ملک خشنودؔ کے غیر مطبوعہ مرثیے
پروفیسر ابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو
عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج حیدرآباد
ملک خشنودؔ کا تعلق ابتدأ میں بہ عہد محمد قطب شاہ گولکنڈے سے رہا ، بعد کو وہ ملکہ خدیجہ سلطان کے ہمراہ بیجاپور چلا گیا اور سفارت کے عہدۂ جلیلہ بھی فائز رہا ۔ وہ ایک پایہ کا شاعر تھا۔ اس کی ایک مثنوی ’’ یوسف زلیخا‘‘ ناپید ہے، دوسری مثنوی ’’ جنت سنگار‘‘ ہے جو حضرت امیرخسروؔ کی ’’ہشت بہشت‘‘ کا ایک طرح سے آزاد ترجمہ ہے۔
خشنودؔ اس عہد کا شاعر ہے جب کہ دکنی شاعری کا اپنا ایک مزاج بن چکا تھا اور اس پر فارسی زبان کا گہرا رنگ چڑھ چکا تھا۔ خشنودؔ نے دکنی شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کیا ہے اور شاعری میں فن کارانہ مہارت کا ذریعہ اس کے معیار کو اونچا کیا ہے۔ ہمیں خشنودؔ کے تین مرثیئے دستیاب ہوتے ہیں، جو زبان و بیان کے اعتبار سے بلند مرتبے کی چیز ہیں اور ان میں دکنی مرثیہ کا ایک ترقی یافتہ معیار ہمارے سامنے آتا ہے۔
مرثیہ
ماتم محرم کا انہر ، پھر جگ منے آیا عجب
دھرتی گگن ، پاتال میں ، پھر آگ سلگایا عجب
توٹیا قلم ، ترخی زباں ، کیوں کر لکھوں ، غم کے بیاں
خم ہوا رہے سات آسماں ، غم کا بدل ، چھایا عجب
غم کی اگن سوں جگ یوجل ، ساتو طبق سب کھلبلے
تب جا خوشی دکھ سوں ملے ، عالم سو ، غم کھایا عجب
مارے ہیں شہ تج کربلا ، سو سے ہیں دکھ ، لک کربلا
مرتا ہے عالم تلملا ، گھر گھر سو ، دکھ دھایا عجب
فردوس کے پھل بن منے ، توٹیا ہے نرگس یا سمن
پہریا ہے لالہ پیرہن ، لھو میں چمن نھایا عجب
قصا حسین کا سن علی ، روتے ہیں پیغمبر نبی
زاری کریں آدم صفی ، کیوں غم پہ غم آیا عجب
جل جا سُرج کالا ہوا ، تن جھیج کر جلا ہوا
گل گل چندر بالا ہوا ، مکھ پر کلنگ لایا عجب
منج بِن حسینا کاں رھیا ، دکھ درد کیوں کیوں کر سھیا
دھنڈوں تجے توں کاں گیا ، نئیں درس دکھلایا عجب
تج بن فقیری بھیس ہے ، زاری سو منج ہر دیس ہے
سر پر سدا پر میس ہے ، ماتم جو فرمایا عجب
ظالم ، ظلم یوں کیا کیا ، لعنت ، ستم سر پر لیا
اپسیں جہنم میں دیا ، کیا شور پنجایا عجب
روتے ، ملک ، جن ھور پری ، شہ پہ بلا کیوں کر گھڑی
تکڑے ہوئی سب دھر تری ، ہے سُور کا مایا عجب
سارے محب زاری کرو ، سمدور نینا سو بھرو
باطن سنا سی ہو پھرو ، ماتم خبر لیا یا عجب
شہ کا بندا خشنودؔ ہے ، دیکھت چرن مقصود ہے
شاہد مرا معبود ہے ، جن جگ میں پنچایا عجب
مرثیہ
سورج ، چندر ، ستارے ، روتے ملک گگن میں
ماتم کی آگ جم کر ، بھڑکے اٹھے ہیں تن میں
ماتم حسین کا سن ، یو بے خبر ہوا ہے
تیراں لگے ہیں غم کے ، سینا جھجر ہوا ہے
ماریا ہے غم کے تیشے سوہن کیا ھڈاں کوں
آٹیا ہے لھورگاں کا ، دل بے خبر ہوا ہے
سمدور دونین ہیں ، پردے سوتن کے بالاں
آدم کے آج تن میں ، جیؤں بحر و بر ہوا ہے
کالے گگن کی کفنی ، سورج گلے میں گھالیا
کھولیا کرن کے بالاں ، دُکھیا بشر ہوا ہے
پکڑیا ہے کہکشاں کے دوھات ، آج سنگی
تاریاں کی مُدری بھاکر ، جوگی چندر ہوا ہے
شہ کا جو غم کا پیالا ، ماتم بلا کیا ہے
سب نین میں نبیاں کے ، دکھ کا اثر ہوا ہے
پھوٹیا دھرت کا سینا ، بِچ سوں ندی بہی ہے
غم سوں تٹیا ہے گھن سب ، تکڑے قمر ہوا ہے
یوں غم نہ سوس سک کر ، مچھلی کے پیٹ بھیتر
یونس نبی چُھپے ہیں ، لھو سب جگر ہوا ہے
مارے ہیں کربلا میں ، فرزند مصطفی کا
اس غم سوں آج جگ میں ، سب شور شر ہوا ہے
شہ کے برہ کے دکھ سوں ، عیسیٰ گئے گگن پر
آدم حَوا کے تن پر ،غم کا گذر ہوا ہے
پھوڑے ہیں نوح کشتی ، اوزار سب جلاکر
جاتے ہیں کر بلا کوں ، غم کا سفر ہوا ہے
ایوب یو خبر سن ، گالیا ھیا چندر تیوں
جیؤں سور کا ہے گھیرا ، غم سوں مگر ہوا ہے
کہہ طور کوں چلے ہیں ، ماتم کی اگ میں موسیٰ
جیؤں سور کا دھنور لگ ، کالا انبر ہوا ہے
بائیں میں جاپڑے ہیں ، ماتم کے غم سوں یوسف
یعقوب کا کلیجا ، سب تل اُپر ہوا ہے
دل کے لہو سمد میں ، ڈبتے ہیں رور و حیدر
تن کے جہاز میں جم ، یو غم لنگر ہوا ہے
نیناں میں فاطمہ کے ، نرمل یو روز روشن
کالا ہے جیؤں سیاہی ، نادر سحر ہوا ہے
ظالم فلک ترنگ کوں ، شہ پر جو کیوں چلایا
لِبر یا مگر خدا کوں ، اکثر نڈر ہوا ہے
دل ، جیؤں تھا روئی کا گالا ، اس میں اگن سٹیا او
ماتم کے درد سوں جم ، گھٹ جیؤں پھتر ہوا ہے
امرت کے نیر اوپر ، ماٹی خضر سٹیا ہے
کڑوا نپٹ زہر تیؤں ، میٹھا شکر ہوا ہے
شطرنج تھا بلا کا ، اس کے بساط میانے
شہ کوں دغا دیئے کر ، چوندھر کھڑ ہوا ہے
سارے ملایکاں مل ، توڑے خوشی کے شہراں
جلتے ہیں جیؤں سمندر ، دوزخ سو گھر ہوا ہے
مکھ لونچ لے لگن میں ، گالیاں ھیا چندر نے
اس غم سوں آج کالا ، مشک و اگر ہوا ہے
تھولے حُسین شہ کا ، حوراں ملک گگن میں
شیشے میں بھر جگر کے ، زیر و زبر ہوا ہے
کلثوم ، دکھ سوں روتے ، فرزند شہ کے جاتے
سب دوستاں عزیزاں ، دکھیا نگر ہوا ہے
روتا ہے عرش و کرسی ، لے سور ، چاند ، تارے
روتے فلک ستارے ، شہ پر غدر ہوا ہے
عالم دکھی ہوا ہے ، کپڑے کیا ہے کالے
سٹتے ہیں خاک سر پر ، گھر گھر حشر ہوا ہے
خشنودؔ مرثیا تو بولیا امام کا کر
بندے اُپر علی کا ، جم نظر ہوا ہے
مرثیہ (۳)
نوٹ : اس مرثیہ کے دو مخطوطے دستیاب ہوتے ہیں جن میں ایک کتب خانۂ اِدارۂ ادبیات اُردو میں موجود ہے اور دوسرا کتب خانہ سالارجنگ میں ، ادارۂ ادبیات کے مخطوط میں مرثیہ کے اشعار کی تعداد (۱۳) ہے اور کتب خانۂ سالار جنگ میں اس مرثیہ کے صرف گیارہ شعر ملتے ہیں لیکن اس نسخہ میں تین شعر ایسے ہیں جو اِدارے کے نسخہ میں نہیں ہیں، ہم نے ان تینوں اشعار کو بھی شامل کرلیا ہے اور اس طرح اس مرثیہ کے اشعار کی تعداد (۱۶) ہوجاتی ہے جو مندرجہ ذیل ہے ۔۔۔
ھائے فلک کیا کیا ہے ، ھائے فلک کیا کیا
فاطمہ کو غم دیا ، ھائے فلک کیا کیا
شاہاں کوں ماریا ہے توں ، دَند پساریا ہے توں
حق کوں بسا ریا ہے توں ، ھائے فلک کیا کیا
نیند نین کوں حرام پیتے ہیں زہر کے جام
ڈوبیا ہے لھو میں تمام ، ھائے فلک کیا کیا
جالیا علی کاھِیا ، گال کوں پانی کیا
ہر گھڑی ماتم دیا ، ھائے فلک کیا کیا
سور گگن میں جلے ، چاند سو نس دن گلے
عرش دھرت کھلبلے ، ھائے فل کیا کیا
جن و بشر ھور پری ، زاری کریں ہر گھڑی
شہ پہ بلا کیوں کھڑی ، ھائے فلک کیا کیا
جبرئیل بولے خبر، شہ پہ ھویگا غدر
جور و جفا شہ اُپر ، ھائے فلک کیا کیا
عرش کا عالم ھلاک ، سیس پہ ڈالیا ہے خاک
خلق ہوا دردناک ، ھائے فلک کیا کیا
کربلا میں آج امام ، غرق ہیں لھو میں تمام
سکھ ہوا سب کوی حرام ، ھائے فلک کیا کیا
شاہ کے فرزند ہیں ، جیؤ کے دلبند ہیں
حضرت کے گلبند ہیں ، ھائے فلک کیا کیا
دار دوسرے توں سبحان ، شاہِ حسین نوجوان
مارے ہیں سب بے ایمان ، ھائے فلک کیا کیا
نیند بھی آتا نہیں ، کھانا بی بھاتا نہیں
جیؤ تو بی جاتا نہیں ، ھائے فلک کیا کیا
فاطمہ ہے بے قرار ، شاد کو فی کفار
دل میں دھریا ہے انگار ، ھائے فلک کیا کیا
کالا ہوا نت جھلم ، چرغ پہ جالا ہوا
کفنی سوں آلا ہوا ، ھائے فلک کیا کیا
سر پہ جو معبود ہے ، سب وہی مقصود ہے
دندے سو مردود ہیں ، ھائے فلک کیا کیا
یا امام یا امام لک لک ہیں تج پر سلام
خشنودؔ ہے تیرا غلام ، ھائے فلک کیا کیا