گنوادی ہم نے جو اسلاف سے اقدار پائی تھی
عظمت علی
دین اسلام کسی خاص علاقہ یا فراد سے تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ عام انسانیت کی نجات بخشنے کے لئے آیا ہے جسے فطرت انسانی کے اصولوں پر بنایا گیا ہے۔ تاکہ مسلما ن کے ماسوا دنیا کی ہر ایک فرد ہمالیائی کامیابی کوپہونچ سکے۔
تعلیم و تعلم (سیکھنا اور سکھانا)ایک ایسا وسیلہ ہے جو انسان کو مسجود ملائکہ بنادیتا ہے۔ اسلام نے حصول علم کی بہت تاکید کی ہے اور اسے رسول اکرم کی بعثت کے مقاصد میں قرار دیاہے۔ جیسا کہ ارشاد اقدس الٰہی ہوتاہے۔ ’’و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ‘‘اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ (سورہ جمعہ 2)
احادیث اورروایات سے علم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ رسول اسلام ارشاد فرماتے ہیں :’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘
ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ (منیۃ المرید صفحہ ۹۹، ناشر :مکتب الاعلام الاسلامیہ قم 1409ھ اور سنن ابن ماجہ جلد ۱ صفحہ ۸۱(مقدمہ میں )باب 17 حدیث 224)
امام علی ارشاد فرماتے ہیں :’’اطلبو العلم ولو بالصین ‘‘
علم حاصل کرو اگر چہ چین جانا پڑے۔ (مصباح الشریعۃ، ترجمہ مصطفوی 275،ناشر:انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران، چاپ، تہران، ایران )
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :’’اطلبو العلم من المھد الی اللحد ‘‘
آغوش مادر سے قبر کی منزل تک علم حاصل کرو۔(شرح اصول کافی (صدرا)جلد 2، صفحہ ۸، ناشر :موسسۃ مطالعات و تحقیقات فرھنگی 1383شمسی، طبع، تہران، ایران )
اس کے علاوہ تعلیم کے متعلق بہت ساری احادیث و رایات موجود ہیں۔ خود سر کار ختم مرتبت کی زندگی کامطالعہ کریں تو آپ کومعلوم ہوجائے گاکہ آپ کے نزدیک علم سیکھنے اور سکھانے کوکس قدر اہمیت حاصل ہے کہ آپ نے محض مسلمانوں کی تعلیم کے اپنی جان کے دشمنوں کومدرس بنایا۔
2 ھ میں ایک جنگ ہوئی جسے غزوہ بدر کے نام سے جاناجاتاہے۔ جس میں اہل اسلام کواہل کفر پر عظیم فتح حاصل ہوئی۔ ۔۔۔ان میں سے کچھ کو اسیر کرلیا گیااور ان کی آزادی دس افراد کی تعلیم پر موقوف تھی۔ لہٰذ اہر ایک نے اپنے فریضہ کو ادائیگی پر ہی رہائی پائی۔ اسی طرح یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا رہا یہاں تک کہ امام جعفر صادق کے زمانہ میں ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں آگیا۔ جہاں مختلف موضوعات پر مختلف علاقہ اورمختلف مذاہب کے طالب علم آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتے جن کی تعداد چار ہزار تھی۔ اہل سنت اولجماعت کے چاروں ائمہ باواسطہ یا بلاواسطہ آ پ کی شاگرد ہیں۔ جن میں ’’ابوحنیفہ ‘‘بغیر کسی واسطہ کے آپ کے علمی مرکز میں آیا کرتے تھے اور اس شاگردی پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں ـ:’’لولا السنتان لھلک النعمان۔‘‘
اگر (شاگردی )کے دو سال نہ ہوتے تو نعمان (بن ثابت )ہلاک ہوجا تا۔(خلاصہ سیرہ پیشوایان در آئینہ تاریخ، صفحہ 101اور102،ناشر :موسسۃ انتشارات العلم، نوبت چاپ، ھجدہم 1394)
یہ علم و دانش کااسلامی قافلہ روزانہ ترقی کی راہوں کوطے کرتا رہا اورمسلمان اپنے دور کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ شمار کیاجانے لگا۔لیکن دوام اوراستقلال نہ ہونے کے باعث بلندی سے انحطاط کی طرف پلٹنے لگا۔۔۔۔یور پ جسے چھٹی صدی عیسوی سے لے دسویں عیسوی تک تاریک دور(Dark period) کہاجاتاتھا۔عین اسی زمانہ میں اسلام کا نور علم تما م تر فضا کو مکمل طور سے منور کئے ہوئے تھااور اسی کے سبب یورپ میں تعلیمی انقلاب آیا۔ اور آج یہ عالم ہوگیا ہے کہ تعلیمی میدان میںنمایاں کامیاں حاصل کرلی ہے۔ اب ہر کی زبان پر انگریز وں کے گن گائے جارہے ہیں کہ فلاں انگریز نے کیا عمدہ کتاب لکھ دی ! فلاں انگریز نے کیا تو کمال ہی کر دی۔
اگر ہم مذہب ومذہبیات کا پردہ ہٹاکر حقیقت کی عینک لگاکر نظر ڈالیں تو یہی حقیقت نظر آئے گی کہ جدید ٹکنالوجی میں مغربی دنیا ہم سے چار قدم آ گے ہوچکی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شخصیتیں بھی انہیں کے دامن میں پھولی پھلی ہیں۔ جیسے مشہورامریکی سائنسداں البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein) جس نے 1950ء میں Special theory of relativityکا نظریہ پیش کیا۔برطانیہ کا باشندہ تھامس ایڈیسن (Thomas Edison)نے ’’Law of Gravitation ‘‘کا نظریہ پیش کیا اور اسی طرح پولینڈ کارہنے والا کوپر نیکس (Copernicus) نے1540 ء میں Solar system کولوگوں کے سامنے پیش کیا۔یہ تو صرف چند حضرات کے نام رقم کئے گئے ہیں ورنہ تایخ میں بہت سارے لوگوں کے نام درج ہیں جنہوں نے علم و سائنس میں دن دگنی اوررات چوگنی ترقی کر کے اپنے وطن کانام روشن کیاہے۔
جبکہ مسلمانوں کا ماضی تابندہ ہے اور علم و دانش میں ہر طرح کی ترقی کی تھی لیکن اب صورت حال ہے کہ اگر غیر مسلم ممالک سے مدد نہ لیں تو زندگی مفلوج ہوجائے۔ آخر کیوں ؟ کہیں ایسا تو نہیں!
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کودے مارا
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے اقدار پائی تھی