مسلم پرسنل لا بورڈ کی تنظیم و ترقی
میں اہلیان حیدرآباد کا کردار
سید ابراہیم حسامی قاسمیؔ
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد
ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے اور شریعت کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کرنے والے عظیم ادراہ کا نام مسلم پرسنل لا بورڈ ہے ، جو مسلمانان ہند کا متحدہ پیلٹ فارم ہے ، جو ہر مسلک ومکتب فکر سے وابستہ افراد کا حسین سنگم ہے ، گویا مسلم پرسنل لا بورڈ ایک ایسا گلدستہ ہے ، جس میں ہر قسم کا پھول اپنی اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے،مسلم پر سنل لا بورڈ دراصل مسلمانان ہند کے خوابوں کی حسین تعبیر ہے ، مدبرین امت کی گراں قدر تدبیر ہے، صد فی صد لائق توقیر ہے ،اتحاد امت کی ایک آہنی زنجیر ہے ، شریعت مطہرہ کی عملی تفسیر ہے اوراس کے تمام ارکان باضمیر ہیں۔
شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد اپنی ہمہ جہتی خدمات کی وجہ سے اپنی شناخت آپ رکھتا ہے ، یہاں ہر دینی تحریک وتنظیم نے ترقی پائی، شعراء ، ادباء، علماء اور دانشوران کی خوب قدر ومنزلت اس شہر نے کی اور ہر موقع پر سب کا ساتھ دیا، اردو ادب کے حوالہ سے بات کی جائے یا پھر علم عمل کے شہسواروں کے پروان چڑھنے کی بات کی جائے، حیدرآباد دکن میں ہر ایک کو ابھر نے کا موقع ملا، یہاں کی زمین میں رقت ونرمی اور تواضع وسادگی نمایاں ہے ، یہاں کے افراد کوہر ایک کو سینہ سے لگانے کا ہنر خوب معلوم ہے ، امن ومحبت کے اس قلعہ نے جہاں بے شمار خدمات اپنے دامن کو لبالب بھرا ہے ، وہیں اسلام ، ایمان اور شریعت کی سچی ترجمانی اور اس کی حقانیت کو واضح کرنے میں شہرحیدرآباد کابڑا رول رہا ہے۔
اس وقت شہر حیدرآباد میں مسلم پر سنل لا بورڈ کا ۲۶ واں سہ روزہ اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے ، یہ اجلاس موجودہ حکومت کی شریعت میں مداخلت کے پیش نظر بڑی اہمیت کاحامل ہے ، جس میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کی بامراد تدبیریں کی جائیں گی اور مستقبل کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جائے گا، شہر حیدرآباد میں مسلم پرسنل لابورڈ کا یہ اجلاس کوئی نئی بات نہیں ؛ بلکہ ملکی سطح پر اجلاس عام کی یہ تیسری کڑی ہے ، جو شہر حیدرآباد میں پورے آب وتاب ، تزک واحتشام اور مقبولیت کے ساتھ ان شاء اللہ پاے تکمیل کو پہونچے گی۔
جب ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف سنگین حالات بنتے جارہے تھے اور شریعت مصطفی میں مداخلت کی ناپاک سازشیں عروج پر تھیں تو اس وقت دردمندان قوم وملت اور قائدین امت نے اس بات کی بہت سخت ضرورت محسوس کی کہ مسلمانوں کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم ہونا چاہیے ، اسی پس منظر میں27-28ڈسمبر5 1972ء میں عروس البلاد بمبئی شہرکے مہاراشٹراکالج میں ایک متحدہ مسلم کنونشن حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؔ ؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں منعقد ہوا، اس کے بعد دوسرے سال ہی شہرحیدرآباد میں 7-8؍اپریل 1973ء کو مسلم پرسنل لابورڈ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا،جس میں بورڈ کی باضابطہ تشکیل دی گئی اور حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی ؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کو بورڈ کاصدر منتخب کیا گیا۔
وہ دن تھا اور آج کادن ہے کہ حیدرآباد اور حیدرآبادی افراد مستقل طور مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ وابستہ ہیں اور سرفروشانہ کردار ادا کررہے ہیں،جب بھی کوئی مسئلہ بورڈ کے سلسلہ میں آتا ہے تو اول مرحلہ میں اہلیان حیدرآباد سربکف میدان عمل میں کود پڑتے ہیں اور مسئلہ کی یکسوئی ہونے تک مسلسل جد وجہد میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔
حیدرآباد کی جن قدآور شخصیات نے سابق میں بورڈ کی تنظیم وترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، ان میں سرفہر ست امیر ملت اسلامیہ حضرت مولانامحمد حمیدالدین عاقل حسامی ؒ بانی ومہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد ،عالی جناب عبدالرحیم قریشیؒ صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت، سالار ملت الحاج سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اور مولانا سلیمان سکندر ؒ نائب صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت ہیں۔
امیر ملت اسلامیہ حضرت مولانامحمد حمیدالدین عاقل حسامیؒ سے کون ناواقف ہے،ان کی ساری زندگی ملت اسلامیہ کے لیے تڑپنے اورکڑھنے میں صرف ہوگئی اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے تو حضرت امیر ملت انتہائی حساس تھے ، جہاں بھی بورڈ کا خصوصی یا عمومی اجلاس ہوتا، ضرور تشریف لے جایا کرتے تھے، ایمرجنسی کے دور میں مولانا عاقل حسامی ؒ کا بلند کیا ہوا نعرہ آج تک لوگوں کی زباں زد ہے ، مولانا نے حکومت کے نعرہ پر اپنا نعرہ لگایا تھا، حکومت کا نعرہ تھا ، اگلا بچہ ابھی نہیں ، دو کے بعد کبھی نہیں تو حضرت امیرملت نے نعرہ لگایا تھا اگلابچہ ابھی ابھی ،بارہ کے بعد کبھی کبھی ، یہ نعرہ حکومت وقت کے لیے ایسا چیلنج بن چکا تھا کہ اس کی پاداش میں مولانا کو سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے جیل تک جانے کی نوبت آئی ، مگر حق کے علمبردار اس مرد مجاہد نے کبھی حکومت سے سمجھوتہ نہیں کیا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے آپ رکن تاسیسی تھے اوربڑا درد بورڈ کے تعلق سے رکھتے تھے، اور بڑے بڑے کارنامے بورڈ کے متعلق مولانا نے انجام دئیے،2002ء کا اجلاس اپنی مثال آپ تھا جو کہ مولانا کی میزبانی میں دارالعلوم حیدرآباد میں منعقد ہوا تھا۔
بورڈ کے لیے تن من دھن کی قربانی دینے والی شخصیت جناب الحاج عبدالرحیم قریشی صاحبؒ کی تھی کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی بورڈ کے لیے وقف کردی ،وہ تعمیر ملت کے صدر تھے اور جہاں انہوں نے اسے بام عروج پر پہونچایا تو وہیں پر بورڈ کے لیے انہو ں نے تو اپنی انتھک کوششوں کی انتہاء کردی اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک بورڈ کے لیے تگ ودو کرتے رہے ، چاہے وہ مسئلہ بابری مسجد کا ہو یا پھر شاہ بانو کیس کا معاملہ ہویا سوریا نمسکار یا پھر اسکولی نصاب ونظام میں غیر اسلامی شعائر کو لازم کرنے کا ہو،ہر موڑ پر جناب عبدالرحیم قریشی صاحبؒ نے جرأت رندانہ وہمت مردانہ کا مظاہرہ کیا، اور جب دین بچاؤ دستور بچاؤ تحریک چلی تو اس میں انہوں نے پورے جنوب میں ایک ماحول بنادیا ، جب وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ وہ ایک تحریک وتنظیم کی بات نہیں کر رہے ہیں؛ بلکہ بورڈ کامسئلہ گویا ان کی نجی زندگی اور گھرکا مسئلہ ہے ، بورڈ کے مسائل کے سلسلہ میں وہ بے حد بے چین وبے تاب رہا کرتے تھے، گویا ان کی زندگی بورڈ کے لیے وقف تھی، بورڈ کبھی ان جیسی شخصیات کو فراموش نہیں کرسکتا۔
سالار ملت الحاج سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم جو کل ہند مجلس اتحاد المسلمین صدرتھے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے اولین ارکان عاملہ میں سے تھے ،بورڈ کے سلسلہ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، دارالسلام کے وسیع وعریض میدان میں انہوں نے بورڈ کا عظیم اجلاس کروایا ، جب بھی ، جو بھی تقاضہ پیش کیا جائے فوراً سالار ملت نے لبیک کہا اور اپنا خون جگربورڈ کے لیے پیش کیا ، جب بھی بورڈ کا اجلاس ہوتا ، سالار ملت اپنی پارٹی کے مسائل کو بھی پس پشت ڈال کر بورڈ کی دعوت پر حاضر ہوجاتے، مجلس کے انتظامی امور سے زیادہ انہوں نے بورڈ کی فکرکی اور دکن میں یہ بات بڑی مشہور تھی کہ مسلمانوں کے دو عظیم قائد ہیں اور جن کی قیادت پر سب کو ناز تھا ان میں سے ایک امیرملت تھے تو دوسرے سالار ملت تھے۔
مولانا سلیمان سکندر صاحب مرحوم نے بھی بورڈ کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہ بیان کرتے تو یوں محسوس ہوتاکہ کوئی بجلی گر رہی ہے یا طوفان برس رہا ہے، ملت اسلامیہ کے مسائل کو انہوں نے بڑی دور اندیشی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی اور ان کے خطابات سے خصوصا ایک بڑے طبقہ نے حقائق کو جانا اور مانا اور علاقۂ دکن میں ان کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں، بورڈ کے سلسلہ میں وہ انتہائی حساس تھے، وہ بورڈ کی آواز پر سدا لبیک کہتے اور حیدرآباد میں بورڈ کے متعارف کروانے اور امت کو اس سے وابستہ کرنے میں مولانا مرحوم کا بڑا کردار رہا ہے ۔
موجودہ دور میں حیدرآباد کی سرزمین میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے انتہائی حساس اورفکر مندشخصیتحضرت مولانا محمد رحیم الدین انصاری صاحب دامت برکاتہم کی ہے ، جوعوام وخواص کے طبقہ میں انصاری صاحب کے نام سے مشہور ہیں، وہ دارالعلوم حیدرآباد کے ناظم ، مسلم یونائیٹیڈ فورم کے صدر،آل انڈیا ملی کونسل کے رکن رکین،امارت ملت اسلامیہ کے رکن اور کئی دینی تحریکو ں اور تنظیموں کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، انصاری صاحب کی شخصیت بورڈ کے تعلق سے کوئی محتاج تعارف نہیں ، وہ بورڈ کے قیام ہی سے مستقل طور پر بورڈ سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اب تک حیدرآباد میں جتنا بھی بورڈ کا کام ہوا ان کی موجودگی ونگرانی میں ہوا اور ان کے حسن تعاون ہی سے بورڈ کے تمام کام اپنی منزل مقصود کو جاپہونچے، بورڈ کی تاریخ انصاری صاحب جیسے مخلص رکن کو فراموش نہیں کرسکتی، بورڈ کے ہر چھوٹے اور بڑے مسئلہ میں انہو ں نے اپنی شخصی دلچسپی دکھائی اور بورڈ کے اولین ارکان میں شامل ہوئے ، رکن عاملہ کی حیثیت سے ان کی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے ،جب بھی بورڈ پر کوئی آنچ آئی یا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوا تو انصاری صاحب پیش پیش رہے اور پوری تندی کے ساتھ انہوں نے ہر موڑ پر بورڈ کا ساتھ دیا، انصاری صاحب کے نزدیک مسلکی تشدد ایک حرف غلط ہے ، وہ تمام مسالک کے اکابرین کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر ایک کو ساتھ لے کر چلنے کا بڑا اچھا انداز اپنے اندر رکھتے ہیں، ان کی وسعت ظرفی سے کسی کو انکار نہیں ،بورڈ کے لیے ان کی شبانہ روز محنتیں عیاں وبیاں ہیں، بورڈ کے اولیں اجلاس سے لے کرآج تک وہ بورڈ کے لیے انتھک کوشش کرتے چلے آرہے ہیں، جو ان کے قریبی ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ بورڈ کے سلسلہ میں کتنے متفکر رہتے ہیں اوربورڈ کے متعلق ان کا دل کتنا بے چین رہتا ہے ، جب بھی بورڈ نے کوئی آواز لگائی حیدرآباد میں سب سے پہلے انصاری صاحب نے اس پر لبیک کہا اور اس کاز کو جب تک تکمیل کو نہیں پہونچایا ،انہوں نے چین کا سانس نہیں لیا، جو بھی تحریک بورڈ کی طرف سے چلی، اس کو حیدرآباد ، اور اطراف واکناف میں جنگی خطوط پر چلانے میں وہ ضرب المثل واقع ہوئے ہیں، بورڈ کے مالیہ کے سلسلہ میں انصاری صاحب نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ، 2002ء میں انہو ں نے بڑا کامیاب اجلاس دارالعلوم حیدرآباد میں کرواکر ایک تاریخ رقم کی ، اسی اجلاس میں حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی صاحب زیدمجدہ کو صدر منتخب کیا گیا تھا،دین بچاؤدستور بچاؤ تحریک میں انہو ں نے بڑا رول ادا کیا اور جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد میں علماء ، خطباء اورائمہ کا ایک عظیم اجلاس طلب کیا ،جس میں بورڈ کے ارکان عاملہ نے شرکت کی اور محترم قریشی صاحبؒ نے اس کی صدارت کی اور اس کے بڑے مفید نتائج برآمد ہوئے،2011ء میں جب عاملہ کا اجلاس حیدرآباد میں منعقد ہوا ، اس وقت بابری مسجد کیس کے لیے ایک بڑی خطیر رقم انہوں نے اپنی شخصی دلچسپی سے جمع کرکے بورڈ کے حوالہ کیا اور یہ 26واں اجلاس کے کامیاب انعقاد میں ان کی فکروں اورکاوشوں کو بڑا دخل ہے ،او راس اجلاس میں بھی انہوں نے دن رات محنتیں کیں، ہر ضلع کا بذات خود اکابر علماء ،مشائخ اور دانشوروں کے ساتھ دورہ کیا اور بورڈ کے اجلاس عام کے سلسلہ میں شعور بیداری مہم چلائی ، وہ اس اجلاس کے کنوینر او ر جنرل سکریٹری کی حیثیت اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں،اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے آراستہ فرمائے۔
نقیب ملت الحاج بیرسٹراسدالدین اویسی صاحب رکن پارلیمنٹ بڑی مبارکبادی کے قابل ہیں ، جن کی محنتوں اور فکروں سے بورڈ کایہ عظیم الشان اجلاس شہر حیدرآباد میں منعقد ہورہا ہے ،اسد صاحب نے اپنے بے باکانہ انداز میں شریعت مطہرہ کی اچھی ترجمانی کی اور پارلیمنٹ میں جو انہوں نے جرأت وہمت کا مظاہرہ کیا اور پورے مخالف ماحول میں ایک مرد مجاہد کی طرح حق بات پرڈٹے رہے اور شریعت مطہرہ کے خلاف کی جانے والی سازش کی کھل کر مخالفت کی اور ہر قسم کی ابتلاء وآزمائش سے لاپرواہ ہوکر انہوں نے جس ہمت وحوصلہ کا مظاہرہ کیا تاریخ کے اوراق میں وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ، اپنے والد گرامی سالار ملت کے انتقال کے بعد ہی سے وہ وہ بورڈ کے برابر رکن رہے اور عاملہ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور ہر معاملہ میں بورڈ کا انہوں نے ساتھ دیا کسی بھی مسئلہ میں انہوں نے بورڈ کی مخالفت نہیں کی ، کہیں بھی اپنے سیاسی مفاد کی خاطر بورڈ کے دستور ومنشور سے روگردانی کوحرام تصور کیا ،ہر معاملہ میں بورڈ کے اصول ودستورکی پاسداری کو وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں ، بورڈ کے ہر اجلاس میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے ہیں، وہ اپنی ساری مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر بورڈ کو اولین ترجیح دیتے ہیں، انہوں نے اپنے والد گرامی کے نشست کو خالی ہونے نہیں دیا اور کبھی بھی ارکان کو اس کا احساس ہونے نہیں دیا کہ بورڈ میں سالار ملت کی طرح کوئی مدبر اور سیاسی بصیرت کاحامل موجود نہیں ، بلکہ اپنے ذرین مشوروں سے بورڈ کو نوازتے رہے اور بورڈ کی ترقی کی خاطر ہرممکنہ کوشش کرتے چلے آرہے ہیں، آ ج کا یہ 26واں اجلاس بھی انہیں کے منشاء پر حیدرآباد میں منعقد ہورہا ہے کہ انہوں نے عاملہ کے اجلاس میں صدربورڈ حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی زیدمجدہ کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ اگلا اجلاس عام حیدرآباد میں رکھا جائے ، ان کی تجویز منظور ہوئی اور وہ صدر استقبالیہ کی حیثیت سے اس اجلاس میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنی پوری قائدانہ صلاحیتوں کو اس پر صرف کرتے نظر آرہے ہیں اور اپنے تمام ارکان مجلس کو لے کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور مکمل ہوش داری کے ساتھ انہوں نے اس اجلاس کے کامیاب انعقاد میں بڑی جد وجہد اور مسلسل کوششیں کیں ، اللہ تعالیٰ ان کی مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے۔
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی زید فضلہ ومجدہ کسی تعارف کی محتاج شخصیت نہیں ہیں ، ان کی فقاہت وبصیرت سے ہر ذی شعور واقف ہے ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ جب سے بورڈ میں شامل ہوئے تب ہی سے اپنی خدمات کا ایک بڑاحصہ انہو ں نے بورڈ کے لیے صرف کیا، وہ اس وقت بورڈ کے روح اور قلب کی حیثیت رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں دل دردمند اور فکر ارجمند کی دولت سے آراستہ فرمایا ہے ، وہ اس وقت بورڈ کے ترجمان بھی ہیں ، اور جنرل سکریٹری بھی ، بورڈ کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، ان کی خدمات کا ایک لمبا سلسلہ ہے ،ان کی ہرلمحہ دین وشریعت کے تحفظ کی فکر سب پر عیاں ہے ، ان کی شخصیت اب بورڈ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ، وہ بورڈ کی صحیح او ر سچی ترجمانی کرتے ہیں ، وہ بڑے سادہ مزاج اور سادہ لوح ہیں ، ان کے نزدیک کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہیں ، اور نہ ہی کا م کی شہرت چاہتے ہیں ، بڑے متواضع اور ملنسار ہیں، سب کو سینے سے لگاتے ہیں ، سب کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں او ربڑے سنجیدہ اور سلجھے انداز میں حقانیت کو آشکار کرتے ہیں،وہ بڑے ہی معصوم لہجے میں حق بیانی کا ہنر جانتے ہیں،جب وندے ماترم کا مسئلہ چلا اور سوریہ نمسکار کو لازم قرار دیا جانے لگا تو اس وقت مولانا رحمانی نے حیدرآباد کی سرزمین سے ایک ایساجملہ کہا تھا جو دوسرے دن ہر اخبار کی سرخی بنا وہ جملہ یہ تھا :’’ ہم وطن کو محبوب تو بناسکتے ہیں مگر معبود نہیں بناسکتے ‘‘مولانا رحمانی شریعت کے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کا بروقت جواب دیتے ہیں اور بڑے اچھوتے اور نرالے انداز میں اس کا رد فرماتے ہیں کہ زبان وقلم کی کڑواہت سے کسی کا دل بھی نہ دکھے اور حق بیانی میں کوئی کسر بھی باقی نہ رہ جائے ، وہ اس فن سے اچھی طرح واقف ہی نہیں ؛ بلکہ وہ ایسے لب ولہجہ کے تاجدار بھی ہیں، بور ڈ کی تمام تر کارروائیوں میں مولانا رحمانی کا بڑا دخل ہے ،ہندوستان میں مولانا کی شخصیت کو درنایاب لکھنے میں اگر کسی کو مبالغہ نظر آئے تو وہ گہرکمیاب لکھنے کا منکر نہیں ہوسکتا، مولانا نے اپنے سرپرست فقیہ العصر حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحبؒ کے بعد ان کی کمی کو محسوس ہونے نہیں دیا ، بورڈ کے ہر مسئلہ میں مولانارحمانی ایک فعال شخصیت ثابت ہوئے اور اس وقت ہونے والے چھبیسویں اجلاس عام میں مولانا نے ہر ضلع کا سفر کیا اور تمام تر علمی و قلمی کاوشوں اور دیگر مصروفیات کے باوصف مولانانے تحفظ شریعت کے ہر جلسہ میں شرکت فرمائی، اس کے علاوہ ہر اس جگہ تشریف لے گئے جہاں چند مٹھی بھر عوام جمع ہوئے اور مولانا کو دعوت دی کہ آپ آئیں اور تحفظ شریعت کے عنوان پر ہم سے خطاب فرمائیں تو مولانا نے مسئلہ کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے ہر چھوٹے سے چھوٹے محلہ میں جا کر اپنی خدمات انجام دیں اور تحفظ شریعت اور موجودہ حالات سے لوگوں کو واقف کروایا اور ہونے والے اس 5 26ویں اجلاس عام کو کامیاب بنانے میں ہر ممکنہ سعی فرمائی اللہ تعالیٰ مولانا کے حسنات کو قبول فرمائے۔
اس 26ویں اجلاس کو بھی کامیاب بنانے میں شہر حیدرآباد کی تمام عوام اور خواص پورے فکرمند ہیں اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے بڑی فکرمندی کے ساتھ اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے جہد مسلسل کی ہے ، جن میں قابل ذکر حضرت مولانا قبول بادشاہ شطاری صاحب، عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی صاحب ،حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب ، حضرت مولانا حسام الدین ثانی جعفرپاشاہ صاحب، حضرت مولانا مفتی غیاث الدین رحمانی صاحب،حضرت حافظ پیر شبیر احمد صاحب،مولانا سید اکبر نظام الدین حسینی صابری صاحب،مولانا حامد محمد خان صاحب،مفتی صادق محی الدین فہیم صاحب، مولانا احمد الحسنی قادری صاحب ، جناب منیر الدین مختار صاحب اور مولانا معراج الدین ابرار صاحب کے علاوہ دیگر کئی علمائے کرام ہیں کہ جنہو ں نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجودبورڈ کے تمام جلسوں میں شرکت کی اور اجلاس عام کو کامیاب بنانے کی بھر پور کوششیں کیں اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائے ۔
اسی طرح بورڈ کے اس26ویں اجلاس کو کامیاب بنانے میں حیدرآباد اور اطراف اکناف کے تمام اضلاع کے علماء ومشائخین اور صاحب ثروت افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، علمائے کرام نے اپنی اپنی مساجد میں اور اپنے اپنے علاقہ میں افراد کی ذہن سازی فرمائی اور سب کو بورڈ کے بینر تلے متحد ومنظم فرمایا اور اجلاس کی کامیابی کے لیے ہر ممکنہ کوشش فرمائی اور اللہ جزائے خیر دے ان اصحاب خیر حضرات کوبھی جنہو ں نے بورڈ کی آواز پر اپنی طرف سے کافی مقدار میں تعاون پیش کیا اللہ تعالی سب کو اجر جزیل عطا فرمائے اور اس اجلاس کو بار آور فرمائے،اس کے اچھے نتائج برآمد فرمائے اور تحفظ شریعت کے سلسلہ میں اس اجلاس کو ایک سنگ میل کی حیثیت عطافرمائے اور یہاں سے ہونے والے فیصلوں اور تجویزوں میں اللہ تعالیٰ اپنی تائید غیبی شامل فرمائے اور سب کو اخلاص کی دولت سے آراستہ فرمائے۔