اردو ادب اور لوک گیت :- عزہ معین

Share
عزہ معین

اردو ادب اور لوک گیت

عزہ معین ،سنبھل

اردو لوک ادب کیا ہے اس کی مکمل تفہیم اور ادراک کے لئے سب سے پہلے ادب کیا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے.یہاں بنیادی طور پر دو ہی الفاظ کلیدی ہیں.ایک لوک ہے اور دوسرا ادب. میرے خیال میں ان دونوں کی تعریف سے لوک ادب کا مطلب بھی بہت حد تک واضح ہو جائے گا.ادب کیا ہے اس حوالے سے ہمارے ادیبوں نے مختلف آرا اور خیالات پیش کئے ہیں اس لئےاس کی مختلف تعریفیں سامنے آئی ہیں.

کسی نے کہا کہ ادب سماج کا آئنہ ہوتا ہے. کسی نے کہا کہ یہ خیالات و احساسات کی ترجمانی کا ذریعہ ہے کسی نے اس کو خوبصورت الفاظ کے مناسب استعمال کا نام دیا تو کسی نے اسے سکون کا باعث قرار دیا. اور کبھی تحریرکی شکل میں دریافت ہر متن کو ادب سے تشبیہ دی گئی.بزرگوں کی مانیں تو ادب کی تخلیق کے پسِ پردہ کوئی نہ کوئی خواہش پنہاں ہوتی ہے. اکثر و بیشتر جب کو ئی فن پارہ تخلیق پاتا ہے تو در اصل اس کی وجہ کوئی دیرینہ امید و نامیدی کی کشمکش کا ملا جلا ایک حسین امتزاج ہوتا ہے. بیشتر ادب شدید خواہش کے زیر اثر وجود میں آتا ہے. تخلیق کی خواہش انسان کی فطرت ہے۔ اسی جبلی خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ اور دوسرے علوم میں یہی فرق ہے کہ اس میں کوئی مادی فائدہ مقصود نہیں ہوتا۔ یہ بے غرض مسرت ہے۔ ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے "فن لطیف” بھی کہہ سکتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے "انسانی افکار ، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے”۔ نارمن جودک کہتا ہے کہ "ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔”
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب اپنی تمام تر جزوئیات مثلا لفظیات، نحویات ، ساختیات اور دیگر اعتبار سے معیاری ہوتا ہے اور جس کو ادبی معیار کی سخت سے سخت کسوٹی پر بھی پرکھا جا سکتا ہے . لوک ادب کیا ہے؟ لوک ادب میں بھی کسی نہ کسی احساس اور خیال کو ہی بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ ادب تسلیم شدہ معیار کے مطابق نہیں ہوتا ہے.
در اصل قاری کی مختلف کیٹگریز ہوتی ہیں.لفظ "لوک” سے بھی ایک خاص قسم کے قاری کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے.ہر انسان بنیادی طور پر باذوق ہوتا ہے. اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے ہر انسان اپنے اپنے معیار اور ماحول کے مطابق یا تو ادب تخلیق کرتا ہے یا پھر تخلیق شدہ ادب سے لطف اندوز ہوتا ہے.
لوک ادب کی تعریف اب تک واضح ہوگئی ہے تقریبا ً سب ہی مقالہ نگاران اور صدور صاحبان نے مکمل طور پر اس پر روشنی ڈالی ہے لیکن میرا نظریہ زرا سا الگ ہے ممکن ہے قابل قبول نہ ہو لیکن اپنے خیالات کو آپ کے سامنے رکھ کر شاید کچھ میری معلومات میں بھی اضافہ ہو جائے.
پروفیسر محمد حسن کے الفاظ میں
” وہ ادب جس کو عوام نے جنم دیا ہولوک ادب ہے. "
پروفیسر محمد حسن کو یہاں واضح کرنا چاہئے تھا کہ عوام سے انھوں نے کیا مراد لیا ہے کیا معیاری ادب تخلیق کر نے والے مصنف عوام میں شامل نہیں ہیں؟ اس لئے میرا یہ ماننا ہے کہ صرف عوام کہہ دینے سے بات واضح نہیں ہوتی. بلکہ اس کے ساتھ یہ اضافہ کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ عوام جو زبان کے اصول یا ہم کہہ سکتے ہیں لفظیات سے ناواقف ہو.
یعنی لوک ادب وہ ادب ہے جو کسی بھی خاص علاقہ کی عوام، انپڑھ عوام جو ملک کی معیاری زبان سے ناواقف ہوتے ہیں کے ذریعہ وجود میں آتا ہے.
لوک ادب پہ بات کرتے ہوئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ لوک ادب اور وہ ادب جس کا مطالعہ متعلقہ زبان کے ماہرین کرتے ہیں ان میں بہت فرق ہے.یہ جو لوک ادب ہے اس کی لفظیات،نحویات، اس کے محاورے ،استعارے، اسلوب اور ساخت بہت مقامی ہوتے ہیں.لیکن وہ ادب جو میر اور غالب کے ہاتھوں پرورش پاکر ہم تک پہنچا ہےوہ اپنی ساخت اور زبان کے اعتبار سےمقامی نہیں ہوتا ہے .ہر علاقہ اور ہر طبقہ اور ہر سماج کے لوگ اس کی چاشنی اس کی آفاقیت محسوس کر سکتے ہیں.جب کہ لوک ادب کی معنویت ایک مخصوص طبقہ تک ہی محدود رہتی ہے.اس کی رسائی عالمی ادب تک نہیں ہو سکتی.اس کو ہم آسان زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ میر غالب، اقبال اورپریم چند کو سنبھل کے قاری بھی اتنی ہی دلچسپی سے پڑھتے ہیں جتنا ہندوستان کے کسی دوسرے صوبہ کے کسی بھی چھوٹے شہر کا قاری سمجھتا ہے. لوک ادب سے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئےکہ اس کی معنویت کو میر ،غالب ،پریم چند اور ان جیسے دوسرے ادیبوں کے شہ پاروں کے مد مقابل سمجھا جائے.
اردو ادب میں روز بہ روز عوامی ادب کو شامل کرنے کی روش عام ہوتی جارہی ہےایک عرصہ تک پاپولر ادب کو ادب سے الگ رکھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابن صفی اور ان جیسے مقبول مصنفین کو ادب کے مین اسٹریم میں لانے کی کوشش ہوتی رہی .کچھ عرصہ قبل تک ابن صفی کو ادب میں گنا جانا اشتعال کا باعث تھا.لیکن آج باضابطہ پی ایچ ڈی کی جارہی ہے .عوامی ادب کے زمرے میں ایسی بہت سی چیزیں داخل کر دی گئی ہیں جن کو ادب کہنا بھی ادب کی بے ادبی ہے.لیکن ابھی بھی کچھ لوگ باحیات ہیں جو اس نظریہ کو بالکل غلط سمجھتے ہیں. عوامی ادب کی زبان اورادب کی عمومی طرزِ تحریر دریا کے دو الگ الگ کنارے ہیں انھیں ملانا وہ بھی ایک دو چیزوں کی مناسبت کی وجہ سے بالکل بے بنیاد بات ہے.لوک ادب پڑھنے اور اس پر تحقیق کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے. اس پر ریسرچ کرنا ایک الگ بات ہے لیکن تحقیق کرتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ کر اس کو ادب سے نہ جوڑا جائے. مجھے یہ خدشہ اس لئے لاحق ہےمجھے یہ خدشہ اس لئے لاحق ہے کہ عام طور جب کسی موضوع پر تحقیق کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ایک انجانی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس محبت میں زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین کہہ دیا جاتا ہے.
لوک گیت کا مطالعہ کرنا اور اس کا شمار ادب کے زمرے میں کرنا دو بالکل مختلف زاوئے ہیں.مجھے اس سے سراسر اختلاف ہے کہ ہر اس چیز کو ادب کے زمرے میں رکھ دیا جائے جس کا ہم مطالعہ کرتے ہیں یا جس پر ہم گفتگو کرتے ہیں. زبان و بیان کی بنیاد پر ایک حد فاصل ہمیشہ قائم رہنی چاہئے. لوک ادب یا عوامی ادب وغیرہ یہ کیا ہے اس میں بے حد گنجائش ہے کہ اس کو ادب کے زمرے میں نہ رکھا جائے. ادب کی تعریف میں دریافت بعض نشانیوں کے لوک ادب میں ہونے کے باوجود بھی یہ ہضم نہیں ہوتا کہ اس کو اٹھا کر سر کا تاج بنایا جائے. الا یہ کہ اس میں خود ادب کے زمرے میں شامل ہونے کے امکانات پوشیدہ ہوں. اس تعلق سے یہاں نظیر اکبر آبادی کو پیش کیا جا سکتا ہے. ایک عرصے تک ان کے کلام کو عوامی ادب کا نام دیکر ادب سے دور رکھا گیا. ان پر گفتگو کرنا بے ادبی سمجھی گئی. لیکن مرور ایام نے ان کے کلام کو ادب کا بہترین سرمایہ قرار دیا. ایسا اس لئے ممکن ہو سکا کہ ان کا کلام عوامی ہونے کے باوجود ادب کے بنیادی تقاضوں سے لبریز تھا. ایک وقت تھا کہ نظیر اکبر آبادی کو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن جب ادبی نقطئہ نظر سے ان کے سرمائے کو سراہا گیا تو ان سے آج پوری ادبی دنیا واقف ہے. اسی طرح لوک گیت کو ہم ادب میں شمار کر سکتے ہیں اس میں سماج کی عکاسی ملتی ہے.لوک گیت ہر موقع محل کے اعتبار سےپڑ ھے جاتے ہیں اور اسی اعتبار سے ان میں بیانیہ پایا جا تاہے.اس کی دریافت نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان نیپال بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی کی گئی ہے بالخصوص ہندوستان میں گیتوں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے.ہر دو چار کلو میٹر کے بعد لوک گیت کی زبان اور بیانیہ میں فرق ملتا ہے.ہر اسٹیٹ صوبہ کی تاریخ ہم اس کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں.لوک گیت کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ اس میں عام طور وہ باریک اور چھوٹے چھوٹے مگر اہم حقائق بیان ہوتے ہیں جہاں تک ایک ایک مستند مصنف کی رسائی نہیں ہو پاتی.خواتین جو شادی بیاہ،بچوں کی پیدائش اور دوسرے مواقع کی مناسبت سے جو گیت گاتی ہیں ان میں واقعات کے نہایت ہی باریک پہلووں کو سمو لیتی ہیں جن کا نمونہ کسی افسانے اور ناول میں نہیں ملتا.لیکن ان سب کے باوجود ہم پھر بھی کہیں گے کہ ادب میں لوک گیت کو شامل کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں.اس راہ میں مانع گیت کی زبان ہے جس کی حیثیت بہت سطحی ہوتی ہے. کیوں کہ ان کی زبان قصائد سے بھی زیادہ مشکل اور نابلد ہوتی ہے.لوک گیت میں زبان تو مشکل استعمال ہوتی ہی ہے ساتھ ہی اس میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے.لوک ادب اور گیت کی ایک چیز بہت اچھی اور قابل تعریف ہے اس میں سلینگ الفاظ زندہ رہتے ہیں.
اردو میں لوک ادب کی روایت سب سے قدیم رہی ہے اردو کے اولین نمونے انھیں گیتوں میں دریافت کئے گئے. دکنی اردو میں صوفیاء کی تحریریں مثلاً خواجہ بندہ نواز کی مثنویاں لوک گیت کے زمرے میں شامل کی جاسکتی ہیں اور بھی اسی طرح کی تحریریں لوک ادب سے نسبت رکھتی ہیں.
شادی کے موقع پر گائے جانے والے گیت اپنے اندر مکمل سماج اور رسوم و عقائد کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں. اس موقع پر دو سے تین مہینہ پہلے سے گھروں میں عورتیں ان گیتوں کو ڈھولک کی تھاپ پر گانا شروع کردیتی ہیں. منگنی میں گائے جانے والے گیت ابٹن میں گائے جانے والے مہندی کی رسم اور منڈھے کی رسم پھر آرسی مصحف رسم کے گیت پھر دلہن کے دوسرے گھر پہنچنے پر گائے جانے والے گیت وغیرہ اپنے ساتھ ایک تہذیب سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں.
چمن میں کس کی شادی ہے خوشی سے لوگ آتے ہیں
سونے روپے کے تھالوں میں بھرائی کھیر کے پیالے
لے جاو اس مجالس میں خوشی سے کھاتے ہیں
اس کے جیسے ہزاروں گیت پڑھے اور کچھ اشعار یہاں کوٹ کرنے کے لئے تلاش کئے لیکن معاف کیجئے گا میری نظر میں کوئی بھی شعر نہ جچا کہ یہاں پیش کر سکوں .
حال ہی میں دیوندر ستیارتھی کی اہلیہ نے ان کی ایک کتاب شائع کی ہے.اس کتاب میں ہندوستان کے مختلف علاقے کی گیتوں کو اکٹھا کیاگیا ہے. انہوں نے ملک کے دور دراز علاقوں کا سفر کرکے نہ صرف گاوں گرام سے گیتوں کو نکال کر پیش کیا بلکہ شہروں میں دبے ہوئے ذخیرے کو بھی یکجا کیا. جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا لوک ادب پہ گفتگو کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے.محدود دائرے میں اس کی معنویت سے بھی کوئی انکار نہیں ہو کر سکتا.

Share
Share
Share