اردو کے منتخب شخصی مرثیے:تبصرہ و تجزیہ
مصنف: ڈاکٹر عابد حسین حیدری
مبصر:گلشن جہاں
ڈاکٹر عابد حسین حیدری اردو رثائی ادب میں تحقیق و تنقیدسے وابستہ ایک ہمہ گیر شخصیت کا نام ہے،یہ وہ بلندپایہ علمی و ادبی شخصیت ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔
ڈاکٹر عابد حسین حیدری صاحب نے مضمون نگاری سے صحافت تک،شاعری سے تحقیق و تنقید تک کا طویل سفر طے کیا ہے ،گوکہ مختلف موضوعات پر اپنے قلم سے رشتہ استوار کیا ہے۔لیکن ان کی تحقیق و تنقید کا مرکزی نقطہ رثائی ادب رہا ہے،ان کی متعدد کتابیں اس کی شاہد ہیں۔رثائی ادب کے سلسلے میں ان کی نصف درجن کے قریب کتب منظر عام پر آچکی ہیں،جو ان کے پختہ شعور،بالیدہ فکر اور وسیع مطالعہ کی تصدیق کرتی ہیں۔
ڈاکٹر عابد حسین حیدری معتبر محقق اور سنجیدہ ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مشفق و صادق استاد بھی ہیں۔اردو زبان و ادب کی خدمت ان کا پیشہ ہے جس کو ۲۰۰۱ء سے اب تک ایم۔جی۔ایم پوسٹ گریجویٹ کالج سنبھل میں بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرعابد حیدری کی علمی خدمات اور ان کی قابلیت و صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں ادارے کا پرنسپل بھی مقرر کیاگیا ہے۔ انہوں نے کالج کا NAAC معائنہ کراکے کالج کو B++کا گریڈ دلایا ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حیدری نے ہمارے ادارے میں ڈیجیٹل لنگوج لیب اور ایم جی ایم نیوز لیٹر کی بھی شروعات کی ہے جس سے طلبا و طالبات کا تعلیمی معیار بلند ہوا ہے ۔ کالج کی اس اہم ذمیداری کو نبھانے کے باوجود موصوف علم و ادب کی خدمت اور تصنیف و تالیف میں لگے رہتے ہیں۔ڈاکٹر عابد حسین حیدری غیر معمولی ذہانت کے حامل اور علم کے شیدائی ہیں،راقم الحروف کو ان کی شاگردہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان جیسے مشفق و عالم استاد کی شاگردی نصیب ہوئی۔ڈاکٹر عابد حسین حیدری سے جب جب ملاقات ہوتی ہے ،ان کی علمی و ادبی شخصیت ہر مرتبہ مجھے ایک نئے آہنگ سے متاثر کرتی ہے اور حصول علم کا حوصلہ دیتی ہے۔
ڈاکٹر عابد حسین حیدری کے رثائی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔اس سلسلے میں ان کی متعدد تصنیف و تالیف شائع ہو چکی ہیں۔جن میں (اردو میں شخصی مرثیے کی روایت ،۲۰۰۸ء)،(رثائیات،تجززیات،شخصیات،۲۰۱۱ء)،(دبستان زیدپورکی مرثیہ گوئی،۲۰۱۴ء)،(شاگرد دبیرؔ :ذکی بلگرامی.۲۰۱۵ء)،(رثائی تحائف،۲۰۱۵ء) (میرے تجزیاتی اوراق ۔۲۰۱۶)اور ا(ردو کے منتخب شخصی مرثیے،۲۰۱۶ء)،مرثیے کی تحقیق،تفہیم اور تفسیرسے متعلق موضوعات پر بہترین کتابیں ہیں۔استاد محترم ڈاکٹر حیدری کی تصنیف ’’اردو میں شخصی مرثیے کی روایت‘‘ایک جدید طرز کی عمدہ کتاب ہے ،جس نے اردو ادب میں شخصی مرثیے پر کام کرنے کی راہ ہموار کی ہے ۔تو ان کی ترتیب و تقدیم کردہ کتاب ’’اردو کے منتخب شخصی مرثیے‘‘نے اردو کے بہترین ،مشہور اور غیر مطبوعہ شخصی مراثی اور مرثیہ گوکوقاری سے متعارف کرایا ہے۔موصوف کی کتاب ’’اردو کے منتخب شخصی مرثیے‘‘ایک نایاب کتاب ہے۔
جس میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری صاحب نے کوزے میں دریا بھرنے کی مانند ، ا ردو کے بہترین شخصی مرثیوں کا انتخاب کرکے ان کو یکجا کر دیا ہے۔اردو کے منتخب شخصی مرثیے اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے طالب علم،اساتذہ اور قارئین کے لئے ،مرثیے کے آغاز و ارتقاء،مرثیے کی تعریف ،مرثیے کا فن،اس کے اجزائے ترکیبی خصوصاشخصی مرثیے سے متعلق تفصیلی معلومات ،شخصی مراثی سے آگہی اور تحقیقی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔زیر نظر کتاب ’’اردو کے منتخب شخصی مرثیے‘‘کے مطالعے سے قاری کو خود بخود کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہونے لگتا ہے کیوں کہ اردو کے رثائی ادب میں اس درجہ کی ترتیب و تقدیم صرف ڈاکٹر عابد حیدری صاحب کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔
اردو کے منتخب شخصی مرثیے :ایک تجزیاتی مطالعہ:۔
ڈاکٹر عابد حسین حیدری کی زیر مطالعہ کتاب ’’ اردو کے منتخب شخصی مرثیے‘‘اردو ادب میں خصوصا شخصی مرثیے کے سلسلے میں ایک جامع اور مدلل کتاب ہے۔اردو کے منتخب شخصی مرثیے کی علمی و ادبی اہمیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ڈاکٹر حیدری نے اردو کے منتخب مرثیوں کی ترتیب سے پہلے اردو میں شخصی مرثیے کی تاریخ کے آغاز و ارتقاء،اجزائے ترکیبی سے قاری کو بخوبی متعارف کرا دیا ہے۔زیر نظر کتاب ۲۵۶ صفحات ،اور ۳۳ شخصی مراثی پر مشتمل ہے۔اردو کے منتخب شخصی مراثی پر موصوف کا جامع اور مدلل مقدمہ شامل ہے ،جیسے جیسے قاری ڈاکٹر عابد حیدری کا لکھا گیا مقدمہ پڑھتا جاتا ہے،ویسے ویسے اس کو شخصی مرثیے کی روایت و فن کی جامع معلومات حاصل ہوتی جاتی ہے اور شخصی مرثیے کے فن سے متاثر ہو کر اس کاذہن و دماغ رثائی ادب کی طرف راغب ہونے لگتا ہے۔مختصریہ کہ شخصی مرثیے پر مبنی یہ ایک بہترین اور تحقیقی و تخلیقی مقدمہ ہے ۔
اردوکے شخصی مراثی کی پیش کش کی ابتداء برہان الدین جانم کے مرثیے ’’میراں جی شمس العشاق ‘‘سے ہوتی ہے جو برہان الدین جانم نے اپنے والد میران جی کا لکھا تھا۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری نے قاری کے تما م وسوسوں کو دور کرتے ہوئے پختہ حوالہ کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ یہ اردو کا پہلا شخصی مرثیہ ہمیں برہان الدین جانم کے یہاں ملتا ہے ۔ص؛۲۱۔ ۔ اس کے بعد اردو کا دوسرا شخصی مرثیہ ’’مرثیۂ اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے ہے،جو میر جعفرؔ زٹلی نے فارسی زدہ اردو میں لکھا تھا۔اس کے بعد اردو شخصی مرثیہ نگاری میں سب سے زیادہ مشہور شخصی مرثیہ ’’ مرثےۂ عارف ‘‘ہے جو کہ غالب نے اپنی گود لی ہوئی اولاد عارف کی موت پر لکھا تھا۔یہ پورا مرثیہ اردو کے منتخب شخصی مرثیے میں شامل ہے،جو کہ اردو ادب کا مطالعہ کرنے والوں کو آسانی سے فراہم ہوجاتا ہے۔زیر مطالعہ کتاب کا چوتھا مرثیہ اردو مرثیے کے بادشاہ میر ببر علی انیسؔ کا غیر مطبوعہ مرثیہ ہے جو کہ ’’یا خدا دل کو کسی کے غم اولاد نہ ہو‘‘ کے عنوان سے انیس نے لکھا تھا۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ انیس جیسے بلند پایہ مرثیہ گو کا کلام بھی عام قاری کی دسترس سے دور تھا جس کو ڈاکٹڑ عابد حسین حیدری صاحب نے اپنی کتاب میں شائع کرکے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا ہے۔اس کے بعد اردو کا بہترین شخصی مرثیہ ’’مرثیہ غالب ‘‘ ہے جو اردو شخصی مرثیہ نگاری میں سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے (پیام سرسید۔چودھری خوشی محمد ناظر)،ثنائے علم سے روشن ہے آسمان سخن ۔حامد جونپوری ،مرثۂ حالی۔صفی لکھنوی،والدہ مرحومہ کی یاد میں۔علامہ شیخ محمد اقبال،گوپال کرشن گوکھلے،چکبست لکھنوی،مرثئیہ کرامت و اوجؔ ۔پروفیسر مہدی حسین ناصریؔ ،مرگ حیات آفریں۔اقبال سہیل،ماتم اقبال۔جگن ناتھ آزاد،کرب چمن۔علی جواد زیدی،مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد۔آنند نرائن ملاؔ ،فردوس گمشدہ(مولانا ابوالکلام آزاد) ۔فضا ابن فیضی،دیدہ ور(پنڈت جواہر لال نہرو)۔عرشؔ ملسیانی،جان برادر احتشام حسین ۔شمیم کرہانی،آخری نظم بیاد جوش۔احسان دانش،قلم آشوب (مولانا سید علی نقوی)پروفیسر وحید اخترؔ ،مرثےۂ کمال امروہوی۔جون ؔ ایلیا،خطیب اعظم (سید غلام عسکری)۔ڈاکٹر پیام اعظمی،آہ علامہ جوادی(سید ذیشان حیدر)۔ڈاکٹرعظیم امروہوی،مرثیہ معجزسنبھلی۔نوشہ امروہوی،ہر ایک کرتا تھا تیرا احترام عرفان صدیقی۔ڈاکٹر مخمور ؔ کاکوروی،رثاء واعظ(مولا نا کرار حسین واعظ۔رضا ؔ محمد آبادی،سوگیا آسمان(نذر علی جواد زیدی۔شاہد کمال،نظم تعزیت(بیاد چراغ حسن کاملؔ )۔جماد مبارکپوری جیسے عمدہ شخصی مراثی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اردو کے منتخب شخصی مرثیے کتاب میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری صاحب نے سات نایاب غیر مرتب مراثی (یا خدا دل کو کسی کے اولاد غم نہ ہو۔میر ببر علی انیس)،(کرب چمن ۔علی جواد زیدی)،(حادثۂ خانکاہ۔نسیمؔ واسطی جونپوری)،(شاعرتشنگی۔شفقؔ شادانی)،(بیادقا ضی اطہر۔ایوب مبارکپوری)،(ذاکر مجلس شام غریباں۔ڈاکٹرنسیم الظفر)،(مامتا کی دیوی۔م۔ر۔عابد)کو شائع کرکے اردو مراثی کے اس عظیم سرمایہ کو محفوظ کر دیا ہے۔
عہد حاضر رثائی ادب کی تفہیم کا انحطاط پذیر دور نظر آتا ہے ،رثائی ادب کے سنجیدہ قارئین کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اساتذہ اپنے طلبا کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کراتے اور نہ ہی رثائی ادب کا جامع انتخاب شائع ہو پارہا ہے۔اس دور انحطاط میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری نے زیر مطالعہ کتاب میں قدیم اور جدید مرثیوں کی اشاعت کرکے اس عظیم ورثہ کو تلف ہونے سے محفوظ کر دیا ہے۔یہ کتاب نوجوان نسل کو شخصی مراثی سے متعارف کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کرکے مقبولیت کی سند حاصل کررہی ہے۔