افسانہ ۔ کھول دو
افسانہ نگار : محمدسعادت حسن منٹو
نوٹ: تقسیم ہند پر بے شمار افسانے لکھے گئے لیکن منٹو کا لکھا
افسانہ ’کھول دو ‘سب سے بہتر افسانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امر تسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے کو چلی آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی، راستے ميں کئ آدمی مارے گئے، متعد زخمی اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے ۔۔۔۔کيمپ کی ٹھنڈی زمين پرجب سراج الدين نے آنکھيں کھوليں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اوری بچوں کا ايک متلاطم سمندر ديکھا تو اس کی سوچنے کي قوتيں اور بھی ضعيف ہوگئيں، وہ دير تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے ديکھتا رہا، يو تو کيمپ ميں ہر طرف شور برپا تھا، ليکن بوڑھے سراج الدين کے کان جيسے بند تھے، اسے کچھ سنائی نہيں ديتا تھا، کوئی اسے ديکھتا تو يہ خيال کرتا تھا، کہ وہ کسی گہری فکر ميں غرق ہے، اسے کچھ سنائ نہيں ديتا ہے، اس کے حوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغير کسی ارادے کے ديکھتے ديکھتے سراج الدين کي نگاہيں سورج سے ٹکرائيں، تيز روشنی اس کے وجود کے رگ و ريشے ميں اتر گئ اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئ تصويريں دوڑ گئيں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولياں۔۔۔۔رات اور سکينہ۔۔۔سراج الدين ايک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھليے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کيا۔ پورے تين گھنٹے وہ سکينہ سکينہ پکارتا کيمپ کي خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپني جوان اکلوتی بيٹی کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ايک دھاندلی سی مچی ہوئی تھی، کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئ ماں، کوئی بيوی اور کوئ بيٹی، سراج الدين تھک ہار کر ايک طرف بيٹھ گيا، اور حافظے پر زور دينے لگا، کہ سکينہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئ تھی ليکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکينہ کي ماں کی لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کی ساری انتڑياں باہر نکلی ہوئی تھيں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکينہ کي ماں مر چکي تھی، اس نے سراج الدين کي آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، ليکن سکينہ کہاں تھی، جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکينہ کو لے کر جلدی يہاں سے بھاگ جاؤ۔
سکينہ اس کے ساتھی ہی تھی، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکينہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کيلئے سراج الدين نے رکنا چاہا مگر سکينہ نے چلا کر کہا ابا جی ۔۔۔۔۔چھوڑئيے، ليکن اس نے دوپٹہ اٹھا ليا تھا۔۔۔يہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کي بھری ہوئی جيب کی طرف ديکھا اور ميں ہاتھ ڈال کر ايک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکينہ کا وہی دوپٹا تھا۔۔۔۔ليکن سکينہ کہاں تھی؟
سراج الدين نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور ديا مگر وہ کسی نتيجہ پر نہ پہنچ سکا، کيا وہ سکينہ کو اپنے ساتھ اسٹيشن لے آيا تھا؟۔۔۔۔کيا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی ميں سوار تھی؟۔۔۔ راستہ ميں جب گاڑی روکی گئ تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کيا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکينہ کو اٹھا کر لئے گئے؟
سراج الدين کے دماغ ميں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئ بھی نہيں تھا، اس کو ہمدردی کي ضرورت تھی، ليکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھيلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردی کي ضرورت تھی، سراج الدين نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کي مدد کرنے کيلئے تيار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاری تھی، بندوقيں تھيں، سراج الدين نے ان کو لاکھ لاکھ دعائيں ديں اور سکينہ کا حليہ بتايا، گورا رنگ ہے، بہت ہي خوبصورت ہے ۔۔۔۔مجھ پر نہيں اپنی ماں پر تھی۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قريب اکلوتی لڑکی ہے، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکارنوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدين کو يقين دلايا کہ اگر اس کی بيٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں ميں اس کے پاس ہوگی۔یہ آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کی، جان ہتھيلی پر رکھ کر وہ امر تسر گئے، کئی عورتوں کئ مردوں اور کئ بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچايا، دس روز گزر گئے مگر انہيں سکينہ نہ ملی۔
ايک روز وہ اسی خدمت کيلئے لاری پر امر تسر جا رہے تھے، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہيں ايک لڑکی دکھائ دی، لاری کي آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کرديا، رضاکاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پيچھے بھاگے، ايک کھيت ميں انہوں نے لڑکی کو پکڑ ليا، ديکھا تو بہت ہی خوبصورت تھی، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ايک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہيں۔۔۔۔۔۔کيا تمہارا نام سکينہ ہے؟
لڑکی کا رنگ اور بھي زرد ہوگيا، اس نے کوئ جواب نہ ديا، ليکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم سلاسہ ديا تو اسکي وحشت دور ہوئ اس نے مان ليا کہ وہ سراج الدين کی بيٹی سکينہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکينہ کی دل جوئ کی، اسے کھانا کھلايا، دودھ پلايا، اور لاری ميں بيٹھا ديا، ايک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے ديا، کيونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی، اور بار بار بانہوں سے اپنے سينے کو ڈھانکنے کي ناکام کوشش ميں مصروف تھی۔ کئي دن گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔سراج الدين کو سکينہ کي کوئ خبر نہ ملی، وہی دن بھر مختلف کميپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، ليکن کہيں سے بھی اسکی بيٹی سکينہ کا پتہ نہ چل سکا، رات کو وہ بہت دير تک ان رضاکار نوجوانوں کي کاميابی کيلئے دعائيں مانگتا رہا، جنہوں نے اسکو يقين دلايا تھا کہ اگر سکينہ زندہ ہوئ تو چند ہی دنوں ميں وہ اسے ڈھونڈ نکاليں گے۔
ايک روز سراج الدين نے کيمپ ميں ان نوجوان رضا کاروں کو ديکھا، لاری ميں بيٹھے تھے، سراج الدين بھاگا بھاگا ان کے پاس گيا، لاری چلنے والی تھی کہ اس نے پوچھا بيٹا ميری سکينہ کا پتہ چلا؟
سب نے يک زبان ہو کر کہا چل جائے گا، چل جائے گا اور لاری چلادی۔
سراج الدين نے ايک بار پھر ان نوجوانوں کي کاميابی کيلئے دعا مانگی اور اس کا جی کس قدر ہلکا ہوگيا، شام کے قريب کيمپ ميں جہاں سراج الدين بيٹھا تھا، اس کے پاس ہی کچھ گر بڑ سی ہوئي چار آدمي کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دريافت کيا تو معلوم ہو کہ ايک لڑکي ريلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھي، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہيں، سراج الدين ان کے پيچھے پيچھے ہوليا، لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کيا اور چلے گئے۔
کچھ دير بعد ايسے ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گيا، کمرے ميں کوئی نہيں تھا، ايک اسٹيريچر تھا، جس پر ايک لاش پڑی تھی، سراج الدين چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کي طرف بڑھا، کمرے ميں دفعتا روشنی ہوئی سراج الدين نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل ديکھا اور چلايا، سکينہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے ميں روشنی کي تھی، سراج الدين سے پوچھا کيا ہے؟
سراج الدين کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا،جی ميں ۔۔۔۔۔ جی ميں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔
ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑی ہوئی لاش کي طرف ديکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدين سے کہا کھڑکی کھول دو۔
سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئی ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشي سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ميری بيٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔