نقالوں سے ساؤدھان
عظمت علی
آج کے ہر مذہبی رہنما کی انتھک کوشش یہی رہتی ہے کہ تبلیغی فرائض کو کس طرح انجام دیا جائے کہ اپنے حامیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے ۔ہر مذہب اپنے آپ کو حقانیت کا پیامبرکہلاتاہےاور سبھی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ہمارے مذہبی اصول کا اتباع کروگے ،فلاح پا جاؤگے ۔ہندو ،مسلمان کے اور مسلمان ،ہندو کے عقائد کو چیلنج کررہے ہیں ۔یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو غلط افکار کا پیرو سمجھتے ہیں ۔یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر (ہی)اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ( بس )عیسیٰ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔(سورہ توبہ 30)
دوسرے مقام پر یوں بیان ہوتاہے :اوریہودی کہتے ہیں کہ نصاری ٰ کا مذہب کچھ نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔(سورہ بقرہ 113)
گویا سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔اگر ایک صاحب بصیرت شخص ادنی سی تحقیق کرلے تو تمام اختلافات کی دیوارزمیں بوس ہوجائے گی اور کھراکھوٹا الگ ہوجائے گا!اگر آپ کو مذہبیات کا مختصر سابھی علم ہے تو اس بات کا بنا جھجھک اقرار کریں گے کہ دور حاضر میں اسلام سب سے تیز ترقی کی راہوں کو طے کر رہاہے ۔لوگ جوق در جوق اسلام کو گلے لگا رہے ہیں ۔آپ اگر اخبارات اورسوشل میڈیا سےجڑے ہوئے ہیں تو مذکورہ نظریہ کی تائید میں "ہاں”ضرور فرمائیں گے ۔
لیکن اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا واقعا انسانوں میں بھیڑ کی صفت آگئی ہے کہ لوگ گرو ہ در گروہ مسلمان ہوئے جارہے ہیں ؟
نہیں ! ایسا بالکل نہیں ہے !اگر یہ با ت غیر معقول اورجذباتی ہوتی تودنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مسلمانو ں کی تعداد میں روز بروز اضافہ نہ ہوتا جبکہ نہ تو وہ فکری اسیر ہیں اور نہ ہی مالی غلام!
اس بات کوسن کر ہر حق پسند کا دل باغ باغ ہوجاتاہے اور ساتھ ساتھ دشمن کا تعصبی الاؤ آتش فشاں بن جاتاہے ۔ان کی حتی المقدور یہی کوشش رہی ہےکہ لوگوں کو دائرہ اسلام سے دور رکھاجائے ۔کیونکہ اگر دین اسلام کا بول بالا ہوجائےگا تو حقوق بشر کے نام پر انسانی قاتل عدالتوں پر تالے لٹک جائیں گے اور تمام مذہبی مجرموں کی دوکانیں ٹھپ پڑجائیں گی ۔
دشمن انہیں دین اسلام سے دور کرنے سے تو رہے لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بڑی ہی سوچی سمجھی سازش رچی اور ایک جعلی اسلام کی بناء ڈال دی ۔جن کے اصول میں فریب دہی کے لئے خفیہ وائرس اور گمراہ کن راہیں شامل کی گئیں ہیں ۔انہوں نے اسلام کا گہرامطالعہ کیا اور ا س کےا صل قوانین کے کاپی رائٹ (Copyright)بنالی اور اس کا م کو اس صفائی سے انجام د یا کہ لوگ اسے حقیقت سمجھ بیٹھے ۔جس کے سبب وہ اپنی کوتاہی اور ان کی سازشوں کا شکارہوکر نقلی اسلام تسلیم کر بیٹھے ۔اس خام خیالی مذہب میں دولت وشہرت کو محو رومرکز قرار دیا گیا ۔جس کے باعث کثیر تعدا د اس کی طرف مائل ہورہی ہے اور ہونا بھی یہی ہے ۔چونکہ قرآن حکیم نے تو پہلے ہی اکثر لو گوں کو گمراہ قرار دیاہے ۔(سورہ انعام 116)
دنیا کو ہر انسان امیر اور مشہو ر شخصیت کی شکل میں ابھر کر آناچاہتاہے ۔اب اگر کسی شخص کی نظر دولت و شہرت کے ماوراء حقیقت امر پر پڑے تو وہ ڈپلیکیٹ (Duplicate)اسلام کی تہہ تک بآسانی پہونچ سکتاہے ۔ایسے عالم میں یا تو وہ دین حقیق کا پیروکار بن جاتاہےیا پھر دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوکر اپنی زبان پرلگام لگالیتاہے ۔اس ناقص مذہب کی رشدونمو کی ایک وجہ یہ ہےکہ و ہ اسے بہترین قالب میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں اور سامنے والا نظروں کا دھوکا کھاکر بہکاوے میں آجاتاہے۔
جہاں تک حقیقی اسلام کی بات ہے اس کی تعداد ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے ۔تاریخ اسلام میں اس کی انگنت مثالیں ملتی ہیں ۔رسول خدا اور ائمہ معصومین کے دور میں حق پر ثابت راہ رو کی تعداد کم ہی تھی۔مثلا جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ جبکہ کفار کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی ۔اسی طرح کرب وبلاء میں امام حسین کے اصحاب وانصار کی تعداد اکہتر تھی جبکہ مد مقابل دشمنوں کی تعداد ہزاروں ،لاکھوں تک تھی۔
لہٰذا!ہمیں کبھی بھی تعداد کو معیا ر نہیں بناناچاہئے اور ابھی اپنے عقائد پر نظر ثانی کرلینا چاہئےکہ کہیں ہم بھی بھیڑ کی طرح بھیڑکاشکار تو نہیں !!!
آج کے روپ دھاری مسلمانوں نے حقیقی اسلام کی بیخ کنی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور اس "گھاگھرا” ندی کے مانند آگے بڑھ رہےہیں جو لوگوں کے گھروں کی بنیادوں کو اکھاڑکر خود میں وسعت پیدا کرتاچلا جارہاہے ۔
اللہ نے ہم سب عقل سلیم عطا کی ہے ۔اس لئے اب یہ ہماری ذمہ داری ہوتی ہےکہ اپنے اعمال وافعال کو اچھی طرح جانچ لیں ۔اگر راہ ہدایت پر ہیں تو شکر خدا کریں اور اس پر ثابت رہنے کی دعا کر تے رہے ۔اگر بہک جاگئے ہیں توابھی بھی سویراہے ،لوٹ آئیں ۔