بانو اور اشفاق کا زندگی نامہ
دبیر عباس و ریاض حسین
اسسٹنٹ پروفیسرز اُردو
بانو آپا ہماری ادبی تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ انھیں اردو کی خواتین قلم کاروں میں امتیاز حاصل ہے۔ اُن کا قلم حال ہی میں اچانک خاموش ہو گیا لیکن اس قلم کی باز گشت تا دیر سنی جا سکے گی۔ اُن کی لکھت، بالخصوص کہانی نگار کے طور پر منفرد رہے گی۔
انھوں نے اپنی خود نو شت "راہِ رواں” میں معاصر ادب اور تخلیق کے حوالے سے ایک اہم نقطہ اٹھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں۔
آج کا ادب وہ لوگ تخلیق کر رہے ہیں جو زندگی سے disillusionہو چکے ہیں۔ سچ پوچھیے تو فکشن بد حواسی اور دل گیری کی فضا میں پلتا ہے۔ افسانے ، ناول خوف اور فکر سے لبریز ہیں۔۔۔۔۔۔ اس بے یقینی میں ادیب ایسا فکشن لکھنے پر مجبور ہے، جس میں خوف، مکر اور زیاں کا احساس خمیر کی طرح رچا بسا ہے۔۱
بانو نے معاصر تخلیق فضا کی جس گھٹن کا اطہار کیا ہے، یقیناً وہ خود کے لیے استثنیٰ نہیں مانگتیں۔ اُن کی خود نوشت، جسے خود نوشت کہتے ہوئے جھجھک محسوس ہوتی ہے کیوں کہ کہنے کو یہ بانو کی آپ بیتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اشفاق صاحب کا زندگی نامہ ہے۔ بانو اور اشفاق کا امتزاج یا کش مکش اُن کی ساری ادبی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی ادبی شناخت کو اشفاق کے پاس رہن رکھ دیا ہے اور اس خود سپردگی سے یقیناً انہیں تسکین اور طمانیت بھی حاصل ہوتی ہو گی، لیکن اس عنایت کے سبب آج کی عورت insecureہو گئی ہے۔
"راہِ رواں ” کی غایتِ اولیٰ اور اس کے تخلیقی محرک بانو کے اشفاق ہی ہیں۔ وہ اپنی زبانی خود بتاتی ہیں۔
ٓسال بھر سوچنے کے بعد میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اس بات پر راضی کیا کہ آپ کے ساتھ اپنے ہم سفر کو کسی باغ کی اکیلی بنچ پر بیٹھ کر یاد کروں۔۲
آگے چل کر وہ قارئین کو ایک اور خبر دیتی ہیں کہ "راہِ رواں ” میں، مَیں نے ایسا مواد فراہم کر دیا ہے، جس سے مستقبل کا محقق اشفاق صاحب کو بہ آسانی سمجھ سکے گا۔ حالاں کہ بابا صاحبا کی صورت میں ایسا مواد پہلے ہی فراہم کیا جا چکا ہے۔ بلکہ بانوں کی بیشتر تحریروں میں آپ کو اشفاق بغیر تلاش کے مل جاتا ہے۔ حق تو یہ تھا کہ”راہِ رواں ” کے مطالعہ سے ہمیں اشفاق کی بانو مل جاتی۔ وہ بانو جو ایک سچی اور کھری تخلیق کار تھی اور جن کی کہانی تخلیقیت سے بھر پور تھی۔
اُن کے ایک نہایت قریبی رفیق اور ادیب ممتاز مفتی نے بانو کی شخصیت اور فن پر عجیب تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
بانو بہت بڑی مفکر ہے۔ وہ ہر بات میں صاحبِ رائے ہے، عقل و خرد سے بھر پور ہے لیکن جب اشفاق طلوع ہوتا ہے تو سب کچھ سپاٹ ہو جاتا ہے۔ عقل و خرد اور دانش وری۔۳
یہ بات سمجھنا دشوار ہے کہ مفتی صاحب نے تحسین کی ہے یا تردید۔ انھوں نے لیکن کا جھاڑو چلا کر سب کچھ سپاٹ کر دیا۔ شاید بانو کی تحریروں کا یہی سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے اور اور سب سے مرغوب موضوع بھی۔ یہیں سے اُن کی ادبی زندگی کا المیہ جنم لیتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے اُن کی ادبی شناخت المیے کا روپ دھار لیتی ہے۔
اشفاق نے نہ صرف اپنی تخلیقی شخصیت بلکہ اپنی شریکِ حیات کی ادبی حیثیت کو گزند پہنچائی ہے۔ اشفاق کا صوفی رنگ نہ صرف بانو کی ذات تک محدود رہا بلکہ اُن کی تحریر کو بھی مجروح کر گیا۔ وہ خود تو ملامتی تھے ہی، بانو کو بھی ملامتی کر گئے۔ اس حوالے سے اُن کے قریبی دوست یوں تبصرہ کناں ہیں۔
اشفاق بیوی کی آمد کے بعد بالکل ہی دیوتا بن گیا۔ کانٹا اشفاق کو چھبتا ہے تو درد بانو کو ہوتا ہے۔ ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے تو آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں۔۴
روحانیت، رومانویت اور مافوق الفطرت عناصر جہاں اظہار کے بہت تواناذرائع ہیں وہاں ایک سطح پر یہ عارضہ بھی بن جاتے ہیں، جس سے شخصیت اور فن دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ بانو کے ساتھ بھی شاید یہی ہوا ہے۔ اُن کی تخلیقی حیثیت اس کش مکش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے وہ خود لکھتی ہیں۔
میں اس وقت جہاں کھڑی ہوں، یہ دنیا ضرورتوں سے بھری ایک بوگی ہے اور ان چھوٹی موٹی
ضرورتوں نے میرے چاروں طرف اندھیرا کر رکھا ہے۔ لیکن جب میں خود سے بندھی اُس
مضبوط ڈور کے آخری سرے کی طرف نظر کرتی ہوں تو وہاں مجھے روشنی ہی روشنی دکھائی دیتی
ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ مضبوط ڈور راجہ گدھ سے شروع ہو کر مفتی جی کی لبیک سے ہوتی ہوئی
اشفاق احمد کے زاویہ تک جاتی ہے۔۵
یہ بات ہمیں غالب پہلے ہی سمجھا گئے تھے۔
جس کو ہو دین و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں
یہ حال بانو کی”راہِ رواں ” کا بھی ہے کہ وہ خود نوشت ہوتے ہوئے بھی خود نوشت نہیں لگتی۔ اُسے ہم اشفاق کی سوانح حیات کہ سکتے ہیں۔ سوانح اور خود نوشت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سوانح میں کسی شخص کے حالاتِ زندگی کا بیان کسی دوسرے شخص کے قلم سے ہوتا ہے جب کہ خود نوشت میں مصنف حالاتِ زندگی خود اپنے قلم سے لکھتا ہے۔ مولانا وحیدالدین خان نے ایک بہت خوب صورت بات کہی ہے کہ انسان کی انسانیت کا سب سے بڑا اظہار نطق کی سطح پر ہوتا ہے۔ ادب کا نطق تحریر ہے اور خود نوشت جو اظہارِ ذات کا سب سے موئثر ذریعہ ہے ، اسے ذات کا نطق کہ سکتے ہیں لیکن یہاں بھی بانو آپا الجھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ خود نوشت اور سوانح میں بہر حال ایک دوری موجود ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ہم دُور کو نزدیک کہ دیں جیسا کہ عطیہ سید نے ہیئت اور تکنیک کے پسِ پردہ ان دونوں اصناف کو جڑواں قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ
دونوں (خود نوشت اور سوانح) کا مقصد نفسِ انسانی کی داستان سنانا ہے اور نفسِ انسانی ایک موضوعی سچائی ہے، جس کے اظہار کے لیے سوانح نگار اور خود نوشت نگار مختلف وسیلوں سے مدد لیتے ہیں۔ اس طرح سوانح اور خود نوشت سوانح کو ادبی ہیئت، موضوع، مقصد اور تکنیک کے اعتبار سے جڑواں صنفِ نثر قرار دیا جا سکتا ہے۔۶
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اصناف میں بعد پایا جاتا ہے۔ اگر ہم خود نوشت کے معیارات کا جائزہ لیں اور پھر اُن معیارات پر "راہِ رواں ” کو پرکھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ سب سے عمدہ بات یہ کہی گئی ہے کہ ایک عمدہ خود نوشت زندگی آمیز ہی نہیں، بلکہ زندگی آموز بھی ہوتی ہے لیکن امکان ہے کہ ادب برائے ادب کے قائل احباب اس بات پر ناک چڑھا دیں، سو اُن کی تسکین کے لیے بھی ایک بات عرض کر دیتا ہوں۔ کسی نے کہا تھا کہ آپ بیتی لکھنا فوٹو گرافی کا کام نہیں بلکہ سکیچ بنانے اور اُس میں رنگ بھرنے کا عمل ہے۔ بانو یقیناً کہانی بُننے اور رنگ بھرنے کا ہنر خوب جانتی ہیں لیکن "راہِ رواں ” میں اُن کا یہ ہنر ہانپتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اعلیٰ ادب کے اوصاف کیا ہونے چاہیءں، اس حوالے سے وہاج الدین علوی کی یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ
ادب کے سلسلہ میں دو قدروں کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے اور وہ ہیں حُسن اور عظمت۔ بعض فنی کارنامے اپنے اندر نفاست، احساسِ تکمیل ، قرینہ(symmetry) اجزائے ترکیبی میں اندرونی ربط اور موزونیت (adequacy) بدرجہ کمال رکھتے ہیں اور انھیں پڑھ کر ترشے ہوئے ہیرے کا احساس ہوتا ہے۔۷
زندگی کی کہانی لکھنا اتنا آسان کام نہیں ہے اور پھر لکھنے والا سنگھارشن پر بیٹھا ہو تو توقعات بھی اُسی قدر بلند ہوتی ہیں۔ لیکن بانو آپا کا زندگی نامہ نہ تو اُن کی اپنی زندگی ہے اور نہ ہی اشفاق کی معلوم ہوتی ہے۔ یہ تو کوئی زندگی کی کوئی مخنث صورت دکھائی دیتی ہے۔دراصل "راہِ رواں ” میں بانو قدسیہ نے اپنی تخلیقی شناخت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔مولانا وحید الدین خان نے ایک بہت کمال کی بات کی تھی کہ انسان کی انسانیت کا سب سے بڑا اظہار نطق کی سطح پر ہوتا ہے اور نطق کی ادبی شکل تحریر ہے۔ اظہارِ ذات نطق نگاری سے خود نوشت میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں ایسے اوصاف کا ہنا ضروری ہے جو تخلیقیت کی نشان دہی کر سکیں۔کیوں کہ آپ بیتی لکھنا فوٹو گرافی کا نہیں بلکہ سکیچ بنانے اور اُس میں رنگ بھرنے کا عمل ہے۔
بانو آپا یقیناً بڑی چتر کار ہیں اور رنگوں کی نفسیات اور اثرات سے بخوبی آشنا ہیں۔اور ان کی پکچر گیلری میں بڑی بڑی خوب صورت تسویریں اور سکیچ نظر آتے ہیں لیکن "راہِ رواں ” میں آ کروہ تھکی تھکی محسوس ہوتی ہیں۔اس حوالے مستنصر حسین تارڑ نے بھی اپنے ایک کالم میں لکھاکہ بانو آپا کے راہِ رواں میں قدم قدم پر بھٹک جانےء کے آچار دکھائی دیتے ہیں اور اسی بھلکڑ پن نے یاداشت کے تسلسل میں رخنے ڈالے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی رو ٹوٹتی جڑتی دکھائی دیتی ہے۔
"راہِ رواں ” کی ابواب بندی بھی تساہل کا شکار دکھائی دیتی ہے اور اس کے ساتھ بانو نے اپنی تخلیق شناخت اور نفیِ ذات کا سودا کرکے مذکورہ تصنیف کے حسن کو گہنا دیا ہے۔اشفاق صاحب کو ملامتی صوفی کہا گیا ہے، اس معاملے میں بھی بانو اُن سے دو قدم آگے دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے جا بجا اشفاق صاحب کی مدح سرائی کی ہے۔
روحانیت اور رومانویت کا یہ امتزاج کاسمیٹکس سا لگتا ہے۔ اس شوقِ شہادت میں لگتا ہے کہ بانو نے اپنی تخلیقی شناخت کو گم کیا ہے۔ یقیناً اس ازدواجی رشتے کی وجہ سے بانو کی ادبی شخصیت مجروح نہیں ہونی چاہیے تھی ۔ اس مسئلے کو ساقی فاروقی نے ایک اور تناظر میں یوں دیکھا ہے۔
آپ بیتی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بوجوہ اس میں آپ ہی کی سلطانی ہوتی ہے اور بیتی بے چاری کبھی کبھی حسبِ منشا اور حسبِ توفیق آ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ خود نوشت باز اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی سطح پر عوام سے بلند ہو گیا ہے اور خواص میں شامل ہو گیا ہے۔۹
——
حوالہ جات
۱۔ بانو قدسیہ، راہِ رواں، لاہور، سنگِ میل پبلشرز، ۲۰۱۱ء، ص ۵
۲۔ محولا بالا، ص ۸
۳۔ ممتاز مفتی، اور اوکھے لوگ، لاہور، فیروز سنز، ۱۹۵۱ء، ص ۱۱۳
۴۔ صبیحہ انور، اردو میں خود نوشت سوانح حیات، لکھنؤ، نامی پریس، ۱۹۸۲ء، ص ۱۸
۵۔ بانو قدسیہ، راہِ رواں، محولا بالا، ص ۱۳
۶۔ عطیہ سید، فن اور سچائی کے مسائل، مشمولہ فلسفیانہ مطالعے، لاہور، اردو اکیڈمی، ۱۹۹۹ء، ص۵۷
۷۔ اسلوب احمد انصاری، ادب کی قدریں، مشمولہ ادب اور تنقید، الہ آباد، سنگم پبلشرز، ۱۹۸۸ء، ص ۷۰
۸۔ ساقی فاروقی، آپ بیتی، پاپ بیتی، کراچی، اکادمی بازیافت، ۲۰۰۹ء، ص ۱۵
—-