دکنی کے ڈھولک گیت
ڈاکٹر عظمت اللہ
اردو اسسٹنٹ پروفیسر
ناگارجنا گورنمنٹ کالج، نلگنڈہ۔ تلنگانہ
نوٹ: گزشتہ دنوں حیدرآباد کی مشہور ڈھولک کے گیت گانے والی صاحبہ محترمہ ارجمند نظیر کا انتقال ہوا جن کے ساتھ ہی ڈھولک گیت کا ایک اہم اور زریں دور کا خاتمہ ہوا ہے۔ دکنی کے ڈھولک گیت پر یہ مختصر مضمون محترمہ ارجمند نظیر کے نام معنون کیاجاتا ہے۔
لفظ ’’ ڈھولک ‘‘ ہندی زبان سے اخذ کیا گیا ہے ۔ ڈھولک کے معنی ڈھولکی یا چھوٹے ڈھول کے ہیں ۔ ڈھولک بجا نے والے کو ڈھولکیا کہتے ہیں اور ڈھولا سے مراد ایک پنجابی عشقیہ گیت ہے جو کسی مشہور پنجابی عاشق نے گا یا تھا ۔ شاید اسی کی تقلید میں ریاست پنجاب اور اس کے اطراف و اکناف کو ریاستوں میں ڈھولک گیتوں کا رواج ہوا۔ڈھولک کے گیت بھی دکنی کے قدیم لوک گیتوں کی طرح دکن کے تہذیب و تمدن ، یہاں کی ثقافت اور طرز معاشرت کا اظہار کر تے ہیں ۔ یہ دکنی تہذیب کا اٹو ٹ حصہ ہیں۔ دکن کا خطہ ایک و سیع العریض خطہ ہے جس کے تحت کئی ریاستوں کی سرحدیں سمٹ آتی ہیں۔ ان ریاستوں میں مختلف مقامی اور علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں، ان زبانوں کا اثر بھی زمانۂ قدیم سے دکنی زبان اور تہذیب پر رہا ہے ۔ آج بھی یہ ملی جلی معاشرتی تہذیب دکن کا خاصہ ہے ۔ وقت اور زمانہ کے ساتھ ساتھ چند تبدیلیاں بھی طرز معاشرت اور رسم و رواج میں ہمیں نظر آتی ہیں۔
دور قدیم سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ دکن کے لوگ اپنے شادی بیاہ میں دیگر خوشی کی محفلوں میں ، رسم ورواج میں ڈھولک کے گیت گا تے ہیں ۔ اور اس میں کسی مذہب ، ذات یا طبقہ کا بھید بھاؤ نہیں ہے ۔ ڈھولک کے یہ گیت دکن کے مختلف اضلاع بالخصوص بیدر، بیجاپور ، گلبر گہ، رائچور ، رنگا ریڈّی، محبوب نگر ، میدک ، نظام آباد اور شعلہ پور میں شادی بیاہ کے مو قعوں پر بڑے شوق اور اہتمام کے ساتھ گائے جا تے ہیں ۔ شادی سے پہلے ڈھولک خر یدے جا تے ہیں ۔تمام عورتیں ایک جگہ جمع ہو کر ان محفلوں کی خو بصورتی میں مزید اضافہ کر تی ہیں۔ اور سب مل کر ڈھولک کے گیت گا تے ہیں ۔ عادل شاہی اورقطب شاہی ادوار سے شاہی گھرانے کی عورتیں اس سے لطف اندوز ہوتی رہی ہیں ۔ علی عادل شاہ شاہی ؔ اور محمد قلی قطب شاہ کی شاعرہ سے ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بادشاہ خودان محفلوں میں شریک ہوکر اپنے آپکو محظو ظ کرتے تھے۔ شاہی گھرانوں کے ساتھ ساتھ یہ ڈھولک گیت عوامی تہذیب میں بھی دھیرے دھیرے سرایت کرگئے اور کئی صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اور دور حاضر میں بھی دکن کے مختلف علاقوں ، اضلاع اور دیہاتوں میں ہمیں اس کا چلن نظر آتا ہے۔
جدید دکنی زبان میں لو ک گیت اور ڈھولک گیت لکھنے کی ابتداء سرور ڈنڈاؔ اور سلیمان خطیبؔ سے ہو تی ہے ۔ ان شعراء کے کلام اور گیتوں سے پہلے یہ گیت عوام کی زبانی نسل در نسل لوگ سنتے آرہے ہیں ۔ ان گیتوں کے شاعروں کا ہمیں پتہ نہیں چلتا۔ البتہ بیسویں صدی کے آغاز میں دکنی کے کئی ڈھولک گیتوں کو جمع کر کے ایک کتابی شکل دی گئی تھی لیکن اہل زبان کی نا قدری اور عدم توجہی کی وجہ سے یہ گیت اب تحریری شکل میں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ گیت زبانی سن کر بعد میں چند خوش الحان عور توں کی زبانی گیت ریکا رڈ کئے گئے اور اب یہ سی ۔ ڈی کی شکل میں دستیاب ہیں۔ ان گیتوں میں دکنی زبان کی مٹھا س اور حلاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔یہ ڈھولک گیت جدید دکنی زبان کے ارتقاء اور فروغ کی گواہی دیتے ہیں ۔ میں نے جو سی ۔ ڈی۔ حاصل کی اس میں جملہ ۴۶ گیت ،ڈھولک کے شامل ہیں ۔ جو مختلف عورتیں گاتی ہیں ۔ ان گیتوں میں شادی بیاہ کے دوران کی جا نے والی چوٹیں اور طنزیہ گیت ہیں ساس، سمدھن، نند، سالی، دولہا اور دلہن و غیرہ پر یہ طنزیہ ڈھولک گیت ہمیں بہت متاثر کرتے ہیں ۔ چونکہ یہاں ہم سارے ڈھولک گیتوں کو شامل نہیں کرسکتے ۔اسلئے میں نے چند ڈھولک گیتوں کا انتخاب کیا ہے جو دکنی عورتوں کے جذبات ، مختلف رشتوں کی نزاکت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ دکنی معاشرت کو بھی پیش کر تے ہیں ۔ دکنی عورت کے جذبات اور اپنے شوہر سے جدائی کا حال در ج ذیل ڈھولک گیت میں ملتا ہے ۔ اس گیت کو پڑھ کر ہمیں ہاشمیؔ بیجاپوری کی یاد آجاتی ہے اور اس ڈھولک گیت کا انداز ’’ سلیمان خطیبؔ ‘‘ کی نظم ’’ دکنی عورت کا انتظار ‘‘ سے ملتا جلتا ہے ۔ع
چلے آؤ سیّاں رنگیلے میں واری رے
چلے آؤ سیّاں رنگیلے میں واری رے
سجن موہے تم بن بھائے نہ گجرارے
نہ موتیا چنبیلی نہ جُوہی نہ موگرا جی
سجن موہے تم بن بھائے نہ دیور جی
نہ جُھمکے نہ کنگن نہ جُھومر نہ جھانجڑ
سجن موہے تم بن بھائے نہ دن رات
نہ کاجل نہ تُلسی نہ مِسّی نہ مہندی رے
چلے آؤ سیّاں رنگیلے میں واری رے
چلے آؤ سیّاں رنگیلے میں واری رے
اب یہاں گاؤں اور دیہات کے دولہے کا حال دیکھئے جو شادی بیاہ کے رسم و رواج سے نا واقف ہے ۔ نو جو ان لڑکیاں ایک جگہ جمع ہو کر دولہے کے متعلق گیت گارہے ہیں ۔ ع
دولہا گاؤں کا گنوار دولن بولتی بی نئیں
شملہ چھوڑتا بھی نئیں موٹر بیٹھتابی نئیں
چپّل چھوڑتابی نئیں پینٹ پینتابی نئیں
بنڈی چھوڑتابی نئیں موٹر بیٹھتابی نئیں
دلیا توڑ تابی نئیں پھولاں کاڑتابی نئیں
دولہا گاؤں کا گنوار دولن بولتی بی نئیں
شملہ چھوڑتا بھی نئیں موٹر بیٹھتابی نئیں
شادی سے کچھ دن پہلے اور چند دن بعد تک دکن میں مختلف رسم و رواج کا چلن ہو تاہے ۔ ہلدی کا رسم، سانچک ، مانجھا، جلوہ اور جُماگی وغیرہ دکن کے مشہور شادی بیاہ کے رسم ہیں جو دونوں خاندان بالخصو ص دولہا، دلہن کے لئے یادگار ہو تے ہیں ۔ ایک اور ڈھولک گیت ملا حظہ کیجئے ۔ اس گیت کی طوالت کی بنا ء پر میں صرف دو بند پیش کر رہا ہوں ۔ع
آؤ تو آؤ نگی نا منڈوے میں آنا
منڈوا پڑا ہے دیکھو کیسا سُہانا
منڈوے کے اندر لائیٹاں لگے ہیں
منڈوے پو ساڑیا کی جھومبر لگانا لگانا
منڈوے کے اندر رسم رچا رہے عارس کو ٹپکا لگا نا
منڈوے کے اندر رسمر چارہے عارس کو مھندی لگانا
منڈوے کے ادر رسم رچا رہے عارس کو پھولا ں پنانا
منڈوا ہے پڑا ہے دیکھو کیسا سُہانا
آؤ تو آؤ نگی نا منڈوے میں آنا !
عقد کے بعد آخر میں وداعیہ گیت گا یا جا تا ہے ۔ اور کبھی کبھار دولہا، دلہن اور دونوں خاندانوں کے رشتہ داروں کو مبار کباد دی جا تی ہے ۔ اور ایک دعائیہ ڈھولک گیت گایا جاتا ہے ۔ بالخصو ص ساس، سمدھن ، بیٹی ، نند، سالی اور دولہا، دلہن کو یہ مبارکباد پیش کی جاتی ہے یہ ڈھولک گیت ملا حظہ کیجئے ع
خانے آباد ہیں دربار مبارک ہوئے
تم سلامت رہو رہو جی اجی ساس بیگم
بیٹا آباد و بہو مبارک ہوئے
خانے آباد ہیں دربار مبارک ہوئے
تم سلامت رہو رہو جی اجی سمدھن بیگم
بیٹی آباد و داماد مبارک ہوئے
خانے آباد ہیں دربار مبارک ہوئے
تم سلامت رہو رہو جی اجی نند بیگم
بھائی آباد و بھابی مبارک ہوئے
خانے آباد ہیں دربار مبارک ہوئے
تم سلامت رہو رہو جی اجی سالی بیگم
بھان آباد و بھؤنئی مبارک ہوئے
خانے آباد ہیں دربار مبارک ہوئے
تم سلامت رہو رہو جی اجی دولہے باشا
گھر آباد و دولہن مبارک ہوئے
خانے آباد ہیں دربار مبارک ہوئے
شادی کے بعد دلہن سُسرال آجاتی ہے اور ایک نئے گھر کا اٹوٹ حصہ بن جاتی ہے ۔ وہ سبھی گھروالوں کو اپنا نے کی پوری کو شش کرتی ہے ۔ اسی دوران کبھی کبھار اپنے دیور سے ہنسی مذاق بھی ہو جاتا ہے ۔ اس ڈھولک گیت کے دو بند دیکھئے ۔۔ع
دیورجی او دیورجی میری انگنائی میں گلّی مت کھیلوجی
تمہاری گلّی پڑوسن کے گھر میں پڑوسن کی بلّی ہماری انگنائی میں
نند کا پھیکا دودھ پی جائے گی جی، دیورجی او دیورجی
تمہاری گلّی پڑو سن کے گھر میں پڑو سن کی چھوری ہمارے گھر میں
میری دیورانی بن جائے گی جی، دیورجی او دیورجی
میری انگنا ئی میں گلّی مت کھیلوجی، دیورجی او دیورجی
اس ڈھولک گیت میں بہو کا اصلی روپ دیکھئے ۔ بہو کسی بھی صورت میں سُسرال والوں کو نہیں اپناتی ۔ اس ڈھولک گیت کا مزاحیہ انداز سب کا دل موہ لیتا ہے ۔۔ع
سنو محلیّ والو میری کالی مرغی کھوگئی نا !
سنو محلیّ والو میری کالی مرغی کھوگئی نا !
ساس پو چھے بہو بیگم کھا نے میں کیا پکائے تم
تو میں بولی جی ! کیا بولی جی ؟
جو اری کی روٹی اَمبڑے کی بھاجی کالی مرغی کھوگئی نا
پکائی جی میں پکا ئی جی کالی مرغی کھوگئی نا !
سنو محلیّ والو میری کالی مرغی کھوگئی نا !
نند پو چھے بھابی بیگم کھانے میں کیا پکا ئے تم
تو میں بولی جی ! کیا بولی جی ؟
باسی روٹی باسی سالن کالی مرغی کھوگئی نا
پکائی جی میں میں پکائی جی کالی مرغی کھوکئی نا
سنو محلیّ والو میری کالی مرغی کھوگئی نا !
سیاّں پوچھے میری بیگم کھانے میں کیا پکائے تم
تو میں بولی جی ! کیا بولی جی ؟
مر غی کا سالن گھی کے پراٹھے کالی مرغی مل گئی نا
مرغی کا سالن گھی کے پراٹھے کالی مرغی مل گئی نا
بہو کا یہ روپ دیکھو کر ساس بھی بہو سے متنفر ہو جا تی ہے اور اس پر ظلم ڈھانے کی کوشش کر تی
ہے ۔ عام طورپر ساس اور بہو کے جھگڑے ایکدوسرے کی جہالت کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں ۔۔ع
میکے جانے بولی تو میں نکوّ بولی تھی
گھر کے کام پو مَٹھّی ڈال کو جا نے بیٹھی تھی
قصور میرا کیا ہے بولو، بولوپڑوسن بھابی
غصہّ مجھے آیا تو میں بیلن سے ماری تھی
میں نکوّ نکوّ نکوّ بولی تو گئی نا دلہنیا
میں دوسری کر کو لاؤنگی نا میری دلہنیا
میں دوسری کر کو لاؤنگی نا تیری دلہنیا
میں نکوّ نکوّ نکوّ نکوّ بولی توگئی نا دلہنیا
یہ تمام ڈھولک گیت جو بطور نمونہ میں نے پیش کئے ہیں اکثر و بیشتر شادی کے دوران مختلف رسم و رواج پر گائے جا تے ہیں ۔ ایسے کئی سو ڈھولک کے گیت دکن کے مختلف علاقوں میں سننے کو ملتے ہیں ۔ شہروں میں اس کا رجحان کم ہو گیا ہے لیکن دکن کے دیہاتوں میں اس کا بڑا اہتمام کیا جا تا ہے ۔ ان صدیوں سے سنتے آرہے ڈھولک گیتوں کے علاوہ کئی ایک ڈھولک گیت ایسے بھی ہیں جو اپنے زمانہ کی رفتار میں ڈھل گئے ہیں ۔ موضوع اور ہئیت میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے ۔ ان ڈھولک گیتوں کا آغاز سرور ڈنڈاؔ اور سلیمان خطیبؔ سے ہو تا ہے ۔ سرور ڈنڈاؔ نے لوک گیتوں کے علاوہ ڈھولک گیت بھی لکھے ہیں۔ سرور ڈنڈاؔ نے قدیم روایتی موضوع سے انحراف کر تے ہوئے اپنے ڈھولک گیت میں دور حاضر کے اہم سماجی مسائل کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے اور دکنی عورت کے فکر مند دل کی تر جمانی کی گئی ہے ۔ع
اٹھو اٹھو جی سیاں صُبوں ہونے کو ہے
باسناں ہنڈو لیاں خالی پڑئیں
ہنڈیا بگونے اوندھے پڑئیں
ان پو چُوّے اذاں دینے کو آکھڑئیں
بچے رو رئیں تُمے کیا جی سو نے کو ہے
اٹھو اٹھو جی سیاں صُبوں ہونے کو ہے
ڈنڈاؔ کے ایک اور ڈھولک گیت میں ایک حسین دو شیزہ کے خیا لات اور معصو میت کا اظہار پایا جاتا ہے ۔۔ع
پنگھٹ پر لگ گئی بھیڑ
راتہ تکت ہوں جب بھی توری
پو چھے مجھ سے سکھیاں موری
کس کا ڈر ہے کس کی چوری
تورے کارن سجنا مورے
نیر بھرن کو جب بھی جاؤں ۔ پنگھٹ پر لگ گئی بھیڑ
ڈھکنّ رائچوری جدید دکنی زبان کے ایک قدآور شاعر ہیں ۔ انہوں نے سر ور ڈنڈاؔ اور سلیمان خطیبؔ کی روایتوں کو آ گے بڑ ھا یا ۔ جدید دکنی میں طویل نظمیں لکھیں۔ ان کی نظموں میں دکنیت اور ڈرامائیت کا امتزاج نظر آتا ہے ۔ چند نظمیں انہوں نے لو ک گیت اور ڈھولک گیت کے پیرائیہ میں بھی لکھیں۔ مثلاً ھلّیگا، گاؤں کی چھوری، سمدھن، سہاگن، ہٹیلا سہرا اور بھیک و غیرہ ۔ ان نظموں میں دیہاتی رنگ و بو باس کا اثر گہرا ہے ۔ سمد ھن کے چند اشعار ملا حظہ کیجئے ۔ع
کھانے کو آتئیں سمدھن
نکوّ بگارو بیگن !
بنڈی سے تم اتارو
لال پیلے دانے وارو
نئی تو پڑیں گی اڑچن
نکوّ بگارو بیگن !
دیغاں سے کھانا کاڑو
اپر سے ڈلیاں گاڑو
دِسنائیچ نئیں جی کُھر چن
نکوّ بگارو بیگن !
کھا نے کو آتئیں سمدھن
بگڑؔ رائچوری مشہور مزاحیہ شاعر ہیں ۔ انہوں نے بھی جدید دکنی زبان میں شاعری کی ہے ۔ بگڑؔ کا ایک طویل ڈھولک گیت بہت مشہور ہوا۔ مشاعروں میں بگڑؔ اس ڈھولک گیت کو اپنے مخصو ص انداز میں سنایا کرتے تھے ۔ع
گھڑو بھائی کی شادی میں بڑا مزاہ آیا
دولے کی اماں تھی دبلی پتلی
دولن کے لوگاں تھے گھونس سے تگڑے
دولن بچاری ایکیچ تھی اصلی
سب مل کو کردئیں جی گڑبڑ گھٹالہ
گھڑو بھائی کی شادی میں بڑا مزاہ آیا
دال لیکو جلوہ دولن کو لائے
آوازاں دھڑ دھڑ کی سن کو سوب آئے
رو رئے تھے دولہا دلہن کر رئیے تھے ہائے
بگڑؔ میاں جاکو آئیڈن لگائے
دولن کے پلنگ کا ٹوٹا تھا پایا !
گھڑو بھائی کی شادی میں بڑا مزاہ آیا
آزادی کے بعد کے دکنی ادب میں ان لوک گیتوں اور ڈھولک گیتوں کا ایک خاص مقام ہے ۔آزادی کے بعد دکنی ادب کے ارتقاء کے یہ گیت شاہد ہیں ۔ دکنی کے فروغ وار تقاء کی ۔ دکنی ادب اور اردو ادب میں بھی ان کی کمی ہے ۔ دور حاضر میں ڈھولک گیتوں کا چلن باقی ہے یہ سن کر آپ کو حیرت ہو تی ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنا دکنی ادب کے ساتھ نا انصافی ہے ۔
——-