کتاب – بچوں کے ادب کی تاریخ
مصنف: ڈاکٹر سید اسرار الحق
09346651710
مبصر : ڈاکٹر عظمت اللہ
07396258521
بچے قوم کا مستقبل اور ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ بچوں ہی سے اس کائنات میں رنگینی اور فضاؤں میں خوشبو ہے ۔ انسان کی اپنی زندگی کا مقصد اپنی کامیابی کے علاوہ اپنی اولاد کی بھی فلاح ہے ۔ چند لوگ اپنے بچوں کی کامیاب کو ہی اپنی کامیابی کو ہی اپنی کامیابی مانتے ہیں دور قدیم سے آج تک اولاد کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ دنیا کے شاہنشاہوں بادشاہوں اور راجاوں نے بھی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کیا تھا ۔
خلیفہ ہارون رشید اور اورنگ زیب عالمگیرؒ کے کئی واقعات ان کو تقویت بخشتے ہیں۔ اقوام کی تقدیر علوم و فنون سے جڑی ہوئی ہوتی ہے ۔ جو قوم علم کا جوہر رکھتی ہے وہ نا قابل تسخیر ہوتی ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جن ممالک نے توجہ دی وہ آج دنیا کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں ۔ اسی لئے قرآن و حدیث میں بھی علم کی افادیت اور اہمیت پر تاکید آئی ہے۔
ہر زبان و ادب میں بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ بے شمار رسالے اور جرائد بھی شائع ہوتے ہیں جو بچوں کی ذہنی نشونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اردو شاعری اور نثر میں بھی ابتداء ہی سے ایسی کاوشیں نظر تو آتی ہیں لیکن مقبول نہیں ہوئیں ۔ جس کی اہم وجہ ہمارا اپنا سماج ہے جہاں صرف بڑے لوگوں کے جذبات ،شاعری اور نثر کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ بچوں کو 50 روپیوں کی قلفی اور آئس کریم تو دلادی جاتی ہے لیکن 20 روپیوں کا رسالہ نہیں دلایا جاتا ۔ اردو ادب کا ہر شاعر و ادبی حسن و عشق کی داستان قلمبند کرنا چاہتا ہے ۔ جن اور پریوں کی طلسمی دنیا کی سیر کرانا چاہتا ہے ،عیش و نشاط کی محفلیں سجانا چاہتا ہے۔ بزرگوں کے مرثے گانے مںی فخر مسحوس کرتا ہے لیکن یہ نہیں چاہتا کہ آسمان کے ستاروں، جنت کے پھولوں اور گھر کے بے تاج بادشاہوں کا گھر بار سجائے ۔صرفشاعر اور ادیب ہی مجرم نہیں ہیں بلکہ مورخین اور محققین نے بھی اس ضمن میں غفلت برتی ہے ۔ جو ہمارے ادب کیلئے نقصاندہ ثابت ہوا ۔ خوش آئندہ بات یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں مںی ادب اطفال پر کافی کچھ کام ہوا ہے ۔ ادبی ٹرسٹ قائم کئے گئے ،مخصوص پبلی کیشنز شائع کئے گئے ۔ مختلف وسائل اور جرائد بھی شائع ہونے لگے ہیں ۔ کئی ایک تحقیقی مقالے بھی بچوں کے ادب پر شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ۔ قومی اور بین الاقوامی سمینار بھی معنقد ہوئے ہیں ۔
غرض بچوں کے ادب پر کام کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا اور ادب اطفال کے جسم میں نئی جان آگئی ہے ۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی ،ڈاکٹر اظہر حیات اور مزید چند لوگوں نے ادب اطفال کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔ ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی نے بھی بچوں کے ادب پر پی ایچ ڈی کے علاوہ دو مزید تصنیفات منظر عام پر لائی ہیں ۔ ان کی پہلی تصنیف 2015ء میں بچوں کا ادب اور اخلاق اور 2016 ء میں دوسری تصنیف بچوں کے ادب کی تاریخ ہے ۔ ان کا مطالعہ کافی وسیع ہے ، انہیں بچوں کے ادب سے گہرا شغف ہے ۔ میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے اور پڑھا بھی ہے وہ صرف شہرت کیلئے یا کسی اور مقصد کے حصول کیلئے نہیں لکھتے ۔ وہ نئی نسل کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ تقریبا 20 سال سے وہ درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ انہیں نہ صرف بچوں کی ادب سے دلچسپی ہے بلکہ وہ بچوں کی نفسیات کو بھی بہتر سمجھتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کا نصاب ان کو عمر اور ذہنی نشونما کو مد نظر رکھ کر بنایا جائے ۔ اس کتاب میں تدوین نصاب کے مسائل کو بھی انہوں نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان کا یقین ہے کہ ادب اطفال کے ذریعہ اک صحت مند معاشرہ کی تعمیر ممکن ہے ۔ بچوں کی ادبی ،اخلاقی اور مذہبی تربیت کے متعلق بھی واضح نقطہ منظر رکھتے ہیں ۔ بچوں کے ادب سے غفلت پر مصنف کا رد عمل دیکھےئے ۔
بچوں کے ادب کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس موضوع کی اہمیت کو بڑے لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور پر سنجیدگی سے غور و فکر کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔ اس کی ایک خاص وجہ ی ہ ہے کہ ہمارا سماج بڑوں کا سماج ہے ، اس سماج میں بچوں کی ضروریات اور حقوق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ۔
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی کی تازہ ترین تصنیف :بچو ں کا ادب کی تاریخ اردو ادب می ادب اطفال پر ایک گراں قدر تصنیف ہے جس میں جملہ 5 ابواب ہیں ۔ پہلے بات میں مصنف نے بچوں کے ادب کی تعریف ، اہمیت و افادیت ، ضرورت اور مسائل پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ مختلف علمائے ادب کے اقوال کو بھی نہایت خوبصورتی سے ترتیب دیا ہے ۔ بچوں کے ادب کے مسائل پر دوٹوک انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ پروفیسر اکبر رحمانی ، ڈاکٹر جاوید احمد اور پروفیسر سید محمد حسنین جیسے ماہرین ادب کے خیالات کو بھی پیش کیا ہے۔ مصنف نے شفیع الدین نیر کے ان الفاظ کا انتخاب کیا ہے جن سے خود مصنف کے خیالات کی بھی ترجمانی ہوتی ہے ۔
بچوں کے ادب سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے جس میں بچوں کی عمر ،نفسیات جذبات و تقاضوں کو مد نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو چاہے وہ نصابی ہو یا غیر نصابی مصنف کے مطابق ادب اطفال کو زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ادب بے رنگ اور روایت ہوکر رہ جائے گا ۔ بالخصوص بچوں کے ادب میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے چونکہ آج کے بچوں کا شعور پختہ ہوچکا ہے ۔ وہ اب ہر چیز کی حقیقت اور اصلیت جاننا چاہتا ہے ۔ وہ اب جنوں ،پریوں ،دیو مالائی ،طلسماتی اور محیر العقول کہانیوں سے زیادہ دیر تک بہنے والا نہیں ہے ۔ وہ اب چاند ستاروں اور مریخ کے بارے میں سوچتا ہے ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ وہ پوری دنیا کی سیر کرتا ہے ۔
اس کتاب کا دوسرا باب ’بچوں کے ادب کا پہلا دور‘ پر مبنی ہے ۔ جس میں ادب اطفال کے آغاز تا پہلی جنگ آزادی تک کے عہد کی بچوں کی تصانیف اور ادب کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے ۔ مصنف نے امیر خسرو کو ادب اطفال کا پہلا شاعر اور ان کی تصنیف ’خالق باری‘ کو بچوں کے ادب کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے ۔ اس ضمن میں محتلف علمائے ادب کے اقوال کو شامل کیا ہے ۔ ان کے مطابق محمد قلی قطب شاہ خسرو کے بعد دوسرے شاعر ٹہرے ہیں ۔
مصنف نے امیر خسرو کی پہیلیاں ،دو سخنے اور کہہ مکرتیوں کو بھی بطور نمونہ پیش کیا ہے ۔ دوسرے شاعر محمد قلی قطب شاہ کی نظمیں جو بچوں کیلئے مخصوص ہیں اس تصنیف میں بطور نمونہ شامل کی گئی ہیں ۔ امیر خسرو اور محمد قلی کے عہد کے درمیان ایک طویل خلاء یعنی ساڑھے تین سو سال کا عہد پایا گیا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے دکن کی قطب شاہی اور عادل شاہی سلطنتوں کی خدمات کے ساتھ ساتھ کئی ایک شعراء کی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے ۔
جن میں سب سے اہم مولوی محمد باقر آقاہ ، میر امن ، مولوی ضیاء الدین ، حیدر بخش حیدری ، پیارے لال اور ماسٹر رام چندر کی خدمات کا مختصر جائزہ لیا ہے ۔ شمالی ہند کے شعراء میر ،سودا ،نظیر اور غالب کی بچوں کی شاعری کے نمونے بھی پیش کئے ہیں ۔ مصنف نے اس باب میں کافی معلومات فراہم کی ہیں ان کی یہ کتاب اساتذہ اور تحقیقی اسکالرز کیلئے بھی بہت ہی کارآمد ہے ۔
میر اور سودا نے اپنے کلیات مںی بچوں کیلئے کئی ایک نظمیں لکھی ہیں جن کو مصنف نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے ۔ دراصل یہیں سے بچوں کے ادب کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ خدائے سخن میر تقی میر نے بچوں کیلئے کئی ایک نظمیں لکھیں ۔ موہنی بلی، بکری اور کتے ،مورنمہ ،مرغوں کی لڑائی ، مچھر اور کھٹمل وغیرہ وک ادب اطفال میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ کلیات سودا میں عصا (تعرف چھڑی )، شکایت موسم سرما ،گرما ،مریل ٹٹو، بخیل دولت مند ، بنیا اور باز نامی نظمیں اور چند منظوم پہیلیاں موجود ہیں ۔ سودا کی پہیلیاں امیر خسرو کی پہیلیوں کی طر ح دلچسپ اور رواں ہیں ۔ مصنف نے یہاں ایک پہیلی بھی بطور نمونہ پیش کیا ہے ۔
ایک نار بھونرا سی کالی
کان نہیں وہ پہنے ہے بالی
ناک نہیں وہ سونگھے پھول
جتنا عرض اتنا ہے طول
نار،بمعنی ،عورت (ڈھال)
مصنف نے غالب کی غزل بھی پیش کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ شاید بچوں کیلئے کہی گئی یہ اولین غزل ہے ۔
وہ چرائے باغ میں بیوہ جسے
پھاند جانا یا د ہو دیوار کا
کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق
اسے پڑھنے کے ہم قائل نہیں
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
اس کتاب کا تیسرا باب بچوں کے ادب کا دوسرا دور ہے ۔ جس میں 1857 ء سے 1947ء تک کے ادب اطفال کی تاریخ رقم کی گئی ہے ۔ یہ خاص طویل باب ہے جس میں سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء سے قدسیہ زیدی اور عبدالواحد سندھی تک کے شعراء و ادباء کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ مصنف نے اس باب کے پس منظر میں پہلی جنگ آزادی اور اس کے نتائج اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نقشہ بھی کھینچا ہے ۔ مسلمان بہت نازک دور کا سامنا کررہے تھے ۔ اس کرب کے دور میں سرسید احمد خانے انگریزوں سے راست ٹکراؤ کے بجائے علمی و ادبی تحریک کا آغاز کرتے ہیں۔ اس تحریک نے اردو ادب میں انقلب برپا کردیا ۔ شعراء و مصنفین کے فکر کے دھارے کو موڑنے میں سرسید کی بہت کوشش رہیں ۔ اب یہاں تخیل پسندی کی جگہ حقیقت پسندی کا رجحان فروغ پانے لگا اور عصری تقاضوں کو ادب میں پیش کیا جانے لگا ۔
یہ دور ادب اطفال کا سنہرا دور ہے جس میں سرسید جیسا ہمدرد قوم ،نذیر احمد جیسے مخلص مسلم حالی جیسے قوم کے خدمت گذار اور اقبال جیسے مفکر قوم نے ادب اطفال کی چمن کی آبیاری کی ۔ ان عظیم شعراء و مصنفین نے بچوں کیلئے وہ سب کچھ دیا جو کسی اور سے ممکن ن تھا ۔ مصنف نے اس دور کے ہر مصنف اور شاعر پر سیر حاصل بحث کی ہے ان کے اشعرا،اقوال اور افکار کو پیش کیا ہے جس سے مصنف کا تحقیقی پہلو مزید روشن ہوجاتا ہے بہت ہی محنت ،لگن اور دیانتداری کے ساتھ انہوں نے اس تصنیف کو مکمل کیا ہے ۔ اس دور کے دیگر شعراء میں اسمعیل میرٹھی، چکست اکبر الہ آبادی ،شفیع الدین نیر جیسے بلند پایہ بچوں کے شعراء کی خدمات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ نثر نگاروں میں پریم چند ،ڈپٹی نذیر احمد ،خواجہ حسن نظامی ،احمد قاسمی ،پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی تخلیقات کا جائزہ کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے ادب اطفال میں نثر کو فروغ دیا اور اعلی درجہ کی تخلیقات اردو ادب کو دیں ۔
اس کتاب کا چوتھا باب بچوں کے ادب کا تیسرا دور،کیلئے مخصوص ہے ۔ اس بات میں 1947ء سے 2000ء تک کے بے شمار ادیبوں اور شاعروں کو یکجا کیا گیا ہے جنہو ں نے ادب اطفال کے حولے سے نمایاں تخلیقی کارنامے انجام دےئے ہوں ۔ اس عہد کے اہم شعراء اور مصنفین میں کرشن چندر ،عصمت چعتائی ،خواجہ احمد عباس ،شوکت تھانوی ،قرۃ العین حیدر ،مال خیرآبادی ،یوسف ناظم ،ڈاکٹر مظفر حنفی ،شفیقہ فرحت ،عطیہ پروین اور کرنہ شبنم قابل ذکر ہیں ۔ اس دور کے اہم شعراء اور ادیبوں کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تخلیقات میں جدید دور کے تقاضوں کو پوار کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ کہانی اور فکشن کا نیا انداز ،جاسوسی ، مہماتی اور سائنسی کہانیوں کو فروغ حاصل ہوا ۔ کرشن چندر ،خواجہ احمد عباس ،شوکت تھانوی اور عصمت چغتائی نے بچوں کی نفسیات کے مطابق اپنے افسانے ،مضامین اور ناول لکھے ۔ بالخصوص شوکت تھانوی کے مضامین بچے بہت شوق سے پڑھتے اور محظوظ ہوتے ہیں ۔ ان کا ہلکا پھلکا طنزہ و مزاحیہ اسلوب بچوں کے دلوں کو چھو لیتا ہے ۔ جیسے ماسٹر صاحب لاٹری کا ٹکٹ اور ریل کا سفر کافی مشہور مضامین ہیں ۔ شفیقہ فرحت کی خدمت کو بھی اس بات میں سراہا گیا ہے جنہوں نے بچوں کیلئے ایک رسالہ ’’کرنیں ‘‘نکالاتھا جو پانچواں باب ’’بچوں کے ادب کا چوتھا دور کا احاطہ کرتا ہے جس میں 2000ء سے تاحال مختلف ادیبوں اور شاعروں کے فن کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اس بات میں ریاستی سطح پر ادب اطفال کی تاریخ رقم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ تلنگانہ ،آندھرا پردیش ،کرناٹک ،تملناڈو ،مغربی بنگال ،بہار ،جھارکھنڈ ،اتر پردیش ،دہلی ،اڑیسہ ،ہریانہ ،پنجاب ،مدھیہ پردیش ،راجستھان اور بالخصوص مہاراشٹرا کے ادیبوں اور شاعروں کی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مہاراشٹرا ہندوستان کی وہ واحد ریاست ہے جہاں ادیب اطفال کیلئے خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ بچوں کے رسائل اور جرائد بھی یہیں سے زیادہ شائع ہوتے ہیں ۔ مہاراشٹرا کے مالیگاوں سے رحمانی پبلی کیشنز نے خود مصنف کی ایک کہانیوں کا مجموعہ بچوں کی باتیں شائع کیا ہے ۔
اس بات میں مصنف نے دور حاضر کے ان مسائل کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے بچوں کے ادب کی اہمیت گھٹتی جارہی ہے ۔
مصنف لکتھے ہیں کہ ’’موبائیل اور انٹر نیٹ کی فراہمی نے ہمارے ملک کے گلی کوچوں کو گھر گھر کو تفریحی پروگراموں کی جگہ بنادی گئی ہے ،گیت اور گانو ں کی بھر مار ہوگئی ہے اور نئی نسل جذباتی طور پر ان کی دلدادہ ہوچکی ہے ۔ اب اس کا اثر صرف نوجوانوں تک ہی نہیں بلکہ بچوں پر بھی پڑرہا ہے ایک دور وہ تھا کہ بچے کھلونے دینے پر ہنسی خوشی اپنی ضد چھوڑ دیتے تھے ۔مگر افسوس کہ آج کے بچے موبائیل فون ،گیمس ،گیت اور گانے دیکھ کر اپے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور انکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں ۔
ظاہر ہے ہ دور حاضر میں بچوں کے ادب کی ترقی تھم گئی ہے چوں کہ بچے برے بوڑھے سب انٹرنیٹ پر فدا ہیں ۔
اس باب میں مصنف نے سو /۰۰۱ سے زائد شعراء و ادباء کی خدمات کو سراہا ہے اور انہیں کو اس باب میں شامل کیا ہے جو ادب اطفال پر کوئی نہ کوئی تحقیق یا شعری مجموعہ رکھتے ہوں ۔ بچوں کے ادب کو تاریخ ابتادء کے حال رقم کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ ڈاکٹر اسرار الحق صاحب کی یہ تصنیف ادب اطفال کی تحقیق و تنقید میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔ عصر حاضر میں بچوں کے ادب کی ترقی کیلئے انہوں نے چند تجاویز بھی رکھتی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ۔
بچوں کے ادب کے موضوعات میں توسیع و تنوع وقت کا تقاضہ ہے ،آج کا بچہ ذہین ،جستجو پسند ، بے باک اور نئے جہانوں و جہتوں کو سمجھنے اور جاننے کا متلاشی ہے ، لہذا بچوں کو قدیم و جدید سائنسی معلومات ،ایجادات ،ماحولیات ، ارضیات ،فلکیات ،آبی وسائل ،نئے کھیل، دنیا کی عظیم ترین شخصیات، پرندوں اور جانوروں کی حیرت انگیز دنیا ،ممالک اور جزائر کی سیر و سیاحت سیرت و دینی معلومات اور دیگر زبان و ادب کے تراجم کو بچوں کے ادب میں شامل کرنا ضروری ہے ۔
—–