ڈاکٹر عظمت اللہ
اسسٹنٹ پروفیسر آف اُردو
ناگر جنا گورنمنٹ ڈگری کالج
،نلگنڈہ ، ریاست تلنگانہ۔
ادبِ اطفال اور ڈاکٹر سید اسرارالحق
عصرِ حاضر میں ادب اطفال پر قلم اُٹھانے والے مصنفین اور محققین میں ڈاکٹر سید اسرار الحق صاحب کی خدمات کافی اہمیت کی حامل ہیں۔ بچوں کے ادب پر انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی موضوع پر ان کی دو کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ انھیں بچوں کے ادب سے گہری دلچسپی ہے اور بچوں سے بے انتہا محبت بھی۔
تقریباً 20 سال سے وہ درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نصاب بھی ان کی عمر اور نفسیات کے مطابق تیار کیا جائے۔ نصاب کے مسائل کو بھی انھوں نے بڑے ہی سُلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا ہے۔ بچوں کا ادب بچوں کی ضرورت ہے۔ اگر بچوں کا ادب نہ ہو تو بچوں کی زندگی بے رنگ ہوجائے۔ ان کا یقین ہے کہ ادبِ اطفال کے ذریعہ ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ بچوں کی ادبی، اخلاقی اور مذہبی تربیت کے معاملہ میں بھی وہ ایک واضح نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دورِ حاضر میں بچوں کے ادب کے معاملہ میں کوتاہی اور غفلت برتی جارہی ہے اس پرمصنف کا ردعمل ملاحظہ فرمایئے۔
’’بچوں کے ادب کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس موضوع کی اہمیت کو بڑے لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ہمارا سماج بڑوں کا سماج ہے، اس سماج میں بچوں کی ضروریات اور حقوق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے‘‘۔ ۱
انھوں نے صرف تحقیق و تنقید ہی نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے لئے ایک مختصر سا کہانیوں کا مجموعہ بھی شائع کیا جس کا نام ’’بچوں کی باتیں‘‘ ہیں۔ یہ کہانیاں اخلاقی نوعیت کی ہیں اور بچوں کی ذہنی نشوونما میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح سے وہ ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی نظریات کے حامی بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے طرز عمل سے ان کی اقتداء کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار الحق صاحب کی پہلی ادبی و تحقیقی تصنیف سنہ 2015 ء میں ’’بچوں کا ادب اور اخلاق ۔ ایک تجزیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ جس میں انھوں نے بے شمار شعراء کا اخلاقی اور مذہبی کلام بطور نمونہ پیش کیا اور اس کا تجزیہ بھی کیا۔ ادبِ اطفال کی اہمیت و افادیت پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔ بچوں کے لئے اخلاقی موضوعات کا انتخاب جیسے عقائد، عبادات، معاملات اور معاشرت جیسے عنوانات کو بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی ادب کا تجزیہ اور اس کے اثرات، حسنِ اخلاق، ادب اور اخلاق کا ربط اور بچوں کی نفسیات پر ان کے تنقیدی اشارے بھی ملتے ہیں۔ اصنافِ نظم کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے حمد، نعت، منظوم سیرت، رباعیات، قطعات، لوریاں، طفلی ترانے، گیت، کہہ مکرنیاں، منظوم پہلیاں، امیر خسرو کی پہلیاں، معصوم غزلیں، مذہبی و اخلاقی نظمیں، سائنسی و معلوماتی نظمیں، چرند پرند سے متعلق نظموں کا انتخاب ان کے تحقیقی شعور کا ثبوت ہے۔ حصۂ نثر میں سماجی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی، سائنسی، روبوٹ، بینک، انسائیکلوپیڈیا پر مشتمل کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔ اس کتاب میں تقریباً (250) ڈھائی سو نظموں اور کہانیوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اسرار الحق کی دوسری تصنیف ’’بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ اُردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔ ادب اطفال پر اس سے پہلے بھی کتابیں لکھی گئیں، تاریخ مرتب کی گئی لیکن ان کتابوں میں ایک مخصوص عہد کا جائزہ ہے۔ اس تصنیف کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تاریخ ’’ابتداء تا حال‘‘ کے ادب اطفال کا احاطہ کرتی ہے۔ تاریخِ ادب اطفال پر یہ ایک جامع تصنیف ہے جس میں بے شمار شعراء، ادباء اور مصنفین کے کارناموں کو رقم کرتے ہوئے بڑے ہی سلیقہ سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میں امیر خسروؔ ، محمد قلی، مولوی باقر آگاہ سے لے کر عہدِ وسطیٰ کے بلند پایہ شعراء و ادباء کی خدمات اور اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے عصر حاضر کے شعراء ، افسانہ نگار، صحافیوں کی خدمات کا جائزہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے بہت ہی عرق ریزی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی ہے۔
ڈاکٹر اسرار صاحب نے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہوئے تحقیق و تصنیف کو اپنا شغف بناکر اپنی علم دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ آخر میں ، میں اُمید کرتا ہوں کہ ان کے قلم سے مزید تحقیقی و تنقیدی تصانیف نکل کر منظرِ عام پر آئیں گی۔
—–
One thought on “ادبِ اطفال اور ڈاکٹر سید اسرارالحق :- ڈاکٹر عظمت اللہ”
جزاك الله خيرا الجز ء
.شايد مضمون مختصر كر ديا گیاهی.