ہمتِ مرداں مددِ خدا
عظمت علی
اس عالم ہست و بود میں بہت سارے ایسے افراد ہیں جو افراط یا تفریط کاشکار ہیں۔یہ لوگ کامیابی کا صرف خواب دیکھتے ہیں اور بس۔۔۔! ترقی تو کر نہیں سکتے چونکہ ان کے یہاں اعتدال نہیں پایا جاتاہے۔آج کی دنیا میں بہت سے ایسے ناکام لوگ مل جائیں گے جن کے افکار نے ہمیشہ انہیں پیچھا رکھا ہے ۔فکر ایک قد آدم آئینہ ہے جس میں انسان خودکو مکمل صفات و کمالات کے ساتھ دیکھ سکتاہے کہ کہاں کمی پائی جاتی ہے اور کہاں زیادتی ۔۔۔! اگر عیوب پائے جاتے ہیں تو اسے ختم کیا جائے اور اگر نقائص کا وجود ہے تو اسے دور کیا جائے ۔
جو لوگ بہتات میں مبتلا ء ہیں۔ان کے یہاں ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی پائی جاتی ہے ۔وہ کسی بھی سوال کے جواب میں سوچے سمجھے بغیر ہاں میں ہاں جوڑ دیتے ہیں اور اس کاذمہ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں ۔بہتر تو یہ تھا کہ پہلے اس کے نشیب و فراز پر ایک نگاہ کرلیتے اور پھر مثبت یا منفی فیصلہ کرتے ۔مگر نہیں!ایسے لوگ ہر کام کی ضمانت لے لیتے ہیں اور جب اس کی انجام دہی کا وقت آن پڑتاہے تو کف افسوس ملتے پھرتے ہیں کہ کا ش ایسانہ کیا ہوتا ! در حقیقت انہیں خود اپنی صلاحیت ہی کا علم نہیں ہوتا کہ کون ساکام ان کی قدرت میں ہے اور کون سا نہیں !یہ تو وقت کھولتاہے کہ فلاں کام پلکوں پر پہاڑ اٹھانے کے برابر ہے اور فلاں کام چٹکی بجاتے حل ہوجائے گا ۔
اپنے آپ کو حد سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار نہ کریں۔اس کا سب سے واضح نقصان یہ ہوتاہے کہ جب آپ اپنے وعدے پر کھرے نہیں اترپاتے اور ساری عزت خا ک میں مل جاتی ہے تو آپ کے ذہن پر مایوسی کے سیاہ بادل منڈلانے لگتے ہیں اورآ پ کے حوصلوں کو شکست سے دوچار ہوناپڑتاہے ۔اس وقت ہوتایہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیت سے بھی ہاتھ دھوناشروع کردیتے ہیں اور اپنے زعم ناقص میں منفی تصور کرنے لگتے ہیں۔درآنحالیکہ ہنوز آپ کے اندر بہت کچھ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے مگر مایوسی آڑے آجاتی ہے۔گو کہ بے جا اعتمادی آپ کو مایوسی کے گڈھے میں ڈھکیل دیا کرتی ہے اور آپ سے آپ کی موجودہ صلاحیت بھی سلب کرنے لگتی ہے ۔پس ہوشیار ہوجائیں اورخود کو تیس مار خاں نہ سمجھیں تاکہ غرور و تکبر کانشانہ نہ بنیں ورنہ یہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے جو انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے ۔
آج پوری دنیا سے خودکشی کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔جن کے اسباب میں یہ بات نقل کی جاتی ہے کہ وہ مایوس ہوچلے ہیں۔اگر ہم اس یاس و ناامیدی کی علت تلاش کریں تو ہمیں ناکامی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے اور اس کے متعدد وجوہات ہوسکتے ہیں جن میں سے ایک احساس برتری کا شکارہو ناہے ۔
ہم اس بات کے بالکل مخالف نہیں ہیں کہ انسان اپنے اورپر اعتماد نہ کرے لیکن ہاں از حد خوداعتمادی کے ضرورخلاف ہیں۔ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر حال میں اعتدال ملحوظ نظر رہے تاکہ بات حد اعتدال سے آگے نہ جائے ۔
جس طرح افراط و احساس برتری کسی بھی شخصیت کی بیخ کنی میں مکمل معاون ثابت ہوتی ہے ویسے ہی تفریط و احساس کمتری انسا ن کو لے ڈوبتی ہے ۔آ پ بہتیروں کے
حالات سے آشنا ہوں گے جو ہر سوال کا جواب منفی پیرائے میں دیتے ہیں اور اس کے آخر میں’’نہیں‘‘کا پیوند لگا دیا کرتے ہیں۔جب ان سے کسی کام کی انجام دہی کے سلسلے سے سوال کیاجاتا ہے تو اپنے اندر کی ہمت اکٹھا کرنے کے بجائے یکسر منفی جواب دیدیتے ہیں اور بہت آسانی سے معذرت خواہی کا ناپائیدار سہارا لے لیتے ہیں ۔اگر وہ ذرا ساتامل کرلیتے تو عین ممکن تھا کہ اسے پایہ تکمیل تک پہونچانے میں کامیاب ہو جاتے ۔لیکن دل و دماغ میں کمزوری کا خوف جو بیٹھا ہے وہ انہیں پستی کی طرف ڈھکیل رہا ہے اور انہیں محسوس تک نہیں ہوپاتا ۔اگرآپ اپنے خوف و ہراس کو مات دے کر حوصلوں کے میدان میں اترجائیں تو دنیا کی ہر طاقت ماند پڑ جائے گی اور چند روز بعد ہی آپ کی قسمت کا ستارہ جگمگا اٹھے گا ۔
جو لوگ احساس کمتری کا شکارہوتے ہیں وہ خود کی صلاحیت کا گلا دبوچ دیا کرتے ہیں اور قدرت کی جانب سے عطاکردہ جواہر کا ضائع کردیتے ہیں۔یہ ہماری حیات کے عروج و زوال میں کافی اثرانداز ہوتی ہے ۔اگر آپ اس ذہنی بیمار ی کا شکارہیں اور آپ کا جواب منفی سے عبارت ہوتاہے تو رفتہ رفتہ یوں ہی اپنے کمالات سے محروم ہوچلیں گے۔لہٰذا ،کبھی بھی اس وہمی مرض سے زیر نہ ہوں اور ہمیشہ ترقی کی راہوں میں پیش قدم رہیں ۔خودمیں کچھ کرنے کی ہمت اکٹھا کریں۔اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ عزم و حوصلہ اسی وقت جمع ہوسکتاہے جب آپ کا ضمیر زندہ ہو اور ارادے جوان!
ذہن کو بار بار جھنجھوڑیں،پنہاں صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کی انتھک کوشش کریں اور افراد کی ہمنشینی اختیار کریں جن کے عزم ،محکم اور حوصلے جوان ہوں ۔ایسے لوگوں کی صحبت سے ہرلمحہ دوری بنائے رکھیں جو کوتاہ فکری اور ناامید ومایوسی کے چلتے پھرتے وائرس ہیں ۔ایسوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ بڑی آسانی سے اپنے وائرس دوسروں تک منتقل کردیتے ہیں ۔
لہٰذا!زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب اور ہرمیدان کے مرد میدان بننا چاہتے ہیں تو اس کے لئے چند بنیادی اصولوں کو سرمشق حیات بنانا ہوگا۔اول یہ کہ نہ ہی ازحد خوداعتمادی کا حبابی تاج سر پر رکھ لیں جس کے سبب نسیم صبح بھی اسے تاراج کردے اور نہ ہی مایوسی اور بزدلی کے یوں شکار ہوجائیں کہ اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگیں اور دنیا کی کسی فرد پر اعتماد نہ کریں۔بلکہ’’ ہمت مرداں مدد خدا است ‘‘کا پائیدار سہارا لے کر خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہوں ۔