نستعلیق صفت انسان
مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ؒ (۱۹۳۹ء/۲۰۰۶ء)
سابق نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
07207326738
سنگ و خشت و دیوار لپٹ کر روئے
اجنبی شہر بھی برسوں کا شناسا نکلا
۶/رجب المرجب ۱۴۲۷ھ بروز سہ شنبہ مطابق یکم اگست ۲۰۰۶ء دن ساڑھے دس بجے راقم الحروف کسی مضمون کا فوٹو اسٹیٹ کراکر دارالعلوم دیوبند کے صدر گیٹ پر پہنچا کہ دارالافتاء کے ایک ساتھی نے گھبراہٹ کے ساتھ اطلاع دی کہ مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط کا انتقال ہوگیا !انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
کیسے معلوم ہو ا؟ابھی ابھی دارالعلوم کی مائک سے اعلان ہوا ہے ۔چند منٹ میں کئی ساتھی جمع ہوگئے اورمفتی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑے ، گھر پہنچا تو کیا دیکھا کہ ایک عالم باعمل ، تجربہ کار مفتی ، قادر الکلام ،دیدہ ور شاعر،خاموش مزاج، صالح ادب کا پاسبان ، سنجیدگی و متانت کا پیکر مجسم محو خواب ہے ۔چہرے پر چمک ،نورانیت رونق وہی جو کل تھی ، کل تک صحت مند، توانا ، تندرست ،ہشاش بشاش ،اپنے کام میں مشغول اور آج عالم ناسوت سے کنارہ کش ہو کر عالم لاہوت میں جاپہنچے ،کل تک درس افتاء دے رہے تھے ،آج درس عبرت دے رہے ہیں کہ یہ دنیا واقعی فانی ہے ،بے وفا ہے ، اس کا پیشہ ہی جفا ہے ،ہر شخص ایک خاص وقت لے کر آیا ہے اس سے ایک سیکنڈ بھی زائد اس ناسوتی دنیا میں نہیں رہ سکتا ہے ۔اذا جاء اجلہم لا یستأخرون سا عۃ و لا یستقدمون راقم الحروف کے کچھ ساتھی آہ و زاری کررہے تھے تو کچھ قرآن خوانی، راقم بھی قسم ثانی میں شریک ہوگیا، تھوڑی دیر ایصال ثواب کرکے ہم لوگ واپس لوٹ آئے ۔
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو سب آئے ہیں اس دنیا میں مرنے کے لیے
ولادت و خاندانی نجابت
۱۹۳۹ء میں دیوبند کے علمی گھرانے میں آپ کی ولادت ہوئی ،آپ خانوادئے عثمانی کے عظیم سپوت تھے ۔دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مفتی ، مفتی عزیرالرحمن کی فقہی بصیرت ۔جن کے فتاوی اس وقت فتاوی دارالعلوم کے نام سے متعارف ہیں۔ ، علامہ شبیر احمدعثمانی۔ صاحب فتح الملہم۔ کی علمی گہرائی و گیرائی ، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مہتمم سادس دارالعلوم دیوبند کی انتظامی صلاحیت و قابلیت انتہائی مشہور ہے اور ایک مسلم حقیقت ہے ، آپ کے اندر یہ تمام خوبی و کمالات وراثت میں منتقل ہوگئی تھی ، آپ اپنے والد مولانا جلیل الرحمن کے فرزند ارجمند اور گل سرسبد تھے ،آپ کا پوراخاندان علم وعمل سے آراستہ تھا ، آپ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی تھے ،اور اس اخیر زمانے میں خاندان عثمانی کی وراثت کے امین تھے ۔
اخلاق و عادات
آپ خدا ترس ،خاموش مزاج ، سادہ طبیعت ، خاکسار و ملنسار ، متواضع ومنکسرالمزاج ، وقت کے پابند ، نگاہوں کے محتاط ،شفقت و محبت ،نرم خوئی و نرم گوئی جیسے اوصاف حمیدہ سے مزین تھے، ہرآشناو ناشنا سے خندہ پیشانی سے ملنا آپ کی عادت تھی، وقت کے بہت زیادہ پابندتھے، ان کو دیکھ کر لوگ اپنی گھڑی کا ٹائم ملاسکتے تھے اگر کوئی ان کو دارالافتاء کی طرف جاتے دیکھ لیتا تو سمجھ جاتا کہ گھنٹی کا ٹائم ہوگیا ہے، اپنے کام سے کام رکھتے ،بلکہ ہر وقت کام میں مصروف رہتے کبھی کوئی ان کو لایعنی کاموں میں نہیں دیکھ سکتا تھا ، غیبت ، حسد ، چغل خوری ،اور عیب جوئی سے کوسوں دور تھے، آپ کی زندگی سنت نبوی کی آئینہ دار تھی۔
علمی وراثت
اللہ تعالی نے مفتی صاحب کو مختلف علوم میں ید طولی عطافرمایا تھا ، آپ ہر میدان کے شناور اور ماہر فن تھے ، درس نظامی کی بیشتر کتابوں کی شروحات و تراجم آپ کے گوہر قلم سے آراستہ ہوکر منصہ شہود پر آئیں ۔فقہی غواصی آپ کا اصل ہدف تھا ، آپ کی فقہی گہرائی اور درک فنی اسناد کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ آپ مسلسل ۳۲ سال تک دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں نائب مفتی کے منصب پر فائز رہے اور پچاس ہزار سے زائد استفتاأت کے جوابات لکھے ۔عالمگیری کا اردو ترجمہ ، شرح جامی کی شرح اورمسلم کی شرح کے علاوہ بھی متعدد موضوعا ت پر آپ نے خامہ فرسائی اور طبع آزمائی کی ہے ۔
اردو ادب اور شعروشاعری کے تاجدار
ان تمام علوم و فنون میں مرجع خلائق ہونے کے ساتھ ساتھ آپ شعر و ادب کا پاکیزہ اور لطیف مذاق رکھتے تھے، بلاشبہ آپ دبستان دیوبند کے ادباء و شعرا ء میں انفرادی شناخت رکھتے تھے ، لا تعداد سہرے ، مرثیے ، نظمیں اور غزلیں آپ کے قلم گہر بار سے نکلیں، جو بلا شبہ علمی و ادبی اور شاعری کی دنیا میں صالح ادب کا نمایاں اضافہ ہے ۔جب آپ کا مجموعہ کلام ’’شناسا ‘‘ادبی دنیا کی زینت بنا تو آپ کو اہالیان دیوبند کی جانب سے’’ پاسبان غزل ‘‘کا ایوارڈ دیا گیا ، اس شعری مجموعہ کو پڑھ کر آپ کی شاعرانہ نازک خیالی ، شعری شعور ، فکری بلند پروازی کا پتہ چلتا ہے ۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب کے شروع میں جو دیباچہ لکھا ہے اس سے ان کی فکری بلندی ،اردو ادب کی بالغ نظری اورادبی ذوق وکمال کا خوب پتہ چلتا ہے وہ لکھتے ہیں :
تقریبا چالیس سالہ ادبی سفر کا مختصر انتخاب پیش ہے ، اس طویل ادبی سفر میں سبزہ زاروں کی بھی سیر ہے ، پھولوں کی دلآویز نکہتوں نے بھی مشام دل و جان کو معطر کیا ہے ، راہ کے کانٹے بھی والہانہ استقبال کے لیے آئے ، صحرا کے پرہول سناٹے بھی دیکھے ، گاؤں کی پگڈنڈیاں ، شہر کے صاف شفاف راستے ، قصباتی زندگی کے مناظر تجربات کی نگاہ سے گزرے ، ان سب کے مجموعی اثرسے ادب کی راہ کا مسافر کس قدر متأثر ہوا اور اشعار کی زلفوں کو کتنا سنوار کر خوبصورت انداز میں پیش کیا اس کا فیصلہ قارئین کے حوالے ہے ۔
قارئین پوری کتاب کے پڑھنے میں کیا لطف آئے گا اس ایک پیراگراف سے اسے کا بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے ،حقیت یہ ہے کہ یہ کتاب اردو ادب کا پرلطف دل آویز نمونہ ہے۔ اردو ادب کے بہترین سخن پرور و سخن سازجناب نسیم اختر شاہ قیصر ان کے شعری مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان کے اشعار میں شدت احساس ، علوئے فکر،خیال آفرینی ، اور قوت اظہار کے ساتھ صحن میکدۂ کا شعور شیشۂ مئ کی نزاکت اور باد صیح کا پیغام موجود ہے ، حقیقت یہ ہے کہ نشاط صاحب نے مسلسل تجربے اور گہرے مشاہدے پر اپنی شاعری کا قصر زریں تعمیر کیا ہے ۔
مولانا کی شاعری ، وہ ایسا چشمہ صافی ہے جو ہر جگہ روانی سے بہتا ہے ، ان کی شاعری میں ایک تسلسل ہے جو قاری کو مسحور کئے دیتا ہے، قاری ان کی غزلوں میں ڈوب جایا کرتا ہے، آج بھی کوئی اس مجموعہ کو پڑھے کو ایسا محسوس ہوگا کہ ہماری ہی دلی ترجمانی کے لیے شاعر نے اشعار کا قالب اختیار کیا ہے ،ان کے اشعار میں غزل سرائی بھی تھی اور مرثیہ خوانی بھی ، ان کا ادبی رخ ہمہ رخ تھا،وہ کبھی نظمیں لکھتے تو کبھی سہرے گویا ہر اصناف سخن پر ان کی گرفت تھی ، نعت نبی لکھتے تو عشق و محبت کی دریا میں ڈوب کر لکھتے، عقیدت کا لباس پہنتے ، محبت کا قلم اورا لفت کی روشنائی لیتے ،دل کو آب زمزم سے دھوتے ، فکری جولانی کو دیار حبیب میں لے جاتے پھر اپنے سوز دروں کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر عشق نبی اور حب نبی کا اظہار فرماتے ۔ چند اشعار ملاحظہ کریں ، گنگنائیں اور مجھے اجازت دیں ۔
کبھی لب پہ ذکر حرم رہے ،کبھی لب پہ ذکر نبی رہے
میری زندگی میں بفضل رب یونہی شمع نور جلی رہے
میری آرزو کے چراغ کو جو ملے قبول کی روشنی
نہ خیال صبح سکوں رہے ، نہ ملال تیرہ شبی رہے