ویلنٹا ئن ڈے محبت کا دن یا بے حیائی کا ؟
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
محبت ایک پاک جذبہ ہے یہ کیوں اور کیسے ہوتی ہے،اچھی بات تو سب کو اچھی لگتی ہے، لیکن جب تمھیں کسی کی برُی بات بھی برُی نہ لگے تو سمجھو تمھیں اس سے’’ محبت‘‘ ہو گئی ہے۔راحت ہو سرور ہو یا رنج وغم،نفع ہو یا نقصان، ہر حال میں اپنی خواہش کو ختم کر کے محبوب کی خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کا نام’’محبت‘‘ ہے۔
محبت کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ سے محبت،رسو ل اللہ ﷺ سے محبت،اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے محبت، ماں باپ،بہن بھائی،بیوی بچوں سے محبت، اپنے گھر کاروبار،گاؤں،شہر سے محبت،جانوروں سے محبت،دنیا سے محبت،وغیرہ وغیرہ اللہ رب العزت اپنے بندوں سے محبت فرماتا ہے قرآن مجید میں مختلف انداز میں محبت کا ذکر ہے ۔ترجمہ: بیشک اللہ نیکوکاروں سے محبت فر ماتا ہے۔(القر آن،سورہ البقرہ:۲،آیت۱۹۵)اللہ اپنی تمام مخلوق پر مہربان ہے اسکی صفت رحمٰن ورحیم ہے۔ اللہ کے نیک بندے بھی اللہ سے محبت کرتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ترجمہ: اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ( ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے ہی زیادہ محبت کرتے ہیں ۔(سورہ البقرہ ۲،آیت۱۶۵،) لفظِ ’’محبت‘‘ بہت ہی پاک و صاف ہے اور ’’محبت‘‘ دنیا کاسب سے خوبصورت جذبہ ہے لیکن مطلب پرستوں اور حوس پرستوں نے اپنی خود غرضی اور ضرورتوں کے تحت اسے گندہ اور بدنام کردیاہے۔غیر فطری و ناجائز کام کو بھی محبت کا نام دیتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ محبت کی خوبیوں و خرابیوں کی بہت تفصیل ہے، محبت کی سب بڑی خرابی ماہرین یہ بتاتے ہیں کی محبت اندھی ہو تی ہے۔حالانکہ فلسفی اور محبت کر نے والے محبت کو اندھی نہیں مانتے ،بہرحال محبت کا الگ الگ جذبہ ہے آ ج کا نوجوان محبت کے نام پر عیاشی کا دروزہ کھول دیا ہے جو اب رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اسی میں VALENTINE DAYکو بھی شا مل کر لیا ہے۔
14 فروری کو ویلنٹائن ڈے محبت کا دن نہیں،حقیقت میں محبت کا یوم شہادت ہے۔ویلنٹائن ڈے’’دن‘‘ کے حوالے سے ہمارے مسلم نوجوانوں کی معلو مات میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ جہا ں اس کے منانے والے جوش وخروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہیں اس دن کی مخا لفت کرنے والے بھی کم نہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ویلنٹائن ڈے’’دن‘‘ جیسی روایت موجود نہ ہوتی تو کیا دنیا میں لوگ اظہارِ محبت نہ کرتے ۔ صرف چند بے شرم نوجوان ایسے ہیں جو اس دن کو عیاشی کے حوالے سے مناتے ہیں یا مناسکنے کی طاقت رکھتے ہیں، ایسے لوگ زیادہ تر امیر گھروں سے تعلق رکھتے ہیں ایک غریب تو اسے برداشتAFFORDبھی نہیں کر سکتا، ہما رے معا شرے میں کیا کوئی محبت نہیں کرتا تھا یا اب نہیں کرتا جو آج کا نو جوان ویلنٹائن ڈے منا کر دنیا کو محبت کرنا سیکھا رہا ہے۔آج تو تمام ٹی وی شو بے شر می کے ساتھ محبت کر نا سیکھا رہے ہیں،اس سے بڑھکر آج جتنے گانے ہیں سب ہی بے شر می کے ساتھ محبت کا سبق دے رہے ہیں، بلکہ لوک کہا نیاں اور آج کی ننگی وبے شرم فلمیں محبت سیکھارہی ہیں پھرکیوں ہمارا نوجوان فیشن کے نام پر بے حیائی و بے شرمی کے تمام ریکارڈ توڑتا جارہا ہے۔
حیا نہیں زمانے کے آنکھ میں باقی! :
عہدِنو کے فیشنوں نے سب کے یوں بدلے ہیں رنگ
دیکھ کر ان کی ادائیں، عقل رہ جا تی ہے دنگ
نت نئے اندازمیں یوں محو ہیں پیرو جواں
جس طرح کہ ڈولتی ہے، ڈورسے کٹی پتنگ
گھیر میں شلوار کے کوئی تو لا ئے پورا تھان
آدھ گز کپڑے میں کوئی سُوٹ کو کر ڈالے تنگ
وہ حیا جو کل تلک تھی مشر قی چہرے کا نُور
لے اُڑی اس نِکہتِ گُل کا یہ تہذیبِ فرنگ
کو ئی پھٹی جینز کو سمجھا ہے ہستی کا عروج
خوا ہشِ عُر یاں نے ہے فیشن کا پایا عُذ رِ لنگ
میں مخا لف تو نہیں جدت پسندی کا مگر
کھا نا جائے مشرقی اقدار کو پَچھَمی پُلنگ
مختصر اتناکہ سرور،احتمال یہ بھی رہے
تُند صحراکے لیے ہو تانہیں ہر گز کَلَنگ۔(کَلنگ ..ہنس)
رومن کیتھولک چرچ کے مطابق ویلنٹائن ایک نوجوان پادری تھا،جسے سن 270ء میں شہید محبت کردیا گیا تھا۔ کہتے ہیں مارکس آر ے لیئس روم کا بادشاہ تھا بادشاہ کو اپنی فوج میں اضافے کے لیے فوری طور پر فوجیوں کی ضرورت پڑگئی تو اس نے ہر ملک میں اپنے نمائندے پھیلا دیئے تاکہ وہ اس کے لیے کنوارے نوجوانوں بھرتی کرسکیں۔ رومی فوجی نو جوانوں نے شادیاں کرنا شروع کردیں۔اطلاع شہنشاہ کو پہنچی تو اس نے شادیوں پر پا بندی نافذ کردی۔ویلنٹائن پادری نے بادشاہ کے حکم کو نا جائز قرار دے دیا۔خفیہ شادیاں کرانے لگا۔ یہ بات زیا دہ دیر تک چھپی نہ رہ سکی اور اسے گرفتار کرلیا گیا۔ قید کے دوران نوجوان پادری کو داروغہ کی بیٹی سے عشق ہوگیا اس کی پاداش(سزا) میں ویلنٹائن پادری کا سر قلم کر دیا گیا ۔رومن کیتھو لک چرچ ۱۴ فر وری کو اس کا یومِ شہادت مناتا ہے ،تاریخ سے نا واقفیت سے ہم کیسے کیسے گناہ کے کام کرتے ہیں عیسائی لوگ پادری کے قتل کادن ۱۴ فروری یومِ محبت کے نام پر مناتے ہیں۔ اگر ہم کو محبت ہی بانٹنا ہے تو سبھی سے محبت کریں اور ہر دن کریں،ویلنٹا ئن پادری تو دوسروں کی شادیاں کروایا کرتا تھا، شادی کرانا تو ثواب کا کام ہے۔آج مسلم معاشرے میں جہیز کی لعنت کی وجہ کر کتنی غریب بچییاں کنواری سسک رہی ہیں ماں باپ کی نیندیں حرام ہیں۔ آیئے ہم عہد کریں سال میں کم ازکم ایک غریب کی شادی کرائیں گے ان شا ء اللہ یا کم از کم زند گی میں ایک غریب لڑ کی کی شادی کر وائیں گے اور خود بھی بغیر جہیز کی فر مائش کے شادی کریں گے۔خدارا ہوش میں آؤ معاشرے میں پھیلی برا ئیوں کو روکنے کی کوشش کریں نہ کی اور اس میں بڑھاوے کا سبب بن کر گنا ہوں کا انبار لیکر اللہ کے وہاں پہنچیں اللہ ہم سب کو بے حیائی کے کا موں سے بچنے کی تو فیق عطا فر مائے آ مین ثم آ مین۔
e-mail:
Mob.:09279996221