ٹیگور : متعلم ، آزادی اور خود مختاری
محمد قمر سلیم
موبائل۔09322645061
ٹیگور کا اندازِ بیاں بھی کیا خوب ہے بچپن کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ’ کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کے مزے لوٹتے ہوئے بچے سمندر کے ساحل پر ملتے ہیں۔ وہ ساحل کی ریت سے اپنے گھروندے بنا تے ہیں اور وہیں خالی پڑی سیپ اورگھونگھوں سے کھیلتے ہیں۔ آسمان میں بادِ باراں بے سمت کہیں بھی چلی جا رہی ہے۔ کشتیاں پانی کی گہرائیوں میں نہ جانے کہاں طوفان زدہ ہو گئی ہیں۔کشتیوں پر موت رقص کر رہی ہے لیکن بچے ان سب سے بے خبر ساحل پر کھیل رہے ہیں۔
مندرجہ بالا سطور میں ٹیگورنے بہت خوبصورت اور انوکھے انداز مین بچپن کا تصور پیش کیا ہے۔ ان کی ان سطور سے واضح ہوتا ہے کہ بچپن ہر غم سے بیگانہ ہوتا ہے یعنی بچپن صرف بچپن ہوتا ہے ۔ بچہ اور اس کا بچپن ایک ایسا دور ہے جس میں اسے اپنے اطراف کی بھی خبر نہیں ہوتی ۔ وہ صرف اپنے میں مگن ہوتا ہے ۔بچے کے سامنے اگر طوفان بھی آجائے تو وہ اس سے بچنے کی فکر نہیں کرے گا بلکہ سوچے گا کہاں سے اسے کاغذ کا ٹکڑا مل جائے اور وہ کاغذ کی کشتی بنا کر پانی میں تیر نے کے لیے چھوڑ دے۔وہ تو اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے کہ طوفان سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہاں سمندر کا ذکر کرتے ہوئے ٹیگور بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بچے نہ تو طوفان سے ، نہ ہی ہواؤں سے اور نہ ہی پانی سے خوف زدہ ہیں کیوں کہ وہ اپنی عمر کے سب سے حسین دور میں ہیں۔لیکن افسوس ان کے بڑوں نے، ہماری تعلیم اور ہمارے اسکولوں نے ان سے ان کا بچپن چھین لیا ہے۔
ٹیگور ایک عظیم مفکر اور ماہر تعلیم تھے۔ جہاں مغرب میں روسو نے تعلیم میں مطلق العنانی کی دیواریں توڑیں، جو قدیم زمانے کی تعلیم کی اہم خصوسیت تھی، اور معلم مرکوز تعلیم کا رخ طفل مرکوز تعلیم کی طرف موڑ دیاتھا وہیں ٹیگور نے اپنے زمانے کی تعلیم کو منفی قرار دے دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آج کی تعلیم بچے کی فطری نشوونما کے خلاف ہے اور متعلم کی خود مختاری میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ ٹیگور نے کہیں بھی خود مختاری کی بات نہیں کی ہے بلکہ آزادی کی بات کی ہے۔ اور نہ ہی انھوں نے تعلیم سے متعلق کوئی کتاب لکھی بلکہ تعلیم اور بچے سے متعلق ان کے خیالات جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ کہیں انھوں نے بوائے ہُڈ میں ،تو کہیں پرسنالٹی میں تو کہیں الگ الگ اپنے خطبوں میں بچے اور اس کی تعلیم سے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹیگور نے ہر جگہ اپنے بچپن کی داستان بیان کی ہے۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے کا یہ حال تھا تو دوسرے بچوں کا کون پرسانِ حال ہوگا۔ ایک صدی پہلے ٹیگور کی جو حالت تھی آج بھی ہمارے سماج میں وہی سب کچھ چل رہا ہے۔ آج بھی بہت زیادہ تبدیلیاں نہیں آئی ہیں بلکہ تعلیم میں بد عنوانی نے گھر کر لیا ہے جو ٹیگور کے زمانے میں نہیں تھا۔
متعلم کی خود مختاری کی اصطلاح کا استعمال پہلی بار ۱۹۸۱ میں ہینری ہولیک ( Henry Holec) نے کیا تھا۔ اس کے مطابق خودمختاری ایک ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے متعلم اپنی آموزش خود کرتا ہے۔متعلم کی خود مختاری سے مراد یہ ہے کہ طالب علم کو تعلیمی عمل میں خود مختار بنایا جائے۔ استاد سے سیکھنے کے بجائے طالب علم خود سیکھے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق جو کچھ بھی سیکھتا ہے یا سمجھتا ہے وہی صحیح آموزش ہے ۔سیکھنے کے عمل میں اس کے رویّے اور برتاؤ کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ ٹیگور کے زمانے میں طالب علم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اسی لیے ٹیگور اپنے وقت کے تعلیمی نظام سے نالاں تھے۔جس کے نتیجے میں انھوں نے اپنا خود کا اسکول ’ شانتی نکیتن ‘ قائم کیا جہاں انھوں نے طلبا کو فطری ماحول کے بیچ اور مکمل آزادی کے ساتھ علم سکھایا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم متعلم کو خود مختار کیوں بنائیں؟ تمام فلسفیوں ، ماہرِ تعلیم اور ماہرِ نفسیات کے نذدیک نشوو نما کے لئے آزادی ایک اہم عنصرہے۔ اس بات سے سب ہی متفق ہیں کہ بچہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے، وہ وہی کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے ، وہ آزاد رہ کر کام کرنا پسند کرتا ہے اور وہ پابندیوں کا خیر مقدم نہیں کرتا ہے۔ان کے خیال میں بچے کی شخصیت کی مکمل اور بھر پور نشوو نما آزادی کے ماحول میں ہی ممکن ہے۔استاد یا والدین کی ضرورت صرف اس وقت پڑتی ہے جب اس کے بھٹکنے کا اندیشہ ہو۔آزادی کے ماحول میں بچہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے ۔اس عمل میں وہ متعدد غلطیاں کرتا ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔کیوں کہ وہ سیکھنے کے عمل میں پوری طرح شامل رہتا ہے اس لیے اس آموزش کے نقوش انمٹ ہوتے ہیں۔ ماہرین بچے کی شخصیت کی مکمل نشوونما کے لیے بچوں کو خود مختاربنانے کے حق میں ہیں۔
مشہور ماہرِ اقتصادیات نوبیل انعام یافتہ امرتیہ سین رقمطراز ہیں ،”۔۔۔گو کہ رابندر ناتھ ٹیگور سے بہتر ہمیں ان کے بچپن کی زندگی کے بارے میں کون بتا سکتا ہے؟ حقیقت میں، ان کی خود نوشت کا سب سے دلچسپ پہلو ان کی نو عمر ذہن سے متعلق ہے۔ایک بچہے رابندر ناتھ ٹیگور کے کیا خیالات تھے، کون سے خیالات اس نو عمر لڑکے کے ذہن میں ابھرتے تھے، اس نے اپنی دنیا کیسے سنواری ( اس کا خاندان، شہر، ملک، اور دنیا) اور رابندر ناتھ ٹیگور کی اسکول کی زندگی کتنی غمگین تھی اور جس میں تبدیلی لانا ضروری تھا۔”( انٹروڈکٹری نوٹ، رابندر ناتھ ٹیگور کی بوائے ہُڈ، رادھا چکر ورتی کا ترجمہ، ۲۰۰۷، ص۔ix)
دراصل یہی تبدیلی متعلم کی خود مختاری کی ضمانت ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ ایک صدی کے بعد بھی ہمارا تعلیمی نظام اسی دو راہے پر کھڑا ہے جہاں آج بھی متعلم اپنے ماں باپ اور اساتذہ کی خواہشات کا غلام ہے۔ہمیں ضرورت ہے اپنے تعلیمی اور اسکولی نظام کو بدلنے کی۔ ٹیگور کا آموزش کا طریقۂ کار متعلم کی خود مختاری کی طرف بڑھتا ہو ا ایک قدم ہے۔ہندوستان کے اسکولی اور تعلیمی نظام کے خلاف ٹیگور کے خیالات انقلابی تھے۔متعلم کی خود مختاری ان کے خیالات میں مضمر تھی اور اسکولی نظام کے خلاف پنی ناخوشگواری کا اظہار اپنے خیالات ذر یعے کیا۔ انھوں نے ہندوستانی اسکولوں کو فیکٹریوں سے مشابہ کیا ۔ وہ لکھتے ہیں، "ہم اپنے ملک میں اسکولوں کو ایک فیکٹری سے زیادہ اورکیا کہہ سکتے ہیں اور ہمارے اساتذہ بھی اس کا ایک حصّہ ہیں ۔”(ٹیگور، رابندر ناتھ: ٹو ورڈس یونیورسل مین، وشو بھارتی، ۱۹۶۱، ص۔۶۶)
بوائے ہُڈ کے تمہیدی صفحات میں امرتیہ سین لکھتے ہیں کہ ٹیگور کے تعلیم میں متعلم کی خود مختاری کے عناصر کو سمجھنے کے لیے اگر ہم امریکی مصنف ’ جو مارشل‘ کے خیالات کو سمجھیں تو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جو مارشل ۱۹۱۴ میں شانتی نکیتن گئے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں، ’ ان کے طر یقۂ تدریس کا اصول یہ ہے کہ ماحول ایسا ہو جہاں امن ہو اور فطرت پوری طرح جلوہ گر ہو ایسے ماحول میں انسان ہر حال میں اور مکمل طور پر آزاد اور خوش رہے گا ۔یہا ں پر اسباق کی باقاعدہ تعلیم ہوتی تھی لیکن اس میں پابندی سے بیٹھنا ضروری نہیں تھا ۔ درخت کے نیچے جماعت ہوتی تھی اور بچے زمین پر بیٹھتے تھے۔ طا لب علم اپنے ہنر اور مزاج کے مطابق پسندیدہ مضمون پڑھتا تھا ۔ اس مضمون کی تدریس کے وقت اس کا رویّہ اور صلاحیت جھلکتی تھی۔‘ مارشل کے خیالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ٹیگور کے یہاں متعلم پر پڑھائی کو لادا نہیں گیا اور نہ ہی پڑھائی بوجھ لگتی ہے بلکہ ٹیگور کے یہاں متعلم پوری طرح آزاد ہے۔مارشل ہنر، مزاج، رویّہ اور صلاحیت کی بات کر رہا ہے اور یہ سب ہی خود مختاری کے ضروری عناصر ہیں۔ٹیگور کی تعلیم میں آزادی اور فطری ماحول جیسے الفاظ خود مختاری کی معنویت میں اضافہ کرتے ہیں۔
صدیوں پہلے افلاطون اور سقراط کے طریقۂ سوال و جواب میں متعلم کی خود مختاری کے جڑیں ملتی ہوئی نظر آتی ہیں جہاں متعلم اپنی سمجھ اور سوچ کے مطابق جواب دینے کے لیے آزاد تھا۔ متعلم کی خود مختاری ہمیں روسو کے نظریۂ تعلیم میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں وہ بچے کو بے پناہ آزادی دیتا ہے۔ اس کے لیے بچہ ہی تعلیم کا محور ہے اسی بنا پر اس نے طفل مرکوز تعلیم کا نظریہ پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ منفی تعلیم کا نظریہ بھی دیا۔در اصل روسو کی منفی تعلیم متعلم کی خود مختاری کی طرف پہلا قدم تھا۔ روسو کے مطابق خود مختار متعلم وہ ہے جو اس قانون کو مانتا ہو جو اس نے خود اپنے لیے طے کیا ہے لیکن بد قسمتی سے اساتذہ مرکوز تعلیم اور اساتذہ کے مطلق العنان رویّے نے کبھی بھی متعلم کی خود مختاری کو پنپنے نہیں دیا حالانکہ زیادہ تر مفکرین، ماہرِ تعلیم اور نفسیات نے فطری طور پر بچے کی نشوو نما کو فروغ دینے کی بات کہی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اساتذہ بچوں کو خود مختاری دینے کے حق میں نہیں ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں طلبا ان کے اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لیں۔ دراصل اساتذہ خود مختاری کے مفہوم سے ہی واقف نہیں ہیں۔ خود مختاری کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ طلبا کو لا محدود اختیارات دے دیے جائیں بلکہ خود مختاری ذمے داری کا نام ہے جہاں بچوں کو ان کے خیالات و جذبات کے مطابق سیکھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
آج کے دور کے اسکولی اور تعلیمی نظام کا المیہ یہ ہے کہ متعلم کو اس کی خود کی تعلیمی نشوو نما میں کچھ کہنے کا حق نہیں ہے۔ اپنے وقت کے اسکول کی ابتر حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے ٹیگور کہتے ہیں، ’ جس طرح سے میوزیم میں مردہ مجسمے رکھے رہتے ہیں اسی طرح ہم بھی اسکول میں بیٹھتے تھے اور ہمارے اوپر اس طرح اسباق کی بارش ہوتی تھی جیسے پھولوں پر ژالہ باری ہوتی ہے۔‘ (چکرورتی، امییا، مدیر، ٹیگور ریڈر، ۱۹۶۱، ص۔۲۱۴) ان کے اسکول کے تکلیف دہ تجربات ان پر اس طرح نقش ہو گئے کہ چالیس سال کے طویل عرصے کے بعد بھی انھوں نے اس کا تذکرہ ہو بہو کیا ہے۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ،” — گھر انسانوں کے بسنے کی جگہ سے زیادہ کبوتر خانے لگتے تھے جن میں کوئی آرائش نہیں ہے، نہ کوئی تصویر ، نہ ہی رنگوں کا حسین امتزاج اور نہ ہی بچوں کو راغب کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔”(ٹیگور، رابندر ناتھ ٹیگور، ریمینیسین،Reminiscence وشوبھارتی، ۱۹۶۱، ص۔۶۰۔۶۱)
اس نظامِ تعلیم سے باہر نکلنے کے لیے ٹیگور نے اپنا خود کا اسکول قایم کیا۔ وہ اپنے اسکول کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ” اپنے اس آشرم اسکول میں میں نے ہر بچے کی خواہش کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ اس مادی دنیا کے اسکولی زندگی میں بچوں کے ساتھ مشینوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔ہر بچے کی خواہش پوری کرنے کے لیے میں نے صحرا میں قدیمی طرز پر ایک اسکول ’تپون (tapovan) قایم کیا ۔ ہمارے وقت کے اسکولوں کی چہار دیواری میں بچے اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کی مخفی صلاحیتوں کو باہر لانے کے لیے ، میں سوچتا ہوں کہ ، وہ آزادانہ طور پر سوچیں، وہ کھلے آسمان کے نیچے سیکھیں جہاں انھیں اسکول کے اصولوں اور بندشوں کی پابندی نہ کرنا پڑے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں ان کی مسرت بخش تدریس اور کھیلوں میں ان کا ساتھی رہوں۔”( بنرگی نے حوالہ دیا ہے۔ ۲۰۰۹، ص۔۲۵)
حالانکہ ٹیگور نے کبھی بھی خود مختار متعلم کی اصطلاح استعمال نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے متعلم کی آزادی کی بات کی ہے اور یہ آزادی خود مختاری سے کہیں زیادہ ہے۔ انھوں نے نہ صرف تعلیم میں ہی آزادی کی بات کہی ہے بلکہ بچے کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو لیکر بات کی ہے،۔ ان کے مطابق ،” ہمیں اپنے متعلم کو بتانا چاہیے کہ وہ کسی بھی نظریے کو کیوں اور کس لیے سیکھ رہا ہے۔اور حقیقت میں وہ کیا سیکھ رہا ہے۔ سیکھنے کا مقصد کیا ہے اور کس طرح زیادہ موثر انداز میں سیکھ سکتا ہے۔اساتذہ کو اس میں عکاسی اور حکمتِ عملی کو جاننے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہیے۔ یہاں ہم ایک انیس سال کے استاد کی روداد بیان کرتے ہیں جو ٹیگور کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ، ’ وہ کبھی بھی بچوں کی سمجھنے کی صلاحیتوں سے مایوس نہیں ہوئے، وہ جانتے تھے کہ یہ طلبا کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ سمجھے اور اچھی طرح سمجھے بلکہ ان کے ذہن متحرک ہوں اور وہ ہمیشہ اس میں کامیاب رہے۔ وہ دوسرے اساتذہ کی طرح درسی کتاب کے غلام نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی تدریس کو ذاتیات سے جوڑ دیا اور وہ خود اسکے ایک اہم ذریعہ بن گئے ۔اسی لیے انھوں نے تدریس کو زندگی کا حصّہ بنا دیا تاکہ یہ آسانی سے انسانی فطرت میں سما جائے۔”( بحوالہ: ایمس آف ایجوکیشن، نیشنل فوکس گروپ پوزیشن پیپر، ۲۰۰۶، این سی ای آر ٹی)
متعلم کی خود مختاری کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ متعلم کو مکمل آزادی اور اختیارات دے دیے جائیں ۔ بچے کی نشوونما ہر حال میں استاد کی زیرِ نگرانی ہو لیکن ہر کسی کو اس بات کو ماننا چاہیے کہ متعلم کی تمام تعلیم کا محور ہے۔ ایک استا د کو چاہئے کہ بہت محتاط طریقے سے بچے کی صلاھیتوں اور امکانات کی مکمل نشوونما کرے اور ساتھ ہی ساتھ بچے کو مکمل آزادی دی جائے تاکہ وہ خود مختار متعلم بن سکے۔ بچے کو خود مختاری سے لیس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ استاد خود بھی ٹیگور کے طریقۂ تعلیم سے مزین ہو۔ مشہور شاعر، مصنف اور فلمی ہستی گلزار کہتے ہیں:
"میری یہ خواہش ہے کہ ہر اسکول میں ٹیگور کو پڑھایا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ ان کو سمجھیں اور بچے بھی انھیں سمجھیں۔ ٹیگور کے مضامین اور تصانیف ہماری اپنی تہذیب سے بھری پڑی ہیں اور یہ تہذیب ہر فرد تک پہنچے۔ میں یہ کوئی عجوبے یا سراب خیالی کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ زمینی بات کہہ رہا ہوں۔ ان کی کہانیاں ہر دور کی کہانیاں ہیں اور یہ گہرے مشاہدے پر منحصر ہے بالکل اس طرح جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے شکایت کرتا ہے کہ بابا کتابیں لکھ رہے ہیں ، وہ کیا لکھ رہے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے؟ اور جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں اور لکھتا ہوں تو آپ مجھے ڈانٹتی ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا مجھ پر کتنا گہرا اثر پڑا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔” ( ٹائمس آف انڈیا، ۹؍اپریل ۲۰۱۶)
ہندوستان میں متعلم کی خود مختاری ٹیگور کی مرہوںِ منت ہے ۔ وہ دنیا کے کسی بھی اس مصنف و مفکر سے کم نہیں ہیں جس نے بچے کی خود مختاری کی بات کہی ہو۔بقول کیتھ لین: ” ٹیگور کی کوشش اور کار نامے کسی بھی طرح روسو، پیسٹالوزی ، فروبیل، مانٹیسری اور ڈیوی سے کم نہیں ہیں او ر نہ ہی دورِ حاضر میں مالکم نوولس سے، جو کہ غیر مطلق ا لعنانی تعلیمی نظام کے روح رواں رہے ہیں۔”
—–
حواشی:
۱۔بنرجی، ایس(۲۰۰۹) (ٹیگور، چکرورتی، امییا،) پیڈاگوجی ان پاٹھ بھون اسکول آف ٹیگورس شانتی نکیتن، جرنل آف انڈین ایجو کیشن، این سی ای آر ٹی، xxxv، نمبر ۳ ص۔۱۸۔۲۶، نومبر، آئی ایس ایس این۵۶۲۸۔۰۹۷۲)
۲۔بھٹّا چارجی، این کے، (۲۰۰۲) سلیکٹڈ رائٹنگس فار چلڈرن : رابندر ناتھ ٹیگور، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، لندن
۳۔چکرورتی، آر (۲۰۰۷) ٹیگور، آر (۱۹۴۰)بوائے ہُڈ ڈیز، نئی دلّی، پفن
۴۔ہولیک، ایچ (۱۹۸۱)آٹونومی اینڈ فارہن لینگویج لرننگ، آکسفورڈ، پرگامون پریس
۵۔نمیتا، ڈی ( ۹؍اپریل ۲۰۱۶) ٹیگور س ایسیز اینڈ راٹنگنز آر ناٹ فنٹیسیز۔۔۔دے آر ایوری ڈے اسٹوریز،ٹائمس آف انڈیا، ممبئی
۶۔ این سی ای آر ٹی (۲۰۰۵) ایمس آف ایجوکیشن، نیشنل فوکس گروپس پوزیشن پیپر، نئی دلّی
۷۔ او کونیل، کیتھلین(۲۰۰۲) رابندر ناتھ ٹیگور: دی پویٹ ایز ایجوکیٹر، کلکتہ وشوبھارتی
۸۔ٹیگور، آر (۱۹۱۷) پرسنالٹی، لندن ، میکملن اینڈ کمپنی
۹۔ٹیگور، آر (۱۹۲۹) ائڈیلس آف ایجوکیشن، دی وشوبھارتی کوارٹرلی (اپریل۔جولائی)، ص۔ ۷۳۔۷۴
——
Mohammed Qamar Saleem
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
One thought on “ٹیگور : متعلم ، آزادی اور خود مختاری :- محمد قمر سلیم”
Bahut acha aur umda mazmoon. Mubarak