کامیابی کی دو راہیں
عظمت علی
خالق کائنات نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسی کتاب نازل کی جو ہر زمانے کے لئے ہے۔اس میں ماضی کے انبیاء کرام کے حالات ،زمانہ حال کا تذکرہ اور مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی ہیں۔قرآن حکیم نے جہاں متعدد احکام پر عمل کرنے کاحکم دیا وہی صبر کرنے کی بےحدتلقین کی ہے۔مزید یہ کہ اللہ نے خود کو صابروں کےساتھ قرار دیاہے ۔جیساکہ ارشاد باری تعالی ٰہوتاہے :”ان اللہ مع الصابرین ۔”خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(سورہ بقرہ 153)
مولائے کائنات نے ارشاد فرمایا:”لایعدم الصبور الظفر ،وان طال بہ الزمان ۔”صبر کرنے والا کامیابی سے کبھی محروم نہیں ہو سکتا زمانہ چاہے جتنا طولانی ہوجائے ۔(نہج البلاغہ حکمت 153)
انبیاء کرام اور معصومین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنےسے یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ انہوں نے صبر کو اپنی زندگی کا اہم عنصر قرار دیاتھا ۔جیساکہ مولائے کائنات وفات رسول اعظم کے بعد پچیس سال صبر کیا ۔
جناب ایو ب کا صبر بہت مشہورہے ۔روایت میں ملتاہے کہ آپ کو ہر قسم کی نعمات سے نواز اگیا تھا ۔لیکن جب آزمائش اور امتحان کو وقت آیا ساری نعمات آپ سے واپس لے لی گئیں۔امتحان کی مدت طویل ہوتی گئی یہاں تک کہ آپ دوستوں نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنا شروع کردیا ۔صرف آپ کی بیوی آپ کے شریک غم رہیں۔لیکن ایسے سنگین حالات میں بھی آپ نے ذکر الٰہی و شکر خدا وندی سے دست بردارنہیں ہوئے اور مسلسل زبان پر شکر پروردگار کا ورد رہا۔جب وقت امتحان ختم ہوا تو اللہ نے صبر وشکیبائی کے نتیجہ میں آ پ کو پہلے سے زیادہ نعمتوں سے نوازا۔
صبر کی خاصیت ہے کہ وہ کبھی بھی تنہا کافی نہیں ہوتا بلکہ عزم محکم و عزم مسلسل ساتھ ہوتبھی کامیابی سے ہمکنار کر سکتاہے۔اسی لئے ہمارے پیشوا نے استمرار عمل کی بھی تاکید کی ہے ۔جیساکہ رسول خدانے ارشاد فرمایا:”حب الاعمال الی اللہ ادومہ وان قل ۔”اللہ کے نزدیک محبو ب عمل وہ ہےجو مسلسل انجام پائےہر چند قلیل ہی کیوں نہ ہو۔(میزان الحکمۃ حدیث 5309)
استمرار عمل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔جن حضرات کے اندریہ صفت پیدا ہوجاتی ہے۔وہ کبھی بھی ناکامی کامنھ نہیں دیکھتے بلکہ کامیابیاں ان کی قدم بوسی کرتی ہیں ۔اگر مذکورہ دوصفات کسی انسان کےاندررچ بس جائیں یا وہ انہیں اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنالے توکامیاب وکامرانی اس کا جزء لاینفک بن جائے گی ۔
گذشتہ شخصیات کے حالات زندگی کےمطالعہ سے یہ بات آشکارہوئی ہےکہ انہوں نے مشکلات کے قلعوں کو صبر سے فتح کیا اور روح فرسا حالات میں صبر کو سپر بناکر منزل مقصود کو رسائی کی ۔لیکن ساتھ ساتھ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنے عزم محکم پر قائم رہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے بے وفائی تو کر سکتے لیکن ہم اپنے مقصد سےا یک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
گویا صبر اور استقلال عمل میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔اس لئے یہ ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور انسان اسی وقت کامیابی سے بہرہ مند ہوسکتاہے جب وہ ان دونوں سے متمسک رہے ۔لہٰذا !صبراور جہد مسلسل کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔کیونکہ صبر کاپھل میٹھا ہوتا ہے ۔