیسر محسن عثمانی
تبصرہ نگار: امانت علی قاسمیؔ استاذ دار العلوم حیدرآباد
پروفیسر محسن عثمانی علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہیں ، آپ کی کتابیں ، رسائل اور مضامین علمی دنیا میں شوق سے پڑھے جاتے ہیں ، آپ کی عربی ، اردو اور انگریزی میں پچاس سے زائد کتابیں قارئین کی آنکھوں کا سرمہ بن چکی ہیںیہ کتابیں یقیناًآپ کے لئے بہترین صدقۂ جاریہ ثابت ہوں گی ، آپ عربی کے پروفیسرہیں ، نیشنل اور انٹر نیشنل سیمناروں میں شریک ہوتے ہیں، ۲۰۰ سے زائد مقالات و مضامین لکھ چکے ہیں، مختلف قومی ایوارڈ سے سرفراز ہیں اور مختلف عہدوں اور منصبوں سے وابستہ ہیں ،ان تمام اوصاف کے ساتھ آپ کی خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ آپ عالم اسلام پر گہری نظر رکھتے ہیں ، عالم اسلام کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس موضوع پر کثرت سے لکھتے اور بولتے ہیں میری معلومات کی حد تک اس وقت عالم اسلام کے تعلق سے اس قدر لکھنے والا اردو میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔آپ بہار عرب کو دیکھ کر اس طرح کھل اٹھتے ہیں جیسے باغ میں گلاب کھلتا ہے پھر عرب کی زبوں حالی اور خزاں رسیدہ چمن کو دیکھ کر آپ کے اندر ایسی ہی پزمردگی و افسردگی چھا جاتی ہے جیسے خزاں رسیدہ چمن کا حال ہوتا ہے۔یہ بات احساس ذمہ داری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ عالم اسلام کی موجوہ کرب ناک صورت حال پر آپ کادل ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے اورآپ اپنے اندر بے چینی محسوس کرتے ہیں ، اسی کا نتیحہ ہے کہ آپ کھل کر عرب حکمرانوں کے ظالمانہ رویہ کی تردید کرتے ہیں اور علماء کی خاموشی کو زر گری و زر کشی کا نتیحہ قرار دیتے ہیں ۔پروفیسر محسن عثمانی کی اس تازہ تصنیف کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
پیش نظر کتاب’’ اسلام کا نظام سیاست و حکومت ۔ایک نخل تمنا ، ایک شجر آرزو ‘‘۱۹۲ صفحات پر مشتمل مفید اور قیمتی مضامین کا مجموعہ ہے ، یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ،پہلے باب میں گرامی قدر مصنف نے دین و سیاست کے رشتے سے بحث کی ہے اور جمہور علماء کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے اس کی بھر پور وضاحت کی ہے کہ سیاست دین و اسلام کا لازمی حصہ ہے دین و اسلام سے علحدہ کوئی شئی نہیں ہے علامہ اقبال نے بھی اس کی خوب ترجمانی ہے
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس باب میں انہوں نے ان لوگوں کی خبر لی ہے جو سیاست کو مذہب سے الگ کرکے دیکھتے ہیں ، عیسائیت و یہودیت میں اس طرح کا نظریہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام دین و سیاست کا جامع ہے ، اسلام نے جس طرح عبادت کے سلسلے میں رہنمائی کی ہے اسی طرح سیاست کے بھی اصول دئے ہیں آپ ﷺکی حیثیت پیغمبر انقلاب کی بھی تھی اور اسلامی سلطنت کے حکمراں کی بھی، مصنف نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔
دوسرے باب میں اسلام کے سیاسی نظام پر مدلل و مفصل گفتگو کی گئی ہے ، اس باب میں مصنف نے اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کا بہترین مقارنہ پیش کیا ہے اور اسلامی جمہوریت کی امتیازی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی ہے ، اس نکتہ سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے کہ آج مغربی جمہوربت میں جو بھی خیر و خوبی کا پہلو دکھائی دے رہا ہے، اسلام میں چودہ سو سال سے وہ خوبیاں پائی جاتی ہیں: مثال کے طور پر مغربی جمہوریت میں اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے مصنف گرامی قدر نے مثالوں اور واقعات سے ثابت کیا ہے اظہار رائے کی یہ آزادی اسلام میں ابتداء سے ہی موجود ہے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں
عہد حاضر میں سب سے بڑا مسئلہ جو مفکرین اسلام کے درمیان موضوع گفتگو رہا ہے وہ اسلام اور جمہوریت کا موضوع ہے ، رواداری ، عفو ودر گزرٖقانون کی حکومت ، مساوات اور مفاد عامہ کا خیال اور سب کے ساتھ انصاف ،حقوق انسانی کی رعایت ، آزادی اور انتخابی حکومت اور عوام کے سامنے جواب دہی یہ وہ عناصر ہیں جنہیں جمہوریت کی عناصر ترکیبی کہا جاسکتا ہے ، غور کیجئے ان عناصر میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جن کا تعلق اسلام سے نہ ہو اور اسلام اس کا حامی و مؤید نہ ہو کہ اسلام کے قانون محکم کی اساس ہے (ص ۴۸)
اسلامی جمہوریت کی امتیازی صفت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں
یہاں پر ہر بو لہوس کو بے مہار اور راہ زن کو صاحب اختیار نہیں بنا یا جا سکتا ہے اس دنیا میں ہر شخص کی مہار اور زمام اختیار لازم ہے کہ دنیا کے بنانے والے کے ہاتھ میں رہے تا کہ یہ دنیا گلشن بے خار اور خوشبوار پھولوں کا ہار بن جائے اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت میں اگر کچھ فرق ہے تو یہی ہے اسلامی ریاست میں حاکمیت خدا کی ہوتی ہے اور قانون کا سرچشمہ اللہ تعالی کی کتاب ہوتی ہے جب کہ مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور (عوام الناس) کی ہوتی ہے اوران کی مرضی اور خواہش قانون کا سرچشمہ ہوتی ہے (ص:۷۴)
اسلامی ریاست کے لیے جمہوریت کا استعمال درست ہے یا نہیں اس پر بھی مفصل گفتگو کی گئی ہے جس کا حاصل یہ کہ اسلامی ریاست کے لیے خلافت یا شورائی نظام کا لفظ اپنی حقیقت اور معنی کے اعتبار سے درست ہے اور اسلامی جمہوریہ کی اصطلاح آج کے جدید ذہن کوسمجھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اس لیے کہ بہت سے نظام ہائے سیاست میں جمہوری نظام ہی اسلام کے نظام سیاست سے قریب تر ہے ۔
اس کے علاوہ اس باب میں اسلامی ریاست کے تمام عناصر اور اس کی خد و خال سے مکمل بحث کی گئی ہے۔طریقۂ انتخاب ، امیر کا تقرر اور اس کے اوصاف ، خلافت راشدہ ، اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق ، عصر حاضر میں نظام خلافت کی اہمیت جیسے عنوانات بھی قاری کی دلچسپی کے لیے اچھوتے انداز میں تحریر کیے گئے ہیں ۔
تیسرا باب ہے’’ موجودہ عالم اسلام اور اس کا سیاسی نظام‘‘ یہ باب اس کتاب کا نچوڑ ہے ،اسلام کے نظام سیاست و حکومت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، اسلام کا سیاسی نظام ، مولانا اسحق سندیلوی،اسلام اور سیاست مولانا تھانوی ، اسلامی ریاست ، ڈاکٹر حمید اللہ ، اسلامی ریاست،مولانا مودودی ، اسلام اور سیاسی نظریات مولانا تقی عثمانی ، اس کے علاوہ متعدد کتابیں اس عنوان پر موجود ہیں لیکن اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلے دو باب میں اسلام کے سیاسی نظریات اور سیاسی نظام کی نظریاتی تعلیم سے بحث کی گئی ہے اور تیسرے باب میں اس کی عملی تطبیق پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے، اس لئے کہ اس سے پیشتر کتابوں میں صر ف نظریاتی تعلیم سے بحث کی گئی ہے جبکہ اس کتاب میں عالم اسلام کے موجودہ نظام سیاست کو اسلام کی کسوٹی پر جانچنے کی سعی مفید کی گئی ہے ۔
اس باب میں مصنف نے اپنی خاص فکر کا اور عالم اسلام سے اپنی ہمدردی اور اس کے تحفظ کے لیے اپنی جد و جہد کا عملی نمونہ پیش کیا ہے ، خلافت کے ابتدائی عہد میں اظہار خیال کی جو آزادی تھی موجودہ مسلم حکمرانوں نے اس پر قفل ڈال دیا ہے ،مصنف نے اس پربھرپور تنقید کی ہے اور ساتھ ساتھ انہوں نے علمائے عصر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف ان کے سیاہ کارناموں پر نکیر کرنا نہی عن المنکر میں داخل ہے جو کہ علماء کی خاص ذمہ داری ہے جس سے علماء اپنے مفاد کی خاطر کسی صورت پہلو تہی نہیں کرسکتے ہیں ۔
اس سلسلے میں راقم کا خیال ہے کہ علماء کی خاموشی کی کئبنیاد یں ہو سکتی ہیں، بعض لوگ اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ ان کا وظیفہ بند ہوجائیگا ، مسلم حکومت کی حانب سے جو مراعات انہیں حاصل ہیں ان سے محروم ہوناپڑے گا، جیسا گرامی قدر مصنف نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے علاوہ دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مثلا بعض اس لیے خاموش ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی یا اس لیے خاموش ہیں کہ بولنے کا کوئی خاص موقع اور محل نہیں ہوتا ہے اور بسا اوقات ہر کس و ناکس کو اس گہرائی و گیرائی کا اور حکومتی فتنہ پر دازی کا علم نہیں ہوتا ہے اس لیے علماء کی خاموشی کو مطلقا خوانِ یغما کی ریزہ چینی قرار دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، آخر عراق و شام میں ہو رہے ظلم و بربریت پر ہندوستانی علماء کی نکتہ چینی سے کیا اثر پڑے گا ؟لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے ہو رہے ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا علماء ہی کیا ہر سنجیدہ اور متحرک دل رکھنے والے افراد کا فرض ہے اور یہ ایمانی اخوت کا بنیادی تقاضہ ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ مصنف اصحاب عزیمت میں سے ہیں کہ تمام خوف و خطر سے بے پرواہ ہو کرانہوں نے اس فریضے کا حق ادا کیا ہے وہ اس معاملے میں منفرد نظر آتے ہیں ، ایک جگہ عالم اسلام کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
فلسطین دشمنوں کے دست تصرف میں ہے ، شام میں ایک دست سفاک ایران کی مدد سے مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے ، عراق میں دجلہ و فرات کا پانی مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو چکا ہے ، مصرمیں دریائے نیل کا نیلگوں پانی عبد الفتاح السیسی کے واسطے سے دشمنان اسلام کی جولان گاہ بن گیا ہے ( ص ۱۵۶)
کتاب کا تیسرا باب جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ،جس میں قابل قد رمصنف نے عالم اسلام کی پوری صورت حال سامنے رکھ دی ہے اور تاریخ کے حوالے سے انہوں نے مسلم علماء اور دانشوروں کو آئینہ دکھایا ہے کہ ماضی میں جب مسلم امت ،ظالم حکمرانوں کے ظلم و بربریت کے خوں چکاں حالات سے دو چار تھی تو اس وقت علماء نے کس طرح امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تھا گویا اس باب میں انہوں نے علماء کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے اور روٹی بوٹی کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے علماء سوء پر انہوں نے سخت نکیر کی ہے۔
کتاب کی خصوصیات
کتاب مجموعی حیثیت سے بہت مفید ہے اور اس وقت اس کی خاص ضرورت تھی کہ اسلام کا سیاسی نظام بتا کر موجودہ نظام کا جائزہ لیا جائے کہ اس وقت کی مسلم حکومت اسلام کے سیاسی نظام پر کس حد تک عمل پیرا ہے ۔
کتاب میں مصنف نے اپنا جو موقف رکھا ہے وہ شروع سے اخیر تک یکساں ہے اس میں انہوں نے کہیں پر کوئی لچک پیدا نہیں کی ہے یہ ایک کامیاب مصنف کی خاص پہچان ہوتی ہے ۔
مصنف کا موقف کوئی نرا دعوی نہیں ہے ،بلکہ انہوں نے اپنے موقف کی بہت ہی مدلل انداز میں وضاحت کی ہے ، کوئی بھی قاری چاہے اس کی رائے مصنف کی رائے سے با لکل مختلف کیوں نہ ہو ان کے مضبوط دلائل کے سامنے تھوری دیر سوچنے کے لیے ضرور مجبور ہوگا اور ان کے دلائل کو نظر اندازکر پانا اس کے لیے بہت مشکل ہوگا ۔
مصنف اگر چہ عربی کے پروفیسر ہیں ،لیکن اردو ادب کے صاحب طرز ادیب بھی ہیں ان کی تحریریں تکلفات سے عاری ہوتی ہیں لیکن ادبی چاشنی سے بھر پور ہوتی ہیں ، میں نے ان کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں اور فکر و نظر کی بلندی کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں بھی اضافہ ہوا ہے اس کتاب میں بھی اردو کی چاشنی ، دلکشی اور دل آویزی کا اچھا ذخیرہ موجود ہے جو قاری کے قلب و دہن کو تازگی دیتی ہے ۔
پوری کتاب میں ایک چیز جو نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ مصنف کی حق گوئی ہے اس سلسلے میں مصنف نے اصحاب عزیمت کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس راستے کے سب و شتم اورنقد و تنقید کو صبر و تحمل سے برداشت کیاہے ، آپ کی سچائی و حق گوئی اقبال کے اس شعر کا مصداق ہے جس کو موصوف محترم نے اپنے مقدمہ میں تحریر کیا ہے ۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
—-
ناشر : گنیو کریسنٹ پبلیشنگ ہاؤس
اشاعت : ستمبر ۲۰۱۷ء
صفحات : ۱۹۲
قیمت : ۱۵۰
—-