آہ! — انور جلال پوری :- مفتی سید ابراہیم حسامیؔ قاسمیؔ

Share
انور جلال پوری

مشاعروں کی آبرو، نظامت کے سلطان
آہ! — انور جلال پوری

مفتی سید ابراہیم حسامیؔ قاسمیؔ
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

تقریباً2002ء کی بات ہے کہ شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں ایک کل ہند مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیااور یہ مشاعروں میں شرکت کا ہمارا پہلا اتفاق تھا، اس مشاعرہ کی خاص باتوں میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ اس مشاعرہ کی نظامت شہنشاہ نظامت انور جلال پوری مرحوم کر رہے تھے ، جن جن چیزوں نے مشاعروں سے ہماری دلچسپی بڑھائی، ان میں سے ایک جناب انور جلال پوری کی نظامت بھی تھی –

جب کبھی اس بات کا پتہ چلتا کہ فلاں مشاعرہ میں انور جلال پوری ناظم مشاعرہ ہیں تواس مشاعرہ میں دیگر شعراء کو سننے سے زیادہ انور جلال پوری کی نظامت سننے چلے جاتے ، یہ تو ایک ہمارے دلی احساسات تھے؛ مگر اسی جذبات کے پیکر ہزاروں لوگ نظر آتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ جناب انور جلال پوری وہ مقناطیسی کیفیت اپنے اندر رکھتے تھے کہ خود بخود ان کی طرف انسانی سروں اور ادب نوازوں کا سمندرامنڈ پڑتا تھا۔
جناب انور جلال پوری ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ اردو دنیا اور خصوصا مشاعرے ان کی پیشانی کو بوسہ دے کر باعزت اور کامیاب ہوجاتے تھے،جن کے ایک ایک لفظ میں نزاکت کے ساتھ ساتھ حقیقت بھی شامل ہوتی تھی ،وہ زندگی کے تمام نشیب وفراز سے ایک واقف کار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ،ان احساسات کو شعری پیکر میں ڈھال کر ہزاروں دلوں کی کبھی سچی ترجمانی تو کبھی سچی مسیحائی کیا کرتے تھے ۔
جناب انور جلال پوری صرف ایک شخصیت کانام نہیں ؛ بلکہ ایک عہد کا نام ہے ، جسے اردو دنیا اور خصوصا شعر وسخن کا گلستان کبھی انہیں فراموش نہیں کرسکتا، اگر یہ بات لکھ دی جائے تو شاید سچائی کی دہلیز تک اس کی رسائی ہوجائے کہ اردو اور مشاعروں کی خدمات کا جب کبھی تذکرہ کریں گے اور ان کی تاریخ رقم کی جائے گی تو انور جلال پوری کانام اس فہرست کا لازمی حصہ ہوگا ؛ورنہ اردو دنیا اور خصوصا مشاعروں کی دنیا انور جلال پوری کے تذکرہ کے بغیر نامکمل، ناقص اور ادھوری رہ جائے گی۔
انور جلال پوری کی مقبولیت اور شہرت مشاعروں کی کامیاب نظامت کی وجہ سے تھی ، انہوں نے مشاعروں کی نظامت کو صفائی اور سچائی کی معراج تک پہونچانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اورانہوں نے میدان نظامت کو مبالغہ آرائی کی کراہتوں اور لجاجت و چاپلوسی کی نجاستوں سے پاک رکھنے کا بڑا التزام کیا تھا اور مشاعروں کی نظامت کو ایک ایسا رخ دیا تھا کہ جس کی وجہ سے ہر ناظم مشاعرہ اپنی نظامت میں انور جلال پوری کی اقتداء کرنے کو ترقی کی معراج تصور کرتا تھا اور کیوں نہ ہوکہ انور جلال پوری محراب نظامت کے ایسے کہنہ مشق امام تھے کہ جن کو اپنے تمام مقتدیوں کے مزاج کی مکمل خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ، وہ ان کے مزاج کی رعایت کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے ،یہ بھی ایک سچی حقیقت ہے کہ ناظم مشاعرہ صرف ایک اناؤنسر نہیں ہوتا ؛ بلکہ مشاعرے کی کامیابی کی زمام خوداس کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اگر ناظم مشاعرہ چاہے تو ناکامی کی راہ پر چلتے مشاعرہ کو کامیابی کیمنزلتک پہونچا سکتا ہے اور چاہے تووہ ایک کامیاب و معیاری مشاعرہ کو بڑی آسانی کے ساتھ ناکامی کی کھائی میں بھیڈھکیل سکتا ہے ؛ مگر انور جلال پوری کا یہ کرشمہ تھا کہ انہوں نے کبھی مشاعرہ کو ناکامی کی ہوا بھی نہیں دکھلائی ؛ بلکہ صرف ان کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتا تھا، اس لیے کہ وہ موقع شناسی اور مزاج شناسی کے شہنشاہ تھے اور ایسا تو بہت کم دیکھنے کو ملا ہے کہ انور جلال پوری مشاعرہ میں موجود ہو ں اور مشاعرہ کی نظامت کسی اورکے حصہ میں آئی ہو، اس لیے کہ ایک سنجیدہ اورباوقار مشاعرہ کی نظامت کے لیے واقعۃً کوئی شخصیت ججتی تھی تو بس انور جلا ل پوری کی شخصیت تھی ، وہ مشاعرہ کی نظامت میں فلفسیانہ گفتگو بہت کرتے تھے ؛ مگر ایسے سادے لب ولہجہ میں کرتے تھے کہ لوگوں کا ذہن بھی اس جانب متوجہ نہیں ہوتاکہ یہ الفاظ کا تاجدار کب کونسی البیلی بات سنجیدہ اور سادہ الفاظ کے پردے میں کہہ جائے اورمشاعروں میں بھی وہ بڑی باریک اور دور رس باتیں کرتے تھے، ذہانتوں کو جملوں میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے تھے،وہ اپنی گفتگو سے سامعین کے ذہن کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ ان کو بھی ذہین بنانے کا فن جانتے تھے ،وہ محض گفتگو نہیں کرتے تھے ؛ بلکہ گفتگومیں بصیرت کو تقسیم کیا کرتے تھے، بروقت تمثیلات، ہر شاعر و شخصیت کے لحاظ سے مناسب و موزوں شعر کا انتخاب ان کی خاص پہچان تھی اور ان ہی کا یہ شعر اب تک ہمارے کانوں میں گونج رہاہے جوکہ انہوں نے حیدرآباد دکن کے مشاعرہ میں کسی معزز شخصیت کی قدم رنجائی پر کہا تھا اور اور کمال یہ ہے کہ شخصیت تو یاد نہیں رہی؛مگر انور جلال پوری کا شعر ذہن ودماغ میں گھر کر گیا ہے ، انہوں نے کہا تھا کہ
تم بڑے وقت پہ محفل میں چلے آئے
ورنہ ہم لوگ چراغوں کا بدل ڈھونڈھ رہے تھے
جناب انور جلال پوری بڑے سنجیدہ اور پائندہ شعر کہتے تھے، تلخ حقیقتوں کو محبت بھرے الفاظ کا جامہ پہنا کر ایسے پیش کرتے کہ بات اثر بھی کر جائے اور اس کی تلخی سے کسی کے دل کو ٹھیس بھی نہ پہونچے،موجودہ دور میں اردو کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی ہے اوربعض لوگ اردو زبان کو مذہب کے ساتھ جوڑکراسے کمزور کرنے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں، اس کا شکوہ غیر محسوس انداز میں وہ اس طرح کیا کرتے تھے اور وہ اپنے آخری مشاعروں میں اکثر اپنی شاعری کا آغاز اسی شعر سے کیا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ دوستو! میں سب کا تعارف کراتا ہوں اور میرا تعارف بس اتنا ہے؂
میں ایک چراغ ہوں نہ دیوار ہے نہ چھت میری
ہوائیں کرتی ہیں پھر بھی مخالفت میری
میں بادشاہ ہوں گزرے ہوئے زمانہ کا
سمٹ کے رہ گئی ہے ایک گھر میں سلطنت میری
اس شعر کو پڑھنے کے بعد یہ کہتے تھے کہ دوستو ! دراصل یہ میرا تعارف نہیں ؛ بلکہ اس زبان کا تعارف ہے جس کا میں ایک ادنیٰ سا شاعر ہوں۔
جناب انور جلال پوری کی نظامت کا رنگ موقع کی مناسبت سے بدل جاتا تھا، سامعین کے لحاظ سے گفتگو کرنے کا وہ کامیاب فن جانتے تھے ، علماء کے مجمع میں بات کیسے کی جاتی ہے ، عوامی مشاعروں کا انداز کیا ہونا چاہیے، نعتیہ مشاعرہ میں کس لب ولہجہ میں کفتگو کی جائے ، قومی یکجہتی وکوی سمیلن میں کس طرز کی ضرورت ہوتی ہے ،اس فن سے انور جلال پوری اچھی طرح واقف ہی نہیں ؛ بلکہ انہیں تو اس مہارت میں یدطولیٰ حاصل تھا،ان کے لیے مشاعروں کو باکمال وکامیاب بنانے کے لیے شاعری کا سہارا لیناتو بہت دور کی بات ہے،وہ صرف چندجملوں سے ہی مشاعرہ کولوٹنے اورمعتبربنانے کا ہنر جانتے تھے ۔
انور جلال پوری نے اجمیر شریف میں منعقدہ جمعےۃ علماء ہند کے کل ہند نعتیہ مشاعرہ میں علماء کے مجمع کی کثرت کو دیکھ کرایک عجیب سچی بات کہی تھی اور سارے حاضرین کو اپنے فن کا لوہا ماننے پر مجبور کردیا،ان الفاظ کی چاشنائی آپ بھی لطف لے سکتے ہیں چنانچہ انہو ں نے کہا تھا :
’’آج بہت بڑا مجمع یہاں پر موجود ہے ، میں نے اس سے بڑا سیاسی مجمع تو ضرور دیکھا ہوگا؛ مگر اتنا پاکیز ہ مجمع میں نے آج تک نہیں دیکھا ہوگا ، اس لیے کہ اب تک بہت ساروں کا وضو بھی سلامت ہوگا ‘‘
اس کے بعد انہوں نے اپنی ایسی معیاری نعتیں کہی کہ ان میں سے ایک نعت کے چند اشعار جو کہ شاید آپ کو متأثرضرور کریں گے ، درج ذیل ہیں:؂
آپ سرکار ہیں تخلیق دوعالم کا سبب
آپ کو دیکھ کے سیکھا ہے فرشتوں نے ادب
آپ کا علم کتابوں میں کتب خانوں میں
آپ پر جاں میری قربان میرے امی لقب

بکریاں تھے جو چراتے انہیں عزت بخشی
اونٹ کے پالنے والوں کو حکومت بخشی
کاروانِ رہ عالم کی قیادت بخشی
رنگ اور نسل کے مٹ گئے سب نام ونسب
آپ سرکار ہیں تخلیق دوعالم کا سبب
انور جلال پوری نے حمدیں بھی کہی ہیں اور ایسی حمدیں کہ آدمی کو خداکی ذات کا عرفان حاصل ہوجائے اور حالات کو دیکھ کر اللہ کی وحدانیت ارو قدرت کاملہ کا یقین آجائے ، اسی طرح کی ایک حمد ان کی بڑی مشہور ہوئی اس کا عنوان تھا کہ بس اللہ کی ذات باقی رہے گی ،جو کہ پیش قارئین ہے؂
نہ یہ دن نہ یہ رات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
نہ گردش میں صدیوں زمانہ رہے گا
صدا تو کسی کا نہ سکہ چلے گا
ہمیشہ نہ کوئی جنازہ اٹھے گا
نہ خوشیوں کی بارات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

جہاں زخم ہے درد ہوکر رہے گا
رخ زندگی زرد ہوکر رہے گا
لہو گرم ہے سرد ہوکر رہے گا
نہ گرمئ جذبات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

یہ دنیا کا میلہ تو ہے چار دن کا
یہ دولت کا ریلہ تو ہے چاردن کا
یہ سارا جھمیلا تو ہے چار دن کا
نہ گرمی نہ برسات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

اڑے گی فلک کی جو چادر تنی ہے
ہٹے گی زمیں جس کا دل آہنی ہے
نہ رہ پائے گی جوبھی محفل سجی ہے
نہ بزم خیالات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

فلک پر جو اڑتے تھے زیر زمیں ہیں
اسی خاک میں دفن کتنے حسیں ہیں
جو کل شاہ تھے آج وہ بھی نہیں ہیں
کسی کی نہ اوقات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

بدن پر تو مٹی کے اترا رہا ہے
توانور خود اپنے کو بہکا رہا ہے
جو آیا تھا کل دیکھ وہ جارہا ہے
یہاں کوئی بات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی

انور جلال پوری نے حالات کے اوپر بھی اچھا خاصہ شعری ذخیرہ چھوڑا ہے ، ان کے اشعار میں دور موجو دکے مسائلاور ملت کو درپیش مسائل کا حل بھیملتا تھا، حالات سے کراہنے والے افراد کے لیے ان کے اشعار قلبی سکون کا سامان بن جاتے تھے،اور درد کا درماں ہوجاتے تھے، ان کے اشعار میں زمانہ کا گلہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ حالات کو سمجھنے کاحوصلہ پیدا ہوتا تھااور ناموافقت کی تہہ تک جانے کا ذہن ودماغ کو ایک راستہ ہموار ہوا کرتا تھا،زمانہ کا مشاہد ہ ہے کہ اکثر لوگ غم وحالات سے پریشان ہوتے ہیں اور تفکرات والجھنوں کے بوجھ تلے خود کو دباجاتے ہیں اور ہر کسی کے سامنے اپنی بے کسی کا شکوہ کرتے رہتے ہیں ، ایسے شکوہ کناں افراد کے دل کو مضبوط بنانے کے لیے انور جلال پوری نے ایک تسلی سے لبریز شعر کہا تھا کہ
یہ دنیاہے یہاں تم حادثوں سے دوستی کرلو
ہرلمحہ یہاں زیر وزبر ہوتا ہی رہتا ہے
انور جلال پوری اکثر مشاعروں میں کہا کرتے تھے اور ان کے الفاظ ہو بہو یہی ہوتے تھے کہ آج ساری دنیا کو صرف محبتوں کی ضرورت ہے ، نفرتیں جتنی بھی ہیں سب کو ایک صندوق میں بند کر کے کسی سمندر میں پھینک دینا چاہیے اور انسانیت کو بچالینا چاہیے، اپنے انہیں جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے انہوں نے یہ شعر کہا تھا:
جو بھی نفرت کی ہے دیوار گرا کر دیکھو
دوستی کی بھی ذرا رسم نبھا کر دیکھو
کتنا سکھ ملتا ہے معلوم نہیں ہے تم کو
اپنے دشمن کو کلیجے سے لگا کر دیکھو
اس شعر میں انور جلال پوری کی وسعت ظرفی اورفتح مکہ کے حوالہ سے سرکار دوعالم ﷺ کی ذات اقدس سے ملنے والے اس عظیم سبق کی طرف اشارہ ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انور جلال پوری صرف موجودہ دور کی بات نہیں کرتے تھے ؛ بلکہ ان کے اشعار کی سچائی میں کہیں نہ کہیں رسالت مآب ﷺ ، حضرات صحابہ کرامؓ اور اولیائے عظامؒ کے دئیے ہوئے اسباق پوشیدہ ہوا کرتے تھے ،وہ ان اسباق کوسادے الفاظ اور معمولی لب ولہجہ میں ڈھال کر پیش کرتے تھے ، شاید انور جلال پوری ایسے ہی لطیف اشاروں کے عادی بھی تھے اور وہ ان کا ایک خاص انداز اور خصوصی وصف تھا ۔
حضرات صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دنیاسے بے رغبت ہوا کرتے ہیں اور دنیا سے جی لگانے کا کوئی تعلق وہ قائم نہیں کرتے اورانہیں ہر وقت اپنے آقا سے لقاء کی فکر دامن گیر رہتی تھی،اسی طرح کا ایک سبق انہوں نے اپنی شاعری میں دیا، اور اپنے اسلاف سے وابستگی اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا کہ؂
اسلاف کی الفت کا ہو رگ میں لہو جاری
مرنے کے لیے ہم بھی کرنے لگیں تیاری
لوگوں سے پیارومحبت کے رسومات میں اضافہ کیسے ہو اور نفرتوں وعداتوں کے سلسلے کیسے ختم ہوں ؟ یہ انور جلال پوری کی پوری شاعرانہ زندگی کا خلاصہ تھا ،ان کی شاعری کا ایک خاصہ یہ بھی تھا کہ وہ یک طرفہ شاعری نہیں کرتے تھے ؛ بلکہ حقیقتوں کو خوبصورت لب ولہجہ میں ڈھال کر تلخیوں کی کڑواہٹ کو ختم کردیتے تھے اور ہر دو کو اپنا بھی محاسبہ کرنے کی تاکید کرتے تھے ، اسی طرح انہوں نے ایک مرتبہ دشمنیوں کے خاتمہ کا ایک نسخہ بتا تے ہوئے کہا تھا کہ؂
تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو
رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا
سیاسی افراد کی سیاسی چالوں کو ایک اچھوتے انداز میں انہوں نے پیش کیا اور پل بھر میں ان کے کردار کی تبدیلی کی منظر کشی کرتیہوئے یوں کہا کہ؂
یہ تصنع یہ اداکاری کہاں سے آگئی
جانِ من یہ بیماری تم میں کہاں سے آگئی
تم تو منصف تھے سراپا عدل کی تصویر تھے
کیا ہوا تم میں طرف داری کہاں سے آگئی
لب ولہجہ کی تاثیر اور اس کی جلوہ گری وکرشمہ سازی اپنی جگہ مسلم ہے ، اگر اس کا صحیح استعمال ہو تو دکھتے و ٹوٹتے دل بھی جڑ سکتے ہیں ،ایک ایسی ہی حقیقت کو بتاتے ہوئے انور جلال پوری نے ایک موقع پر یہ شعر بھی کہا تھا؂
میں ہر بے جان حرف لفظ کو گویا بناتاہوں
کہ اپنے فن سے پتھر کو بھی آئینہ بناتا ہوں
اکثر لوگ غم والم کی کیفیت میں اور مصیبتوں میں دوسروں کا سہارا تلاش کرتے ہیں، اور اپنا بوجھ دوسروں کے کندھے پر ڈال کراس کو اپنائیت کی سب سے بڑی دلیل سمجھتے ہیں، انور جلال پوری نے اس ذہن کو صاف کیا اور مصیبتوں میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ،اس کا بہترین درس دیتے ہوئے ایک شعر کہا تھا کہ؂
میری فطرت کسی کا بھی تعاون لے نہیں سکتی
عمارت اپنے غم خانہ کی میں تنہا بناتا ہوں
انسان اپنے وجود کے اعتبار سے سب سے قیمتی ہے اور اسے احسن تخلیق کے خطاب سے نوازا گیا ہے ، انسانیت معراج پر کیسے پہونچ سکتی ہے اور اس کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کرنا چاہیے اور ایک انسان کیسے قیمتی بنتا ہے اوراخلاق سے بڑھ کر کوئی جوہر نہیں، کوئی انسانیت نہیں ، اس کوانہوں نے اس طرح بیان کیا کہ؂
میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں سدا اخلاق کا پارس
اسی پتھر سے مٹی چھو کے میں سونا بناتا ہوں
کسی نے کیا ہی خوب کہا تھا کہ’’ دو دن کو اے جوانی دے دے ادھار بچپن‘‘ انور جلال پوری نے اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے اور گزرے ہوئے لمحات کے واپس نہ آنے کی سچائی کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا
اب گزری ہوئی عمر کو آواز نہ دینا
اب دھوئیں میں لپٹا ہوا بچپن نہ ملے گا
صرف نام سے اپنی بڑائی جتلانے کا دور منزل کو پہونچ چکا ہے، زمانہ کروٹ بدل چکا ہے ، لوگ نام سے زیادہ کام پر اعتماد کرنے لگے ہیں اور اب لوگوں کی نظر میں گفتار کا پجاری نہیں ؛ بلکہ کردار کا غازی اہمیت رکھتا ہے ،اور کاموں میں بھی صرف اچھے کام کی پذیرائی ہوتی ہے ، بدی اوربد کو کوئی نہیں یاد رکھتا اور اس کی تاریخ سے اپنی تاریخ ملانانہیں چاہتا ہے ، اس کی ترجمانی انور جلال پوری نے اپنے ان اشعار میں کی ہے؂
اب نام کانہیں کام کا قائل ہے زمانہ
اب کسی کانام راون نہ ملے گا
انور جلال پوری صرف کسی ایک رخ کی شاعری نہیں کرتے تھے ؛ بلکہ حالات اور زمانہ کے تمام نشیب وفراز کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ جب کسانوں کے مسائل کے سلسلہ میں حکومت بے فکر ہوئی اور اتفاقا بارش نے بھی اپنے خوب کرتب دکھائے تو اس وقت انور جلال پوری نے یہ شعر کہا تھا
سیلاب آیا ڈوب گئی فصل دھان کی
پانی کے ساتھ بہہ گئی قسمت کسان کی
احمد فراز ؔ نے کسی موقع پر کہا تھا کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
انور جلال پوری نے اسی بات کو دوسرا روپ دیا ،موجودہ دور میں اخلاص کا فقدان،محبت کی کمی،اور دلوں کی پھٹن کا گلہ کرتے ہوئے اور اپنے اسلاف کی ایک اچھی مثال دیتے ہوئے کہا تھا؂
پہلے لوگوں میں محبت تھی ریاکاری نہ تھی
ہاتھ اور دل دونوں ملتے تھے اداکاری نہ تھی
انور جلال پوری نے مسلمانوں کی شان وشوکت کی بحالی اور ان کی آہ سحر گاہی میں تاثیر کی دعااپنی ایک مناجات میں مانگتے ہوئے التجا یوں کی تھی؂
یارب دل مؤمن کی آہوں میں اثر دے دے
بازوئے مسلماں کو جبریل کے پر دے دے
بہرحال اب انور صاحب تو چل بسے ، مگر ان کی یاد ہر مشاعرہ کا حصہ رہے گی، ہر ناظم کی آس رہے گی ، مشاعرے تو ہوتے رہیں گے؛ مگر وہ زینت وررونق نہ رہے گی، ہرمعتبر مشاعرہ کے اسٹیج سے اورہر سال لال قلعہ کی فصیلوں سے بھی صدا آئے گی کہ شاعری تو ہو رہی ہے؛ مگر وہ درد بھری آواز کہاں ہے؟ وہ لہجہ کا البیلاپن کہا ں ہے ؟وہ باریک باتوں کوصاف الفاظ کو روپ دینے والا الفاظ کا شہنشاہ کہا ں ہے ؟الفاظ وانداز کا وہ سواداگر کہا ں ہے؟ موقع شناسی اور مردم شناسی کا وہ جوہری کہاں ہے ؟اب کہاں تک حال غم اور زخم دل سنایا جائے بس آخر میں یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ
رو کے فضا یہ کہتی ہے کہ سخنور چلا گیا
الفاظ کا ذخیرہ و سمندر چلا گیا
اردو ادب اداس ہے محفل ہے اشکبار
افسوس کہ آج بزم سے انور چلا گیاِ

Share
Share
Share