علم کا مقصد اسلام کو
ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے سمجھنا
مفتی کلیم رحمانی
09850331536
قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی کا نام ہے اور نظامِ زندگی میں سیاسی نظام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس لئے علماء، ائمّہ اور دینی جماعتوں کی یہ اولّین ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں میں دین کے حوالے سے اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے قبول کرنے کی تحریک چلائے ،یہ تحریک مسلم معاشرہ میں جتنے زور و شور سے چلے گی مسلم معاشرہ سے باطل تحریکات اورباطل خیالات کا اثر اتنے ہی تیزی سے دور ہوگا، کیونکہ عام مسلمانوں کا دین اسلام کے متعلق یہ خیال ہے کہ جب ہم نے دین ااسلام کو نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج کی حیثیت سے قبول کر لیا تو کسی بھی باطل تحریک کا ساتھ دینے سے ہمارے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا اگر مسلمان دنیا کے باطل نظریات اور باطل پارٹیوں کے طریقہ کار سے ہی سبق حاصل کرلے تو کبھی دین اسلام کے متعلق ایسا خیال نہیں رکھ سکتے۔
مثلاً ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ جو کمیونزم کا حامی ہے وہ جمہوریت کا حامی نہیں ہوسکتا یا اسے نہیں ہونا چاہئیے۔اسی طرح جو کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہے وہ غیر کمیونسٹ پارٹی کا ممبر نہیں ہو سکتا یا اسے نہیں ہونا چاہئیے ۔لیکن افسوس ہے کہ یہی مسلمان دین اسلام کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ ایک مسلمان اسلامی نظریہ کا حامی ہوتے ہوئے باطل نظریہ کا حامی بھی ہو سکتا ہے یا اُسے ہونا چاہئیے اسی طرح ایک مسلمان اسلام کا ممبر ہوتے ہوئے غیر اسلامی پارٹی کا ممبر بھی ہو سکتا ہے یا اُسے ہونا چاہئیے۔واضح رہے کہ جو شخص بھی مسلمان ہے وہ موت تک دین اسلام کی ممبر شپ میں داخل ہو گیا اب اس کیلئے موت تک جائز نہیں ہے کہ کسی غیر اسلامی پارٹی کی ممبر شپ تھوڑے وقت کے لئے بھی قبول کرے یا اس کی حمایت کرے۔لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان اس مرض میں مبتلا ہیں اس کے پیچھے بھی دراصل مسلمانوں کی یہی سوچ کار فرما ہے کہ دین اسلام چونکہ صرف عبادات کا دین ہے اور کوئی بھی باطل پارٹی نماز ،روزہ ،زکوۃ ،حج سے نہیں روکتی اسلئے ان کی رکنیت قبول کرنے اور ان کی حمایت کرنے سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،جبکہ اس دنیا میں اسلام کی رکنیت سے مضبوط کسی بھی نظریہ اور کسی بھی پارٹی کی رکنیت نہیں ہے،لیکن مسلمانوں نے دین کے ناقص تصور کو اختیار کرکے اسلام کی رکنیت کو بہت کمزور اورمحدود چیز سمجھ لیا،یہاں تک کہ غیر اسلامی پارٹیوں کی رکنیت کی جو اہمیت ہے مسلمانوں نے اسلام کی رکنیت کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی،چنانچہ کانگریس پارٹی کا رکن ہوتے ہوئے کوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کا رکن نہیں ہو سکتا اسی طرح کوئی سماج وادی پارٹی کا رکن ہوتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کا رکن نہیں ہو سکتا ۔رکن ہونا تو درکنار کوئی رکن اپنی پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹی کی حمایت بھی نہیں کر سکتا اور اگر کسی پارٹی کو معلوم ہوجائے کہ ہماری پارٹی کا کوئی ممبر دوسری پارٹی کی حمایت کرتا ہے تو پارٹی اس کو اپنی پارٹی سے نکال دیتی ہے،جبکہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی نظام یعنی جمہوری نظام کی حامی پارٹیاں ہیں لیکن پھر بھی کوئی پارٹی یہ گوارہ نہیں کرتی کہ اس کا کوئی ممبر دوسری پارٹی کا ممبر بنے یا دوسری پارٹی کی حمایت کرے۔لیکن افسوس ہے کہ یہی پارٹیاں مسلمانوں سے تقاضہ کرتی ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی وہ تمام غیر اسلامی پارٹیوں کے ممبر بنیں یا ان کی حمایت کریں ،اسلئے ان پارٹیوں کے نزدیک وہ مسلمان جو غیر اسلامی پارٹیوں کے ممبر نہیں بنتے اور نہ ان کی حمایت کرتے ہیں تنگ نظر بنیاد پرست اور دہشت گرد مسلمان شمار ہوتے ہیں ۔اور جو مسلمان غیر اسلامی پارٹیوں کے ممبر بنتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں وہ بڑے روشن خیال اور اچھے مسلمان شمار ہوتے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ جب تمام غیر اسلامی نظریات کی حامل پارٹیوں کے نزدیک ایک شخص کا بیک وقت ایک سے زائد کسی پارٹی کی رکنیت اور حمایت صحیح نہیں ہے بلکہ غلط ہے،تو اسلام اور مسلمانوں کے متعلق انہوں نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ وہ مسلمان صحیح ہے جو اسلام کی رکنیت اور حمایت کے ساتھ ساتھ کسی غیر اسلامی پارٹی کی رکنیت رکھتا ہے اور اس کی حمایت بھی کرتا ہے۔جبکہ ان پارٹیوں کہ سربراہان کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ حقیقت کا اعتراف کرتے اور اس کا اظہار بھی کرتے کہ وہی مسلمان سچّے ہیں جو اسلام کے علاوہ کسی بھی نظریہ کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی کسی غیر اسلامی پارٹی کی رکنیت قبول کرتے ہیں اور وہ سب کے سب مسلمان جھوٹے ،نقلی اور مفاد پرست ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی کسی غیراسلامی نظریہ کی حمایت کرتے ہیں یا کسی غیر اسلامی پارٹی کے رکن بنتے ہیں ،لیکن اسوقت ہم ان غیر اسلامی پارٹیوں کے سربراہان سے یہ توقع اسلئے نہیں رکھ سکتے کیونکہ ابھی خود مجموعی لحاظ سے مسلمانوں نے دین اسلام کو نظام ندگی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا اور نہ ہم نے ان کے سامنے اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیا ،بلکہ صرف نظام عبادات کے طور پر قبول کیا اور پیش کیا تو انہیں وہ مسلمان بہتر اور فراخ دل معلوم ہوتے ہیں جو غیر اسلامی نظریات کی حمایت بھی کرتے ہیں اور وہ مسلمان تنگ نظر معلوم ہوتے ہوتے ہیں جو غیر اسلامی نظریات کی حمایت نہیں کرتے گویا کہ غیر مسلموں کی اس غلط فہمی میں بھی دین اسلام کے متعلق مسلمانوں کے ناقص داخلہ اور ناقص سوچ کا ہی دخل ہے۔ورنہ مسلمان اگر دین اسلام کے متعلق اپنے آپ کو کم از کم دنیا کی پارٹیوں ہی کی طرح بر قرار رکھتے تو دنیا کی غیر اسلامی پارٹیاں ہر گز مسلمانوں سے رکنیت اور حمایت کی امید نہیں لگاتیں،جس طرح وہ اپنی مخالف پارٹیوں سے رکنیت اور حمایت کی امید نہیں رکھتیں۔ بعض نادان لوگوں کو آنحضورؐ کے دور مکی کے طرز عمل اور جدوجہد سے یہ غلط ہمی ہوگئی ہے کہ اسلام کے پاس اسلامی سیاست کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں ہے اور اس کے ثبوت میں وہ آنحضورؐ کے دور مکی کو پیش کرتے ہیں جس میں آپ ؐ کے ہاتھ میں سیاسی اقتدار نہیں تھا اور نہ ہی مکہ میں آنحضور ؐ کو ہجرت سے پہلے سیاسی غلبہ نصیب ہوا تھا،لیکن یہ نادان ذرا بھی غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ کسی نظریہ کا سیاسی ہونا اور چیز ہے اور کسی سیاسی نظریہ کو غلبہ و اقتدار ملنا دوسری چیز ہے ،اور اگر کسی سیاسی نظریہ کو اقتدار و غلبہ نہیں ملا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سیاسی نظریہ نہیں ہے،چنانچہ دنیا میں ایسے بے شمار سیاسی نظریات اور سیاسی پارٹیاں ہیں جنہیں سیاسی اقتدار و غلبہ نہیں ملا ،اور خود ہندوستان میں کئی ایسی سیاسی پارٹیاں ہیں جنہیں آج تک کسی جگہ اقتدار نہیں ملا مثلاً مہاراشٹر کی ایک سیاسی پارٹی شیتکری کامگار پکش جس کو آج تک نہ ہی پارلیمنٹ میں اقتدار ملا اور نہ ہی اسمبلی میں اقتدار ملا تو کیاوہ پارٹی اقتدار نہیں ملنے کے سبب غیر سیاسی پارٹی شمار ہوگی؟گویا سیاست و اقتدار دونوں لازم و ملزوم نہیں ہے۔ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی ہو لیکن اسے اقتدار و غلبہ نہ ملے ۔یہی حال آنحضور ؐ کے دور مکی کا ہے کہ آپ ؐ نے دور مکی میں بھی دین اسلام کو سیاسی نظام کے طور پر پیش کیا،لیکن اس سیاسی نظام کو دور مکی میں اقتدار و غلبہ نہیں ملا۔بلکہ ہجرت کے فوراًبعد مدینہ میں ملا اور پھر آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ، مکہ میں بھی اسلام کو سیاسی اقتدار و غلبہ مل گیا۔جو لوگ آنحضور ؐ کے تیرہ سالہ دور مکی کو دیکھ کر دین اسلام کے متعلق غیر سیاسی دین ہونے کا خیال قائم کر لیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ قرآن کی سب سے پہلی آیت جو اسلام کی بھی سب سے پہلی دعوت ہے اس میں اللہ تعالیٰ کو انسانوں کے سب سے بڑے سیاسی فرمارواں کی حیثیت سے پیش کر دیا گیا ،چنانچہ پہلی وحی کی پہلی آیت ہے جو حضور ﷺ پر غارِ حرا میں نازل وئی ،اِقْرا بِاسْمِ رَبِّکَ الّذی خَلَقْ۔ یعنی پڑھے اپنے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،رب کے معنی میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی حاکمیت و فرماروائی شامل ہے،دوسرے لفظوں میں اُسے اسلام کا نظریہ سیاست بھی کہہ سکتے ہیں جس میں شروع سے اخیر تک صرف اللہ ہی کی بڑائی و بالا دستی ہے،اور اس نظریہ سیاست کا کامل نمونہ حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مبارک ہے۔ویسے کسی بھی نظریاتی سیاسی تحریک کو لازماً پہلے مغلوبیت و مظلومیت کے دور سے گزرنا پڑتا ہے ۔چاہے وہ اسلامی تحریک ہو یا غیر اسلامی تحریک ۔پھر جس تحریک کے پاس جتنا زیادہ مضبوط اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کی رہنمائی کا نظریہ ہوگا اُس تحریک کو اُتنا ہی زیادہ مغلوبیت اور مظلومیت سے گزرنا پڑے گا ،کیونکہ مضبوط اور وسیع نظریہ کو قبول کرنے والے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔چونکہ اس دنیا میں صرف اسلامی تحریک ہی کا نظریہ مضبوط اور ہمہ گیر ہے،اس لئے اس کو قبول کرنے والے اور اس کا ساتھ دینے والے لوگ ہر دور میں کم ہی رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کے زیادہ تر حصہ میں اسلامی تحریک کو سیاسی مغلوبیت و مظلومیت ہی سے گزرنا پڑاہے ،اور دور حاضر میں بھی پوری دنیا میں اسلامی تحریک سیاسی مغلوبیت اور مظلومیت ہی سے گزر رہی ہے ۔سیاسی مغلوبیت و مظلومیت کے دور میں کسی بھی تحریک کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مخالف تحریکات کی موافقت نہ کرے اور نہ ان کی حمایت کرے اور نہ ان کے غلبہ اور ظلم سے ڈرے،بلکہ عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے موقف پر جمے رہے اور صبر و استقامت کے ساتھ مخالف حالات کا مقابلہ کرتے رہے،چنانچہ اسلامی تحریک کی کامیابی بھی یہی ہے کہ وہ مظلومیت و مغلوبیت کے دور میں اپنی مخالف تحریکات سے دوری بنائے رکھے اور ان کی مسلسل مخا لفت کرتے رہے ،یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریک نے کبھی بھی دور مغلوبیت و مظلومیت میں باطل تحریکات کی حمایت نہیں کی اور نہ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اسلامی تحریک کے غلبہ کا کام چھوڑ دیا بلکہ مسلسل باطل تحریکات کے خلاف جدّو جہد کرتی رہی ،چاہے حضرت نوح ؑ کا دور ہو،یا حضرت ابراھیم ؑ کا دور ہو،یا حضرت موسیٰ ؑ کا دور ہو،یا حضرت عیسی ؑ کا دور ہو یا حضرت محمد ﷺ کا دور ہو۔یا اس کے بعد کا دور ہو ،یہاں تک کہ بعد کے دور میں سیاسی غلبہ کے دوران یہ تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسلا می نظریے کی طرف سے مسلمانوں نے بے توّجہی کی ہے ،لیکن یہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ مسلمانوں نے سیاسی مغلوبیت و مظلومیت کے دوران مجموعی لحاظ سے غیر اسلامی نظریہ سے سمجھوتہ کر لیا ہو اور اس کی حمایت کی ہو،لیکن بد قسمتی سے اِس وقت عالمی سطح پر زیادہ تر مسلمانوں نے اسلامی نظریہ زندگی کو چھوڑ کر باطل نظریہ زندگی کو قبول کر لیا ہے صرف اس وجہ سے کہ باطل نظریۂ زندگی کو سیاسی غلبہ حاصل ہے ،اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ مسلمانوں میں جو دینی جماعتیں ،ادارے اور افراد ہیں انہوں نے بھی مجموعی لحاظ سے باطل نظریۂ زندگی کو قبول کرلیا،واضح رہے کے کسی بھی نظامِ زندگی میں اس کا سیاسی و تعلیمی نظام بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی نظام زندگی کی بنیاد دراصل اس کا سیاسی و تعلیمی نظام ہی ہوتا ہے چاہے وہ اسلامی نظام زندگی ہو یا غیر اسلامی نظام زندگی ۔چنانچہ باطل نے جو سیاسی و تعلیمی نظام وضع کیا اس میں انسان ہی کو سب سے بڑا رکھا ہے البتہ اس کے نام الگ الگ ہیں۔مثلاً،بادشاہت ،قومیت ،کمیونزم ،سوشلزم ،سیکولرزم ، جمہوریت وطنیت ،لیکن ان تمام باطل نظاموں میں انسانوں ہی کی بڑا ئی و حاکمیت مُسلّم رہی ہے ،انسان کی بڑائی کا مطلب دراصل شیطان کی بڑائی ہے ،کیونکہ شیطان ہی اس کو بڑا بننے کے لئے کہتا ہے ،ورنہ انسان اگر خود کی بات مانے تو یہ خودی اس کو اپنی بڑائی چھوڑ کر خدا کی بڑائی کو قبول کرنے کی دعوت دے گی۔
—–
مفتی کلیم رحمانی
09850331536
مسجد اقصیٰ روڑ، وسنت نگر، پوسد
445204 ضلع ایوت محل (مہاراشٹر)