مسلم پرسنل لاء بورڈ کا حالیہ اجلاس
چند معروضات
مولانا سید احمد ومیض ندوی
(استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)
Email:
Mob: 09440371335
عاجز راقم الحروف ملت کے اس سواد اعظم میں سے ہے جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتا ہے، اور اسے ملک میں ملت کا سہارا اور مسلمانوں کی آنکھوں کاتارا سمجھتا ہے،
کون نہیں جانتا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ فی الواقع اسلامیان ہند کا قیمتی سرمایہ اور امتِ مسلمہ کے دل کی دھڑکن ہے، اس عاجز کا معمول ہے کہ جب کبھی بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے، اجلاس سے قبل یا اجلاس کے بعد ضرور کوئی تحریر سپرد قرطاس کرتا ہے، جس میں مسلمانوں کو ملتِ اسلامیہ کے اس عظیم متحدہ پلیٹ فارم سے وابستگی کی تلقین ہوتی ہے- گذشتہ ہفتہ جب بورڈ کا ۲۶واں اجلاس شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں اختتام پذیر ہوااور معمول کے مطابق کچھ لکھنے کا خیال ہوا تو پتہ نہیں کیوں قلم کو جنبش دینے کی ہمت نہیں ہوتی، حیدرآباد کے حالیہ اجلاس میں جس قسم کا ہنگامہ ہوا اس سے ملت کا ہرفرد صدمہ سے دوچار ہے، جس حیدرآباد نے بورڈ کی تشکیل اور اسے پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، آج وہیں ایسا منظر دیکھنے کو ملا کہ ملتِ اسلامیہ کا درد مند طبقہ درد سے چیخ اٹھا، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ محض ایک ادارہ ہی نہیں؛ بلکہ مسلمانوں کے اتحاد کی علامت ہے، جس سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان مربوط ہیں، اس میں پیدا ہونے والا ہلکا سا انتشار دشمنوں کو موقع فراہم کرسکتا ہے،حالیہ اجلاس اور اس کے جلسہ عام میں پیش آئے واقعات کو لے کر بعض ملت کے درد مند احباب یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ بورڈ کو نظر لگ گئی ہے، جہاں تک اختلاف رائے کی بات ہے تووہ اجتماعی زندگی کا لازمہ ہے، جہاں چند افراد مجتمع ہوں گے ان کے درمیان اختلاف رائے ہونا فطری چیز ہے، اس قسم کا اختلاف عہد صحابہ میں بھی رہا ہے اور خیرالقرون میں بھی؛ لیکن ان مبارک زمانوں میں کبھی اختلاف ہنگامہ ، انتشار، آپسی بے احترامی اور توہین کا سبب نہیں بنا، رائے میں اختلاف کے باوجود آپسی احترام کو ملحوظ رکھا جاتا تھا،نہ سر پھٹول کی شکل پیدا ہوتی اور نہ ہی ایک دوسرے کی پگڑی اچھالی جاتی، دور خیرالقرون میں نہ اختلاف رائے کرنے والے کو اپنی رائے پر اصرار ہوتا تھا اور نہ مخالف رائے رکھنے والے اس کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آتے تھے؛ لیکن دور حاضر کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، اب نہ اختلاف رائے کرنے والوں کو وقت اور موقع کی نزاکت کا خیال ہوتا ہے، اور نہ ہی دوسروں میں ایسی کسی ہنگامی صورت حال سے حکمت وتحمل کے ساتھ نمٹنے کا سلیقہ ہوتا ہے، پھر رہی سہی کمی سوشیل میڈیا کا بڑھتاہوا استعمال پوری کردیتا ہے، اس وقت سوشیل میڈیا کا غیر ضروری استعمال جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے، پہلے سے مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ملت کو مزید باٹنے اور اس کا شیرازہ منتشر کرنے میں سوشیل میڈیا کلیدی رول ادا کررہا ہے، میڈیا کے اس اہم ذریعہ کے متعارف ہونے سے پہلے ہرشخص کے لیے اپنی رائے یا تأثرات کا آسانی کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا ممکن نہیں تھا، اخبارات یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ معاشرہ کا مخصوص طبقہ ہی اپنے تأثرات دوسروں تک پہنچا سکتاتھا؛ لیکن اب جب کہ سوشیل میڈیا کا رواج عام ہوچکا ہے،ہر شخص اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے میں آزاد ہے، سوشیل میڈیا پر بعض احباب کی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے جیسے وہ سارے کاموں کو چھوڑ کر اسی کے لیے فارغ ہوچکے ہیں، وقت انسان کا قیمتی سرمایہ ہے،اسے غیر ضروری لن ترانیوں میں ضائع کرنے کے بجائے مثبت اور تعمیری کاموں کے لیے استعمال کرنا چاہیے، سوشیل میڈیا ایک نعمت ہے؛بشرطیکہ اس کا مثبت استعمال کیا جائے،بعض لوگ ملی اتحاد سے تعلق رکھنے والے نازک مسائل میں سوشیل میڈیاپر آگ بجھانے کے بجائے آگ کو مزید بھڑکانے کافریضہ انجام دیتے ہیں، ملی مسائل میں سوشیل میڈیا کس قدر منفی کردار ادا کررہا ہے اگر اس کاکچھ اندازہ کرنا ہو توجماعتِ تبلیغ میں رونما ہونے والے اختلاف سے متعلق سوشیل میڈیا پر پیش ہورہے مواد کو ملاحظہ کیجئے،ہر گروہ دوسرے سے متعلق ایسی من گھڑت خبریں اور مضامین شائع کررہا ہے جنھیں پڑھ کر دوریاں کم ہونے کے بجائے فاصلے مزید بڑھتے چلے جاتے ہیں،اس وقت سوشیل میڈیا پر بابری مسجد سے متعلق دیا گیا ملک کے معروف عالم دین کا وہ بیان موضوع بحث بنا ہوا ہے، جس پر بورڈ کے حالیہ اجلاس میں زبردست ہنگامہ ہوا تھا، موبائل پر بس واٹس ایپ کھولنے کی ضرورت ہے، تبصروں اور نازیبا کلمات کا ایک سیلاب امڈ پڑے گا، تبصرہ کا حق ہر ایک کو ضرور حاصل ہے؛ لیکن حدود وآداب کی رعایت بھی ضروری ہے۔
مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب ملک کے نامور عالم دین اور ایک عظیم خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں، زبان وقلم کی بے پناہ صلاحیتوں کے حامل صاحب بصیرت شخصیت ہیں، ملک وملت کے لیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، بابری مسجد کے تعلق سے انھوں نے جو رائے دی ہے اس سے کسی طرح اتفاق نہیں کیا جاسکتا، ان کی رائے ملک بھر کے علماء اور جمہور سے مختلف ہے، بہتر تھا کہ مولانا حیدرآباد کے اجلاس سے بہت پہلے انفرادی طور پر مختلف اکابر علماء سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیال کرتے اوربورڈ کی مختلف شخصیتوں سے مل کر ان کے سامنے اپنی رائے رکھتے، ڈبل شری سے تنہا ملاقات کرنے کے بجائے کچھ اکابر شخصیات کو ساتھ لیتے؛ لیکن مولانا نے عجلت کا مظاہرہ فرمایا،اور عین اجلاس سے قبل ڈبل شری سے ملاقات فرمائی، جس سے مختلف قسم کے شکوک وشبہات کو راہ ملی، اس پر مستزاد یہ کہ بورڈ کے اجلاس عاملہ میں انھیں اپنی بات مکمل کرنے نہیں دیا گیا، جس سے وہ طیش میں آگئے، پھر کیا تھا رد عمل کی نفسیات پیدا ہوئیں اور ان کی زبان سے کچھ ایسی باتیں نکل پڑیں جو کسی طرح مناسب نہیں تھی، یہ صحیح ہے کہ غیر عالم سیاسی قائدین کو شریعت کا تفصیلی علم نہیں ہوتا؛ لیکن اظہار برہمی کرتے ہوئے انھیں ان کی کم علمی کا طعنہ نہیں دیاجاسکتا، ملت کو ہر طبقہ کی ضرورت ہے، اور ہر دو طبقہ کے قائدین لائق احترام ہیں، مولانا سید سلمان حسینی ندوی سے بابری مسجد مسئلہ کے حوالہ سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے؛ لیکن اس کی بنیاد پر ان پر سودے بازی کا الزام لگانا اور ان کے خلاف محاذ آرائی کرنا قرین انصاف نہیں ہے، بابری مسجد کے تعلق سے مولانا نے جس قسم کی رائے کا اظہار کیا ہے اس سے قبل بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق نے بھی کچھ اسی قسم کی رائے ظاہر کی تھی؛بلکہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق بورڈ کے کچھ دوسرے ممبروں نے بھی اس سلسلہ میں خفیہ ملاقاتیں کی ہیں، بورڈ کے سابق صدر حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ اس قضیہ کو ختم کرنے کے لیے یہ رائے رکھتے تھے کہ بابری مسجد کے صحن میں رام مندربننے دیا جائے؛ تاکہ بابری مسجد محفوظ رہ سکے، نہ صرف یہ کہ ان کی رائے کی شنوائی نہیں ہوئی ؛ بلکہ انھیں اس رائے پر مطعون بھی کیا گیا، مولانا علی میاں ندوی بابری مسجد کو بچانے کے لیے اس سے متصل اراضی ہندوؤں کو دینے کے حامی تھے، اس پورے تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے بجائے اس کے کہ مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے خلاف گالی گلوج اور الزام تراشیوں کا ایک مستقل محاذ کھولا جائے، ان کے ذاتی جھگڑے اور دیگر علماء سے ان کے فکری اور ذاتی اختلافات کا حساب وکتاب چکایا جائے، بہتر یہ ہے کہ بورڈ کے اکابر علماء افہام وتفہیم کے ذریعہ انھیں دوبارہ اپنے ساتھ شامل کرلیں، ہمیں اپنے اکابرین سے امید ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت کو جس نے کاروان تحفظ شریعت میں اہم رول ادا کیا ہے، ضرور دوبارہ اس کارواں میں شامل کرلیں گے، دوسری جانب ہمارے علماء اور سیاسی قائدین کو یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ رائے مسترد ہونے سے شخصیت مسترد نہیں کی جاسکتی، مولانا سلمان حسینی ندوی کی رائے کسی طرح قابل قبول نہیں ہے؛ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کی نیت پر حملہ کیا جائے اور ان پر سودے بازی جیسا سنگین الزام لگایا جائے اور ہزاروں مسلمانوں کے اجتماع میں انھیں شیطان کا ایجنٹ اور منافق کہا جائے گا، ایک عام مسلمان بھی شیطان کا ایجنٹ نہیں ہوسکتا؛ چہ جائے کہ کسی عالم دین کی طرف اس کی نسبت کی جائے،کردار کشی کی یہ مہم ملت کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتی، یہ علماء کی توہین ہے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک ایسا عالم دین جس کی بے لوث خدمات اور ملت کے لیے قربانیوں کا طویل سلسلہ ہے، اور جس نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ جیسے بزرگوں کی صحبت اور تربیت پائی ہے، کیا وہ ایسی نیچ حرکت پر اتر سکتاہے کہ ملت کے اہم مسئلہ میں غیروں سے سودے بازی کرے؟ برہمی اور طیش کے عالم میں آدمی کیا سے کیا کہہ دیتا ہے، ہمیں نسبت سادات کا تو لحاظ رکھنا چاہیے تھا، بتایئے صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کی موجودگی میں جب اس قسم کی باتیں ہوئیں تو مولانا کے دل پر کیا گزری ہوگی؟ ہمارے سیاسی قائدین بھی ہمارے لیے لائق احترام ہیں؛ لیکن حضرات علماء کرام امت کا ایسا اثاثہ ہیں کہ اگر ہماری کسی زیادتی کی وجہ سے عام مسلمانوں کا اعتماد ان سے اٹھ جائے تو یہ ملت کا بڑا نقصان ہوگا، اس وقت ملک میں عوام کو علماء سے کاٹنے کی ایک مہم برپا ہے، دعوت وتبلیغ کے موجودہ اختلاف سے بھی اس مہم کو بڑی تقویت مل رہی ہے،یہ صورت حال ملک کے مسلمانوں کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے، علماء اور سیاسی قائدین کا آپسی تال میل ضروری ہے،ہر ایک کو دوسرے کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے، سوشیل میڈیا کے مجاہدین سے گزارش ہے کہ وہ ضرور اظہار خیال کریں؛ لیکن جلتی پر تیل کا کام کرنے سے گریز کریں، ہمارے قلم کی توانائی امت کو جوڑنے کے لیے صرف ہونی چاہیے، ہماری کسی تحریر سے اگر عوام علماء سے کٹتے ہیں تو یہ ہمارے لیے بڑے خسارے کی بات ہوگی، یہ وقت پرانی خصومتوں کو جگانے اور انتقام لینے کا نہیں ہے، امت بہت بکھر چکی ہے، اسے مزید بکھرنے سے بچایئے، ملت بہت ٹوٹ چکی ہے، اسے مزید ٹوٹنے سے بچایئے، اس وقت ملک میں مسلمانوں کے خلاف جس قسم کی فضا بنائی جارہی ہے اس سے کون واقف نہیں، ہمارے مذہبی تشخص کو مٹانے کی نہ صرف منصوبہ بندی ہوچکی ہے؛ بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا جانے لگا ہے، نصاب تعلیم کو بدل دیا جارہا ہے، اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش جاری ہے، شریعت میں مداخلت کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں، مسلمانوں کی سیاسی قوت کو ختم کرنے کے لیے مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے، ان حالات میں ہمیں بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور درون خانہ پیدا ہونے والے مسائل کو حکمت سے نمٹنا ہوگا، یہ عاجز راقم الحروف حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی خدمت میں بھی دست بستہ عرض کرتا ہے کہ خدا را ملت کے اجتماعی مفاد کی خاطر اپنے بڑوں کی بات مان جایئے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسینی نسبت سے سرفراز فرمایا ہے؛ مگر اس وقت ملت کو متحد رکھنے کے لیے حسنی کردار نبھایئے، جمہور سے ہٹ کر نئی راہ اپنانا خطرات سے خالی نہیں ہے، بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اخیر میں بورڈ کے بزرگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سارے بہی خواہان ملت کی جانب سے عرصہ سے بورڈ میں پائی جانے والی بعض کوتاہیوں کا شکوہ کیا جارہا ہے اور ان کے ازالہ کے لیے بورڈ کے ذمہ داروں سے مخلصانہ گزارش کی جارہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ بورڈ کے اکابرین ان شکایتوں پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بورڈ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، مولانا سلمان ندوی نے بھی اگرچہ تلخ لب ولہجہ اختیار کیا؛ لیکن اس قسم کی بعض باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اکثر کہاجاتا ہے کہ بورڈ میں ارکان کے انتخاب کے طریقۂ کارپر نظر ثانی کی جانی چاہیے، بعض علماء کا کہنا ہے کہ بورڈ پر کچھ مخصوص شخصیات کا تسلط ہے، جو ملت کے مفاد میں نہیں ہے، کچھ افراد کا کہنا ہے کہ بورڈ کو کسی سیاسی جماعت کا ضمیمہ نہیں بننا چاہیے، یہ اور اس قسم کی اور باتوں میں اگر فی الواقع صداقت ہے تو ان کی اصلاح پر فوری توجہ دینی چاہیے۔