ڈاکٹر راحت سلطانہ کی غزل گوئی
ڈاکٹر صالحہ شاہین
لیکچرار ۔ حیدرآباد
ڈاکٹر راحت سلطانہ بحیثیت ادیبہ اردو دنیا میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں اور ان کی کئی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر بھی آچکی ہیں لیکن ساتھ ہی راحت سلطانہ نے شاعری کی مختلف اصناف جیسے غزل ‘ نظم ‘ حمد اور نعت ‘ قطعہ ‘ ثلاثی ‘ ماہیہ اور ایک مصرعی نظموں کے ذریعہ اپنے جذبات ‘ احساسات اور مشاہدات کے اظہار کا پختہ شعور رکھتی ہیں ۔
’’چراغ آرزو‘‘ ڈاکٹر راحت سلطانہ کی شعری تخلیقات کا پہلا مجموعہ ہے جس میں غزلیں بھی ہیں ‘ نظمیں بھی ‘ حمدیہ قطعات اور نعتیہ قطعات بھی اور جدید شعری اصناف جیسے یک مصرعی نظمیں ‘ ماہیے اور ثلاثیاں بھی۔
ڈاکٹر مظفر شہ میری ‘ ’’چراغ آرزو‘‘ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔
’’ فی زمانہ اردو میں تین طرح کی شاعرات دکھائی دیتی ہیں ۔ ایک وہ جو شمع محفل مشاعرہ بنی ہوئی ہیں ۔ جن کے اجالوں میں شاعرہ کا ایک عام سامع یا ٹیلی ویژن کا عام ناظر خود کو مسرور و مدہوش پاتا ہے ۔ دوسری وہ جو چراغ خانہ بن کر رہنے میں عافیت سمجھتی ہیں اور اپنے دلی جذبات و کیفیات کو الفاظ کے سانچوں میں ڈھال کر انہیں سینت سینت کر رکھتی ہیں۔ تیسری وہ جو اپنے جذبات کو فکر و احساس کی بھٹی میں جلاکر انسانی رشتوں بالخصوص مرد اور عورت کے رشتہ کو سمجھنے یا انہیں ایک سمت دینے کی طرف متوجہ ہیں ۔ ڈاکٹر راحت سلطانہ کا تعلق دوسری قسم کی شاعرات سے ہے وہ شمع محفل مشاعرہ یا ماہِ آسمان فکر و فلسفہ نہیں بلکہ ایک چراغ خانہ ہیں جس کی روشنی ان کے دلی جذبات کے اظہار سے پھوٹ کر نکلتی ہے یہ روشنی اگرچہ محدود ہے مگر اس میں بڑی برکت ہے ‘‘ ۔
یہ سچ ہے ڈاکٹر راحت سلطانہ چراغ خانہ ہیں اور اپنے دلی جذبات کا اظہار قرطاس ابیض پر بکھیر دیتی ہیں اور ان کا یہ شعری مجموعہ ان کے ایسے جذبات پر مشتمل اشعار کا مجموعہ ہے ۔ سب سے پہلے ہم اس مجموعہ میں شامل ان کی غزلوں کا جائزہ لیں گے ۔ اس مجموعہ میں جملہ (41) غزلیں ہیں ۔ اپنی رائے میں ڈاکٹر مظفر شہ میری نے کہا تھا کہ راحت سلطانہ وہ شاعرہ ہیں جو اپنے دلی جذبات و کیفیات کو الفاظ کے سانچوں میں ڈھال کر سینت سینت کر رکھتی ہیں اور یہ بھی سچ ہے انہیں جب بھی موقع ملتا ہے اسے الفاظ کے جامہ میں ڈھال دیتی ہیں ۔ جیسے ایک غزل انہوں نے اپنے شوہر ڈاکٹر محمد علی اثرؔ کیلئے کہی ہے : کہتی ہیں ۔
فکر میں کھوگئے ہیں تمہارے لئے
شاعری کررہے ہیں تمہارے لئے
غم بھی لاکھوں سہے ہیں تمہارے لئے
مسکرانے لگے ہیں تمہارے لئے
حکم جو بھی کرو ہم بجا لائیں گے
ہم تو بھیجے گئے ہیں تمہارے لئے
اپنے رب سے شفا کی دعا مانگنے
سربہ سجدہ ہوئے ہیں تمہارے لئے
اس غزل میں راحتؔ سلطانہ کھل کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتی ہیں ۔انسان کے سامنے جب بھی کوئی سنجیدہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے یا کوئی واقعہ یا حادثہ دل پر اثر کرتا ہے تو وہ یا تو ایسے نغمے سننا پسند کرتا ہے جو دل پذیر ہوں اور جس میں ایسی شاعری ہو جو اس کے دلی جذبات کا اظہار کرتی ہو یا پھر اگر وہ شاعر یا شاعرہ ہو تو ان جذبات کا اظہار اپنی شاعری میں ڈھال دیتا ہے ۔ راحت سلطانہ چونکہ شاعرہ ہیں اسی لئے انہوں نے اپنے شوہر کے تعلق سے جو جذبات ان کے دل میں موجزن تھے اسی کو شاعری کا روپ دے کر اس طرح اظہار کرتی ہیں ۔
فکر میں کھوگئے ہیں تمہارے لئے
شاعری کررہے ہیں تمہارے لئے
اسی غزل میں آگے اپنے غموں کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہیں ۔
غم بھی لاکھوں سہے ہیں تمہارے لئے
مسکرانے لگے ہیں تمہارے لئے
مطلب بحیثیت بیوی ہونے کے ناطے جو بھی مشکلیں ازدواجی زندگی میں پیش آئیں جو بھی غم ملے انہیں صبر کے ساتھ سہہ لیا اور بقول مرزا غالبؔ کے
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
راحتؔ سلطانہ یہاں یہ کہنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے شوہر کیلئے اتنے غم سہے ہیں کہ اب ان کو عادت سی پڑگئی ہے اس لئے اب وہ پریشان ہونے کی بجائے مسکرانے ہی کو وہ بیوی کا فرض سمجھنے لگی ہیں ۔
آگے کے شعر میں قدرت کے اُس نظام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ رشتے آسمانوں میں طئے ہوتے ہیں او ریہ کہ اگر کسی کو اللہ کے سواء سجدے کا حکم ہوتا تو وہ بیوی کو ہوتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے ۔ یہی بات وہ اپنے اس شعر میں کہنا چاہتی ہیں کہ
حکم جو بھی کرو ہم بجالائیں گے
ہم تو بھیجے گئے ہیں تمہارے لئے
اگلا شعر اس پس منظر میں کہا گیا ہے جہاں راحتؔ سلطانہ کے شوہر چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے ہیں اور بیوی کی حیثیت سے شوہر کی تیمارداری و خدمت تو جاری ہے لیکن ساتھ اپنے اللہ سے شوہر کی صحت یابی کی دعائیں بھی مانگی جارہی ہیں اور اللہ کا قرب سب سے زیادہ سجدے کی حالت میں انسان کو نصیب ہوتا ہے اسی لئے شاعرہ کہتی ہیں ۔
اپنے رب سے شفا کی دعا مانگنے
سربہ سجدے ہوئے ہیں تمہارے لئے
ایک اور جگہ کہتی ہیں کہ
ہے فائدہ بیٹے سے تو بیٹی سے خسارہ
اس طرح سے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہے
موجودہ مادہ پرستانہ دور کی عکاسی اس شعر میں کی گئی کہ کس طرح بعض ماں باپ لڑکی کی پیدائش پر مغموم ہوجاتے ہیں اور لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کی پیدائش کا مطلب خسارہ لیکن خود شاعرہ ایسا نہیں سوچتی انہیں دونوں عزیز ہیں ۔
ایک اور شعر میں دنیا کے مسافر خانہ ہونے کے فلسفہ کو بیان کیا ہے ۔ فرماتی ہیں
رکھنا ہے ہمیں دائمی دنیا سے تعلق
دل عارضی دنیا سے لگانا ہی نہیں ہے
دنیا سے دل نہ لگانا اس کو فنا ہونے والی شئے تصور کرنا اور آخرت پر یقیں رکھ کر نیک اعمال کرنا یہ اللہ کے نیک بندوں کا کام ہے اور جو آخرت کے بارے میں یقیں رکھتا ہے وہ کبھی بھی اپنے بڑے اعمال سے اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناراض کرنا نہیں چاہتا ۔ یہی بات شاعرہ اپنی دوسری غزل کے ایک شعر میں کہتی ہیں ۔ع
یہ دعا ہے کبھی خفا نہ ہوجائیں
میرا رب اور مرے نبیؐ مجھ سے
ایک طرف شاعرہ اپنے مجازی خدا کو ناراض کرنا نہیں چاہتی اور ہر حکم بجالانے کیلئے تیار دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف اپنے اللہ اور رسولؐ کے خفا ہونے سے بھی ڈرتی ہیں جو ایک نیک بیوی اور نیک بندی کے اوصاف ہیں ۔
ایک غزل میں اپنے شوہر کی غضبناکی اور بچوں جیسی سہمی ہوئی کیفیت کا اظہار بہت ہی خوبصورت پیرائے میں اس طرح بیان کرتی ہیں ۔ ع
غضب آندھی کا ٹھنڈا ہوچکا ہے
شجرات اب تک مگر سہمے کھڑے ہیں
یہاں ایک باپ کا اپنی اولاد کو کسی نازیبا حرکت پر برہم ہونا اور ڈانٹ ڈپٹ کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی اس شعر سے واضح ہے کہ اولاد جو ‘ اب بڑی ہو کر ایک شجر کی مانند ہوگئی ہے پھر بھی جبکہ باپ کا غصہ ٹھنڈا پڑچکا ہے ‘ سہمی ہوئی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولاد بھی فرما بردار ہے اور اپنے باپ کے خلاف اف بھی کرنا نہیں چاہتی ۔
ایک اور غزل میں ماں کی چاہت جو حقیقتاً انمول ہے کے بارے میں کہتی ہیں ۔ع
اب تو خیر اور بھی ہیں چاہنے والے لیکن
ماں کی الفت ہے مگر سب سے پرانی میری
اسی غزل میں اولاد کے بارے میں کچھ یوں اظہار خیال کرتی ہیں ۔
معنوی بھی ہے حقیقی بھی ہے میری اولاد
باقی رہ جائے گی دنیا میں نشانی میری
یہ حقیقت ہے کہ اولاد اگر نیک ہو تو ماں باپ مرکر بھی اولاد کے روپ میں زندہ رہتے ہیں انہیں دیکھ کر دنیا ماں باپ کو یاد کرتی ہے ۔
غزل کے ایک شعر میں ان لوگوں سے شکوہ کررہی ہیں جو شاعرہ کی کمزوریوں اور خطاؤں کو ڈھونڈرہ پیٹ رہے ہیں حالانکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس کی خطاؤں سے زیادہ اس کی مہربانیاں ہیں جو اس نے ان لوگوں پر کی ہیں ۔کہتی ہیں ۔
میری وفائیں بھول گئے ہیں
میری خطائیں چننے والے
یہ شعر خاندان کے کسی فرد کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان کا شوہر ہو ‘ اولاد ہو یا خاندان کے دوسرے افراد یا پھر دوست احباب بھی ہوسکتے ہیں ۔
کسی غزل کے مقطع میں اس حقیقت کا اظہار کرتی ہیں کہ وفا کا بدلہ اس دنیا میں ہمیشہ سے درد و غم کی صورت میں ملا ہے اور شاعرہ بھی وفا کرکے درد و غم میں مبتلا ہوگئی ۔
ملے ہیں درد و غم راحتؔ مجھے بھی
یہی انجام ہوتا ہے وفا کا
اپنے دل کی پاکی اور صفائی کا یقین دلاتے ہوئے ایک شعر میں یوں گویا ہوتی ہیں ۔
میں نے رکھا نہ کبھی بغض وکدورت دل میں
دل مرا صاف ہے شفاف ہے درپن کی طرح
ایک شعر میں ان لوگوں کو دیوانہ قرار دینے کی کوشش کررہی ہیں جو ‘ اب بھی شاعرہ کی راہ دیکھ رہے ہیں یعنی شاعرہ سے وہ محبت کرتے ہیں لیکن شاعرہ چونکہ اب ازدواجی بندھن میں بندھ چکی ہیں پھر بھی لوگوں کا اس کی راہ دیکھنا سوا کے دیوانے پن کے اور کچھ نہیں ہے ۔
غزل کے ایک شعر میں موجودہ دور کی ایک کڑوی حقیقت بیان کرتی ہیں جہاں ہر داڑھی رکھنے والے اور سر پر ٹوپی پہننے والے کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ۔ اپنے اس شعر کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت عکاسی کی ہے ۔
جوتھا باریش پہنے کرتہ ٹوپی
وہ دہشت گرد ٹھہرایا گیا ہے
روایتی انداز میں ہندوستان کی تعریف میں ایک شعر یوں بھی کہتی ہیں ۔
وفا کا پیار کا اک گلستاں کہتے ہیں
جہاں میں سب جسے ہندوستان کہتے ہیں
حالانکہ اس مجموعہ کی ایک غزل میں خود ہی کہتی ہیں کہ
جو تھا باریش پہنے کرتہ ٹوپی
وہ دہشت گرد ٹھہرایا گیا ہے
جس زمین پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو محض اس لئے دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے وہ پیار کا گلستاں کیسے کہلاسکتا ہے ؟ شاعرہ اپنی ہی بات کی نفی کررہی ہیں ۔
ایک اور شعر میں شاعرہ اس شخص کو ناپسندیدہ قرار دیتی ہیں جس کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ جیسے وہ کہتی ہیں ۔
نہ رکھیے دوستی اُس شخص سے کبھی راحتؔ
ہو جس کے قول سے ظاہر تضاد وابستہ
دنیا میں ہونے والی تباہی و بربادی اور خون خرابے پر شاعرہ کا دل دُکھتا ہے اسی لئے اپنے جذبات کا اظہار اپنے ایک شعر میں اس طرح کرتی ہیں ۔
دھماکہ ‘ خوں خرابہ اور تباہی
یہ دنیا کس ڈگر پر چل رہی ہے
ایک غزل میں نعتیہ شعر کچھ اس طرح شامل ہوگیا ہے ۔
اس دل کو نہ دل کہیئے مدینہ ہے مدینہ
جس دل میں نہیں یاد پیمبرؐ کے سوا کچھ
اے ایس سجاد بخاری ‘ وائس چیرمین ‘ تملناڈو گورنمنٹ اردو اکیڈیمی ‘ ’’چراغ آرزو‘‘ کے بارے میں اپنی قیمتی رائے ’’ منفرد نسوانی لہجے کی پرفکر شعری کائنات ‘ چراغ آرزو‘‘ کے عنوان سے کہتے ہیں ’’ کلام کی نمایاں خصوصیت ان کا نسوانی انداز تخاطب اور جذبات و احساسات کا برملا اظہار ہے ۔ اسلوب میں تازگی اور انداز بیان میں لطافت موجزن ہے ۔ اپنی تخلیقی انفرادیت کو برقرار رکھنے کی مہارت و صلاحیت قابل داد ہے ‘‘ ۔ ۱
نسوانی انداز تخاطب کی مثال یہ شعر ان کی اپنی خاموش مزاجی کو ظاہر کرتا ہے جس میں وہ اپنے مدِ مقابل کی صلاحیتوں ‘ کارناموں اور قابلیت کا اعتراف بھی کرتی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اس کے دیوانے تھے اور خود کی خاموش مزاجی سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو شعر میں کچھ اس طرح ڈھال دیتی ہیں ۔
اس کے ہنگاموں کے سب لوگ دوانے تھے بہت
میری خاموش مزاجی کے فسانے تھے بہت
آگے کہتی ہیں
ایک میں جی نہ سکی دے کے زمانے کو فریب
یوں تو شہر میں جینے کے بہانے تھے بہت
اس شعر میں اپنے مزاج کی سادہ لوحی کا برملا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں اور اس سادہ لوحی کی وجہ سے زندگی میں ہونے والے نقصانات اور پریشانیوں پر ملال بھی ہے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ بھی زمانے کو فریب دینے کا ہنر جانتی تو شاید اُس کے لئے جینا آسان ہوجاتا جس طرح دوسرے لوگ جینے کے بہانے ڈھونڈلیتے ہیں وہ ایسا نہ کرسکی ۔
جذبات و احساسات کی بہترین مثال راحت سلطانہ کے یہ دو شعر کچھ اس طرح ہیں ۔
وہ کبھی دل کی حسیں شاخ پہ بیٹھا ہی نہ تھا
میرے اندر کے پرندے کے ٹھکانے تھے بہت
اور یہ شعر ع
میں سیہ رات میں تھی خود ہی منور راحتؔ
میرے اندر بھی چراغوں کے خزانے تھے بہت
ایک اور شعر میں شاعرہ اپنے دکھ اور غم کا کچھ اس طرح برملا اظہار کرتی ہیں ۔
غم نہیں اس کے سوا راحتؔ کوئی
آج تک اس نے مجھے سمجھا نہیں
ایک بیوی کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا غم ہوسکتا ہے کہ اُس کا شریک حیات اسے سمجھ ہی نہ پائے کہ وہ کیا چاہتی ہے اس کے جذبات و احساسات کیا ہیں ؟ ایک شوہر کے لئے یہ جاننا ضروری ہے ورنہ زندگی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے انہی جذبات کا اظہار وہ اپنے اس شعر میں کررہی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا غم یہی ہے ۔
جہاں تک راحت سلطانہ کی غزلوں میں تغزل کا معاملہ ہے ۔ ایسے بہت سے اشعار ہمیں اُن کی غزلوں میں ملتے ہیں جو تغزل سے بھرپور ہیں جیسے اُن کے یہ اشعار ۔
پر ہیں بھیگے ہوئے اڑان میں ہوں
وقت کے سخت امتحان میں ہوں
پتھروں نے سکون چھین لیا
جب سے کانچ کے مکان میں ہوں
۔۔۔۔۔
تو آئینے کے مقابل تو آکے دیکھ ذرا
تری بساط ہے کیا آئنہ دکھادے گا
۔۔۔۔۔
نہ کچھ تم چھپاؤ نہ کچھ ہم چھپائیں
چلو آج دل کھول کر بات کرلیں
نسوانی انداز تخاطب کی مثال یہ شعر جس میں ایک عورت ایک بیوی کی مجبوری ‘ بے بسی ‘ ایثار قربانی ‘ اکیلا پن سب کچھ بیان کررہے ہیں ۔
تنہائی سے گھبرا کے
دیتی ہوں صدا جاناں
یہ کیسی جدائی ہے
اتنا تو بتا جاناں
یہ جان ترے صدقے
دل تجھ پہ فدا جاناں
کوئی بھی نہیں میرا
اب تیرے سوا جاناں
ڈاکٹر راحی فدائی ‘ سابق پروفیسر جامعہ باقیات الصالحات ‘ ویلور ’’ چراغ آرزو‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر راحت سلطانہ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ۔
’’ ڈاکٹر صاحبہ کے کلام کے مطالعہ سے جو پہلا تاثر ملتا ہے وہ اپنے گھر بار ‘ شوہر ‘ اولاد اور مشاہدات ‘ تصورات کے تعلق سے اپنے احساسات و جذبات کی شاعرانہ تاویل و تشریح پیش کرنا چاہتی ہیں اور پھر اس پیشکش کے ذریعہ عالم انسانیت کو درپیش موجودہ حالات وسائل کا تخلیقی اظہار بھی مقصود ہوتا ہے ‘‘ ۔ ۱
جیسے غزل کے ایک شعر میں عالم انسانیت کو درپیش موجودہ حالات کے بارے میں یوں کلام کرتی ہیں ۔
ترقی کیا ترقی ہے یہ عہد نو کے انساں کی
نظر آتی ہے صحرا کی طرح صورت گلستاں کی
اس شعر میں شاعرہ موجودہ دور کی ترقی سے بالکل بھی مطمئین نظر نہیں آتی کیونکہ ترقی کی مطلب خوشحالی ‘ بھائی چارگی ‘ سکون و اطمینان ‘ بے خوفی اور دادرسی سے نہ کہ بے سکونی ‘ نفرت ‘ و عداوت ‘ خوف و انصافی ‘ غذا کی کمی اور ایٹمی ہتھیاروں کی فراوانی ۔ شاہد آج کا انسان یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ آج کا ترقی یافتہ انسان اسی کو اپنی ترقی سمجھ بیٹھا ہے جبکہ شاعرہ کی نظر میں گلستاں کی صورت صحرا کی طرح نظر آرہی ہے اور ایسی ترقی سے شاعرہ کا دل دھڑکتا ہے اور آگے کہتی ہیں۔
کہاں ہے پرسکوں کوئی ‘ سبھی کو ایک دہشت ہے
کبھی باہر کے طوفاں کی ‘ کبھی اندر کے طوفاں کی
پھر اپنے اندر کے درد کا اظہار اس طرح کرتی ہیں ۔
نہ جانے کیوں میں اکثر سوچتی ہوں
اکیلی ہوں مرا کوئی نہیں ہے
گھریلو مسائل کی عکاسی اس طرح کرتی ہیں ۔
خون کے رشتوں کا راحتؔ پاس جب ہوتا نہیں
مسئلہ اٹھتا ہے گھر کے صحن میں دیوار کا
ایک اور جگہ یوں فرماتی ہیں ۔
آج بھی اجنبی ہے ہر اپنا
جب کہ برسوں سے خاندان میں ہوں
خاندان سے نکل کر موجود دور کی ایک کڑوی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ۔
دنیا میں تونگر کے طرفدار بہت ہیں
کمزور کا دنیا میں گزارا ہی نہیں ہے
موجودہ دور کے ناگفتہ حالات کا ذکر یوں کرتی ہیں ۔
جس طرف دیکھو تیرگی سی ہے
صبح صادق بھی شام کی سی ہے
کیوں سر شام سوگیءں سڑکیں
شہر میں جیسے سنسنی سی ہے
اے ایس سجاد بخاری ‘ ششماہی شمارہ ’’احساس‘‘ مالیگاؤں کے ڈسمبر 2012 ء کے شمارے میں راحت سلطانہ کے شعری مجموعہ ’’ چراغ آرزو‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر راحت سلطانہ نہ صرف شاعرہ ہے بلکہ ادبی نقد و نظر کی ملکہ بھی ہے ۔ مسلمہ تہذیبی اقدار کی علمبردار بھی ہے اور اپنے جذبات و احساسات کے شاعرانہ اظہار کی مقتدرانہ اہلکار بھی ‘‘ ۔
ایسی صلاحیتیں یا خوبیاں بہت کم خواتین کے حصے میں آئی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر راحت سلطانہ کو عطا کی ہیں ۔ ڈاکٹر راحت نہ صرف اپنے جذبات و احساسات کو شعری سانچے میں ڈھالنے کی قدرت رکھتی ہیں بلکہ ایک بالغ نظر نقاد و محقق بھی ہیں ۔ ایک شاعرہ کیلئے یہ بات اطمینان کا باعث ہوتی ہے کہ وہ خود نقاد ہے اور اپنی شعری صلاحیتوں کو بخوبی پرکھ سکتی ہیں ‘ ناقدانہ نظر ڈال کر اپنی شاعری کو خوب سے خوب تر بناسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ راحت سلطانہ کی ہر غزل بامعنی ہوتے ہوئے غزل کے آہنگ کے ساتھ گھریلو ‘ خاندانی ‘ سماجی ‘ ملکی ‘ قومی ‘ ملت کے مسائل ‘ احساسات ‘ جذبات ‘ انسانی زندگی میں پائے جانے والے ذہنی اور جسمانی خلفشار کی بہترین ترجمانی و عکاسی کرتی نظر آتی ہے ۔
اے ایس سجاد بخاری کہتے ہیں ’’ حمد و نعت کے پاک و شفاف شعری دھارے سے گذر کر ہم جب غزلوں کا پٹ کھولتے ہیں تو محترمہ کا نکھرا ہوا نسوانی شعری لہجہ ہمیں بے ساختہ اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ آس ویاس کا عجیب امتزاج ملتا ہے ‘ معصوم تمناؤں کے جھرنے بھی دکھائی دیتے ہیں ‘ غم دوراں کی پرآشوب پرچھائیں بھی نظر آتی ہیں اور غم جاناں کی سسکیاں بھی ۔ حسن کی اس وارفتگی ‘ بے قراری اور شکایتی لہجہ کا جواب نہیں‘‘ ۔ ۲
ڈاکٹر راحت سلطانہ کی غزل پڑھنے کے بعد اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ موصوفہ کو زندگی کی وہ خوشیاں نصیب نہیں ہوسکیں جس کی وہ حقدار و طلب گار تھیں ۔ انہیں نہ صرف اپنے محبوب سے جو شاید اُن کا شریک حیات بھی ہے بلکہ اپنے خاندان ‘ اپنے سماج ‘ اپنے ماحول سے ‘ انسانوں کے بنائے ہوئے کھوکھلے اصولوں اور ناقابل عمل قانون سے شکایتیں بھی ہیں شکوے بھی ۔
جیسے شکایتی درد بھرے لہجے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار اپنے محبوب سے اس طرح کرتی ہیں۔ع
کی ہے ایسی بھی کیا خطا جاناں
تم نے تڑپا کے رکھ دیا جاناں
محبوب کے لوٹ آنے کا بھرپور یقین ہے اسی لئے کہتی ہیں ۔
آؤ گے لوٹ کر تم اسی راہ سے
راستے جاگتے ہیں تمہارے لئے
وارفتگی کا یہ عالم بھی دیکھئے ۔
بس تمہارا ہی چہرہ نگاہوں میں ہے
آئینہ بن گئے ہیں تمہارے لئے
اپنی بے بسی و بدنصیبی کا اظہار یوں کرتی ہیں ۔
اشکِ غم پیتے ہوئے میں نے گزاریں راتیں
اس بلندی پہ ہے اب تشنہ دہانی میری
اسی طرح کا ایک اور شعر۔ ع
لاج رکھی ہے دعاؤں کی مرے مالک نے
اس نے جب دیکھی ہے اشکوں کی روانی میری
اپنوں سے شکایت کا یہ اندازہ بھی نرالا ہے ۔
میری وفائیں بھول گئے ہیں
میری خطائیں چننے والے
موجودہ دور کے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتی ہیں ۔
وفا کے روپ میں ہے بے وفائی
ہوا کیسی یہ گھر گھر چل رہی ہے
دھماکہ ‘ خوں خرابہ اور تباہی
یہ دنیا کس ڈگر پر چل رہی ہے
غرض چراغ آرزو ‘ میں موجود ڈاکٹر راحت سلطانہ کی تمام غزلیں جن میں بعض نہایت ہی چھوٹی بحروں پر مشتمل ہیں نسوانی شعری لہجے کی وجہ سے زیادہ دل پذیری لئے ہوئے ہیں ۔ غم جاناں ‘ غم دوراں کا حسین امتزاج بھی ان غزلوں میں پایا جاتا ہے ۔ کہیں ناامیدی و مایوسی کا اظہار ملتا ہے تو کہیں الوالعزمی کا جذبہ ‘ کہیں شکوہ و شکایت کا انداز بڑے ہی کرب انگیز اظہار کے ساتھ ملتا ہے تو کہیں شکر گذاری سے بھرپور لہجہ پایا جاتا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر راحت سلطانہ کی غزلیں قوس و قزح کے رنگ لئے ہوئے ہیں کہیں کوئی رنگ مدھم ہے تو کہیں کوئی رنگ نمایاں ۔ کوئی رنگ اپنی دلکشی دکھارہا ہے تو کوئی رنگ غم و الم کا پیکر بنا ہوا ہے ۔ اس شعری مجموعہ میں شامل غزلیں پڑھنے اور ان کا تنقیدی جائزہ لینے پر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی شاعرہ کا پہلا شعری مجموعہ ہے ۔ کیونکہ کلام میں پختگی ‘ تغزل ‘ آہنگ اور شعریت کے علاوہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی عکاسی بھی ملتی ہے ۔ یقینی طور پر ڈاکٹر راحت سلطانہ کا یہ شعری مجموعہ اردو ادب کے سرمائے میں ایک اضافہ اور خود شاعرہ کے تخلیقی کارناموں میں ایک شاندار اضافہ ہے ۔