دعاؤں کی فضیلت و اہمیت :- الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

Share
محمد ہاشم قادری صدیقی

دعاؤں کی فضیلت و اہمیت
دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟

الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

09386379632

اللہ رب العزت تمام خوبیوں کا مالک اور سارے جہان کا پالنہار ہے۔ اللہ غنی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ج (القرآن سورہ محمد، آیت ۳۸) ترجمہ: اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج (کنز الایمان) سارے بندے شاہ و گدا اللہ رب العزت کے محتاج ہیں ۔ زمین و آسمان کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں وہی جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ ج یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ ط(القرآن سورہ آل عمران،آیت ۷۳ ) ترجمہ: تم فرمادو کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے دے۔
دعا کی اہمیت و ضرورت: ہر شخص محتاج ہے انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے رب سے اپنی حاجت و ضرورت کو مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اللہ رب العزت سے بے نیازی کا شائبہ بھی نہ ہونے دے کیونکہ یہ مقامِ عبدیت اور دعا کے منافی ہے ۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔(القرآن سورہ زمر ،آیت ۸)حضور ﷺ نے فرمایا: دعا عبادت کی روح اور اس کا مغز(گودا) ہے ۔(ترمذی) رب تعالیٰ نے انبیا ء کرام و صالحین اور اپنے بندوں کو نہ صرف دعا مانگنے کی تعلیم دی بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرومیں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(المومن ،۶۰)
دعا کافروں کی بھی قبول ہوتی ہے: دنیا میں کفار کی بعض دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ کفار مصیبت میں پھنس کر دعا کرتے تھے رب انہیں نجات دے دیتا تھا۔(مفہوم سورہ انعام،آیت ۶۳)شیطان نے اپنی درازی عمر کی دعا مانگی جو قبول ہوئی۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:میں نے رب سے تین دعائیں کیں ،ان میں سے دو قبول ہوئیں۔ایک یہ کہ میری امت قحط سالی سے ہلاک نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ انہیں غرق( ڈوبا کر) بالکل تباہ نہ کیا جائے۔یہ دونوں قبول ہوئیں۔تیسرے یہ کہ آپس میں جنگ و جدال نہ ہو ،یہ قبول نہ ہوئی۔(تفسیر خزائن العرفان، صفحہ۲۱۵)حضرت ابن عباس ،ابو سعید ، ابو موسیٰ اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضور شفیع المذنبین ﷺ فرماتے ہیں : انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام سب اپنی اپنی دعا دنیا میں کر چکے ہیں اور میں نے آخرت کے لئے اٹھا رکھی ہے۔ وہ میری شفاعت ہے میری امت کے لئے۔ قیامت کے دن میں نے اسے اپنی ساری امت کے لئے رکھا ہے جو ایمان پر دنیا سے اٹھے گی۔(مسلم شریف جلد۱،صفحہ ۱۱۳،باب اثبات الشفاعۃ…الخ، بخاری جلد۲، صفحہ ۳۱۱باب فی المشیۃ والارادۃ…الخ ، فتاویٰ رضویہ ،جلد ۱۱، صفحہ ۱۳۸، اسماع الاالبعین فی شفاعتۃ سید المحبوبین) حضور علیہ السلام نے روز قیامت شفاعت امت کے لئے ایک دعا محفوظ رکھی ہے ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،حضور شفیع المذ نبین ﷺ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے مجھے تین سوال عطا فرمائے میں نے دو تو دنیا میں عرض کر لی۔ اللھم اغفر لا متی اللھم اغفر الامتی ۔اللہ میری امت کی مغفرت فرما اللہ میری امت کی مغفرت فرما اور تیسری عرض (دعا) اس دنیا کے لئے اٹھارکھی جس میں تمام مخلوق الٰہی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ و السلام و سلم وبارک علیہ(مسند احمد، صفحہ ۱۱۵)
اللہ سے دعا مانگنے کی تاکید اور نہ مانگنے پر غضبِ رب کی وعید:دعا عبادت کا مغز ہے اور دعا نہ مانگنے پر غضبِ الٰہی کی وعید ہے(القرآن) دعا کا مطلب ہے مانگنا، دعا کرنا، اصطلاح میں دعا مطلب ہے اللہ تعالیٰ سے حاجت طلب کرنا۔دعا کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی ہوتا ہے۔ اَلدُّعَا ءُ سِلَاحُ الْمُؤمِنْ وَ عِمَادُالدِّیْن وَ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَلْاَرْض۔ترجمہ: دعا مومن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے اور آسمان وزمین کی روشنی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ رب العزت جنت میں ایک شخص کا درجہ بلند فرمائے گا۔ وہ دریافت کرے گا،اے میرے رب ! میرا یہ درجہ کس وجہ سے بلند کیا گیا ؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ جواب دے گا: تمہارا یہ درجہ تمہاری اولاد کے تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی وجہ سے ہوا۔(مسند احمد بن حنبل:حدیث نمبر ۱۰۶۱۸،دعا مانگنے کے باب میں)حدیث میں ہے من الم یدع اللہ غضب علیہ۔ترجمہ: جو اللہ سے دعا نہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرمائے گا۔(فتاویٰ رضویہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۱۷۵،کنز العمال جلد۲، صفحہ ۴۲)دعا مانگنے سے جس کے مقدر میں جو لکھا ہے اس کے لئے وہی راہ آسان ہوجاتی ہے اور اس کے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے ارشا دفرمایا کہ دوزخی جنتی سب لکھے ہوئے ہیں ۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺپھر ہم عمل کاہے کوکریں، ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھیں کہ جو سعید ہیں آپ ہی سعید ہوں گے اور جو شقی (بد بخت) ناچار شقاوت پائیں گے ۔ فرمایا: نہیں،بلکہ عمل کئے جاؤ کہ ہر ایک جس گھر کے لئے بنا ہے اسی کاراستہ اسے سہل آسان کردیتے ہیں ۔ سعید (نیک) کو اعمال سعادت کا اور شقی کو افعالِ شقاوت کا ۔ پھر حضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی….الخ(بخاری جلد ۲، صفحہ ۳۵، باب قولہ وکان امراللہ قدر…الخ، مسلم جلد ۲، صفحہ ۶۳۳۳، ترمذی جلد۲،صفحہ ۳۵،ابواب القدر باب ماجا فی شقاوسعادۃ، فتاویٰ رضویہ جلد ۱۱،صفحہ ۷۷)
دعا کی تاثیر:اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: تقدیر کے آگے احتیاط کی کچھ نہیں چلتی اور دعا اس بلا سے جو اترتی آئی اور جو ابھی نہیں اتری دونوں سے نفع دیتی ہے اور بے شک بلا اترتی ہے اور دعا اس بلا سے جا ملتی ہے دونوں قیامت تک کشتی لڑتی رہتی ہیں یعنی بلا کتنا ہی اترنا چاہے دعا اسے اترنے نہیں دیتی۔( ترمذی،ابن ماجہ ، حاکم، بسند حسن سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ، الترغیب و الترہیب جلد۲، صفحہ ۴۸۲، الترغیب فی کثرۃ الدعا)
مومن کی دعا کی قبولیت میں تاخیر کی وجہ:فقید المثال حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مثنوی شریف میں انتہائی دلچسپ اور سبق آموز واقعہ تحریر فرمایا ہے۔ پڑھیں اور عبر ت حاصل کریں۔ اللہ رب العزت کی پوشیدہ مہربانی : بندہ مومن جب اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگ رہا ہوتا ہے ، اس وقت فرشتے بارگاہِ باری تعالیٰ میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا فلاں بندہ دعا میں رو رہاہے، تو جب غیروں کو عطا کرتا ہے تو اس مومن کو دینے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو جواب دیتاہے کہ یہ تاخیر(دیر) اس لئے نہیں کہ ہم اسے حقیر سمجھتے ہیں بلکہ یہ تو اس کی ایک مدد ہے ۔ اس کا رونا ہمیں پسند ہے اور اس تاخیر میں اس کی عزت و رتبہ بڑھا رہاہوں۔ اس کی ضرورت نے اسے ہماری طرف متوجہ کیا اور وہ مجھ سے مانگ رہا ہے ،اگر اس کی ضرورت جلد قبول کر لی جائے تو یہ بندہ ضرورت پوری ہوتے ہی ہم سے رخصت ہوجائے گا اور کھیل کود اور دنیا میں لگ جائے گا۔ وہ ابھی دل سے ہمیں پکار رہاہے، اس کی آواز اور اس کا یا خدا کہنا ہمیں بہت پسندہے۔مومن کی خوبیوں کی وجہ سے یہ دنیا اس کے لئے قید خانہ ہے اور کافروں کی برائیوں کی وجہ سے یہ دنیا ان کے لئے جنت اور باغ ہے جس میں وہ کھلے چرتے، کھاتے پیتے ہیں۔ مومن کی دعا کی قبولیت میں تاخیر کی وجہ یہی ہے کہ اللہ رب العزت اس کو دعا کے ساتھ اپنی جانب مصروف رکھنا چاہتا ہے۔
خزانے کا پتہ حکمتِ الٰہی:میراث والے ایک شخص نے گریہ و زاری (آہ و بکا) سے اللہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ہاتف(غیب کی آواز دینے والا فرشتہ)نے غیب سے آواز دی کہ تجھے خزانہ مصر میں ملے گا اور اسے خزانہ کی جگہ کا پتہ بھی بتا دیا۔ وہ شخص مصر پہنچا تو رات کے وقت آوارہ گردی میں گرفتار کر لیا گیا۔ کوتوال نے اسے خوب مارالیکن اس کے بعد اس کی مشکل حل ہو گئی۔ اس نے کہا میں مصری نہیں ہوں ، مجھے نہ مارو میں اپنے صحیح حالات بتاتا ہوں۔ اس نے کہا میں مصری نہیں ہوں اور نہ ہی چور ہوں ، بات سچی تھی اور سچائی سننے والے کے دل میں اطمینان پیدا کردیتی ہے۔ اس کی باتوں سے اس کی اندرونی تکلیف کا پتہ چلتا تھا ۔ اس کی درد بھری داستان سن کر کوتوال رو پڑا۔ کوتوال نے پردیسی سے کہا ،تو بے وقوف ہے کہ ایک خواب کے پیچھے بغداد سے یہاںآگیا۔ میں نے کئی بار خواب دیکھا کہ خزانہ بغداد میں ہے۔کوتوال نے خزانے کا پورا پتہ بتا دیا جو کہ اس شخص کے گھر کا پتہ تھا۔ کوتوال (وہ داروغہ جس کے تحت کئی تھانے ہوتے ہیں) نے کہا کہ میں نے یہ خواب بار بار دیکھا ہے لیکن میں بغداد نہیں گیا۔ تیری یہ بے وقوفی ہے کہ خواب پر اتنی دور چلا آیا۔ناقص عقل کے خواب بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہوتے ۔ کوتوال کا خواب سن کر اس نے اپنے آپ سے کہا کہ جب خزانہ خود میرے گھر میں ہے تو میں یہاں غریبی کی حالت میں کیوں پھر رہا ہوں۔ یہ سب میری غفلت کا نتیجہ ہے۔ اس نے سوچا خزانے کا ملنا کوتوال کی مار پرموقوف (رکا ہوا) تھا ۔ ویسے میرے پاس سب کچھ تھا وہ مجھے احمق کیوں سمجھتا ہے۔ کوتوال کی بات سننے کے بعد وہ بغداد کی جانب روانہ ہوگیا۔وہ راستے بھر حیران رہا کہ اللہ نے کہاں کا امیدوار بنایا اور کہاں عطا فرمایا۔اس میں کیا حکمت تھی کہ مجھے وطن سے بے وطن کیا اور اتنی مشقت میں ڈالا اور پھر خزانے کا پتہ بتا دیا۔ میری اس گمراہی کو محنت ومشقت کراکر کامیابی کا ذریعہ بنا دیا۔ مصر میں کوتوال کے ہاتھوں پٹوایا اور اسی کوتوال کو خزانے کا وسیلہ بنا دیا۔چونکہ خزانہ گمان کے خلاف حاصل ہوا تو اس سے انسان کا خدا پر بھروسہ بڑھتاہے اور اسباب کو مستقل نہیں سمجھتا ۔ اللہ رب العزت بعض اوقات گمراہ انسان کو ہدایت عطا فرماکر ایمان کا سبب بنا دیتاہے۔ اور انسان ہے کہ اللہ کی عطا اور بہت زیادہ احسان اور اپنی عبادت کے نتیجے میں بعض اوقات گمراہ ہو جاتا ہے۔اس لئے اللہ رب العزت نے یہ حکمت رکھی ہے کہ کوئی عبادت گزار خوفِ خدا سے خالی نہ رہے اور اپنی عبادت پر نازاں نہ ہواور کوئی بدکار گناہ گار اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ برائی میں بھلائی کو اسی لئے مخفی کیا گیاہے تاکہ اس کے اسم’’ذو اللطف الخفی‘‘(پوشیدہ مہربانی) کا مظہر سامنے آتا رہے کہ بخشنا اللہ کا مخفی لطف نہیں ہے۔ گناہ گار کو بخشنا ،نوازنا اللہ کا لطف خفی ہے ۔ یہ ہے اس کا کرم۔
حکمتِ الٰہی:فرعون نے جادوگروں کو اس لئے جمع کیا تھا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو باطل کر دیں لیکن یہی مکر الٹا ہوگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا گواہ عصا معتبر ثابت ہوا۔فرعون بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا لیکن اس کی یہ حرکت بنی اسرائیل کے لئے باعث اطمینان ہوگئی اور وہ دریا کے پانی میں ڈوبادیا گیا۔ اگر وہ مصر میں رہتا تو بنی اسرائیل کے لئے ہمیشہ درد سر بنا رہتا اوربنی اسرائیل ہمیشہ ڈرتے رہتے ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ جان لیا جائے کہ امن خوف میں پوشیدہ ہے۔ جس طرح امن وف میں مخفی ہوتا ہے اسی طرح خوف بھی امن میں مخفی ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو قتل کرنے گیا ۔ اللہ نے اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کا مشابہ (ہم شکل) بنا دیا۔ قوم اسے عیسیٰ علیہ السلا م سمجھی اور سولی پر چڑھا دیا ۔ وہ کہتا رہا کہ میں عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہوں لیکن اس کا یقین کون کرتا۔ قوم نے کہا یہ عیسیٰ علیہ السلا م ہے بہانہ بناکر ہم سے چھوٹنا چاہتا ہے تاکہ جان بچ جائے۔ جو کام اس نے باعثِ امن سمجھا اس میں خوف پوشیدہ تھا۔دنیا میں بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ انسان ان کو فائدہ مند سمجھتا ہے اور وہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس شخص نے بغداد آکر خواب کے مطابق گھر کھودا تو اسے خزانہ مل گیا۔ یہ سب کچھ اس لئے کیاکہ اس پر واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ بعض وقت نقصان دہ باتوں میں نفع پوشیدہ کر دیتا ہے۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ سبق آموز حکایت اللہ کے اس فرمان کی تشریح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بعض اوقات جس چیز کو بندہ اچھی سمجھتا ہے وہ درحقیقت ہمارے لئے بری ہوتی ہے اور جس چیز کو ہم ظاہراً برا سمجھتے ہیں وہ درحقیقت ہمارے لئے بہتر ہوتی ہے۔
دعاؤں کا قبول نہ ہونا:موجودہ دور میں ہماری دعاؤں کی نا قبولیت ہمارے اوپر بدترین لوگوں کا تسلط ہے ۔ ہمارے اپنے اعمال کانتیجہ ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دور دراز کا سفر کرے اور نہایت پریشان و پراگندگی کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر یا رب یارب کہتے ہوئے دعا کرے جبکہ اس کی غذا اور لباس سب حرام سے ہو اور حرام کی کمائی استعمال کرتاہو تو اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟(صحیح مسلم)
دعا کے وقت دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجہ رکھنا ضروری ہے۔کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس بندہ کی دعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپری دل سے اور توجہ کے بغیر دعا مانگے۔(ترمذی) غرضیکہ دعا مانگنا چاہیئے ۔کوئی بھی دعا فائدہ سے خالی نہیں ۔ اپنے گناہ و خطا پر نظر کرکے دعا کو ترک نہ کرے کہ شیطان کی بھی دعا قبول ہوئی اور اسے قیامت تک مہلت ملی۔ کہتے ہیں فرعون دن بھر خدائی کا دعویٰ کرتا اور رات کو دعا میں گریہ و زاری دعا میں مشغول رہتا۔ اسی سبب سے جاہ و حشم اور کمال و ملک اس کا مدت تک قائم رہا۔ اے عزیزو!وہ ارحم الراحمین ہے۔ اس سے ناامید ہونا مسلمان کی شان نہیں۔ جو کافروں کو نعمت سے محروم نہیں رکھتا۔ مومن کو کب محروم کرے گا۔ جس کو یہ پسند ہو کہ مشکلات کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے تو اس کو چاہیئے کہ آسائش (آرام) کے وقت کی دعا کی کثرت کرے۔(حدیث)۔یہ شکوہ غلط ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں،دعاؤں کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں :اول مانگنے والے کو عطا کردیا جاتا ہے،یا پھر دوسری صورت میں اس دعا کے بدلے کسی مصیبت کو دور کردیا جاتا ہے ۔یا پھر اس دعابدلے اللہ تعالیٰ آخرت میں اجر عظیم عطا کرتا ہے اسی لیے اپنے حق میں ہر دعا مانگنی چاہیئے اور بار بار مانگنی چاہیئے کیوں کہ رضائے الٰہی سے یہ دعائیں اس دنیا میں ہمارا بھی دفع کرتی ہیں اور آخرت میں بھی…..آپ ﷺ نے فرمایا اگر انسان گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلد بازی نہ کرے۔آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ جلد بازی سے کیا مراد ہے ؟ آ پ ﷺ نے فرمایا یوں کہنے لگے میں نے بہت دعا کی لیکن لگتا ہے میری دعا قبول نہیں ہوئی،چنانچہ نا امید ہوکر دعا چھوڑ دے(مسلم شریف حدیث)۔حضرت ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (مفہوم) اے! لوگو تمہار ے دل آٹھ چیزوں سے مردہ ہوگئے ہیں تو پھر دعائیں کیسے قبول ہوں (۱) تم نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی(۲) تم نے محبت رسول ﷺ کا دعویٰ کیا مگر سنتوں پر عمل نہ کیا(۳) تم نے موت کو برحق جانامگر اس کے لیے تیاری نہ کی(۴)تم نے اللہ کی نعمتیں کھائیں مگر اس کا شکر ادا نہ کیا(۵) تم نے قرآن مجید پڑھا مگر اس پر عمل نہ کیا(۶) تم نے عداوت شیطان کا دعویٰ کیا مگر اس کی مخالفت نہ کی(۷) تم نے دوسروں کی عیب جوئی کی مگر اپنے عیب نہ دیکھے(۸) تم نے مردوں کو دفن کیا مگر عبرت حاصل نہ کی قبروں کو ڈھاتے ہو اور بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو،مال جمع کرتے ہو مگر حساب دینے سے غافل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین پڑھنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے اللہ ہم سب کو دعا کی اہمیت و فضیلت اور آداب جاننے اور دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!

Share
Share
Share