کتاب : رشحاتِ محسن
مصنف : محسن خان
08919382144
مبصر : ڈاکٹر عزیز سہیل
ریاست تلنگانہ کا دارالخلافہ حیدرآباد (دکن) اردو زبان وادب کے آغاز و ارتقاء اور نشونما میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو ادب کی تقر یباََ اصناف کا آغاز دکن کے علاقہ سے ہوتا ہے اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کا تعلق بھی حیدرآباد سے ہی ہے ۔اردو کی پہلی جامعہ،جامعہ عثمانیہ کا قیام بھی 1917ء میں حیدرآباد میں ہی عمل میں لایاگیاتھا ۔یہاں پر دارالترجمہ نے بھی اپنی دیرینہ خدمات بھی انجام دیں تھی۔ اور اب اردو کی پہلی قومی یونیورسٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بھی 1998ء میں حیدرآباد ہی میں قائم کی گئی ہیں۔اردوصحافت کے فروغ میں بھی اس علاقہ نے اپنا نمایاں رول انجام دیا ہے۔روزنامہ رہنمائے دکن وسیاست حیدرآباد کے قدیم روزنامے ہے جو آج بھی اردو صحافت میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ماہنامہ سب رس ادارہ ادبیات اردو کا قدیم رسالہ ہے جو اپنے میعار اور انفرادیت کے باعث اردو دنیا میں مقبول عام ہے۔شہر اردو حیدرآباد سے آج بھی کئی معیاری اخبارات اور معلوماتی رسائل کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہیں ۔ان رسائل میں چند سال قبل ایک اور تازہ اور خوشگوار اضافہ(ہنامہ آفتابِ ملت) سے ہوا تھا جس کو محسن خان اور ان کے ساتھیوں نے جاری کیاتھا ۔
محسن خان نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر حیدرآباد سے نوجوانوں کے لیے ایک ’’رسالہ آفتاب ملت‘‘کے عنوان سے شائع کیا تھا اس کا رسم اجراء جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد کے ہاتھوں انجام پایاتھا۔ اور اس رسالے نے اپنی ابتدائی اشاعتوں سے ہی اردو کے تہذیبی اور سماجی حلقوں میں اپنی شناخت بنا لی تھی۔ یہ کام کسی سینئیر صحافی نے نہیں بلکہ مولانا آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ جرنلزم سے فارغ نو آموز صحافیوں نے انجام دیا ہے۔ماہنامہ آفتاب ملت کا آغاز جنوری 2014ء سے عمل میں آیا۔اس رسالہ کے خصوصی شمارے بھی مختلف موضوعات پر منظر عام پر آنے لگے تھے ان میں ’’تاریخ دکن اور نظام کی خدمات‘‘کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔اس رسالہ کے توسط سے محسن خان کی صلاحیتوں سے واقفیت حاصل ہوئی اور ان سے دوستی کاسلسلہ شروع ہوا۔
محسن خان نے’’ ماہنامہ آفتاب ملت‘‘ کے ذریعے سے اپنی پہچان بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ حیدرآباد کے منظر نامہ پر چھا گئے۔ محسن خان کے اندر سیکھنے کی تڑپ موجود ہے ا وروہ مشورہ کرکے کوئی بھی کام کو بحسن خوبی انجام دیتے ہیں ،نوجوان ہے ادب سے خوب دلچسپی ہے اردو کے اچھے ریسرچ اسکالر ہے اردو صحافت ،اردویونیورسٹی ،اردو انجمنیں،اردو پرگرام سے ان کا رشتہ اٹوٹ ہیں،ہر آئے دن ان کی تخلیقات کبھی مضمون کی شکل میں کبھی،تبصرہ کی شکل میں کبھی رپورتاژ کی شکل میں اور کبھی کبھی نیوزایٹم کی شکل میں حیدرآباد کے کسی نہ کسی اخبار، سوشیل میڈیا کے کسی نہ کسی نیوزپورٹل پر شائع ضرورہوتی رہی ہیں ۔ وہ اردو کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے خود کو پیش کرتے رہے ہیں اردو والوں کے لیے ان کی میزبانی اور مہمان نوازی بھی قابل ستائش ہیں ۔
’’ رشحات محسن ‘‘ محسن خان کی دوسری تصنیف ہے،اس سے قبل محسن خان کی ایک اور’’ تصنیف حیدرآباد کے مسلم ڈگری کالجس میں میڈیا سے آگہی‘‘2014ء میں منظر عام پر آئی تھی یہ کتاب دراصل تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے جس میں حیدرآباد کی اردو صحافت اور اردو قارعین بالخصوص طلبہ کی اردو اخبارات سے دلچسپی کو پیش کیا گیا تھا۔محسن خان کی یہ دوسری کتاب’’ رشحات محسن ‘‘دراصل ان کی ادبی،اصلاحی و معلوماتی مضامین کا مجموعہ ہے جس کے مشمولات میں’’قومی یکجہتی اور صحافت ،تلنگانہ میں اردو کی موجودہ صورتحال،اردو کے مستقبل میں سوشیل میڈیا کارول ، حیدرآبادی خواتین مضمون نگار،اردو ماضی حال اور مستقبل ،مادری زبان سے بے اعتنائی ،آپ کی تعلیم دوسروں کے لیے نعمت کیوں؟،جنگ آزادی میں مولانا آزاد کی خدمات اور اردوصحافت کا رول ،جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی ،میڈیا بطور انڈسٹری،کے علاوہ اصلاحی مضامین میں ،ریالٹی شوز کی حقیقت،کڑی محنت نے پہنچایا ہر ایک کو اس کی منزل تک،غیب ایک معاشرتی اور روحانی بیماری ،اسپورٹس بائیک اور حادثات،جہیز ایک لعنت،نام میں کیا رکھا ہے،اور شخصیات کے تحت حیدرآباد کا مایہ ناز سپو ت حکیم ڈاکٹرخواجہ فرید الدین صادق پر مضمو ن و دیگر مضامین پر مشتمل ہیں۔رشحات محسن جملہ 22 مضامین اور192 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کا انتساب محسن خان نے اپنی’ ماں‘ کے نام معنون کیا ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے لکھا ہے ،جواں سال قلمکار کے عنوان سے حلیم بابر کا مضمون بھی کتاب میں شامل ہے،کچھ محسن خان اور رشحاتِ محسن ‘ کے عنوان سے سید معظم راز کی تقریظ کو بھی کتاب کے آغاز میں شامل کی گئی ہے۔
’’ رشحات محسن ‘‘کے مطالعہ سے محسن خان کی طالب علمانہ کوششوں کا خوب اندازہ ہوتا ہے انہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے پیش نظر اپنے مضامین کو قلم بند کیا ہے ۔کہیں کہیں پر وہ اپنے آپ کوایک سماجی جہد کار کے طور پر پیش کرتے ہیں ،ان کے چند مضامین ’تلنگانہ میں اردو صحافت کی صورتحال،اردو کے مستقبل میں سوشیل میڈیا کارول ،حیدرآباد خواتین مضمون نگار،لائق مطالعہ ہیں۔ ان کے مطالعہ سے محسن خان کی تحقیقی کاوشوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔بہر حال محسن خان جیسے نوجوان قلمکاروں کو دیکھ کر اردو کے مستقبل کاخوب اندازہ ہوتا ہے ہماری یہ زبان کبھی ختم نہیں ہوگی یہ بات ضرور ہے کہ اس کی مقبولیت میں تھوڑی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اردو کا مستقبل بہت روشن ہے ۔نئی نسل کو اردو زبان و ادب کے فروغ میں آگے آنا ہو گا اور اردو کی پرانی پیڑھی کو اردو ادب کے سرمایہ اور ذمہ داریوں کو نئی نسل میں منتقل کرنا بھی لازمی ہے ورنہ اردو کے مستقبل سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ ضرورت ہے نئی نسل کو اردو کے فروغ کی ذمہ داری دی جائے ۔ امید کے محسن خان اردو کے نوجوان طالب علموں کو اپنے ساتھ لیکر اردو کے فروغ کے لیے جدوجہد کریں گے صبر وتحمل کے ساتھ آگے بڑھیں گے ۔
محسن خان کے لیے مشورہ بھی ہے کہ اردو ادب کے وسیع مطالعہ سے اپنی تحریروں کو میعاری بنانے کے کام پر توجہ مرکوز کریں کیوں کہ میعاری ادب کا فروغ بھی اب نسل نو کی ذمہ درای ہے ۔میں امید کرتاہوں کہ آپ مسلسل محنت کرتے ہوئے ایک اچھے قلمکار کی حیثیت سے اپنی تحریروں کے ذریعے اردو ادب کے ذخیرہ کو مالا مال کریں گے ،اپنا ،اپنے والدین اور حیدرآباد کا نام روشن کریں گے۔ اس کتاب کو کے جی این پبلشر نے شائع کیا ہے ۔یہ کتاب ہدی بک ڈپوپرانی حویلی حیدرآباد،اردو بک ڈپو اردو ہال حمایت نگر حیدرآباد سے خریدی جاسکتی ہے ۔مزید تفصیلات کے لیے مصنف سے 08919382144 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے ۔رشحات محسن کی اشاعت پر صمیم قلب سے مبارکباد پیش کی جاتی ہے ۔