اردو شاعری میں نسائی حسّیت رومانیت کے آئینہ میں :- ڈاکٹر نکہت جہاں

Share

اردو شاعری میں
نسائی حسّیت رومانیت کے آئینہ میں

ڈاکٹر نکہت جہاں
اسوسی ایٹ پروفیسراردو
نظامت فاصلاتی تعلیم”مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی سماج میں صنفی توازن کا احساس ملتا ہے چاہے وہ اساطیر ہوں یا مذہبی صداقت کے واقعات۔ تھوڑے سے استثنا کے ساتھ ہر جگہ توازن نظرآتا ہے۔ اگر آدم کا ذکر ہے تو حوا کے ساتھ۔ اگر کیوپڈ ہے تو سائیکی بھی ہے۔ برہما‘وشنو اور مہیش تینوں ایشور کا سروپ ہیں تو طاقت دیویوں کے ہاتھ میں ہے۔ علم سرسوتی سے ملے گا۔ دولت لکشمی سے ملے گی اور فطرت کا سارا حسن اوشاسے مل جائے گا۔ خودیہ کائنات ارضی ماں ہے۔ اس طرح اگرغور کیا جائے تو یہ توازن ابتداء سے رہا ہے۔ لیکن انسانی نفسیات بھی عجیب ہوتی ہیں اور ذراسی ڈھیل ملنے پر من مانی کرنے کی جبلت ابھرآتی ہے۔ اسی نفسیات کا ایک نمونہ یہ بھی تھا کہ قدیم زما نے میں عورتوں کو کنیز بنانے کی رسم شروع کی گئی۔ کبھی یہ ہوا کہ ان سے جاسوسی کا کام لینے کے لیے انہیں اپسرا سے ویشا بنادیا گیا۔ اور یہ بھی ہوا کہ ان کی گودیں سونی کردی گئیں۔ چاہے مصر میں فرعون کا دور ہو یا ہندوستان میں کنس کا زمانہ۔۔۔ عورت کی گود سے معصوم بچوں کو کھینچ کر قتل کردیا گیا اور اسی دور میں جب عورت اپنے وطن کی محبت میں جاسوسی کرتی تھی تو اس جاسوسی کی وجہ سے اسے فریبی ‘مکار‘ دغاباز‘دھوکہ باز‘بے وفا‘ تریاچرتر والی اور اسی طرح کے القاب سے نوازا گیا۔
اسی طرح سماجی توازن کا ایک رخ وہ بھی تھا جہاں مرد محبوب تھا عورت عاشق تھی۔ عورت بھی عشق کرتی تھی مرد بھی عشق کرتا تھا۔ عشق کرنے کے لیے کوئی قید نہیں تھی۔ لیکن دھیرے دھیرے جب بھیڑ‘بکری‘گائے‘بھینس‘گھوڑی‘سونا‘چاندی وغیرہ کی طرح عورت کو بھی ’’مال‘‘ سمجھ لیا گیا تو پھر تو یہ ہوا کہ ایک طرف اس کے حسن کے قصیدے پڑھے گئے اور دوسری طرف وہ شبستان عیش کی بستر کی چادر قرار دی گئی۔ یا پھر کسی موٹے بھدے بے ہودہ پیر کی خوب صورت مخملی جوتی۔ جب چاہا جوتی بدل دی۔ جب چاہا چادر پھینک دی۔
اصل میں یہیں سے نسائی حسیت کا مسئلہ شروع ہوتا ہے ۔یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں عورت کا مرد سے تصادم ہوتا ہے اور اس تصادم میں عورت کو جب دبانے کی کوشش کی گئی تو اس کا شعور ذات بیدار ہوا۔ پھر یہ ہوا کہ چاہے اسے زندہ دفن کیا گیا ہو‘ چاہے دیوار میں چنوادیا گیا ہویا آگ میں جلایا گیا ہو یا اس پر پتھر برسائے گئے ہوں اس نے اپنے وجود کو منوانا چاہا۔۔۔ اور منوایا۔
نسائی حسیت کی تحریک سب سے پہلے اسلام سے شروع ہوتی ہے۔ گذشتہ دو صدیوں میں مغربی تہذیب نے بھی عورتوں کے حقوق پر سنجیدگی سے غور کیا ہے۔ نسائیت کا تعلق دراصل عورت کے اثبات وجود‘ داخلی شناخت اور پہچان اور صفات کی بناء پر ہوتا ہے۔نسائیت ایک رحجان ہے ایک داخلی قرینہ‘ ایک ذہنی رویہ ‘ ایک باطنی احساس کا نام ہے جس کا تعلق پورے طبقہ نسواں سے ہے شاعری کی دنیا میں عورت کا تذکرہ بڑی لذت کے ساتھ ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اردو شعراء نے ابتداء میں محبوب کومذکر ہی رکھا تھا۔ یعنی عاشق بھی مذکر اور محبوب بھی مذکر۔ عورت کا تذکرہ معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جو سراپا پیش کیا جاتا اور جو بیان ہوتا تھا وہ عورت ہی کا ہوتا تھا۔ یہ صورت حال غزل میں تھی۔ ریختی میں بھی عورت کے سراپا کا بیان اس انداز سے کیا جاتا گویا وہ تعشیں کی کوئی شئے ہو۔داستانی مثنویوں میں باضابطہ طور پر قصے میں شہزادیاں ہوا کرتی تھیں ۔ لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے ‘ مجہول ہوتی ہے فعال نہیں۔قصائد میں مجرد تصورات کو نسوانی پیکر دیا گیا ہے ۔ مثلاً سودؔ اور ذوقؔ کے یہاں خوشی کا سراپا پیش کیا گیا ہے جو ایک عورت کا ہے۔ کسی خاتون کی مدح میں کوئی قصیدہ نہیں ملا۔( مذہبی شخصیتیں استثنیٰ ہیں)۔ مرثیہ کی دنیا اردو شاعری میں منفرد ہے۔ خواتین کربلا کی قربانیاں یقیناًاعتراف کی مستحق تھیں لیکن افسوس ہے کہ اردو شعرا نے اپنی شاعری میں ایسی بہادر اور شجاع عورتیں پیش نہیں کرسکے۔شائد ان کا کہنا کسی حد تک درست بھی ہو کہ یہ خواتین مذہبی حیثیت رکھتی تھیں نہ ان کا ثانی ممکن ہے نہ ممکن تھا۔
غدر کے بعد نثر اور نظم دونوں میں اصلاح نسواں کی تحریک شروع ہوئی۔ اصلاح نسواں کا تصور ہی احساس برتری کا نتیجہ تھا۔ اس تحریک سے حالی ؔ بھی وابستہ تھے ۔ حالی ؔ نے عورتوں کے مسائل سے متعلق دو بڑی معرکے کی نظمیں لکھیں۔ ’’مناجات بیوہ‘‘ اور ’’چپ کی داد‘‘۔یہ موضوعات منفرد‘ اچھوتے اور نئے ہیں۔اسی دور میں اکبرؔ ا لہٰ آبادی اور چکبست ؔ کے خیالات کا محور و مرکزبھی تعلیم نسواں ہے ۔ لیکن ان لوگوں نے نسائیت کو مشرق کے تاریخی روایات اور اقدار کے آئینہ میں دیکھا تھا۔اقبالؔ کے یہاں عورت کا تصور ’’نسبت‘‘سے ہے ۔ان کی نظر میں عورت کی حیثیت اضافی ہے خود اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔جوش ؔ کے یہاں عورت سے ہمدردی ہے محبت ہے اس کی قدر بھی ہے لیکن عورت کی حسیت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ان کے پاس ان ہی کے دور کے مطابق ان نسائی اقدار کا کوئی تصور نہیں ہے جو ہندوستان کے طول و عرض میں جنم لے رہی تھی‘اور جدو جہد آزادی میں خواتین کے سر فروشانہ جذبہ جہاد نے جن اقدار کو پروان چڑھایا تھا۔ بہر حال عورت کی اہمیت کو محسوس کیا گیا اور معاشرے میں اس کو اس کا صحیح مرتبہ دلانے کی کوشش کی گئی۔یہاں صرف اشارے کرتے ہوئے یہ عرض کرنا ہے کہ جاگیرداری سماج کے پروردہ تخلیق کار ایک ہی جیسے تھے۔بس تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔جس تخیل کو اقبال ؔ تفکر کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں وہی تصور رومانی اور خطیبانہ انداز میں جوش ؔ کے یہاں نظر آتا ہے۔
مجازؔ بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں ۔ وہ اپنے تصور حسن و عشق کو ماورائی نہیں رکھتے ارضی رکھنا چاہتے ہیں۔یہ دو بند ملاحظہ ہوں۔
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے
سراپا رنگ و بو ہے پیکر حسن و لطافت ہے

بہشت گوش ہوتی ہیں گہر افشانیاں اس کی
میرے چہرے پہ جب بھی فکر کے آثار پائے ہیں
مجھے تسکین دی ہے میرے اندیشے مٹائے ہیں
میرے شانے پہ سرتک رکھ دیا ہے گیت گائے ہیں

میری دنیا بدل دیتی ہیں خوش الحانیاں اس کی
لیکن اب اسی کے ساتھ یہ بند دیکھیے۔

کوئی میرے سوا ‘ اس کا نشاں پا ہی نہیں سکتا
کوئی اس بارگاہ ناز تک جا ہی نہیں سکتا
کوئی اس کے جنوں کا زمزمہ گا ہی نہیں سکتا
جھلکتی ہیں میرے اشعار میں جولانیاں اس کی
سوال یہ ہے کہ جب وہ اسی دنیا کی عورت ہے تو کوئی اس کا نشاں کیوں نہیں پا سکتا؟کیوں بارگاہ ناز تک نہیں جا سکتا؟اس کے معنی یہ ہیں کہ مجاز ؔ کی محبوبہ چاہے وہ جذباتی قیود میں گرفتار ہویا سماج نے اس کو قید کر رکھا ہو یا خود اپنی انا کے حصار میں گم ہو ‘بہرحال وہ کوئی آزاد عورت نہیں ہے اس لیے بھی کوئی اس کے جنوں کا زمزمہ گا نہیں سکتا۔پڑھنے اور سننے میں تو یہ سارے اشعار بڑے رومانی ہیں مگر اس کے پس منظر میں انقلابی شاعر نہیں بلکہ جاگیرداری روایات کا رومانی تصور رکھنے والا بوڑھا ذہن ہے۔
ان اشعار میں باوجود درومانی تصور کے مجاز نے عورت کو عورت کی حیثیت سے ہی پیش کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار بھی عورتوں کے سلسلے میں بہت مشہور ہیں۔

سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
تو سامان جراحت اب اٹھالیتی تو اچھا تھا
اثر باقی نہیں مفلوج پیروں کی دعاؤں میں
جو انان بلاکش کی دعا لیتی تو اچھا تھا

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

آخری شعر کو نسائی تحریک میں ایک اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں مجازؔ اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ اس وقت بھی عورت کے ہاتھ میں پرچم تھا۔ خود انہوں نے سروجنی نائیڈو کو بہادر ماں کہہ کر مخاطب کیا تھا‘اور سروجنی نائیڈو کے ہاتھ میں ہندوستان کی آزادی کا پرچم تھا۔مجازؔ واقف تھے وجئے لکشمی پنڈت سے ‘ ڈاکٹر رشید جہاں سے۔ انہوں نے خالدہ ادیب خانم پہ بھی نظم لکھی تھی۔ جہد آزادی کی تاریخ میں انہوں نے کلپنادت کا نام بھی سنا تھا ۔ وہ ارونا آصف علی ‘ پورنیما بنرجی اور فیروزہ جبین سے بھی واقف تھے۔یہ ساری خواتین وہ تھیں جن کے ہاتھوں میں انقلاب کا پرچم تھا۔
لیکن مجازؔ کا یہ شعریقیناً نسائیت کی طرف ذہن کو منتقل کرتا ہے۔کہتے ہیں۔

آؤ مل کر انقلاب تازہ تر پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں

یہ صحت مند رحجان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجازؔ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ کوئی انقلاب عورت کی شمولیت کے بغیر برپا نہیں کیا جاسکتا۔عورت کے وجود کا احساس اور اسے شریک کار سمجھنا در اصل یہی نسائی حسّیت ہے۔
سلامؔ مچھلی شہری کے یہاں عورت کا وہ تصور ہے جس میں کسی طرح کی نفسیاتی الجھن نہیں ہے۔وہ عورت سے شکوہ کرتے ہیں ‘ اس سے جھگڑا بھی کر سکتے ہیں۔ انھیں رشتوں کی بنیاد پر عورت کے ہر رخ سے پیار ہے۔ان کی کئی نظمیں اس سلسلے میں اہم ہیں۔مثلاً’’ ہاجرہ سے‘‘میں یہ بہن کوئی لفظی پیکر نہیں معلوم ہوتی۔حقیقی بہن ہے ۔جو نصیحت کی گئی ہے وہ بھی بری نہیں معلوم ہوتی۔یہ بند دیکھیے۔

جہاں سبھی غریب ہوں وہاں تمہیں ملال کیوں
خود اپنے اضطراب میں سکون کا خیال کیوں
جو دل میں دکھ کی ٹیس ہے تو راحتوں کا شوق کیوں
ہجوم اشک دیکھ کر تبسموں کا ذوق کیوں

بدلنے دو جہان کے الم فزا نظام کو
ابھی نہ غم زدہ کرو میری بہن سلامؔ کو

ان کی بہت ساری نظمیں ایسی ہیں جس میں عورت کو بالکل برابر کا درجہ دیا گیا ہے ۔ یہ عورت محبوبہ ہے ‘ اس سے تعلقات میں کچھ خلش بھی پیدا ہوگئی ہے ’سلامؔ اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن ذہنی رویہ عورت کو اپنے برابر سمجھنے کا ہے۔اس کے وجود کے اثبات کا ہے۔یہ رومانی نظم ملاحظہ کیجیے۔

آپ جلدی میں تھیں اس واسطے جیسے بھی بنا
اور بکھرے ہوئے پھولوں میں بھی خوشبو پاکر
اس پہ یہ سبز لکیریں یہ گلابی نقطے
جیسے یہ پھول‘ یہ شاخیں‘میرے بے جان خیال
شکریہ آپ نے بخشے تو یہ کچھ پھول مجھے
آپ کے لطف کا احساس اگر جرم نہ ہو

سادے کپڑے ہی میں کچھ پھول مجھے بخش دےئے
میرے ترسے ہوئے ہاتھوں سے وہ سب تھام لیے
جیسے ہلکی سی کوئی قوس قزح کی تحریر
جیسے بکھری ہے چمن میں میرے غم کی زنجیر
جی میں آتا ہے گلستاں ہی بنالوں ان کو
اپنے نغمات کا عنواں ہی بنالوں ان کو

اس نظم میں کڑھتی اور بسورتی عورت نہیں ہے برابر کے تعلقات رکھنے والی خاتون ہے ۔شاعر کا انداز بھی اسے وہی سمجھتا ہے۔
عورت کے سلسلے میں طوائف ایک بہت ہی خطرناک موضوع رہا ہے۔ عہد قدیم کی سراغرسانی کرنے والی عورتیں جنہیں وش کنہیائیں کہتے تھے اور وہ فن کار جو محفل رقص و نغمہ کی جان ہوا کرتی تھیں سماج نے طوائف بناڈالا۔ اردو میں اس موضوع پر ناول بھی لکھے گئے اور شعر بھی لکھے گئے۔ جذبی ؔ نے طوائف کو بالکل رومانی انداز میں پیش کیا۔

اپنی فطرت کی بلندی پہ مجھے ناز ہے کب
تو گرادے گی مجھے اپنی نظر سے ورنہ
تو نے ہرآن بدلتی ہوئی اس دنیا میں
کلیاں بیزار ہیں شبنم کے تلون سے مگر
ہائے جلتی ہوئی حسرت پہ تیری آنکھوں میں
اپنی پستی کا بھی احساس پھر اتنا احساس
اور یہ ذرد سے رخسار یہ اشکوں کی قطار

ہاں تیری پست نگاہی سے گلہ ہے مجھ کو
تیرے قدموں پہ تو سجدہ بھی روا ہے مجھ کو
میری پائندگی غم کو تو دیکھا ہوتا
تونے اس دیدہ پر نم کو تو دیکھا ہوتا
کہیں مل جائے محبت کا سہارا تجھ کو
کہ نہیں میری محبت بھی گورارا تجھ کو
مجھ سے بیزار میری عرض وفا سے بیزار
اس سلسلے کی کامیاب ترین نظم وامقؔ کی ’’مینابازار‘‘ ہے۔ مینا بازار میں عورتوں کی خرید و فروخت کے کچھ مناظر پیش کیے ہیں۔ پہلا منظر طوائف کا ہے۔
مناروں پر اذاں ہوئی
یہ شام بھی کہاں ہوئی
پجاری مندروں میں آکے سنکھ پھونکنے لگے
گجربجا۔۔۔ بٹن دبے
وہ قمقمے چمک اٹھے
دکانیں جگمگاگئیں
نگاہوں میں سماگئیں
وہ مہوشان سیم بر
فسوں طراز رہ گذر
دروں میں اپنے آگئیں
اور اپنی کائنات غم پہ خود ہی جیسے چھاگئیں
لب خموش میں نئی کہانیاں لیے ہوئے
رخوں پہ غاروں سے لدی جوانیاں لیے ہوئے
تپے ہوئے د ماغ و دل میں کتنے شعلے مشتعل
یہ وہ خزاں رسیدہ ہیں بہار جن سے مشتعل
زمانے کے سلوک سے
یہ تنگ آکے بھوک سے
رگڑ رہی ہیں ایڑیاں
مذلتوں کے غار میں
اور انتقام کے لیے
کھڑی ہیں انتظار میں
سماج کی یہ بیٹیاں
نظر کے تیز بھالوں سے
شراب کے پیالوں سے
فرشتوں سے شریف تر
زمیں کے رہنے والوں سے
خراج حسن پائیں گی
ہنسیں گی اور ہنسائیں گی
یہ وہ ہیں جن کی زندگی
مسرتوں سے دور ہے
یہ وہ ہیں جن کی ہرہنسی
جراحتوں سے چور ہے
یہ وہ ہیں جن کا گھر بلندیوں پہ رہ کے پست ہے
یہ وہ ہیں جن کی فتح بھی شکست ہی شکست ہے
مگر ان ہی پہ سنگ ساریوں کا حکم عام ہے
’’وجود میں یہ کب سے اور کس طرح سے آگئیں‘‘
وامق ؔ نے اسے سماج کی بیٹی اور بیوی کہہ کے عورت کے استحصال کی پوری تاریخ بیان کردی ہے۔نہ وہ جذبی ؔ کی طرح سے طوائف کے قدموں پر سجدہ کرنے جا رہے ہیں اور نہ وہ تقدیس مشرق پر کوئی طنز کر رہے ہیں۔
اسی نظم کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجیے جہاں معاشرت میں عورت کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔
وہ سامنے دوراہے پر
یہ کیسا اژدہام ہے
یہ کیسا انتظام ہے
یہ بادپا سواریوں پہ کیسا اہتمام ہے
عروسی دھوم دھام ہے
یہ بے بسی کی رخصتی
اجالے میںیہ تیرگی
صدائے نئے سے کس کی ہر فغاں لپٹ کے رہ گئی
یہ شام بھی کہاں ہوئی
ابھی ابھی جوان سال
ایک زندہ لاش کو
حریر میں لپیٹ کر
مسرتوں کے دوش پر
کسی طلائی کہنہ سال مقبرے کو سونپنے
یہ لوگ لے کے جائیں گے
اور اس کے بعدہو گا کیا
یہ لوگ بھول جائیں گے
طلائی کہنہ سال مقبرہ ایسا استعارہ ہے جو ہر دور میں دب دب کر ابھرتا رہا ہے ۔پہلے اس طلائی کہنہ سال مقبرہ کی ملکیت نوابوں‘ جاگیرداروں اور سیٹھوں کے نام تھی اب یہ ملکیت اس قدر ارزاں ہوچکی ہے کہ ہر نکڑ پر اس کے سینکڑوں خریدار نظر آتے ہیں۔پہلے وہ طوائف تھی اس ماڈرن زمانے میں وہ کال گرل ہے کبھی کبھی تواس کے ذمہ دار ماں باپ بھی ہوتے ہیں۔ یہاں عصمت چغتائی کے ناول معصومہ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’اور وہی معصومہ جو گڑیوں سے کھیلتی تھی‘ برسات میں نیم کے پیڑ میں جھولا ڈال کر سہلیوں کے ساتھ لمبے لمبے پینگ لیا کرتی تھی‘ جسے سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے‘ جسے شیلے سے عشق تھا‘اور کیٹس پر دم جاتا تھا‘ بائرن کے نام پر دل دھڑکنے لگتا تھا۔آج وہی کم عمر معصومہ جو ابھی بچپن کی وادی سے پوری طرح نکل بھی نہ سکی تھی بمبئی کے سیٹھوں‘ بلیک مارکیٹوں اور دلالوں کے ہاتھوں نیلوفر بنادی جاتی ہے۔‘‘
’’بمبئی کے دولتمندوں اور معززین کی صحبت میں معصومہ نے زندگی کے نت نئے روپ دیکھے۔ہر رنگ سیاہی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھا۔کبھی کبھی وہ خواب دیکھتی کہ وہ ایک ذرین قبر میں محبوس ہے ۔آبنوس کا کفن اسے اپنے شکنجہ میں جکڑے آہستہ آہستہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔زر بفت‘ کمخواب اور ریشم کے تھان اس کے پھیپھڑوں میں ٹھنستے چلے جا رہے ہیں‘ جگمگ کرتے جواہرات اس کے گو گوشت میں کنکھجورے کی طرح ہولے ہولے دھنس رہے ہیں۔موتی سفید کیڑوں کی طرح اس کے جسم پر رینگ رہے ہیں۔ اس کا مردہ ضمیر چیخ کر بیدار ہوجاتا اور اس سے سوال کرتا کہ آخر اتنے بڑے شہر میں کسی کو اس کی پا کدامنی اور نسوانیت کے تحفظ کی فکر کیوں نہیں؟کیا وہ والدین کے تحفظ اور بزرگوں کی شفقت میں محفوظ و مامون رہنے کے لائق نہ تھی؟کیا اس کا دل کسی نوجوان اور ناز بردار شوہر کی چھوٹی چھوٹی چاہتوں کا اہل نہ تھا؟پھر کیوں اسے بمبئی کے بوڑھے اور ہوس زدہ عیاشوں کے درمیان گیند کی طرح اچھالا جاتا رہا؟کیا چھوٹی بہن کا گھر بسانے اور بھائیوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے گوہر عصمت کی نیلامی ضروری تھی؟کیا اس کو کوکھ سے جنم دے کر گناہ کے سمندر میں دھکیلنے والی عیش پسند عورت واقعی اس کی ماں تھی؟‘‘
نظم کاتیسرا منظر ملاحظہ کیجیے۔
یہ تنگ و تار راستے
مگر یہ کس کی چیخ پر
قدم ہمارے رک گئے
کسی نہان خانہ کا لوٹا ہوا شباب ہے
کہ ہاتھ میں سماج کے شکستہ اک رباب ہے
مغنیوں کو دو خبر
کہ اس کے تار تار میں
دبے ہوئے شرار میں
نہ جانے کون راگ ہے
نہ جانے کتنی آگ ہے
مگر یہ کس کے واسطے
یہ تنگ و تار راستے
صداؤں پر صدائیں دیں
یہاں تو اب کوئی نہیں
بس اک چراغ جھلملا رہاتھا وہ بھی بجھ گیا
مژہ لرز کے رہ گئی
اور ایک نگاہ واپسیں
فسانے کتنے کہہ گئی
چتا بھی خاک ہو چکی
جوانی خون رو چکی
یہ کون شئے دبے قدم ٹھٹک کے دور ہٹ گٹی
درندے چڑھتے آرہے ہیں مرگھٹوں کی راہ میں
سیاہی بڑھتی جا رہی ہے فکر کی نگاہ میں
یہاں پوری کہانی مکمل ہو جاتی ہے عورت کے خرید و فروخت کی‘چتا میں جلنے کی‘ نہان خانہ کے شباب کی‘ وقت بدلے گا تو لفظوں کے سائن بورڈ شائد بدل جائیں لیکن بنیادی ڈھانچہ وہی رہے گا ۔نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اس نظم میں جو احتجاج ہے بالخصوص اس مصرعہ میں ’’وجود میں یہ کب سے اورکس طرح سے آگئیں‘‘ یہ بہت اہم ہے۔ اور یہ آج بھی زندہ ہے۔ اور ا سے اردو شاعری میں نسائی حسیت کا احتجاجی و باغیانہ روپ کہہ سکتے ہیں۔
یوں تو بہت سے شاعروں نے کسی نہ کسی زاویہ سے عورت کو اپنا موضوع بنایا ہے مثلاً اختر شیرانی کی سلمیٰ‘ ریحانہ اور عذرا۔ان کے ساتھ رومانی تصور وابستہ ہے۔ البتہ ’’عورت‘‘ عنوان کے تحت انہوں نے جن خیالات کا اظہارکیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے عورت کی شان میں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
جیسے یہ شعر

جہاں میں کرتی ہے شاہی مگر لشکر نہیں رکھتی
دلوں کو کرتی ہے زخمی مگر خنجر نہیں رکھتی

کیفیؔ اعظمی کے یہاں عورت کا تصور اگرچہ رومانی ہے ۔یہ رومان وہ تصور نہیں رکھتا جس میں عورت محض ایک کھلونا ہوتی ہے بلکہ دونوں برابر کے پارٹنر ہیں۔ان کی ایک نظم’’نیا حسن‘‘عنوان سے ملتی ہے۔ یہ عورت حسن کا شاہکار ہے اس کے ساتھ رومانی تصورات وابستہ ہیں لیکن یہ رومانی تصورات شریفانہ بھی ہیں اور مساویانہ بھی۔عورت کا پیکرحسین استحصال کے لیے نہیں ہے۔
ملاحظہ کیجیے۔

تیری قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دختر شہر ہے‘ تہذیب کا شہ کار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک اب نہ ہٹیں گی نظریں

حسن کا میرے لیے آخری معیار ہے تو

یہ تیرا پیکرسیمیں‘ یہ گلابی ساڑی
دست محنت نے شفق بن کے اڑھادی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمال رنگیں

تربیت نے وہ لطافت بھی سکھادی تجھ کو
کیفیؔ اس کی لطافت ‘نزاکت اورحیا کے ساتھ اس کی آگہی‘ اس کا علم اس کے حسن تربیت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ جو خواب ناک رومانی تصور دوسرے شعراء کے یہاں ملتا ہے۔ کیفی اس تصور سے اپنے آپ کو بالکل الگ رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں عورت کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جسے اپنی مرضی کے مطابق جس طرح مناسب سمجھا جائے استعمال کیا جائے۔
آخری بات!
نسائی حسّیت کا وہ تصور جو مغرب کی دین ہے دراصل عورت کے تشخص سے زیادہ عورت کی شخصیت کو محور بناتا ہے۔لیکن کیا ضروری ہے کہ ہر وہ بات جو مغرب سے آئے درست ہو؟ اس سے انکار نہیں کہ مشرق نے عورت کو انسانی مملکت میں دوسرے درجہ کا شہری سمجھا۔لیکن مشرق نے عورت کو طوائفیت کی آزادی نہیں دی۔کوشش اس بات کی کی گئی ہے کہ نسائی حسّیت کے اس تصور کو پیش کیا جائے جو فہمیدہ ریاض کی چٹکیوں میں دبے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں میں نہیں ہے ’’درید ہ چادر‘‘ہی عورت کا تشخص نہیں بلکہ حجاب بھی عورت کے تشخص سے عبارت ہے اور یہی وہ منزل ہے جہاں وہ محبوبہ بن کر شانوں پر اس کی زلفیں پریشان نہیں ہوتیں بلکہ محجوبہ بن کر شانہ بہ شانہ زلف ہستی کو سنوارنااس کا مقصد بن جاتا ہے۔ در اصل نسائی حسّیت ایک باطنی احساس کا نام ہے جس میں عورت کے وجود کا اثبات ہونا چاہیے ۔رشتوں کی بنیاد پر جس طرح ہم عورت کو مقدس اور محترم سمجھتے ہیں اس بنیاد پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر کہ وہ بھی مرد کی طرح اللہ کی مخلوق ہے۔ وہ سارے حقوق جو مرد کو حاصل ہیں اسے بھی ملنے چاہیے ۔ ان حقوق کی نوعیت اثباتی ہونی چاہیے ۔ مساوات کا مطلب ہے سماج کی طرف سے یکساں حیثیت کا تسلیم کیا جانا ۔ نسائی حسّیت کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ رشتوں سے قطع نظر عورت کو وہ جگہ دی جائے جو مرد کو حاصل ہے۔یہاں اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جمالیات یا ادب کی دنیا میں عورت کی حیثیت کو ثانوی ‘مجہول‘ آلۂ کاریا ایک خوبصورت ہی سہی ملکیت نہ سمجھا جائے۔
عام حالات میں مذہب سے کنارہ کشی اختیار کی جاتی ہے اور مذہب کی روشنی میں اگر کوئی بات کی جاتی ہے تو اسے بنیاد پرست یا Fundamentalistکہہ کے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔عصر حاضر میں دنیا کو پھر مذہب کی ضرورت کا احساس ہونے لگا ہے ‘وہ ممالک جنہوں نے مذہبی اخلاقیات کے پیش نظر عورت کے مرتبے کو تسلیم کیا ہے کم از کم انہوں نے عورت کو لباس برہنگی عطا نہیں کیاجب کہ مغرب نے آزادی کے نام پر عورت کو برہنہ کرکے اپنی دانست میں آزاد کردیا ہے۔ عورت کو کسی ایسی آزادی کی ضرورت نہیں‘بلکہ کسی کو بھی ایسی آزادی کی ضرورت نہیں جہاں واجبی ذمہ داریاں نہ ہوں اوراجتماعی اخلاق کی حد بندیاں نہ ہوں۔

الغرض نسائی حسّیت کا شعور جگہ جگہ اردو شاعری میں ملتا ہے مگر مکمل شعور کہیں بھی نہیں ہے۔ابھی مستقبل کو اس شاعر‘ شاعرہ‘ ادیب یا دانشور کا انتظار ہے جس کے یہاں نسائی حسّیت ہو اور نسائیت کی صحیح ترجمانی ہو۔ جو عو رتوں کی حالت پر آنسونہ بہائے بلکہ جو عورت کی حیثیت‘ اس کے موقف‘اس کی منزلت کا احترام بھی کرسکے‘ اس کی شناخت اور پہچان بھی کراسکے۔ عورت کے آنچل کو پرچم بنا کے عورت کو بے حجاب نہ کرے اور نہ اس کے آنچل پر نماز پڑھ کے اس کے مقدس آنچل کو مکاری اور فریب سے آلودہ کرے۔ اس میں کیا حرج ہے کہ عورت بہ حیثیت عورت اپنا صحیح مقام حاصل کرے۔

Share
Share
Share